UrduPoint:
2025-11-12@10:03:02 GMT

بھارت اور پاکستان میں اب ایک نئی سفارتی جنگ

اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT

بھارت اور پاکستان میں اب ایک نئی سفارتی جنگ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 مئی 2025ء) منگل کو بھارتی حکومت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک سفارت کار کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر انہیں 24 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ اس کے چند گھنٹے بعد ہی پاکستان نے بھی اسی طرح کی کارروائی کرتے ہوئے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے عملے کے ایک رکن کو ناپسندیدہ قرار دیا اور انہیں 24 گھنٹوں کے اندر وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا۔

کشمیر: پاکستان کے خلاف بھارتی اقدامات اور اسلام آباد کی جوابی کارروائی کی دھمکی

یہ اقدام حالیہ فوجی تصادم اور امریکہ کے دباؤ میں دونوں ملکوں کے درمیان فائربندی کے بعد سامنے آیا ہے۔ جس کے بعد دونوں دیرینہ حریفوں کے درمیان ایک نیا سفارتی تعطل پیدا ہو گیا ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان کا بیان

پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق، حکومتِ پاکستان نے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے ایک عملے کے رکن کو ناپسندیدہ شخص قرار دے دیا ہے، "مذکورہ سفارتکار ایسی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا جو سفارتی کردار، قوانین اور بین الاقوامی سفارتی آداب کے خلاف ہیں۔

"

بیان میں کہا گیا ہےکہ بھارتی ناظم الامور کو آج وزارت خارجہ طلب کیا گیا، جہاں انہیں اس فیصلے سے متعلق باضابطہ احتجاجی مراسلہ دیا گیا۔

بھارتی خطرے کا مقابلہ ’سخت جوابی اقدامات‘ سے کیا جائے گا، پاکستان

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے بھارتی ہائی کمیشن کے اہلکار کو 24 گھنٹوں کے اندر پاکستان چھوڑنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔

بھارتی حکومت کا فیصلہ

اس سے قبل، بھارتی حکومت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں تعینات ایک پاکستانی اہلکار کو شخصی طور پر ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے ان پر "سرکاری حیثیت کے برخلاف سرگرمیوں" میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔

بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق "متعلقہ پاکستانی اہلکار ایسی سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے جو اس کی سفارتی حیثیت سے مطابقت نہیں رکھتی۔

" بیان میں الزامات کی نوعیت کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

پہلگام حملے کے بعد بھارتی اور پاکستانی رہنماؤں کی لفظی جنگ جاری

منگل کو بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستانی اہلکار کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا اور انہیں 24 گھنٹوں میں بھارت چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

جنگ بندی جاری

دونوں ملکوں کی جانب سے ایک دوسرے کے سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا یہ فیصلہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنگ بندی کے اعلان کے بعد پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کے پہلے دور کے مذاکرات کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔

بات چیت کے دوران دونوں اطراف کے ڈی جی ایم اوز نے ایک بھی گولی چلانے یا ایک دوسرے کے خلاف کوئی جارحانہ کارروائی شروع نہ کرنے پر اتفاق کیا۔

پاکستان اور بھارت کی فوجی قوت ایک نظر میں

بھارت اور پاکستان کے درمیان 10 مئی کو ایک مکمل اور فوری فائر بندی کا اعلان کئی دنوں تک جاری رہنے والے فوجی جھڑپوں کے بعد کیا گیا جس نے دونوں جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔

خیال رہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے پہلگام میں 22 اپریل کو ایک حملے کے بعد، جس میں 26 سیاح ہلاک ہوئے، دونوں ملکوں میں کشیدگی پھیل گئی۔

بھارت نے اس حملے کا الزم پاکستان سے سرگرم دہشت گرد عناصر پر لگایا لیکن اسلام آباد نے ان الزامات کو مسترد کردیا۔ت

ادارت: صلاح الدین زین

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ہائی کمیشن کے اسلام آباد میں بھارت کے ایک گیا ہے کے بعد

پڑھیں:

مقبوضہ کشمیر، بھارت کی نئی حکمت عملی، کشمیری ڈاکٹروں پر من گھڑت الزام

بھارتی حکومت کا یہ اقدام بہار کے انتخابات میں کامیابی کے لئے کشمیریوں کو قربانی کا بکرا بنانے کی ایک چال ہو سکتی ہے اور اس کے لیے کشمیری ڈاکٹروں جیسے اعلیٰ دماغوں پر ہاتھ ڈالنا ناگزیر سمجھا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی ظلم و جبر کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، اور حالیہ دنوں میں سینکڑوں کشمیریوں کو گرفتار کر کے تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کے الزام میں جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مودی حکومت نے اپنے ظلم کا رخ اب انسانیت کی خدمت کرنے والے ڈاکٹروں کی طرف موڑ دیا ہے اور محض من گھڑت الزامات کے تحت چار ڈاکٹر بھی گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ سب سے پہلے ڈاکٹر عدیل احمد کو بھارتی شہر سہارنپور سے گرفتار کیا گیا، جہاں وہ ایک نجی ادارے میں کام کر رہے تھے۔ ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے ایک سال تک ہسپتال میں رائفل رکھی تھی، حالانکہ وہ گزشتہ سال ہی اس ادارے کو چھوڑ چکے تھے۔ اسی طرح، یوپی پولیس نے ڈاکٹر عدیل پر دباؤ ڈالا اور اس کے بعد فرید آباد دہلی سے ڈاکٹر مزمل شکیل کو حراست میں لیا۔ ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے کرائے پر ایک کمرہ لیا تھا جہاں سے 2900 کلوگرام دھماکا خیز مواد، رائفلیں، ٹائمرز اور بیٹریاں برآمد کی گئیں۔ تاہم فرید آباد کے پولیس کمشنر کمار گپتا نے اپنے ہی پولیس افسران کے دعووں کو مسترد کر دیا، جب انہوں نے کہا کہ ضبط شدہ رائفلیں AK-47 نہیں تھیں، جس سے پولیس کے دعوے کا پول کھل گیا۔

اس کے علاوہ، فرید آباد سے خاتون ڈاکٹر شاہین شاہد کو بھی گرفتار کیا گیا، جن کا تعلق لال باغ، لکھنؤ سے تھا۔ بھارتی حکام نے ان کا تعلق ڈاکٹر مزمل سے جوڑنے کی کوشش کی۔ اسی طرح ڈاکٹر احمد محی الدین سید کو گجرات سے گرفتار کیا گیا اور ان پر کیمیائی حملے کی تیاری کا الزام لگایا گیا۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت کشمیری ڈاکٹروں کو دہشت گرد بنانے کی سازش کر رہا ہے؟ ان کی گرفتاریاں کیوں کی جا رہی ہیں؟ محض من گھڑت الزامات کے تحت ڈاکٹروں پر ہاتھ ڈالنا کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ ڈاکٹر کسی بھی معاشرے کا ایک معزز اور قابل احترام طبقہ ہوتے ہیں اور ان کا کام انسانیت کی خدمت کرنا ہوتا ہے۔ پھر ایسی صورتحال میں ان پر بے بنیاد الزامات عائد کر کے گرفتاریاں کرنا ایک سنگین سوال پیدا کرتا ہے۔

