ٹارگٹڈ منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی، گلبر خان
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے کہا کہ ناقص منصوبہ بندی اور محکمہ برقیات کے آفیسران کی عدم دلچسپی کی وجہ سے پاور کے بیشتر منصوبے التواء کا شکار ہوئے ہیں، محکمے کی جانب سے منصوبوں کی تکمیل کے حوالے سے دیئے جانے والے ٹائم لائنز پر ہر صورت عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان کی زیر صدارت محکمہ برقیات کی سٹیئرنگ کمیٹی کے منعقدہ اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی اور اے ڈی پی کے ٹارگٹڈ منصوبوں کیلئے مقررہ ٹائم لائنز پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں متعلقہ آفیسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔ ناقص منصوبہ بندی اور محکمہ برقیات کے آفیسران کی عدم دلچسپی کی وجہ سے پاور کے بیشتر منصوبے التواء کا شکار ہوئے ہیں، محکمے کی جانب سے منصوبوں کی تکمیل کے حوالے سے دیئے جانے والے ٹائم لائنز پر ہر صورت عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے، ٹارگٹڈ منصوبوں کی تکمیل میں مزید تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔ سکردو میں بجلی کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔ وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے اعلان کردہ سولر پاور پروجیکٹ کا آغاز سکردو سے کیا جائے۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے صوبائی سیکریٹری برقیات کو ہدایت کی کہ جو منصوبے ٹھیکیداروں کے کام نہ کرنے کی وجہ سے التواء کا شکار ہیں، ان ٹھیکیداروں کے خلاف بغیر کسی رعایت کے سخت کارروائی کا آغاز کیا جائے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ صوبائی حکومت کے خصوصی اقدامات کی وجہ سے پاور کے زیر التواء بیشتر منصوبے مکمل ہوئے ہیں جن کی وجہ سے سسٹم میں اضافی بجلی شامل ہوئی ہے۔ گزشتہ سال گلگت میں گرمیوں کے موسم میں 5 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جاتی تھی اس سال محکمے کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ لوڈشیڈنگ پر قابو پایا جائے گا۔ صوبائی سیکریٹری برقیات نے محکمہ برقیات کے ٹارگٹڈ منصوبوں کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بگروٹ ہمارن 3.
26میگاواٹ شغرتھنگ پاور پروجیکٹ کو مقررہ مدت میں مکمل کرنے کیلئے حکمت عملی مرتب کی گئی ہے۔ ہنزل پاور پروجیکٹ میں غیر ضروری تاخیر سے بچنے کیلئے متعلقہ کمپنی کو معاہدے کے تحت کام شروع کرنے کے احکامات دیئے تھے جس میں تاخیر کی وجہ سے فیصلہ کیا ہے کہ متعلقہ کمپنی کو نوٹس جاری کیا جائے گا۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی جانب سے چیئرمین ریفارمز کمیٹی و ممبر اسمبلی امجد حسین ایڈووکیٹ کی سربراہی میں متاثرین 18میگاواٹ پاور پروجیکٹ نلتر کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کیلئے قائم کمیٹی کی سفارشات پیش کی گئی جس کے مطابق 2019ء میں صوبائی سیکریٹری وحید شاہ کی سربراہی میں قائم کمیٹی کے سفارشات پر عملدرآمد کی سفارش کی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے اس موقع پر متاثرین 18 میگاواٹ نلتر پاور پروجیکٹ کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے آئندہ مالی سال کے اے ڈی پی میں کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں منصوبہ شامل کرنے کے احکامات دیئے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: منصوبوں کی تکمیل ٹارگٹڈ منصوبوں محکمہ برقیات کی جانب سے وزیر اعلی کی وجہ سے کیا جائے کا آغاز کرنے کی جائے گا کہا کہ
