پانی میں رہنے کے بعد ہاتھوں میں بننے والی جھریوں سے متعلق سائنسدانوں کا حیران کن انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
اگر آپ کچھ وقت تک اپنے ہاتھوں اور پیروں کو پانی میں ڈبو کر رکھیں تو ان پر عجیب جھریاں نمودار ہو جاتی ہیں۔
یعنی ہاتھوں اور پیروں کی ہموار سطح پر عجیب سے لکیریں ابھر آتی ہیں جو کچھ افراد کو بدنما محسوس ہوتی ہیں۔
مگر اب ان جھریوں اور انگلیوں کے بارے میں سائنسدانوں کچھ حیران کن دریافت کیا ہے۔
سائنسدانوں کا پہلے خیال تھا کہ پانی جِلد کی اوپری تہوں سے گزر کر معمولی سوجن کا باعث بنتا ہے، یہ سوجن بعد میں جِلد پر جھریوں کا باعث بنتی ہے۔
مگر اب یہ معلوم ہوچکا ہے کہ ایسا ممکنہ طور پر خون کی شریانیں سکڑنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
جب آپ ہاتھوں یا پیروں کو پانی میں ڈبوتے ہیں تو اعصابی نظام خون کی شریانوں کو سکڑنے کا پیغام بھیجتا ہے۔
اس پیغام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جسم ان حصوں کے لیے خون کی فراہمی کم کردیتا ہے جس سے شریانیں سکڑ جاتی ہیں، جِلد ان کے گرد مڑ جاتی ہے جس سے جھریاں بن جاتی ہیں۔
اب نئی تحقیق میں شامل امریکا کی Binghamton یونیورسٹی کے ماہرین نے بتایا کہ مختلف افعال جیسے سانس لینے، پلک جھپکنے، دل دھڑکنے یا سورج کی روشنی میں آنکھوں کی پتلیاں سکڑنے وغیرہ کے لیے ہمیں شعوری کنٹرول کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہ خودکار اعصابی نظام کی بدولت ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایسا ہی پانی میں ہاتھ پیر کچھ دیر رکھنے سے جھریوں کی شکل میں ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شریانیں سکڑنے سے بننے والی جھریوں کے دوران جِلد کے پسینہ خارج کرنے والے مسام کھل جاتے ہیں اور پانی جِلد کے ٹشوز میں آسانی سے بہنے لگتا ہے اور جسم کے اندر نمکیات کی سطح گھٹ جاتی ہے۔
ان محققین سے ایک طالبعلم نے سوال کیا تھا کہ آخر جھریوں کا پیٹرن ہمیشہ ایک جیسا کیوں ہوتا ہے اور اسی کا جواب جاننے کے لیے نئی تحقیق پر کام کیا گیا۔
تحقیق میں شامل افراد کے ہاتھوں کو 30 منٹ تک پانی میں ڈبو کر رکھا گیا اور پھر ہاتھوں کی تصاویر لی گئیں، پھر یہی عمل 24 گھنٹے بعد دہرایا گیا، جس کے بعد پیٹرن کا موازنہ کیا گیا۔
تحقیق میں انکشاف ہوا کہ پانی میں ہاتھوں کے رہنے سے بننے والی جھریوں کا پیٹرن یکساں ہوتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ بار بار وہی پیٹرن سامنے آتا ہے۔
تحقیق کے مطابق اس کا ممکنہ جواب یہ ہے کہ ہاتھوں میں موجود خون کی شریانیں معمولی حرکت کرتی ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ درحقیقت جسم کی دیگر شریانوں کے مقابلے میں ہاتھوں کی شریانیں زیادہ ساکت ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہاتھ میں ڈبونے سے ہمیشہ ایک ہی انداز کی جھریاں بنتی ہیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پانی میں ہوتا ہے خون کی
پڑھیں:
جرمن شہری روزانہ 10 گھنٹے سے زائد بیٹھے رہنے کے عادی، صحت پر تشویشناک اثرات
جرمنی میں شہریوں کی جسمانی سرگرمی میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے اور ایک تازہ تحقیق کے مطابق ہر جرمن شہری ایک عام ورکنگ ڈے میں اوسطاً 10 گھنٹے 13 منٹ بیٹھ کر گزارتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جرمن اولمپیئن لارا ڈاہل مائر پاکستان میں کوہ پیمائی کے دوران جان گنوا بیٹھیں، انوکھی وصیت کیا تھی؟
