Daily Ausaf:
2025-05-12@16:28:53 GMT

اسلام کا تصورِ جہاد

اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
آج کی جدید دانش نے چونکہ مذاہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر کے شخصی زندگی کے دائروں میں محدود کر دیا ہے اس لیے عقل جدید کے نزدیک مذہب کو وہ مقام حاصل نہیں رہا کہ اس کے لیے ہتھیار اٹھائے جائیں اور اس کے فروغ و تنفیذ کے لیے عسکری قوت کو استعمال میں لایا جائے ورنہ ہتھیار تو آج بھی موجود ہیں اور جتنے ہتھیار آج پائے جاتے ہیں اور تیار ہو رہے ہیں، انسانی تاریخ میں ا سے قبل کبھی نہیں دیکھے گئے۔ یہ ہتھیار استعمال بھی ہوتے ہیں اور وہ تباہی لاتے ہیں کہ اس سے قبل کی انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے مگر ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے والوں کے مقاصد اور عنوانات مختلف ہیں:
* جرمنی نے جرمن نسل کی برتری کے عنوان سے ہتھیار بنائے اور دو عظیم جنگوں میں پوری دنیا کے لیے تباہی کا سامان فراہم کیا۔
* روس نے محنت کشوں کی طبقاتی بالادستی کے نام پر عسکری قوت کا بے تحاشا استعمال کیا اور نسل انسانی کے ایک بڑے حصے کو تہہ تیغ کر دیا۔
* اسرائیل ایک نسلی مذہب کی برتری کے لیے اپنے سائز سے سینکڑوں گنا زیادہ ہتھیار جمع کیے ہوئے ہے اور فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی میں مصروف ہے۔
* اور امریکہ نے مغربی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے نام پر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر نسلی برتری، طبقاتی بالادستی، اور تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھانا اور صرف اٹھانا نہیں بلکہ اسے وحشیانہ انداز میں اندھا دھند استعمال کر کے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا دہشت گردی نہیں ہے تو آسمانی تعلیمات کے فروغ اور وحی الٰہی کی بالادستی کے لیے ہتھیار اٹھانے کو کون سے قانون اور اخلاقیات کے تحت دہشت گردی قرار دیا جا رہا ہے؟
باقی تمام پہلوؤں سے صرف نظر کرتے ہوئے آج کی معروضی صورت حال میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے طرز عمل کا جائزہ لے لیں کہ افغانستان اور دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں اسلام کے اجتماعی نظام کے نفاذ کا نام لینے والوں کے خلاف ’’عالمی اتحاد‘‘ کے پرچم تلے جو وحشیانہ فوج کشی جاری ہے، اس کے جواز میں اس کے علاوہ اب تک کوئی دلیل پیش نہیں کی جا سکی کہ اسلام کا نام لینے والے ان مبینہ انتہاپسندوں سے آج کی عالمی تہذیب کو خطرہ ہے، بالادست ثقافت کو خطرہ ہے، اور بین الاقوامی نظام کو خطرہ ہے، اس لیے ان انتہا پسندوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ عقیدہ و مذہب کے لیے ہتھیار اٹھانے کو دہشت گردی کہنے والے خود ایک مذہب اور عقیدہ کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے میدان جنگ میں مسلسل صف آرا ہیں۔
میری اس گزارش کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایک عقیدہ، فلسفہ، اور تہذیب کے تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھانے اور اسے بے دریغ استعمال کرنے کا ایک فریق کو حق حاصل ہے تو اس کے خلاف دوسرے عقیدہ، فلسفہ، اور تہذیب کے علمبرداروں کو ہتھیار اٹھانے کے حق سے کسی طرح محروم نہیں کیا جا سکتا اور ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے کے لیے یہ کوئی وجہ جواز نہیں ہے کہ چونکہ ایک فریق کے پاس ہتھیار بنانے کی صلاحیت زیادہ ہے اور اسے ان ہتھیاروں کے استعمال کے مواقع زیادہ میسر ہیں، اس لیے اسے تو ہتھیار بنانے اور چلانے کا حق حاصل ہے، اور دوسرا فریق اس صلاحیت میں کمزور اور ان مواقع کی فراوانی سے محروم ہے اس لیے اسے اس کا سرے سے کوئی حق نہیں ہے۔
آج امریکہ اور اس کے اتحادی اس بات پر مطمئن ہیں کہ جو جنگ وہ لڑ رہے ہیں، وہ اعلیٰ مقاصد کی خاطر لڑی جا رہی ہے، انسانیت کی بھلائی کی جنگ ہے، اور ان کے بقول اعلیٰ ترین تہذیبی اقدار کے تحفظ کی جنگ ہے۔ جنگ کی اسی مقصدیت کی وجہ سے انہیں اس عظیم جانی و مالی نقصان کی کوئی پروا نہیں ہے جو دنیا بھر میں ان کے ہاتھوں مسلسل جاری ہے۔ انسان مر رہے ہیں، عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں، بچے یتیم ہو رہے ہیں، عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہو رہی ہیں، ملکوں اور قوموں کی معیشتیں تباہ ہو رہی ہیں، اور امن و امان کا توازن مسلسل بگڑتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن ایسا کرنے والے چونکہ اپنے زعم کے مطابق یہ سب کچھ اعلیٰ مقاصد کے لیے کر رہے ہیں اور ان اقدامات کے ذریعے سے اعلیٰ تہذیب و ثقافت کا تحفظ کر رہے ہیں اس لیے ان کے خیال میں یہ سب کچھ جائز ہے اور جنگ کا حصہ ہے جسے کسی چون و چرا کے بغیر پوری نسل انسانی کو برداشت کرنا چاہیے۔ یہی بات اسلام کہتا ہے اور جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ نسل انسانی کے لیے نجات کا راستہ انسانی خواہشات اور صرف انسانی عقل نہیں ہے بلکہ وحی الٰہی کی نگرانی اور آسمانی تعلیمات کی برتری انسانی سوسائٹی کے لیے ضروری ہے۔ اور اسلام کے نزدیک انسانیت کی اعلیٰ اقدار اور تہذیبی روایات کا سرچشمہ انسانی خواہشات اور عقل محض نہیں بلکہ وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات ہیں اس لیے ایک مسلمان اگر ان مقاصد کے لیے ہتھیار اٹھاتا ہے تو دنیا کی مسلمہ روایات اور تاریخی عمل کی روشنی میں اسے یہ کہہ کر اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا کہ مخالف فریق کے نزدیک اس کا یہ عمل دہشت گردی قرار پا گیا ہے۔
اس اصولی وضاحت کے بعد قرآن و سنت کی رو سے جہاد کی چند عملی صورتوں کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں:
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہتھیار اٹھانے کے لیے ہتھیار استعمال کر اور تہذیب ہتھیار ا ہیں اور رہے ہیں کے تحفظ نہیں ہے ہے اور اس لیے اور اس

پڑھیں:

اسرائیلی یونٹ بیاسی سو کیا بلا ہے ( حصہ چہارم )

متعدد عسکری ماہرین غزہ کی نسل کشی میں اہداف کے انتخاب کے عمل میں مصنوعی ذہانت (اے آئی ) پر عجلت آمیز اور کسی حد تک اندھا دھند انحصار سے خاصے تشویش زدہ ہیں۔مگر یہ تشویش بوتل سے کسی جن کو نکالنے کے بعد جیسی ہے کہ جس کی آزادی کے نتائج کو کسی بھی ایجاد کے منفی و مثبت پہلوؤوں کو عقلِ سلیم کے ترازو میں پیشگی نہیں تولا جاتا اور پھر اپنی ہی پیشانی پیٹ لی جاتی ہے۔

جیسے نوبیل انعام کے بانی الفرڈ نوبیل کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ جو ڈائنامائٹ کانکنی سمیت صنعتی رفتار تیز کرنے کے لیے متعارف کروا رہا ہے۔یہ ایجاد بہت جلد ہلاکت خیزی کا استعارہ بن جائے گی یا اوپن ہائمر کو بم بناتے وقت کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ایٹم کی طاقت بنی نوع انسان کی فلاح سے زیادہ نسلِ آدم کو اپنی بقا کے خوف میں مبتلا کر دے گی۔

کچھ دریافتوں اور ایجادات کے بارے میں تحقیق کو اگرچہ انسانی فطرت کے تاریک پہلوؤں کے بارے میں ٹھوس خدشات کے پیشِ نظر عارضی طور پر آگے بڑھانے سے فی الحال روک لیا گیا ہے۔ جیسے سٹم سیل ریسرچ اور کلوننگ کے تجربات۔مگر تابکہ ؟

اے آئی کی ترقی و فروغ پر بھی روائیتی خوش نیتی ظاہر کی جا رہی ہے۔مگر اے آئی روزمرہ زندگی میں بے بہا فوائد کے امکانات کھولنے کے ساتھ ساتھ ہلاکت خیزی کی جانب بھی تیز رفتاری سے لے جا سکتی ہے ؟ پچیس تیس برس پہلے تک کسی کے سان گمان میں بھی نہ تھا۔وہ الگ بات کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد بالخصوص مواصلاتی و صنعتی شعبوں میں جو تیز رفتار ترقی ہوئی اس کا جنم عسکری تجربہ گاہوں میں غلبہ پانے کی نئیت سے ہی ہوا۔ ان میں سے کئی ایجادات کو غیر فوجی شعبوں نے زیادہ تیزی سے بہتر انداز میں اپنانے میں کامیابی بھی حاصل کی۔اس کی اہم مثال اسٹیل اور پیٹرو کیمیکل انڈسٹری کی مصنوعات بالخصوص پلاسٹک کی ترقی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ صنعتی پیمانے پر انسانی نسل کشی میں بیسویں صدی کے نازی بازی لے گئے مگر اکیسویں صدی میں اے آئی کی مدد سے پہلی بھیانک نسل کشی میں نازیوں کے ڈسے اسرائیل نے ’’ گرو ‘‘ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

