بھارت کے خلاف کامیاب سائبر حملے کے بعد پاکستانی آئی ٹی انڈسٹری کے لیے کیا مواقع ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
پاکستان کی جانب سے مبینہ طور پر بھارت پر کیے گئے کامیاب سائبر حملے کے بعد، ملکی آئی ٹی انڈسٹری کے لیے ایک نئی امید کی کرن نمودار ہوئی ہے۔ سائبر سیکیورٹی کے ماہرین اس پیش رفت کو پاکستان کے لیے اہم سنگ میل قرار دے رہے ہیں، جس کے نتیجے میں نہ صرف سائبر دفاع مضبوط ہوگا بلکہ آئی ٹی کے شعبے میں ترقی کی نئی راہیں بھی کھلیں گی۔
سائبر سیکیورٹی ایکسپرٹ حبیب اللہ خان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے بھارت پر کیے گئے کامیاب سائبر حملے کے بعد پاکستانی آئی ٹی انڈسٹری کو سیزفائر کے بعد 3 اہم فوائد حاصل ہوں گے۔
سب سے پہلے، سائبر سیکیورٹی کے شعبے کی اہمیت عوام کے سامنے واضح ہوگی اور زیادہ سے زیادہ طلباء اس شعبے کا رخ کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سائبر سیکیورٹی، جس میں ماہر انجینئرز کی شدید کمی ہے، اب زیادہ تربیت یافتہ افراد حاصل کرے گا جو اس اہم شعبے کو مستحکم کریں گے۔
حبیب اللہ نے بتایا کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ NASTP (نیشنل ایرو اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارکس) اس مقصد کے تحت قائم کیے گئے تھے کہ عوامی و نجی شراکت داری کو فروغ دیا جائے اور شہری و فضائیہ (PAF) کے درمیان مشترکہ تحقیق و جدت کی راہیں کھولی جائیں۔ سائبر حملے کی کامیاب جھلک کے بعد اب ان سیکیورٹی اسٹارٹ اپس اور پاک فضائیہ کے درمیان مزید تعاون دیکھنے کو ملے گا، جو سائبر حملے کی صلاحیتوں میں مزید جدت اور بہتری لائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی ماہرین نے بیرونِ ملک کئی سائبر سیکیورٹی کمپنیاں قائم کی ہیں، لیکن پاکستان میں اس شعبے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ ان حالیہ کامیاب سائبر حملوں اور ان کی عملی افادیت کو دیکھتے ہوئے اب پاکستان میں مزید کمپنیاں سیکیورٹی سروسز اور سائبر سیکیورٹی مصنوعات تیار کریں گی، جو دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ آئی ٹی برآمدات میں اضافہ کریں گی۔
سابق چئیرمین پاشا، محمد ذوہیب خان کا کہنا تھا کہ انڈین میڈیا کا جھوٹ پوری دنیا کے سامنے آ چکا ہے۔ اس سے یہ چیز بھی ظاہر ہوتی یے کہ یہ دوسرے دیگر شعبوں میں کتنا جھوٹ بولتے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے بھی سائبر اٹیک اور ہیکنگ کے حوالے سے اعتراف کیا گیا۔ کیونکہ پاکستان کی سائبر فوج نے جس طرح سے اپنا دفاع کیا ہے۔ اور ان کے کسی بھی ناکام اٹیک کے جواب میں جو پاکستان نے اٹیک کیا وہ اس کے 5 گنا زیادہ تھا۔
ذوہیب خان نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اپنے سائبر دفاع کی صلاحیت بخوبی رکھتا ہے اور پاکستانی سائبر فوج ضرورت پڑنے پر دشمن کو فوری اور بھرپور جواب دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔
اس صورتحال نے دنیا کو یہ باور کروا دیا ہے کہ پاکستان میں سائبر ماہرین کس قدر اعلیٰ معیار کے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت (AI) کی مانگ بڑھ رہی ہے، اسی طرح سائبر سیکیورٹی کی اہمیت بھی بڑھتی جا رہی ہے اور اس میدان میں پاکستانی ٹیلنٹ نمایاں ہو رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ پاکستان اب کسی بھی ملک کے سرکاری یا غیر سرکاری سیکٹر کو بہترین سائبر دفاع فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح پاکستان دیگر شعبوں میں عالمی سطح پر تربیت فراہم کر رہا ہے۔ قوی امید ہے کہ مستقبل میں سائبر سیکیورٹی کی تربیت کے لیے بھی پاکستان سے درخواستیں موصول ہوں گی۔
ذوہیب خان نے یقین ظاہر کیا کہ اس پیش رفت کے بعد پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کو مزید تقویت ملے گی۔ پاکستان پہلے ہی مصنوعی ذہانت، سائبر سیکیورٹی، گیمنگ اور ڈیجیٹل تبدیلی جیسے شعبوں میں ترقی کر رہا ہے اور مستقبل میں یہ پیشرفت مزید تیز ہوگی۔
آئی ٹی ماہر طاہر عمر کا کہنا تھا کہ بظاہر سائبر حملوں اور جنگ بندی کا فوری اور واضح اثر دکھائی نہیں دیتا، لیکن مجموعی طور پر پاکستان کی کارکردگی ، خواہ وہ سائبر سیکیورٹی کے میدان میں ہو یا دفاعی لحاظ سے، نے عالمی سطح پر ایک مثبت تاثر ضرور پیدا کیا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ ماضی میں اکثر یہ کہا جاتا تھا کہ پاکستان انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھارت سے بہت پیچھے ہے۔ اس تناظر میں، موجودہ صورتحال سے فوری طور پر کوئی بڑا مالی یا تزویراتی فائدہ یا نقصان تو شاید نہ ہو، لیکن اس سے دنیا بھر کے لوگ یہ ضرور تسلیم کریں گے کہ پاکستان سائبر اسپیس میں بھی بھارت کی نسبت ایک خاص مہارت اور صلاحیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پیش رفت پاکستان کے لیے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ نہ صرف ملکی دفاع کو مضبوط کرنے میں معاون ثابت ہوگی بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ اور اہمیت میں بھی اضافہ کرے گی۔ سائبر سیکیورٹی میں مہارت کا مظاہرہ دنیا کو یہ پیغام دے گا کہ پاکستان جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی کسی سے کم نہیں اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر طرح کی صلاحیت رکھتا ہے۔
طاہر عمر کہتے ہیں کہ اس مثبت تاثر سے مستقبل میں پاکستان کے لیے بین الاقوامی تعاون اور شراکت داری کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں، خاص طور پر ٹیکنالوجی اور دفاع کے شعبوں میں۔ یہ ایک وہ انقلاب ہے جو پاکستان کی عالمی شناخت کو ایک نیا اور مضبوط رخ دے رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاک بھارت جنگ پاکستان سائبر سیکیورٹی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاک بھارت جنگ پاکستان سائبر سیکیورٹی انہوں نے کہا کہ سائبر سیکیورٹی آئی ٹی انڈسٹری کامیاب سائبر سائبر حملے پاکستان کی کہ پاکستان کی صلاحیت رکھتا ہے پیش رفت تھا کہ رہا ہے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
ہندوتوا کی آگ میں جلتا بھارت سیکولر ازم کا جنازہ
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