ڈی ڈبلیو کے مطابق یہ شرح گزشتہ 10 برسوں کے مقابلے میں تقریباً 2 گھنٹے زیادہ ہے۔ نجی ہیلتھ انشورنس کمپنی ’ڈی کے وی‘ کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ میں اس صورتحال کو ایک ’تشویشناک ریکارڈ‘ قرار دیا گیا ہے۔
یہ تحقیق کولون کے ادارے ’ڈوئچے اشپورٹ ہوخ شولے‘ اور ’یونیورسٹی آف وُرسبرگ‘ کے اشتراک سے 2025 میں تیار کی گئی، جس میں جرمن شہریوں کی صحت سے متعلق عادات کا 8 ویں بار جائزہ لیا گیا۔ سروے 11 فروری سے 17 مارچ کے درمیان کیا گیا، جس میں 2800 سے زائد افراد سے ان کی خوراک، جسمانی سرگرمی، شراب نوشی، تمباکو نوشی، ذہنی دباؤ اور بیٹھنے کے وقت سے متعلق سوالات کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق شہری اوسطاً ساڑھے 3 گھنٹے کام کی جگہ پر، ڈھائی گھنٹے ٹیلی ویژن کے سامنے اور ڈیڑھ گھنٹہ کمپیوٹر یا ٹیبلٹ استعمال کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ صرف 30 فیصد افراد ایسے ہیں جو زیادہ بیٹھنے کے اثرات کو مناسب جسمانی سرگرمی سے متوازن کرتے ہیں جبکہ مجموعی طور پر 68 فیصد لوگ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی تجویز کردہ بنیادی جسمانی سرگرمیوں پر عمل کرتے ہیں۔
تاہم، ہفتے میں 2 بار پٹھوں کی مشق صرف 34 فیصد افراد کرتے ہیں اور برداشت و پٹھوں کی مشترکہ سرگرمیاں صرف 32 فیصد افراد کے معمولات میں شامل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 80 فیصد جرمن شہری تمباکو اور ای-سگریٹ سے مکمل پرہیز کرتے ہیں جبکہ 29 فیصد افراد شراب نوشی سے مکمل اجتناب کرتے ہیں۔ غذائی اصولوں پر پوری طرح عمل کرنے والوں کی شرح صرف 34 فیصد ہے جن میں وہ افراد شامل ہیں جو پھل، سبزیاں، اناج، گری دار میوے اور کم گوشت والی غذا کو ترجیح دیتے ہیں۔
مزید پڑھیے: جرمنی میں اعلیٰ معیاری تعلیم کے 10 پرکشش شعبے کون سے ہیں؟
تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ نوجوان بالغ افراد شراب نوشی سے دوری میں نسبتاً بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں جبکہ بزرگ افراد غذائیت اور ذہنی دباؤ کو نسبتاً بہتر انداز میں سنبھالتے ہیں۔ تاہم روزمرہ کے اسٹریس سے صحت مند انداز میں نمٹنے والے افراد کی شرح تمام عمر کے گروہوں میں صرف 20 فیصد ہے جو سنہ 2021 کے بعد سے اب تک کی کم ترین سطح ہے۔
مزید پڑھیں: کیا موٹاپا، ذیابیطس اور سگریٹ نوشی ڈیمنشیا کی وجہ بن سکتے ہیں؟
رپورٹ کا سب سے اہم انکشاف یہ ہے کہ مکمل طور پر صحت مند طرزِ زندگی اپنانے والے جرمن شہریوں کی شرح محض 2 فیصد ہے۔ اس میں بھی خواتین 3 فیصد جبکہ مرد صرف ایک فیصد اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ تعلیم بھی ایک اہم عنصر کے طور پر سامنے آئی، جہاں یونیورسٹی ڈگری رکھنے والے افراد میں 5 فیصد مکمل صحت مند طرز زندگی اپناتے ہیں جبکہ صرف ہائی اسکول مکمل کرنے والے افراد میں یہ شرح صفر اور کالج جانے والوں میں صرف ایک فیصد رہی۔
یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی صحت مند طرز زندگی اپنانا ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں