حماس اور امریکا کے درمیان غزہ میں جنگ بندی اور امداد پر حتمی مذاکرات
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
ایک سینیئر فلسطینی عہدیدار کے مطابق، حماس اور امریکی حکام کے درمیان غزہ میں جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی کے لیے براہِ راست حتمی مذاکرات جاری ہیں۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو ذرائع نے بتایا کہ ان مذاکرات کا مقصد 23 لاکھ آبادی والے محصور علاقے میں فوری انسانی امداد پہنچانا اور لڑائی روکنے کے لیے کسی سمجھوتے تک پہنچنا ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ بیان میں فلسطینیوں تک خوراک کی فراہمی میں مدد کا وعدہ دہرایا، جبکہ امریکی ایلچی نے بھی عندیہ دیا ہے کہ امداد کی فراہمی کے لیے امریکی حمایت یافتہ نظام جلد فعال ہو جائے گا۔
مزید پڑھیں: ’جامع ڈیل چاہتے ہیں‘، حماس نے جنگ بندی کی اسرائیلی پیشکش مسترد کردی
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے تصدیق کی کہ قطر اور مصر کی جانب سے ثالثی کی کوششیں جاری ہیں، تاہم براہِ راست مذاکرات کی تفصیلات پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
ترجمان نے کہا کہ حماس جنگ اور اس کے دوبارہ شروع ہونے کی واحد ذمہ دار ہے۔ صدر ٹرمپ واضح کر چکے ہیں کہ اگر حماس نے امریکی یرغمالیوں کو رہا نہ کیا تو سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے 2 مارچ سے غزہ کے تمام تر زمینی اور امدادی راستے بند کر رکھے ہیں، اور جنگ بندی کے دوران محفوظ کیا گیا خوراک کا ذخیرہ بھی ختم ہو چکا ہے۔
حماس نے عندیہ دیا ہے کہ اگر اسرائیل مکمل طور پر غزہ سے انخلا کرے تو وہ تمام یرغمالیوں کی رہائی اور مستقل جنگ بندی پر رضامند ہو سکتی ہے۔ تاہم اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ جنگ تب تک جاری رہے گی جب تک حماس کو مکمل طور پر ختم نہ کر دیا جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل امریکا ٹرمپ حماس خبر رساں ایجنسی رائٹرز فلسطین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا خبر رساں ایجنسی رائٹرز فلسطین کے لیے
پڑھیں:
امن مسلط کرنے کا منصوبہ
اسلام ٹائمز: اسرائیل کو اس فورس کی موجودگی کے ذریعے تنازعے کے بین الاقوامی ہونے اور اسکے فیصلہ سازی اور کنٹرول کے دائرے کے محدود ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ طے نہیں ہوا ہے کہ کون سے ممالک اس فورس میں حصہ لیں گے، جبکہ عرب ممالک نے اس فورس میں اپنی شرکت کو غزہ میں فورس کے مینڈیٹ کی نوعیت سے جوڑا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جو ممالک شرکت کرینگے، وہ حماس کے ساتھ تصادم کے اصول کی مخالفت کریں گے اور چاہیں گے کہ یہ مشن امن قائم کرنے کے لیے ہونا چاہیئے، نہ کہ "امن مسلط کرنے کے لیے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے چند گھنٹے بعد کہ غزہ میں بہت جلد بین الاقوامی افواج کی تعیناتی کی جائے گی، اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں حماس کی تمام سرنگوں کو "آخری سرنگ تک" تباہ اور ان کا صفایا کر دیں۔ کاٹز نے اپنے X پلیٹ فارم اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ میں کہا: "اگر سرنگیں نہیں ہیں تو حماس نہیں ہوگی۔“ اسرائیل حماس کو غیر مسلح کرکے اور اس کے سرنگوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرکے اسے شکست دینا چاہتا ہے۔ یعنی اسرائیل وہ کام کرنا چاہتا ہے، جو وہ دو سال کی تباہ کن جنگ کے دوران کرنے میں ناکام رہا ہے۔ کاٹز کا یہ بیان غزہ کی پٹی میں ایک "بین الاقوامی انفورسمنٹ فورس" کے قیام کی امریکی تجویز اور ٹرمپ کے اس اعلان کی روشنی میں آیا ہے کہ "یہ کام بہت جلد ہو جائے گا۔"
