Daily Ausaf:
2025-06-26@22:19:00 GMT

اسلام کا تصورِ جہاد

اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
آج کی جدید دانش نے چونکہ مذاہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر کے شخصی زندگی کے دائروں میں محدود کر دیا ہے اس لیے عقل جدید کے نزدیک مذہب کو وہ مقام حاصل نہیں رہا کہ اس کے لیے ہتھیار اٹھائے جائیں اور اس کے فروغ و تنفیذ کے لیے عسکری قوت کو استعمال میں لایا جائے ورنہ ہتھیار تو آج بھی موجود ہیں اور جتنے ہتھیار آج پائے جاتے ہیں اور تیار ہو رہے ہیں، انسانی تاریخ میں ا سے قبل کبھی نہیں دیکھے گئے۔ یہ ہتھیار استعمال بھی ہوتے ہیں اور وہ تباہی لاتے ہیں کہ اس سے قبل کی انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے مگر ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے والوں کے مقاصد اور عنوانات مختلف ہیں:
* جرمنی نے جرمن نسل کی برتری کے عنوان سے ہتھیار بنائے اور دو عظیم جنگوں میں پوری دنیا کے لیے تباہی کا سامان فراہم کیا۔
* روس نے محنت کشوں کی طبقاتی بالادستی کے نام پر عسکری قوت کا بے تحاشا استعمال کیا اور نسل انسانی کے ایک بڑے حصے کو تہہ تیغ کر دیا۔
* اسرائیل ایک نسلی مذہب کی برتری کے لیے اپنے سائز سے سینکڑوں گنا زیادہ ہتھیار جمع کیے ہوئے ہے اور فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی میں مصروف ہے۔
* اور امریکہ نے مغربی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے نام پر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر نسلی برتری، طبقاتی بالادستی، اور تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھانا اور صرف اٹھانا نہیں بلکہ اسے وحشیانہ انداز میں اندھا دھند استعمال کر کے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا دہشت گردی نہیں ہے تو آسمانی تعلیمات کے فروغ اور وحی الٰہی کی بالادستی کے لیے ہتھیار اٹھانے کو کون سے قانون اور اخلاقیات کے تحت دہشت گردی قرار دیا جا رہا ہے؟
باقی تمام پہلوؤں سے صرف نظر کرتے ہوئے آج کی معروضی صورت حال میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے طرز عمل کا جائزہ لے لیں کہ افغانستان اور دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں اسلام کے اجتماعی نظام کے نفاذ کا نام لینے والوں کے خلاف ’’عالمی اتحاد‘‘ کے پرچم تلے جو وحشیانہ فوج کشی جاری ہے، اس کے جواز میں اس کے علاوہ اب تک کوئی دلیل پیش نہیں کی جا سکی کہ اسلام کا نام لینے والے ان مبینہ انتہاپسندوں سے آج کی عالمی تہذیب کو خطرہ ہے، بالادست ثقافت کو خطرہ ہے، اور بین الاقوامی نظام کو خطرہ ہے، اس لیے ان انتہا پسندوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ عقیدہ و مذہب کے لیے ہتھیار اٹھانے کو دہشت گردی کہنے والے خود ایک مذہب اور عقیدہ کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے میدان جنگ میں مسلسل صف آرا ہیں۔
میری اس گزارش کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایک عقیدہ، فلسفہ، اور تہذیب کے تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھانے اور اسے بے دریغ استعمال کرنے کا ایک فریق کو حق حاصل ہے تو اس کے خلاف دوسرے عقیدہ، فلسفہ، اور تہذیب کے علمبرداروں کو ہتھیار اٹھانے کے حق سے کسی طرح محروم نہیں کیا جا سکتا اور ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے کے لیے یہ کوئی وجہ جواز نہیں ہے کہ چونکہ ایک فریق کے پاس ہتھیار بنانے کی صلاحیت زیادہ ہے اور اسے ان ہتھیاروں کے استعمال کے مواقع زیادہ میسر ہیں، اس لیے اسے تو ہتھیار بنانے اور چلانے کا حق حاصل ہے، اور دوسرا فریق اس صلاحیت میں کمزور اور ان مواقع کی فراوانی سے محروم ہے اس لیے اسے اس کا سرے سے کوئی حق نہیں ہے۔
آج امریکہ اور اس کے اتحادی اس بات پر مطمئن ہیں کہ جو جنگ وہ لڑ رہے ہیں، وہ اعلیٰ مقاصد کی خاطر لڑی جا رہی ہے، انسانیت کی بھلائی کی جنگ ہے، اور ان کے بقول اعلیٰ ترین تہذیبی اقدار کے تحفظ کی جنگ ہے۔ جنگ کی اسی مقصدیت کی وجہ سے انہیں اس عظیم جانی و مالی نقصان کی کوئی پروا نہیں ہے جو دنیا بھر میں ان کے ہاتھوں مسلسل جاری ہے۔ انسان مر رہے ہیں، عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں، بچے یتیم ہو رہے ہیں، عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہو رہی ہیں، ملکوں اور قوموں کی معیشتیں تباہ ہو رہی ہیں، اور امن و امان کا توازن مسلسل بگڑتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن ایسا کرنے والے چونکہ اپنے زعم کے مطابق یہ سب کچھ اعلیٰ مقاصد کے لیے کر رہے ہیں اور ان اقدامات کے ذریعے سے اعلیٰ تہذیب و ثقافت کا تحفظ کر رہے ہیں اس لیے ان کے خیال میں یہ سب کچھ جائز ہے اور جنگ کا حصہ ہے جسے کسی چون و چرا کے بغیر پوری نسل انسانی کو برداشت کرنا چاہیے۔ یہی بات اسلام کہتا ہے اور جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ نسل انسانی کے لیے نجات کا راستہ انسانی خواہشات اور صرف انسانی عقل نہیں ہے بلکہ وحی الٰہی کی نگرانی اور آسمانی تعلیمات کی برتری انسانی سوسائٹی کے لیے ضروری ہے۔ اور اسلام کے نزدیک انسانیت کی اعلیٰ اقدار اور تہذیبی روایات کا سرچشمہ انسانی خواہشات اور عقل محض نہیں بلکہ وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات ہیں اس لیے ایک مسلمان اگر ان مقاصد کے لیے ہتھیار اٹھاتا ہے تو دنیا کی مسلمہ روایات اور تاریخی عمل کی روشنی میں اسے یہ کہہ کر اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا کہ مخالف فریق کے نزدیک اس کا یہ عمل دہشت گردی قرار پا گیا ہے۔
اس اصولی وضاحت کے بعد قرآن و سنت کی رو سے جہاد کی چند عملی صورتوں کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں:
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہتھیار اٹھانے کے لیے ہتھیار استعمال کر اور تہذیب ہتھیار ا ہیں اور رہے ہیں کے تحفظ نہیں ہے ہے اور اس لیے اور اس