یاد رہے کہ بھارتی حکمرانوں نے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیر آئینی اقدامات اٹھاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اب یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی مگر دودھ اور شہد تو نہیں آیا، بلکہ اب انسانیت کی خدمت کرنے والوں پر ظلم کی انتہائیں کی جا رہی ہیں۔ یہ تمام اقدامات مودی حکومت کے جنگی جنون اور کشمیری عوام کی آواز کو دبانے کے لئے ہیں۔ کشمیری ڈاکٹروں پر ہاتھ ڈالنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں بھی کئی کشمیری ڈاکٹروں کو اسی طرح کے بے بنیاد الزامات میں گرفتار کر کے بھارتی جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔ حالیہ برسوں میں کشمیری ڈاکٹروں کی گرفتاریاں تیز ہو گئی ہیں اور بھارتی فوجیوں اور پولیس کی جھوٹے الزامات کی بنیاد پر کارروائیاں سوالات اٹھاتی ہیں، کیا یہ محض اتفاق ہے یا بھارت کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے؟
مقبوضہ جموں و کشمیر دنیا کا واحد ایسا خطہ ہے، جہاں بھارتی فوجی ڈاکٹروں جیسے پیشہ ور افراد پر ہاتھ ڈالتے ہیں اور انہیں دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس کے بعد ان گرفتاریوں کو بھارتی میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈے کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر عدیل احمد کی گرفتاری ایک ایسا کیس ہے جس سے بھارتی دعوے مزید مشکوک ہو گئے ہیں۔ ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے ایک پوسٹر چسپان کیا تھا جس پر دکانداروں کو بھارتی ایجنسیوں سے تعاون نہ کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر عدیل کو کسی عسکری تنظیم سے جوڑا جا رہا ہے، مگر ان کے خلاف کوئی ٹھوس یا مستند ثبوت نہیں ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر سے لے کر بھارتی ریاستوں میں کام کرنے والے کشمیری ڈاکٹروں کی گرفتاریوں کا عمل صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک نئے اور خطرناک سیاسی منظرنامے کی طرف اشارہ بھی کرتا ہے۔

بھارت، جو اپنے اندرونی مسائل سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے ہمیشہ نئی حکمت عملیوں پر عمل پیرا رہتا ہے، اب پوری کشمیری قوم کو دہشت گردی سے جوڑ کر بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت اپنے اقتدار کی طاقت کے ذریعے کشمیریوں کے مسلمہ حقِ خودارادیت کو دینے سے مسلسل انکار کر رہا ہے، جو کہ گزشتہ 78 برسوں سے اہل کشمیر کی جدوجہد کا مقصد ہے۔ بھارتی حکومتی اقدامات میں ایک اور نیا پہلو اس وقت سامنے آیا جب کشمیری ڈاکٹروں کی گرفتاریوں اور ان پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے کے بعد بھارتی میڈیا نے ان گرفتاریوں کو پاکستان کے ساتھ جوڑنا شروع کر دیا۔ یہ سب کچھ دراصل بھارتی حکومت کی سیاست کا حصہ بن چکا ہے، جس میں گودی میڈیا نے پروپیگنڈے کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔

بھارتی حکومت کا یہ اقدام بہار کے انتخابات میں کامیابی کے لئے کشمیریوں کو قربانی کا بکرا بنانے کی ایک چال ہو سکتی ہے اور اس کے لیے کشمیری ڈاکٹروں جیسے اعلیٰ دماغوں پر ہاتھ ڈالنا ناگزیر سمجھا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنے اندرونی بحرانوں اور ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان کو بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم ان کی یہ حکمت عملی بھی انہیں ناکامی اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں دے گی، جیسا کہ ماضی میں بھی بھارت کو اس طرح کی بے بنیاد کوششوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ طاس معاہدہ؛ پاکستان نے عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے کا نوٹس لے لیا
  • سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی: پاکستان کا ثالثی عدالت اور غیر جانب دار ماہر کے فیصلوں کا خیر مقدم
  • مقبوضہ کشمیر، بھارت کی نئی حکمت عملی، کشمیری ڈاکٹروں پر من گھڑت الزام
  • بھارت کے ساتھ نیا تجارتی معاہدہ دونوں ملکوں کے لیے تاریخی ہوگا، ٹرمپ کا اعلان
  • ریاست جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق
  • بابا گورو نانک کے جنم دن کی تقریبات کا آخری روز، بھارت نے راہداری نہ کھولی
  • پاکستان سے جنگ نہ کرنا، بھارت کو انتباہ
  • ریاست جوناگڑھ پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو 78 برس مکمل
  • استنبول مذاکرات، پاکستان کا موقف تعصب سے بالاتر اور حقائق پر مبنی تھا، ذرائع
  • استنبول مذاکرات پر غیرجانبدار ممالک نے پاکستان کے موقف کی تائید کی، سفارتی ذرائع