WE News:
2025-05-12@19:34:56 GMT

چراغ تلے اجالا

اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT

ایک کمرہ، نیم تاریک، دیوار پر مدھم عکس، اور ایک چراغ ۔ ۔ ۔ وہ چراغ جس کی روشنی صدیوں سے انسانیت کی پیشانی پر جلتی چلی آ رہی ہے۔ ہاتھوں میں سادہ سا دِیا، ماتھے پر وقار، آنکھوں میں درد کی نمی، قدموں میں شفقت کی چاپ، اور دل میں ایک ناقابلِ شکست ارادہ ۔ ۔ ۔ وہ فلورنس نائٹ انگیل تھیں۔

شاید انسانیت کی تاریخ میں ایسے چراغ کم ہی جلے ہوں جن کی روشنی نے صرف مریضوں کی علالت ہی کو نہیں، پورے نظامِ طب کو بدل کر رکھ دیا ہو۔ وہ نہ صرف ایک نرس تھیں بلکہ ایک عہد، ایک تحریک، ایک خواب اور ایک نظریہ تھیں۔ خدمتِ خلق کا ایسا مظہر جس نے دنیا کے ہر اسپتال، ہر نرسنگ اسکول اور ہر بسترِ مرگ کو اپنی روشنی سے منور کیا۔

مزید پڑھیں: محبت کا آخری عجوبہ

فلورنس نائٹ انگیل 12 مئی 1820 کو اٹلی کے شہر فلورنس میں ایک متمول اور تعلیم یافتہ برطانوی گھرانے میں پیدا ہوئیں، شہر کی نسبت سے نام پایا۔ ان کے والد ولیم نائٹ انگیل اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان تھے اور انہوں نے اپنی دونوں بیٹیوں کو غیر معمولی تعلیم دلوائی، جس میں فلسفہ، ریاضی، تاریخ اور ادب شامل تھے۔ اس زمانے میں عورتوں کو ایسے علمی مواقع کم ہی میسر آتے تھے، اور فلورنس نے بھی تعلیم صرف ڈگریوں کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کے لیے حاصل کی۔

تعلیم یافتہ اور خوشحال انگریز خاندان کی بیٹی، جس کی زندگی میں کتابوں، شاعری، موسیقی اور سوسائٹی کی چمک دمک کا راج تھا۔ مگر فلورنس کے دل میں ایک خلش تھی، ایک ایسا سوال جو بار بار انہیں بے چین کرتا کہ خدمت کیا صرف عبادت خانوں اور مکتبوں میں ہوتی ہے؟ کیا انسانی دکھ صرف فلسفے سے کم ہو سکتے ہیں؟

اس دور میں نرسنگ کو ایک کمتر، کم حیثیت اور غیر مہذب پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ اہلِ خانہ نے اس راہ سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن فلورنس نے وہی کیا جو ان کا دل اور ضمیر انہیں کہتا تھا۔ وہ انسانیت کی خاموش خدمت کو اپنی عبادت بنا چکی تھیں۔ ماں نے روکا، بہن نے منع کیا، سوسائٹی نے طنز کیے، مگر فلورنس کے اندر کچھ اور ہی چل رہا تھا۔ اس کی زندگی کا اصل موڑ تب آیا جب اس نے 17 برس کی عمر میں ’خدا کی آواز‘ سنی وہ کہتی تھیں کہ اس آواز نے انہیں خدمتِ خلق کے لیے مخصوص کردیا۔

مزید پڑھیں: عینی آپا تھیں تو پاکستانی

انہوں نے نرسنگ کی تربیت حاصل کرنے کے لیے جرمنی کا رخ کیا۔ ایک نہایت سادہ سا ادارہ، جہاں فرش تک خود صاف کرنا پڑتا، اور مریضوں کے بدبو دار زخموں پر پٹیاں باندھنا پڑتیں۔ مگر فلورنس نے نہ ناک بھوں چڑھائی، نہ اپنے ہاتھ روکے۔ انہیں ان زخموں، ان کراہوں اور چپ چاپ بہتے آنسوؤں میں اپنے رب کی رضا دکھائی دیتی تھی۔

1854 میں کریمیا جنگ (اکتوبر 1853 تا فروری 1856) نے پورے یورپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ زخمی فوجیوں کی حالتِ زار کے قصے لندن تک پہنچے، تو فلورنس نے اپنے دل کی آواز سنی۔ وہ 38 نرسوں کے قافلے کی سربراہ بن کر اسکوتھری (ترکیہ کا موجودہ شہر’Üsküdar‘ اوسکدار) اسپتال پہنچیں، یہ اسپتال کم اور مقتل زیادہ تھا۔ وہاں صفائی کا کوئی تصور نہ تھا۔ مریض گندگی، تعفن اور بدانتظامی کی بھینٹ چڑھ رہے تھے مگر فلورنس نے ہار نہ مانی۔