بھارت آج نریندر مودی کی قیادت میں انتہا پسندی، فرقہ واریت اور نفرت کے ایک ایسے دائرے میں داخل ہو چکا ہے ، جس سے واپسی اب مشکل دکھائی دیتی ہے ۔ مودی سرکار کی ”ہندوتوا” پالیسی نے نہ صرف بھارت کے سیکولر آئین کو کمزور کیا ہے بلکہ اس کے جمہوری اور انسانی حقوق کے بنیادی ڈھانچے کو بھی منہدم کر دیا ہے ۔ ”ایک قوم، ایک مذہب”کا نعرہ دراصل بھارت کے اندر ایک مخصوص طبقے ، ہندو بالادست گروہ کی حکمرانی کا اعلان ہے ، جس کے نتیجے میں اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری میں تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ گزشتہ برسوں میں ہندو مذہبی رہنماؤں کی نفرت انگیز تقاریر، عسکری اداروں کی انتہا پسند تنظیموں سے قربت، اور سیاسی قیادت کی خاموش تائید نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہندوتوا اب صرف ایک نظریہ نہیں بلکہ بھارت کی ریاستی پالیسی بن چکی ہے ۔گزشتہ چند برسوں کے واقعات اس تبدیلی کے ناقابلِ تردید ثبوت ہیں۔ مختلف شہروں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جلوس، مساجد پر حملے ، اور سوشل میڈیا پر پھیلتی ہوئی نفرت انگیز مہمات نے بھارتی سماج کے چہرے سے جمہوریت کا نقاب اتار دیا ہے ۔ ”اسلام کو دنیا سے مٹانے ” یا ”مسلمانوں کو جڑ سے اکھاڑنے ” جیسے بیانات محض انتہا پسندوں کی زبان سے نہیں بلکہ اب سیاسی جلسوں میں حکومتی رہنماؤں کے بیانات کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ طرزِ فکر نہ صرف بھارت کے معاشرتی اور سماجی نظام کو تباہ کر رہا ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے امن کے لیے بھی سنگین خطرہ بن چکا ہے ۔بی جے پی اور آر ایس ایس کے نظریات اسی ہندوتوا فلسفے کی بنیاد پر قائم ہیں۔آر ایس ایس کے بانی ہیڈگیوار اور گولوالکر نے بیسویں صدی کے اوائل میں جو فکری بیج بویا، وہ آج نریندر مودی کی حکومت میں مکمل درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ آج نریندر مودی، امیت شاہ، یوگی آدتیہ ناتھ اور بی جے پی کی پوری قیادت انہی دونوں کے نظریات کو عملی جامہ پہنا رہی ہے ۔ان کے نزدیک بھارت ایک ”ہندو راشٹر” ہے ، جہاں دیگر مذاہب صرف اسی وقت برداشت کیے جا سکتے ہیں جب وہ ہندو تہذیب کے تابع رہیں۔ نریندر مودی، جو خود آر ایس ایس کا تربیت یافتہ کارکن ہے ، اسی سوچ کو عملی جامہ پہنا رہا ہے ۔ اس کی حکومت کے اقدامات جیسے آرٹیکل 370 کی منسوخی، این آر سی اور سی اے اے جیسے امتیازی قوانین، اور مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر پالیسی، سب اسی ذہنیت کے مظاہر ہیں۔ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، جو ”ہندو یووا واہنی”کا بانی ہے ، سناتن دھرم کے غلبے کی بات کھلے عام کرتا ہے ، جس سے مذہب و ریاست کی لکیر مکمل طور پر مٹ چکی ہے ۔گجرات 2002 کے فسادات سے لے کر دہلی 2020 اور منی پور 2023 کے واقعات تک، مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد مودی کے دورِ حکومت کی پہچان بن چکا ہے ۔ گائے کے نام پر ہجوم کے ہاتھوں بے گناہ مسلمانوں کا قتل، حجاب پر پابندی، مساجد کی بے حرمتی، اور مسلمانوں کے مکانات کو بلڈوزر سے مسمار کرنا ریاستی سرپرستی میں ہونے والے مظالم ہیں۔ اس ظلم پر عدلیہ اور پولیس کی خاموشی بھارت کے عدالتی نظام پر سوالیہ نشان ہے ۔مودی حکومت کے زیرِ سایہ میڈیا کا کردار بھی افسوسناک حد تک جانبدار ہو چکا ہے ۔ قومی سطح کے بیشتر ٹی وی چینل اور اخبارات حکومت کے پروپیگنڈا آلہ کار میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہمات چلانا، انہیں ”ملک دشمن” یا ”دہشت گرد” قرار دینا عام معمول بن چکا ہے ۔ عوامی شعور کو مسخ کیا جا رہا ہے تاکہ اکثریتی طبقہ اقلیتوں کے خلاف مزید مشتعل ہو۔ اسی طرح تعلیمی اداروں میں نصاب کی تبدیلی کے ذریعے مسلمانوں کی علمی و تاریخی خدمات کو حذف یا منفی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے ۔ تاریخ کے حقائق مسخ کر کے نوجوان نسل کے ذہن میں ہندوتوا کا بیج بویا جا رہا ہے ۔جمہوری معاشروں میں عدلیہ، میڈیا اور پولیس وہ ستون ہوتے ہیں جو ظلم و جبر کے خلاف عوام کا دفاع کرتے ہیں، مگر بھارت میں یہ تینوں ادارے ہندوتوا کے زیرِ اثر ہیں۔ جب مسلمانوں پر حملے ہوتے ہیں تو پولیس خاموش رہتی ہے یا مظلوموں پر ہی مقدمے قائم کر دیتی ہے ۔ عدالتیں برسوں تک فیصلے نہیں سناتیں یا حکومت کے مؤقف کے حق میں فیصلے دے دیتی ہیں۔ اس صورتحال نے بھارتی جمہوریت کے ڈھانچے کو کھوکھلا کر دیا ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ عالمی برادری خصوصاً مغربی ممالک، جو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار سمجھتے ہیں، بھارت کے مظالم پر خاموش ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین نے بھارت کی تین اعشاریہ سات کھرب امریکی ڈالر کی منڈی کے سامنے انسانی اقدار قربان کر دی ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹس میں بارہا واضح کیا گیا کہ بھارت میں اقلیتوں کے بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں، مگر عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے ۔ اس خاموشی نے مودی حکومت کو مزید شہ دی ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کو بلاخوف و خطر جاری رکھے۔
ہندوتوا کی یہ آگ صرف بھارت کے اندر محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے خطے کے امن کو لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔ جب کسی ریاست میں مذہب کو سیاست کا ہتھیار بنا دیا جاتا ہے تو اس کے اثرات سرحدوں سے آگے پھیل جاتے ہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا جیسے ہمسایہ ممالک بھی اس انتہا پسندی کے اثر سے محفوظ نہیں رہیں گے ۔ بھارت کے اندر کئی دانشور، طلبہ اور سول سوسائٹی کے افراد ہندوتوا کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، مگر انہیں ”غدار” اور ”ملک دشمن” قرار دے کر جیلوں میں بند کر دیا جاتا ہے ۔
”نیا بھارت” دراصل نفرت، تشدد اور تعصب کی نئی شناخت بن چکا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے ظلم کو ریاستی پالیسی بنا لیا، اس کا انجام زوال اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوا۔ نریندر مودی اور اس کے انتہا پسند رفقا اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اقلیتوں کو دباکر بھارت مضبوط ہو جائے گا، تو یہ ان کی سنگین غلط فہمی ہے ۔ ظلم وقتی طور پر طاقتور دکھائی دیتا ہے مگر اس کی بنیاد کمزور ہوتی ہے ۔ اگر بھارت کو واقعی ایک مستحکم، ترقی یافتہ اور پرامن ملک بننا ہے تو اسے اپنے سیکولر آئین کی روح کو بحال کرنا ہوگا۔ مذہب کو ریاستی امور سے الگ رکھنا، اقلیتوں کو مساوی شہری حیثیت دینا، میڈیا کو آزاد کرنا، اور عدلیہ کو دباؤ سے نکالنا ہی وہ راستے ہیں جن پر چل کر بھارت اپنا بکھرتا ہوا جمہوری چہرہ دوبارہ سنوار سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