پڑھیں:

ایران نے میزائل ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا، منصور جعفر

لاہور:

سابق سفیر جوہر سلیم کا کہنا ہے کہ ایران کا قطر میں امریکی اڈے پر حملہ بنیادی طور پر اپنے لوگوں کو مطمئن کرنا تھا کہ ہم نے امریکی حملے کے جواب میں اس کے اڈے پر حملہ کیا ہے، آپ نے دیکھا کہ انھوں نے پہلے قطر کو مطلع کیا پھر امریکا کو بھی اطلاع دی، پھر جب میزائل فائر کیے گئے تو وہ آسانی سے روک لیے گئے، کسی قسم کا کوئی بھی نقصان نہیں ہوا. 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو میں انھوں نے کہا کہ اس خطے میں امریکی اڈے خلیجی ممالک میں ہی ہیں تو وہ جہاں پر بھی حملے کرتے وہ یو اے ای ہوتا، بحرین ہوتا یا دوسرے ملک جہاں امریکی اڈے ہیں تو بات شاید ملتی جلتی ہی ہوتی. 

تجزیہ کار عزیریونس نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ صرف گیلری کو پلے نہیں کر رہے تھے، اگر آپ ایرانی ایٹمی تنصیبات کی حملے کی رپورٹنگ دیکھیں تو وہاں بھی ایران کو حملے سے پہلے وارننگ دیدی گئی تھی کہ آپ کے ان تین ٹارگٹس پر حملے ہونے والے ہیں، اسی وجہ سے انھوں نے وہاں سے بلخصوص فردو سے افزدہ یورینیم نکال لیا تھا، آج کل کے سوشل میڈیا دور میں دکھاوا کرنا عام سی بات ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سگنلنگ بڑی ضروری ہے تمام ایکٹرز کو ایک دوسرے کو کرنے کیلیے تاکہ کوئی ایسا فیصلہ نہ ہو جس کی وجہ سے چیزیں اس سے زیادہ ایسکلیٹ نہ کر جائیں جو ہر ایکٹر چاہتا ہے. 

ماہر امور مشرق وسطیٰ منصور جعفر نے کہا کہ ایران نے جوابی کارروائی کر کے حوصلہ دکھایا۔ اس نے میزائل ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا، اس کا ایک امپیکٹ تو اسرائیل کے اندر ہوا ہے، خاص طور پر جن یہودیوں کو بڑے خواب دکھا کر اسرائیل لا کر آباد کیا گیا تھا ان کی ریورس مائیگریشن کی جو رفتار ہے میں سمجھتا ہوں کی کوئی مثال نہیں ملتی، اتنی بڑی تعداد میں تو 7اکتوبر 2023 کی کارروائی کے بعد بھی ریورس مائگریشن دیکھنے کو نہیں ملی، خاص طور پر اس کی جو مدت ہے وہ بارہ دن کی ہے، بارہ دن وہ لوگ غیریقینی کیفیت میں رہے ، تذبذب کی کیفیت میں رہے اور انھیں وہاں سے نکلنا پڑا۔

متعلقہ مضامین

  • نیٹو چیف نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ’ڈیڈی‘ کیوں کہا؟
  • امریکا کو ایران اسرائیل جنگ میں شامل ہوکر کوئی کامیابی نہیں ملی، آیت اللہ سید علی خامنہ ای
  • جلد ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کرینگے جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا: مشیر امریکی صدر اسٹیووٹکوف
  • جلد ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کرینگے جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، مشیر امریکی صدر
  • جلد ہی ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کرینگے جنکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اسٹیو وٹکوف کا دعویٰ
  • ’ 9 مئی سے متعلق مقدمات معافی کااختیار نہیں‘، اعظم نذیر کی تقریر کے دوران اپوزیشن کے چور چور کے نعرے
  • ایران نے میزائل ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا، منصور جعفر
  • ایلون مسک کمپیوٹر استعمال نہیں کرتے، انکے وکلا کا دعویٰ
  • جدہ میں قائم پاکستان انٹرنیشنل سکول بینظیر کا اوورسیز پاکستانیز کے لیے بہترین تحفہ ہے ،تصور چوہدری
  • ایرانی قوم ہتھیار ڈالنے والی نہیں، جارحیت کا منہ توڑ جواب دے گی: آیت اللہ خامنہ ای