فلورنس نے پہلے صفائی ستھرائی، روشنی اور ہوا کی گزرگاہوں کو بہتر بنایا۔ ہاتھ دھونے، اوزار جراثیم سے پاک کرنے، بستروں کو صاف رکھنے اور خوراک کو بہتر بنانے جیسے اقدامات کیے۔ ان کی کوششوں سے موت کی شرح 42 فیصد سے کم ہو کر صرف 2 فیصد رہ گئی۔ یہ صرف طبی خدمت نہ تھی، یہ ایک فکری بغاوت تھی، ایک سائنسی شعور کی بیداری تھی، اور ایک معاشرتی انقلاب تھا۔

مزید پڑھیں: داستاں سرائے، راجا گدھ اور بانو آپا

راتوں کو جب سب سوجاتے، فلورنس اپنے ہاتھ میں چراغ لے کر وارڈز میں گھومتی رہتیں، ہر مریض کے پاس جا کر اس کا حال پوچھتیں، پٹی بدلتیں، تسلی دیتیں، دلاسہ دیتیں۔ ان کے چراغ کی نرم روشنی مریضوں کے لیے امید کی کرن بن گئی۔ انگریز سپاہی انہیں پیار سے “Lady with the Lamp” یعنی چراغ والی خاتون کہنے لگے۔ یہ صرف ایک لقب نہ تھا، یہ ایک علامت تھی روشنی کی، زندگی کی اور درد میں ڈھارس کی۔

کریمیائی محاذ سے واپسی کے بعد فلورنس نے خود کو نرسنگ کی تعلیم اور اصلاحات کے لیے وقف کردیا۔ عوامی عطیات سے ’نائٹ انگیل فنڈ‘ قائم کیا گیا، چار برس میں £45,000 جمع ہو گئے۔ جو اس بات کا ثبوت تھا کہ سماج نے اس عظیم خاتون کو دل سے تسلیم کیا۔ یوں 1860 میں انہوں نے لندن کے سینٹ تھامس اسپتال میں ’نائٹ انگیل اسکول آف نرسنگ‘ قائم کیا، جو آج بھی فعال ہے۔

یہ ادارہ محض ایک تعلیمی مرکز نہیں تھا، یہ ایک انقلاب کا نقطۂ آغاز تھا۔ اس نے نرسنگ کو باعزت اور سائنسی پیشہ بنایا۔ عورتوں کو نہ صرف ہنر دیا، بلکہ وقار بھی دیا۔ فلورنس نائٹ انگیل کی طالبات دنیا بھر میں پھیل گئیں، جیسے شمع سے شمع جلتی ہے، ویسے ہی ہر شاگرد ایک نئی روشنی لے کر نکلا۔

ان کی کتاب (Notes on Nursing) کو نرسنگ کی دنیا میں آج بھی بنیادی حوالہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے علاج سے زیادہ احتیاط، ہمدردی، صفائی، اور ماحول کی اہمیت پر زور دیا اور بتایا کہ بیماری صرف جسم کی نہیں، روح کی بھی ہو سکتی ہے۔

فلورنس نائٹ انگیل کی زندگی خود بھی بیماری کی زد میں رہی۔ جنگ سے واپسی کے بعد وہ بیشتر وقت بستر پر رہیں، لیکن ذہن اور ارادہ کبھی بستر نشین نہ ہوئے۔ انہوں نے حکومتی پالیسیز، شماریاتی تجزیے، اور صحت عامہ کے منصوبے تشکیل دیے۔ ان کے شماریاتی خاکے، آج بھی پبلک ہیلتھ کی کتابوں میں سنہرے حروف سے درج ہیں۔ انہوں نے نہ صرف جنگی اسپتالوں کو بہتر بنایا، بلکہ امن کے دنوں میں بھی شہری اسپتالوں کی حالت بدل دی۔ کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ بیماری نظاموں پر بھی ہوتی ہے۔

پہلی خاتون جنہیں برطانوی حکومت نے ’آرڈر آف میرٹ‘ سے نوازا۔ اُن کی خدمات صرف نرسنگ ہی نہیں، پورے سماجی نظام کے لیے ایک رول ماڈل بن گئیں۔ ان کی شخصیت کا سب سے دلنشین پہلو ان کا روحانی و اخلاقی استحکام تھا۔ وہ محض طبی نگران نہ تھیں بلکہ ایک فکری رہنما، ایک سماجی مصلح، اور ایک روحانی معلمہ تھیں۔

مزید پڑھیں: قدرت اللہ شہاب کی چندراوتی

فلورنس نائٹ اینگل کی ذاتی زندگی بھی ان کے کردار کی طرح غیر روایتی تھی۔ انہوں نے شادی نہیں کی، حالانکہ کئی ممتاز اور دولت مند حضرات نے رشتے بھیجے۔ لیکن فلورنس کا جواب ہمیشہ ایک ہی رہا ’میری زندگی کا مقصد انسانیت کی خدمت ہے، نہ کہ گھریلو ذمہ داریوں میں محدود ہو جانا‘۔ ان کا گہرا تعلق رچرڈ مونکٹن میلس ورتھ سے رہا، جو ان کے خیالات اور فکری وسعت کا معترف تھا، مگر فلورنس نے محبت کی قربانی دی، تاکہ اپنے مشن سے وفا کرسکے۔

خاندان سے تعلقات ہمیشہ پیچیدہ رہے، خاص طور پر والدہ اور بہن کو ان کا ’نرسنگ‘ جیسے پیشے کی طرف جھکاؤ سماجی بدنامی محسوس ہوتا۔ مگر فلورنس نے خاموشی سے، بغیر کسی شکوے کے، اپنی راہ چُنی اور نبھائی۔ وہ بظاہر تنہا تھیں مگر ان کے ارد گرد ہزاروں دلوں کی دعائیں تھیں۔ انہوں نے خود کو محبت کے بڑے دائرے میں ڈھال دیا، ایسا دائرہ جس میں صرف ایک شخص کے لیے جگہ نہ تھی، بلکہ پوری انسانیت کے لیے گنجائش تھی۔

ان کے نزدیک خدمتِ خلق دراصل خدا کی عبادت تھی۔ ان کے ایک جملے نے دنیا بھر کے نرسنگ اسٹوڈنٹس کو بے حد متاثر کیا:
“Nursing is an art: and if it is to be made an art, it requires an exclusive devotion as hard a preparation, as any painter’s or sculptor’s work.


یعنی نرسنگ ایک فن ہے، جسے سیکھنے اور برتنے کے لیے ویسا ہی خلوص اور ریاضت چاہیے جیسا کسی مصور یا مجسمہ ساز کو درکار ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: فوزیہ، منٹو اور قندیل

وقت گزر گیا، دنیا بدل گئی، لیکن فلورنس نائٹ انگیل کا چراغ آج بھی جل رہا ہے۔ ہر نرس کی وردی میں، ہر اسپتال کی راہداری میں، ہر بے بس مریض کی آنکھ میں، اور ہر طبیب کے دل میں۔ کورونا وبا کے دنوں میں دنیا نے ایک بار پھر دیکھا کہ فلورنس کی وراثت آج بھی زندہ ہے۔ نرسز اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خدمت کرتی رہیں۔ کہیں ایک سفید پوش عورت، ماسک پہنے، انجیکشن لگاتی رہی، کہیں تھکے قدموں سے دوڑتی، کبھی خود رو پڑتی اور پھر بھی مسکراتی۔ یہ سب فلورنس نائٹ انگیل کے چراغ ہیں۔

فلورنس نائٹ اینگل کو بہت سے اعزازات ملے۔ ملکہ وکٹوریہ نے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا، برطانیہ کی جانب سے اعلیٰ ترین تمغہ دیا گیا۔ لیکن ان کی سب سے بڑی پہچان وہ چراغ رہا، جسے وہ راتوں کو لے کر چلتی تھیں۔ ایک شفیق ماں کی طرح، ایک خاموش مجاہد کی طرح، ایک نرم دل مصلح کی طرح۔

فلورنس نائٹ اینگل (1907) فرانسس امیشیا ڈی بائیڈن فوٹنر (1874–1961) کی بنائی گئی واٹر کلر پینٹنگ۔

13 اگست 1910 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ کچھ شخصیات دنیا سے جاتی نہیں، وہ صرف ایک جہت سے دوسری میں منتقل ہوتی ہیں۔ فلورنس بھی انہی میں سے تھیں۔ آج ہر اسپتال میں، ہر نرس کی دعا میں، ہر مریض کی مسکراہٹ میں، ان کی روح جھلکتی ہے۔

حکومتِ برطانیہ نے ویسٹ منسٹر ایبے میں قومی اعزاز کے ساتھ دفن کرنے کی پیشکش کی، مگر ان کی خواہش کے مطابق سادگی سے سینٹ مارگریٹ چرچ، ایسٹ ویلو، ہیمپشائر کے قبرستان میں تدفین کی گئی۔

دنیا ہر سال 12 مئی کو نرسز ڈے مناتی ہے۔ لیکن کیا یہ صرف ایک دن ہے؟ یا ہر وہ لمحہ بھی، جب کوئی نرس کسی بوڑھے کا ہاتھ پکڑ کر اسے پانی پلاتی ہے؟ جب وہ بچی، جس نے نائٹ انگیل کے بارے میں پڑھا ہو، کسی گاؤں کے چھوٹے سے کلینک میں دوا بانٹتی ہے؟ تب وہاں ایک چراغ جلتا ہے، دل کے اندر، خدمت کے ارادے میں اور انسانیت کی دعا میں۔

مزید پڑھیں: قائد ہم شرمندہ ہیں

یہ سچ ہے کہ وہ صرف جدید نرسنگ کی بانی نہیں تھیں، وہ انسان دوستی، رحم، عزم، اور قربانی کی مجسم صورت تھیں۔ ان کا چراغ ایک طبی آلہ نہ تھا بلکہ ایک فکری اور روحانی استعارہ تھا۔

جب زندگی موت سے برسرِ پیکار ہو، جب درد لاچار کر دے، جب امید دم توڑنے لگے، تب ایک سفید لباس میں ملبوس سایہ آتا ہے، ہاتھ تھامتا ہے، ماتھے پر دُھلی ہوئی ہتھیلی رکھتا ہے، اور کہتا ہے ’میں ہوں، تم تنہا نہیں ہو‘۔ یہ فلورنس نائٹ انگیل ہے، نرسنگ کی دنیا کا وہ درخشاں ستارہ جو ہر دل کی پیشانی پر آج بھی جگمگا رہا ہے۔

(نرسوں کا عالمی دن انٹر نیشنل کونسل آف نرسیز کے زیر اہتمام 1965 سے اب تک ہر سال 12 مئی کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کی نسبت جدید نرسنگ کی بانی برطانوی نرس فلورنس نائٹ انگیل کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔)

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

Florence Nightingale برطانیہ جدید نرسنگ کی بانی چراغ چراغ تلے اجالا فلورنس نائٹ انگیل کورونا مشکورعلی نرس نرسوں کا عالمی دن

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: برطانیہ جدید نرسنگ کی بانی کورونا مشکورعلی نرسوں کا عالمی دن مگر فلورنس نے مزید پڑھیں انسانیت کی انہوں نے نرسنگ کی صرف ایک اور ایک آج بھی کی طرح کے لیے

پڑھیں:

مفکر پاکستان شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی اہلیہ سردار بیگم کی برسی 23 مئی کو منائی جائے گی

مکوآنہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 مئی2025ء)مفکر پاکستان شاعر مشرق ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کی اہلیہ سردار بیگم کی برسی 23 مئی کو منائی جائے گی۔ سردار بیگم جسٹس جاوید اقبال اور منیرہ اقبال کی والدہ تھیں اور علامہ اقبال کی تیسری زوجہ تھیں۔ علامہ اقبال کی پہلی شادی زمانہ طالبعلمی میں کریم بی بی کے ساتھ ہوئی، جن کا تعلق گجرات کے ایک اعلی خاندان سے تھا۔

یہ شادی 4 مئی 1893 کو ہوئی لیکن کامیاب ثابت نہ ہو سکی، اور 1913 میں علیحدگی ہو گئی۔

(جاری ہے)

علامہ اقبال تا عمر ان کے اخراجات اور نان نفقہ کے ذمہ دار رہے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی دوسری شادی 1910 میں مختار بیگم کے ساتھ ہوئی جو 1924 میں پہلے بچے کی پیدائش کے دوران انتقال کرگئیں، جس کے بعد علامہ محمد اقبال کی تیسری شادی سردار بیگم سے ہوئی تھی جو جسٹس جاوید اقبال اور منیرہ اقبال کی والدہ تھیں۔واضح رہے کہ سردار بیگم کی جمع پونجی سے جاوید منزل (موجودہ علامہ اقبال میوزیم) کی سات کنال زمین خریدی گئی تھی لیکن ان کو اس گھر میں صرف تین دن رہنا ہی نصیب ہوا۔ سردار بیگم کا انتقال 23 مئی 1935 کو ہوا اور ان کو لاہور میں بی بی پاک دامناں سے ملحقہ قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • پاک بھارت کشیدگی: شہباز شریف مخالف گنڈاپور کی حکومت کہاں کھڑی تھی اور کیا تیاریاں کی تھیں؟
  • آپ سے کیا پردہ
  • مفکر پاکستان شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی اہلیہ سردار بیگم کی برسی 23 مئی کو منائی جائے گی