ہمارے معاشرے میں تعلیم و تربیت کی کمی کی وجہ سے بہت سے معاملات میں غلط فہمیاں اور اُلجھنیں پیدا ہو چکی ہیں، جن میں سے ایک اہم بات ’’اسلام کا تصورِ تفریح‘‘ بھی ہے، لوگوں کے ذہنوں میں آج کل جو اسلام کا عمومی تصور پایا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام صرف عبادات کا دین ہے اور یہ فرد کا انفرادی معاملہ ہے۔
بلاشبہ! تفریح، انسانی شخصیت کے بنا نے اور بگاڑنے کا بہت اہم ذریعہ ہے اور صحیح و بامقصد تفریح بغیر کسی عمر کی قید کے انسان کی بہتر نشو و نما کی ضامن ہے۔ اسلام بامقصد تفریح کی اجازت دیتا ہے اور وقت کے ضیاع اور اخلاقیات کی بر بادی کرنے والی تفریحات کی سخت ممانعت کرتا ہے۔ اسلام میں اخلاقی اور شرعی حدود کو توڑنے والا جو بھی طریقۂ تفریح ہے وہ ناپسندیدہ ہے۔
آئیے! احادیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ ہم بہ حیثیت مسلمان زندگی کو کس طرح پروقار، مفید اور خوب صورت بنا سکتے ہیں۔
پروقار مزاح:
رسول اﷲ ﷺ کی نجی زندگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپؐ اپنے متعلقین اور اصحابؓ کے ساتھ لطف و کرم، محبت و مؤدت اور نرمی کا برتاؤ کرتے تھے۔ آپؐ کے مزاج میں درشتی اور سختی نام کو نہ تھی۔ قرآن نے آپ ﷺ کے اس وصف کو اﷲ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ کی خوش طبعی اور خندہ روئی کا یہ معاملہ بچوں کے ساتھ بھی تھا۔
آپ ﷺ ان کے ساتھ بہت محبت سے پیش آتے، ان سے پیار بھری باتیں کرتے اور کبھی لطیف مزاح بھی فرماتے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابُوطلحہؓ کا ایک بچہ تھا، جس کا نام ابُوعمیرؓ تھا، رسول کریم ﷺ جب بھی ابُوطلحہؓ کے گھر تشریف لے جاتے، اس بچے سے ہنسی مذاق فرماتے تھے۔ (مسند احمد)
آپ ﷺ ملنے والوں سے خندہ پیشانی سے پیش آتے، ان سے مسکرا کر بات چیت کرتے، ان کی ظریفانہ مجالس میں شریک ہوتے، بسا اوقات ان سے لطیف مزاح بھی فرماتے۔ آپ ﷺ کا یہ برتاؤ تمام طبقات کے ساتھ تھا۔ اندرون خانہ ازواج مطہراتؓ ہوں یا بچے، آپ ﷺ کے قریبی اصحابؓ ہوں یا اجنبی، سب آپ ﷺ کے بحر الطاف و عنایات سے فیض یاب ہوتے تھے۔ سیرت نبوی ﷺ کا یہ ایک ایسا باب ہے جس سے آپ کی نجی زندگی کے ایک اہم پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔ رسول کریم ﷺ کے قریبی اصحابؓ کا بیان ہے کہ آپ ﷺ کے چہرۂ مبارک پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔ حضرت عبداﷲ بن حارثؓ فرماتے ہیں: ’’میں نے رسول اﷲ ﷺ سے زیادہ کسی شخص کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘‘ (شمائل ترمذی)
ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: میں نے کبھی رسول اﷲ ﷺ کو ٹھٹھا مارکر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ صرف تبسم فرماتے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری)
ایک مرتبہ بعض لوگوں نے آپ ﷺ کو کھانے کی دعوت دی آپ ﷺ ان کے یہاں جارہے تھے۔ راستے میں آپ ﷺ کے نواسے حضرت حسنؓ یا حضرت حسینؓ ملے۔ آپ ﷺ نے انھیں پکڑنا چاہا تو وہ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ آپ ﷺ ہنستے ہوئے انھیں پکڑنے کی کوشش کرنے لگے، یہاں تک کہ پکڑلیا۔ پھر اپنا ایک ہاتھ ان کی گدی پر اور دوسرا ان کی ٹھوڑی پر رکھا اور اپنا منہ ان کے منہ پر رکھ کر بوسہ لے لیا۔