پڑھیں:
کس مرض کی دوا ہیں؟
ملک بھر میں رہائشی مسائل انتہائی گمبھیر صورتحال اختیار کر چکے ہیں مگر کنالوں اور ایکڑوں زمین پر بنے سرکاری پرتعیش بنگلوں، عالی شان کوٹھیوں اور وسیع و عریض ہاؤسوں میں رہنے والوں کو کیا فکر اور وہ فکر بھی کریں کیوں انھیں عارضی اور مستقل رہائش گاہیں میسر اور خدمت کے لیے سرکاری مراعات ملی ہوئی ہیں۔
عارضی سرکاری اورکنالوں میں پھیلے ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس، بڑے بڑے گورنر ہاؤسز، وزرائے اعلیٰ اور وزیروں کو اقتدار میں آنے کے بعد وہ تمام رہائشی سہولیات سرکاری طور پر مل جاتی ہیں جن کا عام آدمی تو کیا متوسط طبقہ بھی تصور نہیں کر سکتا۔ ایسی جگہوں کے تو قریب سے گزرنے کا ملک کی اکثریتی آبادی تصور بھی نہیں کر سکتی۔
وقت ضرورت اپنے کاموں کے لیے حکمرانوں کے دفاتر اور بڑے محکموں کے سرکاری دفاتر میں آنے کے لیے بھی انھیں مشکل سے شناختی کارڈ گروی رکھنے کے بعد داخلے کی اجازت ملتی ہے اور سیکیورٹی اداروں کے دفاتر پولیس ہیڈ آفسز اور اعلیٰ پولیس افسران، سیکریٹریوں، کمشنرز و ڈپٹی کمشنرز کی رہائش گاہوں سے تو غریب کیا متوسط طبقے کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا مگر اعلیٰ سرکاری افسروں کے دفاتر کے باہر ہی انھیں سیکیورٹی والوں کے پاس شناخت کرا کر اور اپنے کام کی تفصیل جان کر ہی داخلے کی اجازت ملتی ہے، اتنی سختی کی وجوہات دہشت گردی قرار دی جاتی ہے مگر جو اصل دہشت گرد ہوتے ہیں انھیں جو ٹاسک سونپا جاتا ہے اس کی تکمیل کے لیے گمراہ ہو کر اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر وہ کسی نہ کسی طرح اندر داخل ہو کر دہشت گردی کر جاتے ہیں اور ان کی راہ میں سیکیورٹی اہلکار تو کیا وہاں لگے آہنی گیٹ اور مضبوط دیواریں بھی رکاوٹ نہیں بنتیں وہ سب کو پھلانگ کر داخل ہو کر کام دکھا جاتے ہیں جس کو سرکاری سیکیورٹی فیلیئر قرار دیا جاتا ہے۔
ملک بھر میں انگریز حکمرانوں نے اپنی حفاظت اور رہائش کے لیے وسیع و عریض رہائش گاہیں بنائی تھیں جو ان کے جانے کے بعد گورنر ہاؤس بنا دیے گئے اور جو دیگر افسروں کی جگہیں تھیں وہ کمشنر ہاؤس، ڈی سی ہاؤس اور اعلیٰ بیورو کریٹس اور اعلیٰ پولیس افسران کی سرکاری رہائش گاہوں میں تبدیل کر دی گئیں جو ان کی مستقل اور ایسی جگہیں ہیں جو بعد میں آنے والوں کو ملتی رہتی ہیں اور ہر سال ان کی مرمت و تزئین و آرائش پر سرکاری رقوم خرچ کی جاتی ہیں جس سے وہاں آنے جانے والوں کی جیبوں پر خرچہ نہیں آتا اور انھیں ساری سہولتیں سرکاری طور ملتی ہیں۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین نے اقتدار میں آنے سے قبل عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بڑے بڑے خوشنما دعوے کیے تھے کہ بڑے بڑے گورنر ہاؤس محدود کر کے انھیں عوام کے لیے کھول دیں گے اور وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی اور گورنر ہاؤسز میں نئے تعلیمی ادارے قائم کریں گے مگر پونے چار سالوں میں کچھ بھی کیا نہ گورنر ہاؤس محدود ہوئے نہ وہ عوام کے لیے کھلے۔ معمولی تبدیلی یہ آئی کہ مضبوط دیواروں پر لوہے کے جنگلے لگ گئے تاکہ عوام باہر سے ہی گورنر ہاؤس دیکھ کر خوش ہو جائیں کیونکہ غریب عوام کے لیے یہی خوشی باقی رہ گئی ہے کہ ان کے سیاسی حکمران کیسے شاندار محلات میں رہتے ہیں اور عوام سے دور رہ کر سرکاری پروٹوکول انجوائے کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے دعویدار وزیر اعظم نے ملک میں غریبوں کے لیے پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کا اعلان کیا تھا مگر اقتدار میں آ کر بھول گئے اور انھوں نے اپنے سیاسی انتقام کو ضروری سمجھا اور چن چن کر اپنے سیاسی مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرا کر تسکین حاصل کی اور بعد میں انھیں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا خیال آیا مگر اس سے قبل انھوں نے اپنی یونیورسٹی بنائی اور مفت زمین حاصل کی اور بعد میں انھیں کچھ فرصت ملی تو پچاس لاکھ گھر یاد آئے مگر ان کے سیاسی مخالفین نے ہٹا دیا اور پچاس لاکھ گھروں کا خواب ادھورا رہ گیا۔
پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کے بعد پی ڈی ایم کے وزیر اعظم نے گھر بنا کر دینے کا عوام سے وعدہ ہی نہیں کیا تھا نہ ملک کے سنگین رہائشی مسائل ان کا مسئلہ تھے اس لیے وہ اس طرف کیوں توجہ دیتے ان کی ترجیحات میں غریبوں کے لیے گھر بنانا شامل ہی نہیں تھا۔ پنجاب کے عوام کی خوش نصیبی کہ انھیں خادم اعلیٰ کے بعد مریم نواز کی صورت میں ایک متحرک وزیر اعلیٰ نصیب ہوئی جنھوں نے ایک سال بعد پنجاب میں رہائشی مسائل کا ادراک کیا اور پہلے مرحلے میں پنجاب کے ایک لاکھ شہریوں کو اپنی چھت اپنا گھر پروگرام کے تحت15 لاکھ روپے تک کی بڑی رقم بلا سود قرضوں کی فراہمی ہی شروع نہیں کرائی بلکہ اس پر فوری عمل درآمد بھی کرایا جس سے پلاٹوں کے مالکان نے اپنے گھروں کی تعمیر شروع کرا رکھی ہے اور وہ اپنی وزیر اعلیٰ کو دعائیں دے رہے ہیں اور بے گھروں کو گھر بنانے کا موقعہ مل گیا ہے۔
اپنی چھت اپنا گھر پروگرام میں لوگوں کے لیے اپنا پلاٹ ہونے کی شرط تھی اور پلاٹ نہ رکھنے والوں کے لیے یہ سہولت نہیں تھی جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنی زمین اپنا گھر پروگرام بھی شروع کر دیا ہے جس کے تحت پنجاب کے 19 اضلاع کی 23 اسکیموں کے تحت کم آمدنی والے دو ہزار افراد کو مفت میں تین مرلے کے پلاٹ قرعہ اندازی میں دیے جائیں گے۔
پنجاب میں تو رہائشی مسائل پر توجہ دی گئی مگر 16 سالوں سے برسر اقتدار سندھ کی حکومت سوئی رہی اور صرف سیلاب و بارش متاثرین کو مفت گھر دینا شروع کر دیے ہیں مگر کراچی میں تیسر ٹاؤن کے بعد قسطوں پر بھی پلاٹ دینے کا خیال سندھ حکومت کو نہیں آیا اور کراچی میں پلاٹ کا حصول خواب بن چکا اور کرائے بڑھنے سے لاکھوں لوگ پریشان اور باقی سڑکوں، فٹ پاتھوں، پارکوں اور پلوں کے نیچے وقت گزار رہے ہیں۔ پی پی کے وزیر اعلیٰ بلوچستان کا بھی صوبے میں رہائشی مسئلہ نہیں جب کہ کے پی کے وزیر اعلیٰ کو صرف اپنے بانی کی فکر ہے کہ وہ رہا ہوں اور اسی سیاست میں ان کا اقتدار برقرار رہے۔ پنجاب کی تقلید میں باقی وزرائے اعلیٰ کو اپنے صوبوں میں اہم رہائشی مسائل کی فکر ہے نہ بے گھروں کی تکالیف کا احساس، انھیں بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے۔