فلسطینیوں کا ہمدرد پوپ چلا گیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
ان کی ساری ہمدردیاں دنیا بھر کے غریب عوام کے ساتھ تھیں۔ پوپ فرانسس نے مظلوموں کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے کبھی مذہب، نسل، ذات اور قومیت کو اہمیت نہیں دی۔ پوپ نے فلسطین،غزہ، یوکرین، ایران، شام، افغانستان، پاکستان، ایران، بھارت اور نیوزی لینڈ جہاں بھی، جب بھی کسی فرد یا کمیونٹی کو نسلی یا مذہبی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا تو پوپ فرانسس نے ان مظلوموں کے لیے دنیا کی رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی۔ پوپ فرانسس فلسطینی عوام کی جدوجہد کے سب سے بڑے حامی تھے۔
وہ سمجھتے تھے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کررہا ہے، وہ اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ فلسطینیوں کو آزاد ریاست قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔ جب پوپ فرانسس کی زندگی میں ایسٹر کا تہوار آیا تو انھوں نے اپنے خطاب میں اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی کی اپیل کی تھی۔ پوپ فرانسس کے انتقال پر نشر ہونے والے ایک ٹی وی ٹاک شو میں بتایا گیا تھا کہ پوپ فرانسس غزہ کی صورتحال سے اتنا زیادہ پریشان تھے کہ وہ روزانہ غزہ کے چرچ کے پادریوں سے ٹیلی فون پر رابطہ کرتے تھے اور ان کی خیریت دریافت کرتے تھے ۔
پوپ فرانسس غزہ کے لوگوں کے لیے اتنے زیادہ پریشان تھے کہ انھوں نے وصیت کی تھی کہ ان کی ذاتی کار غزہ بھیج دی جائے۔ کیتھولک خیراتی ادارہ کیرٹساس نے اعلان کیا ہے کہ پوپ فرانسس نے اپنے انتقال سے قبل اپنی بڑی موبائل گاڑی جنگ زدہ غزہ میں بچوں کے کلینک میں تبدیل کرنے کے لیے یہ عطیہ کیا تھا۔ پوپ کے خیر خواہوں کے لیے ہجوم کو پوپ کا دیدار کرنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئی تھی۔
اس کھلی گاڑی کو اب مضبوط ایمبولینس میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ جب بھی اسرائیل راہداری کھولتا ہے تو یہ گاڑی غزہ بھیج دی جائے گی۔ کھلے چھت والی اس گاڑی کو پوپ نے 2014 میں بیت اللھم کے دورہ کے دوران استعمال کیا تھا۔ جب سے یہ گاڑی کھڑی ہوئی تھی تو اس پر دھول جمی ہوئی تھی اور زنگ لگ رہا تھا۔ اب اگر اسرائیل نے اجازت دی تو یہ گاڑی غزہ میں موبائل کلینک کے طور پر استعمال ہوگی۔
پوپ فرانسس کی زندگی کی ایک اور پہلو ان کی سادہ زندگی گزارنے کا طریقہ کار تھا۔ جب پوپ کو اس عہدہ پر فائزکیا گیا تو وہ ویٹیکن کی روایت کے مطابق لیموزین گاڑی جس کا شمار دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں میں ہوتا ہے، ان کے استعمال کے لیے موجود تھی مگر پوپ فرانسس نے یہ جدید لگژری گاڑی استعمال کرنے سے انکارکیا۔ انھوں نے کہا کہ ارجنٹینا میں انھوں نے اپنے پیسہ سے جو چھوٹی گاڑی خریدی تھی وہی گاڑی استعمال کریں گے۔ یوں انھوں نے پوپ کا عہدہ سنبھالتے ہی ویٹیکن سٹی میں نئی روایت کا اعزاز حاصل کیا۔
پوپ فرانسس نے ساری زندگی اپنا گھر نہیں بنایا۔ انھوں نے کبھی بینک اکاؤنٹ نہیں کھولا۔ جب پوپ فرانسس کا انتقال ہوا تو ان کے پاس 100 ڈالر تھے۔ انھوں پوپ کی حیثیت سے 340,000 یورو بطور اعزازیہ مل سکتا تھا۔ یہ ایک بڑی خطیر رقم تھی مگر پوپ فرانسس کے لیے اتنی بڑی رقم میں کوئی کشش نہیں تھی۔ پوپ فرانسس کے لیے پرکشش اپارٹمنٹ رہنے کے لیے دستیاب تھے مگر پوپ فرانسس نے عالیشان رہائش کی پیشکش کو رد کردیا۔ انھوں نے اتنی بڑی رقم لینے کے بجائے ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک انتہائی سادہ عمارت ہے جہاں انتہائی کم فرنیچر موجود ہے۔
پوپ فرانسس نے پرکشش اور مہنگے ملبوسات استعمال کرنے سے ہمیشہ گریزکیا اور پوپ کا روایتی قیمتی سرخ لوفر استعمال کرنے سے بھی گریزکیا۔ ہمیشہ پرانے لوفر پہنے۔ پوپ فرانسس نے اپنا کوئی ذاتی ملازم نہیں رکھا اور ہمیشہ ویٹیکن کے ملازمین کے ساتھ کھانا کھایا۔ وہ ہمیشہ پادریوں کو تلقین کرتے تھے کہ عام آدمی کی بھلائی کے لیے کام کریں۔ وہ فرانس کے سرمایہ دارانہ نظام کے ہمیشہ مخالف رہے۔ پوپ فرانسس کا کہنا تھا کہ عالمی معاشی نظام غریب ممالک اور عام آدمی کے لیے تباہی کا باعث ہے۔