 اب یہ خوف لاحق ہے کہ اگر اے آئی کے عسکری استعمال کو حدود و قیود میں جکڑنے کے لیے جنگی آداب سے متعلق جنیوا کنونشنز اور نسل کشی کے کنونشن کی طرز پر بین الاقوامی پروٹوکولز نافذ نہیں ہوتے تو اے آئی کا بے لگام من مانا استعمال انسانی تہذیب کو بلاامتیاز خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

مگر جب تک کوئی متفقہ بین الاقوامی ضابطہ طے ہو گا اور اس پر عمل درآمد ہو گا تب تک طاقت ور ممالک اپنے اپنے تسلطی اہداف حاصل کر چکے ہوں گے۔ اس کے بعد بھی اسرائیل ، امریکا اور دیگر ریاستوں کے ہاتھوں نئے ضوابط کی ویسی ہی گت بن سکتی ہے جو اس وقت نافذ کنونشنز اور عالمی اداروں کی بن رہی ہے۔اب تو یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ نوع انسانی کو ماحولیات کی ابتری پہلے ختم کرے گی یا اے آئی کا بے لگام استعمال بازی لے جائے گا۔

فی الحال اے آئی اسلحے کے استعمال اور پھیلاؤ سے متعلق کسی بین الاقوامی عسکری کنونشن کا حصہ نہیں ۔یعنی تیر سے میزائل تک تو اسلحہ شمار ہوتا ہے کیونکہ ان کے استعمال کا ذمے دار انسان کو قرار دیا گیا ہے۔لیکن جو آلاتِ حرب مکمل طور پر اے آئی کے تابع اور آزاد فیصلے کرنے کے اہل ہیں یا ہوں گے۔ انھیں کیسے کسی عدالت میں بطور ملزم پیش کر کے مقدمہ چلایا جا سکتا ہے؟یہ وہ موشگافی ہے جو اس وقت بین الاقوامی قوانین کے ماہرین سلٹانے میں لگے ہوئے ہیں ۔

کیا اے آئی کو دوہرے استعمال ( فوجی و غیر فوجی ) کی فہرست میں ڈال کر اس پر موجودہ کنونشنز اور ضوابط کا اطلاق کیا جا سکتا ہے ؟ یہ سوال بھی قانون دانوں کو چکرا رہا ہے۔

ویسے بھی زیادہ تر بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کی تیاری کے عمل میں اب تک مغربی دنیا زیادہ فعال اور موثر رہی ہے اور سب سے زیادہ خود کو یا حاشیہ برداروں کو ان قوانین کی زد سے بچاتی بھی آئی ہے۔ مثلاً دوسری عالمی جنگ کے بعد نورمبرگ اور ٹوکیو ٹریبونلز میں شکست خوردہ جرمنوں اور جاپانیوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا یا پھر کمپوچیا میں ستر کی دہائی میں کھیمر روج حکومت کے عہدیداروں کو نسل کشی کرنے یا پھر نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ کے چند سرب مجرموں کو جنگی جرائم ثابت ہونے پر سزا ہوئی۔

جب کہ جاپان پر ایٹم بم گرانے کا حکم دینے والے ہیری ٹرومین اور اقوامِ متحدہ کے منہ پر تھوک کے دو ہزار تین میں عراق کو تاراج کرنے والے جارج بش کے بارے میں کسی نے سوچا تک نہیں کہ ان پر بھی نسل کشی کی فردِ جرم عائد ہو سکتی ہے۔

انیس سو بیاسی میں صابرہ اور شتیلا کے فلسطینی کیمپوں میں قتلِ عام کا ذمے دار اس وقت کے وزیرِ دفاع ایریل شیرون کو اگرچہ اسرائیلی سپریم کورٹ نے قرار دیا۔مگر کسی نے اس فیصلے کی بنیاد پر عالمی عدالت میں شیرون کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ دائر کرنے کی کوشش نہیں کی۔جس نیتن یاہو پر بین الاقوامی عدالت نے باقاعدہ فردِ جرم عائد بھی کی وہ آج بھی دندناتا پھر رہا ہے۔جب کہ سوڈان کے سابق آمر احمد البشیر اور سیرالیون اور روانڈا میں نسل کشی کے مجرموں کے گریبان تک انٹرنیشنل کرائم کورٹ کا ہاتھ آسانی سے پہنچ گیا۔

