لاہور میں جرائم کی رپورٹنگ میں بہادری کی داستان، خواتین کرائم رپورٹرز
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
تہمینہ شیخ، جو لاہور میں نجی نیوز چینل کے کرائم شو کی میزبان ہیں، کہتی ہیں کہ ‘مجرموں سے سوالات کرنا سب سے مشکل لمحہ ہوتا ہے۔ اس وقت نہ صرف ہماری حفاظت بلکہ ہماری ذہنی مضبوطی بھی آزمائی جاتی ہے۔’
تہمینہ شیخ بتاتی ہیں کہ انہیں سب سے زیادہ اطمینان اس وقت حاصل ہوا جب انہوں نے ضلع شیخوپورہ سے 70 مزدوروں کو بازیاب کروایا، جنہیں زبردستی مشقت پر مجبور کیا گیا تھا۔ مگر یہ کامیابی آسان نہ تھی، اس آپریشن کے دوران انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں اور اداروں سے مدد مانگنے کے باوجود کوئی تعاون نہیں ملا۔ اس کے باوجود، تہمینہ اپنی ٹیم کے ساتھ ڈٹی رہیں اور رپورٹنگ مکمل کی۔
دعا مرزا، جو گزشتہ 2 سال سے جیو نیوز سے وابستہ ہیں، کرائم رپورٹنگ کے سب سے بڑے چیلنج کے طور پر ‘تحفظ کی کمی’ کو بیان کرتی ہیں۔
دعا مرزا کے مطابق، کسی بم دھماکے کے فوراً بعد جائے وقوعہ پر پہنچنا معمول ہے، لیکن وہاں نہ کوئی حفاظتی کٹ مہیا ہوتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی تربیت جو ذہنی دباؤ سے نمٹنے میں مدد دے۔
دعا کہتی ہیں کہ ان پر ذہنی اثرات گہرے ہوتے ہیں اور وہ دباؤ کم کرنے کے لیے واک، جم اور روٹین کی تبدیلی جیسے طریقے اپناتی ہیں۔ وہ اور تہمینہ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ صحافتی اداروں کی طرف سے حفاظتی تربیت اور ذہنی سکون کی سہولیات شدید ضرورت بن چکی ہیں۔
لاہور جیسے بڑے شہر میں خواتین صحافیوں کو کرائم رپورٹنگ کے دوران کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سیکورٹی کے مسائل، سماجی رکاوٹیں، پیشہ ورانہ امتیاز، نفسیاتی دباؤ اور آن لائن ہراسانی شامل ہیں۔
یہ مسائل پاکستان میں خواتین صحافیوں کے لیے ایک سنگین اور مسلسل موجود چیلنج ہیں، جو ان کے کام کو پیچیدہ اور خطرناک بنا دیتے ہیں۔
صحافتی تنظیموں اور لاہور پریس کلب ممبران کے انٹرویوز سے معلوم ہوا کہ ان حالات میں خواتین کرائم رپورٹرز کی تعداد 2 ہے، جب کہ مرد رپورٹرز کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔
تاہم کچھ تعداد ان خواتین کی بھی ہے جو خواتین، ایجوکیشن یا دیگر بیٹس کو کورکرتی ہیں مگر ادارے کی جانب سے کرائم رپورٹر کی عدم موجودگی یا کام کے دباو کے باعث عارضی طور پر انہیں کسی خاص ایونٹ کو کور کرنے کا کہا جاتا ہے۔
کچھ ایسی خواتین رپورٹرز بھی ہیں جو بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے ساتھ کام کررہی ہیں جہاں انہیں روٹین رپورٹنگ کے ساتھ کرائم بھی کور کرنا پڑتا ہے۔
کرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن لاہور کے جنرل سیکرٹری مجاہد شیخ کے مطابق، اس وقت کوئی بھی خاتون رپورٹر روزمرہ کرائم رپورٹنگ پر مامور نہیں، تاہم یوٹیوب یا کرائم بیسڈ پروگرامز پر کام کرنے والی تقریباً 7 خواتین ضرور موجود ہیں۔
فرزانہ چوہدری، صدر نیشنل ویمن جرنلسٹ فورم، اس کمی کی بنیادی وجوہات میں تھانہ کلچر، غیر مقررہ ڈیوٹی اوقات، گھر سے اجازت اور سفری پابندیوں کو قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم خواتین رپورٹرز کے لیے قانونی رہنمائی، تربیت اور ہر ممکن مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
پنجاب پولیس کے 2024 کے اعدادوشمار بھی اس کام کی شدت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ساڑھے 11 ماہ میں 10 لاکھ سے زائد مقدمات درج ہوئے، جن میں ڈکیتی کے دوران قتل کی 233 وارداتیں، اجتماعی زیادتی کے 1,262 کیسز اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم کے 3,880 کیسز شامل ہیں۔ ان حالات میں خواتین رپورٹرز کے لیے کرائم کوریج کرنا نہایت خطرناک بن جاتا ہے۔
اس ضمن میں رائل نیوز کے سی ای او خضر حیات وٹو کا کہنا تھا کہ اگرچہ چینلز میں ذہنی صحت کے لیے کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں، تاہم نیوز ادارے اپنے رپورٹرز کے اوقات کار میں نرمی، ماہرین سے مشورے اور علاج کے لیے مالی معاونت فراہم کر سکتے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ وقت میں چینلز مالی بحران سے گزر رہے ہیں، کیونکہ حکومتی اشتہارات میں کمی اور ادائیگیوں میں تاخیر کا سامنا ہے۔
ذہنی صحت اور خواتین صحافیوں کے چیلنجزماہرِ نفسیات ڈاکٹر انیلا کہتی ہیں کہ خواتین صحافیوں کو کرائم رپورٹنگ کے دوران ذہنی دباؤ، اینزائٹی، ڈپریشن اور نیند کے مسائل جیسے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر انیلا کا کہنا ہے کہ خوفناک یا صدمہ خیز مناظر کا سامنا بار بار کرنے سے خواتین کی ذہنی حالت متاثر ہوتی ہے، جو نہ صرف ان کی پیشہ ورانہ کارکردگی کو کمزور کرتی ہے بلکہ ان کے سماجی تعلقات اور خود اعتمادی پر بھی اثر ڈالتی ہے۔