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اسرائیلی فوج نے معاہدے کے دوسرے مرحلے کے آغاز سے قبل، زیادہ سے زیادہ کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے غزہ کی پٹی میں اپنا کام تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیل دوسرے مرحلے میں جانے سے پہلے غزہ میں باقی تمام لاشوں کی بازیابی پر اصرار کرتا ہے اور 2027ء کے آخر تک غزہ میں کم از کم دو سال کے لیے بین الاقوامی افواج کی تعیناتی بھی چاہتا ہے۔ بین الاقوامی فورس کے اس امریکی منصوبے کے تحت اس فورس کے دائرہء مسئولیت میں اسرائیل اور مصر کے ساتھ غزہ کی سرحدوں کو محفوظ بنانا، شہریوں اور انسانی راہداریوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ایک نئی فلسطینی پولیس فورس کے ساتھ تربیت اور شراکت داری اور غزہ کی پٹی کو غیر مسلح کرکے سلامتی کے ماحول کو مستحکم کرنا، بشمول فوجی انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کو روکنا اور مستقل طور پر مسلح گروپوں کو تباہ کرنا شامل ہے۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر حماس رضاکارانہ طور پر خود کو غیر مسلح نہیں کرتی تو یہ کام بین الاقوامی فورس کرے گی، لیکن اسرائیل کو یقین نہیں ہے کہ یہ کام بین الاقوامی طاقت کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ کاٹز کے بیان سے پہلے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ حماس کو غیر مسلح کرنے کا ہدف "یا تو بین الاقوامی طاقت کے ذریعے آسان طریقے سے حاصل کیا جائے گا، یا پھر اسرائیل کے ذریعے مشکل راستے سے۔" دوسری جانب اسرائیلی سکیورٹی کابینہ کی جمعرات کی شام ہونے والی میٹنگ سے "یڈیوٹ احرونوت" اخبار کی طرف سے شائع ہونے والے اقتباسات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نیتن یاہو غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کے لیے "یلو زون" میں ایک ماڈل سٹی بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جس کا مقصد انہیں حماس کے جنگجوؤں سے الگ کرنا ہے۔
دریں اثناء، اسرائیلی چیف آف اسٹاف ایال ضمیر نے رفح سرنگوں میں پھنسے حماس کے جنگجوؤں کے حوالے سے کسی بھی "ڈیل" کو مسترد کر دیا ہے اور تمام مقتول قیدیوں کی لاشوں کی واپسی سے پہلے حماس کے ساتھ معاہدے کے اگلے مرحلے پر آگے نہ بڑھنے اور حماس کے مکمل طور پر غیر مسلح ہونے سے پہلے پٹی کی تعمیر نو کی اجازت نہ دینے کی سفارش کی ہے۔ ضمیر نے کابینہ کے اجلاس میں حماس کے جنگجوؤں کے حوالے سے کہا: "یا تو وہ ہتھیار ڈال دیں یا ہم انہیں ختم کر دیں گے۔ بحث کے دوران وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور وزراء کے درمیان اس وقت تنازعہ پیدا ہوا، جب انہوں نے غزہ کی پٹی کے اسرائیلی زیر کنٹرول علاقے میں ایک "ماڈل سٹی" قائم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا، جس کا مقصد حماس کو آبادی سے الگ کرنا تھا۔
نیتن یاہو کے اس منصوبے کی اس کی کئی وزراء نے مخالفت کی۔ سائنس کے وزیر گیلا گیملیل نے کہا، "یہ خطرناک ہے۔" وزراء نے مطالبہ کیا کہ اس شہر کو سرحد کے اس طرف اسرائیل کے زیر کنٹرول نہ بنایا جائے۔ نیتن یاہو نے سیشن میں یہ بھی انکشاف کیا کہ منصوبہ بند بین الاقوامی اسٹیبلائزیشن فورس پہلے المواسی کے علاقے میں داخل ہوگی، جو اسرائیلی کنٹرول میں نہیں ہے۔ اسرائیل اب تک عالمی طاقت کے ساتھ محتاط انداز میں نمٹ رہا ہے، نہ اس کا خیرمقدم کر رہا ہے اور نہ ہی اسے مسترد کر رہا ہے۔ اگرچہ مجوزہ فورس کی تشکیل کی تفصیلات اس کے مطالبات کی طرف جھکاؤ رکھتی ہیں، لیکن اس پر تحفظات بھی ہیں۔
اسرائیل نہیں چاہتا کہ یہ فورس سلامتی کونسل کے ذریعے تشکیل دی جائے، وہ فلسطینی اتھارٹی کی موجودگی اور ترک افواج کی ممکنہ موجودگی کو بھی مسترد کرتا ہے، تاہم فلسطینی پولیس فورس کی موجودگی سے اتفاق کرتا ہے۔ اسرائیل کو اس فورس کی موجودگی کے ذریعے تنازعے کے بین الاقوامی ہونے اور اس کے فیصلہ سازی اور کنٹرول کے دائرے کے محدود ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ طے نہیں ہوا ہے کہ کون سے ممالک اس فورس میں حصہ لیں گے، جبکہ عرب ممالک نے اس فورس میں اپنی شرکت کو غزہ میں فورس کے مینڈیٹ کی نوعیت سے جوڑا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جو ممالک شرکت کریں گے، وہ حماس کے ساتھ تصادم کے اصول کی مخالفت کریں گے اور چاہیں گے کہ یہ مشن امن قائم کرنے کے لیے ہونا چاہیئے، نہ کہ "امن مسلط کرنے کے لیے۔