غزہ میں اے آئی کی مدد سے نسل کشی کے بارے میں اسرائیلی موقف ہے کہ اے آئی صرف ڈیٹا جمع کرنے اور اس کے تجزیے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔اس ڈیٹا کے حتمی استعمال کا فیصلہ کوئی ذمے دار پروفیشنل کمانڈر ہی کرتا ہے۔مگر آزادانہ صحافتی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ زیادہ تر اسرائیلی کمانڈر اے آئی کے تجزیے کو حرفِ آخر سمجھ کر اس پر فیصلے کی رسمی مہر لگا دیتے ہیں۔

اسرائیل کا یہ بھی دعوی ہے کہ اے آئی کا استعمال محض اہداف کی درست نشاندہی کے لیے ہوتا ہے تاکہ بے قصور انسانوں کا کم سے کم جانی اتلاف ہو۔ غزہ میں اسرائیلی دفاعی ذرایع کے مطابق لگ بھگ چار ہزار حماسی جنگجو ایسے تھے یا ہیں کہ جن کا زندہ رہنا اسرائیل کی سلامتی کے لیے ٹھیک نہیں۔ تو پھر ان چار ہزار کے علاوہ وہ پچاس ہزار عورتیں ، بچے اور عام شہری کون تھے جو مار ڈالے گئے اور جو سوا لاکھ شہری زخمی ہوئے وہ کیسے نشانہ بن گئے ؟

 اسرائیلی فوج کے ایک سابق سربراہ جنرل اویوو کوشاوی نے سات اکتوبر دو ہزار تئیس کی حماس کی مسلح کارروائی سے چھ ماہ قبل ایک اسرائیلی ویب سائٹ وائی نیٹ کو انٹرویو میں کہا کہ ’’ بظاہر اے آئی ٹیکنالوجی عسکری مقاصد کے لیے بطور ڈیٹا ٹول استعمال ہو رہی ہے مگر ہم لاشعوری طور پر اس ٹیکنالوجی کے رفتہ رفتہ اتنے اسیر ہوتے چلے جائیں گے کہ وہ ہمارے فیصلہ ساز دماغوں پر مکمل قبضہ کر لے گی اور ہمیں احساس تک نہ ہو گا ۔‘‘

جنرل اویوو کوشاوی کی اس پیش گوئی کی گواہی آج غزہ کے کھنڈرات سے اٹھنے والا دھواں دے رہا ہے۔

اسرائیل کے پشتیبان امریکا کی سینیٹ میں بائیڈن انتظامیہ کے آخری دنوں میں سینیٹر پیٹر ویلش نے ’’ آرٹیفشل انٹیلی جینس ویپنز اکاؤنٹیبلٹی اینڈ رسک ایولیوشن بل ‘‘ کا مسودہ پیش کیا۔یہ مسودہ آج تک امریکی سینیٹ میں کہیں پڑا خاک چاٹ رہا ہے۔

 چونکہ یہ اسرائیل ہے جسے ساتوں خون معاف ہیں لہٰذا بے گناہ شہریوں کو اے آئی کی تباہ کن زد سے بچانے کا معاملہ ’’ مشن کی تکمیل ‘‘ تک فی الحال پاؤں پسار کے سو سکتا ہے۔  (اختتام)

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • "پاکستانی چینی ہتھیار چینیوں سے بھی بہتر استعمال کرتے ہیں، ان کو لڑنا آتا ہے" بھارتی فوج کے ریٹائرڈ جنرل کا بیان
  • سرحدوں پر بستیوں کی تباہ کاری کا یہ درد انسانی ہے سیاسی نہیں، محبوبہ مفتی
  • ایسا پاکستان بنائیں گے جسے کوئی دشمن میلی آنکھ سے دیکھنے کا تصور بھی نہ کر پائے گا، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز
  • ہم نہیں چاہیں گے جوہری ہتھیار استعمال نہ کرنے کا عہد ٹوٹے: احسن اقبال 
  • فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی ہر گز حمایت نہیں کریں گے، اقوام متحدہ
  • فلسطینیوں کی کسی بھی جبری بے دخلی کی ہرگز حمایت نہیں کریں گے ، اقوام متحدہ
  • فلسطینیوں کی کسی بھی جبری بے دخلی کی ہرگزحمایت نہیں کریں گے ، اقوام متحدہ
  • ہم نہیں چاہیں گے جوہری ہتھیار استعمال نہ کرنے کا عہد ٹوٹے، احسن اقبال
  • اسرائیلی یونٹ بیاسی سو کیا بلا ہے ( حصہ چہارم )