اﷲ کے رسول ﷺ اپنے اصحابؓ سے بھی لطیف مزاح فرمایا کرتے تھے۔ ایک بدوی صحابیؓ تھے جن کا نام زاھرؓ تھا۔ وہ دیہات کی چیزیں آپ ﷺ کی خدمت میں ہدیہ بھیجا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ دیہات کی کچھ چیزیں لاکر بازار میں فروخت کر رہے تھے۔ اتفاقاً آپ ﷺ کا ادھر سے گزر ہوا۔ آپؐ نے پیچھے سے جاکر انھیں دبوچ لیا۔ انھوں نے کہا: کون ہے، چھوڑ دو مجھے۔ مڑ کر دیکھا تو اﷲ کے رسول ﷺ تھے تو انھوں نے اپنی پیٹھ اور بھی آپ ﷺ سے چپکا دی۔ آپ ﷺ نے آواز لگائی: کون اس غلام کو خریدتا ہے؟ بولے: اے اﷲ کے رسولؐ! مجھ جیسے غلام کو جو خریدے گا وہ نقصان میں رہے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لیکن تم اﷲ کے نزدیک بہت قیمتی ہو۔ (ترمذی)
ایک شخص نے خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: مجھے کوئی سواری عطا کیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے، میں تمھیں اونٹنی کا بچہ دے دوں گا۔ اس نے کہا: میں اونٹنی کا بچہ لے کر کیا کروں گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا کوئی ایسا اونٹ بھی ہوتا ہے جو اونٹنی کا بچہ نہ ہو؟ (ترمذی)
آپ ﷺ کے پاس ایک مرتبہ ایک بزرگ خاتون حاضر ہوئیں اور عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! میرے لیے دعا فرمائیں کہ اﷲ تعالیٰ مجھے جنّت نصیب فرمائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بوڑھی عورتیں جنّت میں نہیں جائیں گی۔ وہ روتی پیٹتی واپس ہونے لگیں تو آپ ﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا: ان کو بتادو کہ عورتیں بڑھاپے کی حالت میں جنت میں نہیں جائیں گی، بل کہ جوان ہوکر جائیں گی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا ارشاد فرماتی ہیں، مفہوم: رسول اﷲ ﷺ میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہوکر اپنی چادر سے میرے لیے پردہ کرلیتے تھے، حبشی لوگ اپنے ہتھیاروں سے کھیلتے تھے، میں اس کو دیکھتی اور جب تک سیر ہوکر ہٹ نہ جاتی رسول اﷲ ﷺ میرے لیے کھڑے رہتے تھے۔ (مسلم)
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی ﷺ کے ساتھ سفر میں تھی، اس وقت تک میں ہلکی پھلکی تھی، فربہ بدن نہیں ہوئی تھی۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو آگے بڑھ جانے کی ہدایت کی، پھر مجھ سے فرمایا: ’’آؤ دوڑ کا مقابلہ کرتے ہیں‘‘۔ میں آپ ﷺ کے ساتھ دوڑی اور آگے نکل گئی۔ آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔ کچھ عرصہ کے بعد ایک مرتبہ پھر مجھے آپ کے ساتھ سفر میں جانے کا موقع ملا، اس وقت میں فربہ بدن ہوگئی تھی۔ آپ ﷺ نے اس موقع پر بھی اپنے اصحابؓ کو آگے بڑھ جانے کا حکم دیا، پھر مجھ سے فرمایا: ’’آؤ دوڑ کا مقابلہ کرتے ہیں۔‘‘ میں آپ ﷺ کے ساتھ دوڑی تو آپؐ مجھ سے آگے نکل گئے۔ آپؐ ہنسنے لگے اور فرمایا: ’’یہ اُس دن کا بدلہ ہے۔‘‘
ایک مرتبہ رسول اﷲ ﷺ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے ساتھ بڑے حوض میں داخل ہوئے اور فرمایا کہ ہر شخص اپنے ساتھی کے پاس تیر کر جائے، جس کے بعد سب ایک دوسرے کی جانب تیر کے پہنچے، آخر میں رسول اﷲ ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ بچ گئے، تو رسول اﷲ ﷺ حضرت ابوبکرؓ کی جانب تیر کر تشریف لے گئے۔
زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں، اپنے گھر والوں، دوست احباب کے ساتھ خوش رہیں، بس حدود اﷲ پامال نہ ہوں، چند باتوں کا خیال رکھیں۔ حقوق اﷲ و حقوق العباد سے متصادم نہ ہو۔ اسلام کہتا ہے کہ کھیل سے حقوق اﷲ اور حقوق العباد کی ادائی میں حرج واقع نہ ہو، بل کہ حقوق و فرائض میں معاون ثابت ہو، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے: ’’ہر وہ چیز جس سے ابن آدم غفلت میں پڑے وہ باطل ہے۔‘‘ (ترمذی)
حدودِ اوقات کی پابندی: تفریح بے وقت اور بے قاعدہ نہیں ہونی چاہیے، نبی کریم ﷺ کا معمول تھا: ’’آپ ﷺ عشاء سے پہلے نیند کو ناپسند کرتے تھے اور عشاء کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند کرتے۔‘‘ (البخاری)
رات کو اﷲ پاک نے آرام کے لیے بنایا ہے اور دن کو باقی سرگرمیوں کے لیے اور آج ہم فطرت کے اصولوں کے خلاف چلنے میں زندگی کی ترقی اور خوشی ڈھونڈ رہے ہیں۔ تفریح کرنی چاہیے، لازمی اور ہر روز کرنی چاہیے، اگر صحت مند تفریح نہیں ہوگی تو آپ اپنے حقوق و فرائض بہ حسن و خوبی انجام نہیں دے سکتے، مگر اخلاقی، گھریلو، سماجی اور مذہبی خدمات کے اوقات کو کھیل کود میں لگا نا عقل مندی نہیں۔ ازراہ مزاح استہزاء کرنا، کسی کے بارے میں محض لذتِ زبان کے لیے جھوٹ بھولنا، طنز کا نشانہ بنانا، شخصیت کے عیب نکالنا، جسمانی ساخت کا مذاق اڑانا، ایسی تمام باتیں ناپسندیدہ ہیں، معاشرتی و اخلاقی بگاڑ کا ذریعہ ہیں، ان سے اجتناب کریں۔
ہنسیں، کھیلیں اور مسکرائیں لیکن حد سے تجاوز نہ کریں
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا پ ﷺ نے فرمایا اﷲ کے رسول رسول اﷲ ﷺ ایک مرتبہ کرتے تھے ا پ ﷺ کے کے ساتھ ہے اور
پڑھیں:
بھارت کی زرعی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش اعلان جنگ تصور ہوگی، پاکستان
نیویارک میں پاکستانی سفیر نے امریکی تھنک ٹینک نمائندگان کو پاک بھارت کشیدہ صورتحال پر بریفنگ دی اور پہلگام واقعے کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کے مطالبے کا اعادہ کیا۔پاکستانی سفیر نے کہا ہے کہ بھارت نے پہلگام واقعے سے متعلق کوئی ثبوت پاکستان یا دنیا کے سامنے نہیں رکھا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستانی سفیر برائے امریکا رضوان سعید شیخ نے کہا ہے کہ بھارت کی 24 کروڑ افراد پر مشتمل زرعی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش اعلان جنگ تصور کی جائے گی۔ پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ نے امریکی تھنک ٹینک نمائندگان کو پاک بھارت کشیدہ صورتحال پر بریفنگ دی اور پہلگام واقعے کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کے مطالبے کا اعادہ کیا۔ پاکستانی سفیر نے کہا ہے کہ بھارت نے پہلگام واقعے سے متعلق کوئی ثبوت پاکستان یا دنیا کے سامنے نہیں رکھا، بھارت کے جنگی جنون نے علاقائی امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ رضوان سعید شیخ نے کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے، ہم عزت و وقار کے ساتھ امن پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھارت کا طرزِ عمل لاقانونیت پر مبنی ہے، بھارت کے اقدامات میں آج سے نہیں بلکہ ہمیشہ سے لاقانونیت کا عنصر نمایاں ہے۔