ڈاکٹر انیلا کے مطابق خواتین رپورٹرز کے لیے سپورٹ نیٹ ورک، ماہرین سے مشورہ، حدود کا تعین، ریلیکسیشن تکنیک اور متوازن غذا مددگار ہو سکتی ہے۔ نیوز اداروں کو چاہیے کہ وہ خواتین کے لیے حفاظتی گائیڈلائنز اور ذہنی سکون کی سہولیات فراہم کریں۔
کیا خواتین کو کرائم رپورٹنگ میں زیادہ مشکلات ہوتی ہیں؟مجاہد شیخ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ خواتین کو دیگر شعبوں کی طرح یہاں بھی مشکلات درپیش ہیں، تاہم ان کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔
مثلاً خواتین رپورٹرز کو گھریلو ماحول یا متاثرہ خواتین سے مؤثر طور پر رابطہ کرنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ لیکن، قانونی پیچیدگیوں، ایف آئی آر کے معاملات، یا رات گئے حساس مقامات تک رسائی جیسے چیلنجز ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کرتے ہیں۔
ذرائع سے معلومات حاصل کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے کیونکہ بعض افراد خواتین رپورٹرز کے ساتھ بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔
تہمینہ شیخ بتاتی ہیں کہ معاشرتی دباؤ ان کی پیشہ ورانہ زندگی میں رکاوٹ رہا ہے۔ میرے خاندان نے کئی بار کہا کہ یہ کام خطرناک ہے، لیکن میں نے یہ ثابت کیا کہ خواتین کسی بھی میدان میں پیچھے نہیں۔
پاکستان میں خواتین کرائم رپورٹرز کے لیے نہ صرف جسمانی حفاظت بلکہ ذہنی صحت بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اداروں کو چاہیے کہ وہ خواتین کو حفاظتی کٹس، ذہنی صحت سے متعلق مشاورت، اور موزوں تربیت فراہم کریں۔
ایک محفوظ، معاون اور مساوی صحافتی ماحول نہ صرف موجودہ خواتین صحافیوں کو حوصلہ دے گا بلکہ نئی نسل کو بھی اس پیشے کی طرف راغب کرے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خواتین رپورٹرز کے رپورٹرز کے لیے کرائم رپورٹنگ کرائم رپورٹرز رپورٹنگ کے میں خواتین کے دوران کا سامنا کے ساتھ ہیں کہ
پڑھیں:
پاکستان: ذہنی امراض میں اضافے کی خطرناک شرح، ایک سال میں ایک ہزار خودکشیاں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: پاکستان میں ذہنی امراض اور نفسیاتی دباؤ میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران معاشرتی اور قومی سطح پر سنگین نتائج پیدا کر سکتا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں ہونے والی 26ویں بین الاقوامی کانفرنس برائے ذہنی امراض میں انکشاف کیا گیا کہ ملک میں ہر تین میں سے ایک فرد نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے، جب کہ گزشتہ ایک سال کے دوران تقریباً ایک ہزار افراد نے ذہنی دباؤ کے باعث اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
کانفرنس کے سائنٹیفک کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر محمد اقبال آفریدی نے بتایا کہ پاکستان میں ڈپریشن اور اینگزائٹی کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ خواتین میں ذہنی دباؤ کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں، جس کی بنیادی وجوہات گھریلو تنازعات، سماجی دباؤ اور معاشی مشکلات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں حالیہ برسوں کے دوران قدرتی آفات، دہشت گردی، بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام نے عوام کے ذہنوں پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔
پروفیسر واجد علی اخوندزادہ کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک نوجوان اور ہر پانچ میں سے ایک بچہ کسی نہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں 10 فیصد افراد منشیات کے عادی ہیں، جن میں آئس اور دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ملک کی 24 کروڑ آبادی کے لیے صرف 90 نفسیاتی ماہرین موجود ہیں، جو عالمی معیار کے لحاظ سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر 10 ہزار افراد کے لیے کم از کم ایک ماہر نفسیات ہونا چاہیے، جب کہ پاکستان میں تقریباً پانچ لاکھ سے زائد مریضوں پر ایک ماہر دستیاب ہے۔
ڈاکٹر افضال جاوید اور دیگر ماہرین نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں معاشی ناہمواری، بے روزگاری، موسمیاتی تبدیلیاں اور سرحدی کشیدگی عوام کے ذہنی سکون کو تباہ کر رہی ہیں۔ نوجوان طبقہ خصوصاً مایوسی اور عدم تحفظ کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں خودکشیوں کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ذہنی صحت کو قومی ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں نفسیاتی مشاورت مراکز قائم کیے جائیں اور عوامی آگاہی مہمات شروع کی جائیں تاکہ معاشرہ اس بڑھتے ہوئے نفسیاتی بحران سے محفوظ رہ سکے۔