اس نظام میں عام آدمی کے لیے سماجی بھلائی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ پوپ فرانسس نے عالمی معاشی نظام کا Fundamental Terrorism کا ہمیشہ موازنہ کیا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ It is the communists who think like Christians۔ اسی طرح پوپ فرانسس نے 2013ء میں Gustavo Gotierres کی Liberation theologyکو بھی سراہا تھا۔ وہ ہمیشہ کیپیٹل ازم اور Idolatary of Money کی مذمت کرتے تھے۔
پوپ فرانسس کے نظریات لاطینی امریکا کے چرچ کے اس نظریے کی ہمیشہ حمایت کرتے تھے کہ لاطینی امریکا کے ممالک کو سامراجی قوتوں سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے اور پوپ فرانسس نے اگرچہ کوشش کی کہ ویٹیکن سٹی، یورپی ممالک کے علاوہ لاطینی امریکا اور دیگر ایشیائی و افریقی ممالک کے پادریوں کو شامل کیا جائے ، یوں وہ ویٹیکن کے ماحول میں ایک تبدیلی لانا چاہتے تھے۔
مارکسی دانشور علی اوسط نے لاطینی امریکا میں کیتھولک چرچ کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ قدیم تاریخ کے جائزہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں کیتھولک چرچ قدامت پرست تھا اور چرچ کے پادری اسپین سامراج اور امراء کی پیروی کرتے تھے۔ بیسویں صدی میں کتھولک چرچ میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اب چرچ سماجی تبدیلیوں کی حمایت کرنے لگا۔ یہی وقت تھا جب ویٹیکن کونسل کے اجلاس کے بعد مظلوم عوام کے لیے Political Liberation Theologyسامنے آئی۔
دو معروف پادریوں کا نظریہ عام ہوا تو اب لاطینی امریکا کے چرچ نے نوآبادیاتی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریکوں میں کردار ادا کرنا شروع کیا۔ جابرانہ حکومتوں نے چرچ کے اس روشن خیال پادریوں کو سخت سزائیں دیں۔ پوپ فرانسس چرچ کی سماجی انصاف کی تحریک سے متاثر ہوئے، مگر پوپ فرانسس نے چرچ کی بعض فرسودہ روایات کی پیروی کی اور ساری زندگی شادی نہیں کی۔ اسی طرح وہ ہمیشہ عورتوں کے استحقاق حمل کے حق کے خلاف رہے مگر بہرحال فلسطینیوں کا حامی پوپ چلا گیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مگر پوپ فرانسس لاطینی امریکا پوپ فرانسس نے پوپ فرانسس کے کرتے تھے انھوں نے کے لیے چرچ کے تھے کہ
پڑھیں:
غزہ : امداد کے متلاشی فلسطینیوں پر جان بوجھ کر گولیاں چلائیں، اسرائیلی فوجیوں کا اعتراف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تل ابیب:اسرائیلی اخبار ہارٹز نے اپنی چشم کشا تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں امریکی و اسرائیلی امدادی منصوبے غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کے مراکز پر امداد کے منتظر فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج نے جان بوجھ کر براہ راست فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں سینکڑوں فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق اسرائیلی فوج کے اہلکاروں اور افسران نے اخبار کو بتایا کہ کمانڈروں نے فوجیوں کو براہ راست فائرنگ کے احکامات دیے تاکہ امداد کے لیے جمع ہونے والے ہجوم کو منتشر کیا جا سکے چاہے وہ کسی قسم کا خطرہ نہ بھی بن رہے ہوں۔
اسرائیلی فوجیوں نے میڈیا کو بتایا کہ ہماری زبان صرف گولی ہے، ہر فلسطینی کو ہم جب چاہیں گولی مار سکتے ہیں، ہمیں یہاں تعینات کرنے کا مقصد ہی فلسطینیوں کو گولیاں مارکر ختم کرنا ہے، ہم ان لوگوں کو دشمن سمجھ کر مارتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہوتے۔
ایک اہلکار نے کہا کہ”جہاں میری تعیناتی تھی وہاں روزانہ ایک سے پانچ افراد گولیوں کا نشانہ بنتے،
ہم پر کبھی کوئی فائرنگ نہیں ہوئی، غزہ میں انسانی جان کی کوئی قدر نہیں، ہم حکم کے جو فلسطینی نظر آئے گولی مارو۔
خیال رہےکہ GHF کے مراکز کا انتظام امریکی افراد کے پاس ہے جبکہ ان مراکز کی سیکورٹی کے مختلف دائرے ہیں، اندرونِ مرکز میں امریکی اہلکار موجود ہوتے ہیں اور بیرونی حفاظتی زون: اسرائیلی فوج، ٹینک، اسنائپرز اور مارٹر توپیں ہوتیں ہیں جو فلسطینیوں پر ظلم ڈھاتیں ہیں۔
واضح رہےکہ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق 27 مئی سے اب تک 549 فلسطینی شہید اور 4,000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