یوم نکبہ پر فلسطین فاؤنڈیشن کا احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
احتجاج سے خطاب میں مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر اسرائیلی ڈرون ہندوستان کے ذریعہ پاکستان میں حملہ آور ہو سکتے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ فلسطینیوں کی ہر ممکنہ سیاسی، اخلاقی اور سفارتی مدد کے ساتھ مسلح مدد بھی کی جائے تو کہ پاکستان کی نظریاتی دشمن ریاست غاصب اسرائیل کو نابود کیا جائے۔ چھوٹی تصاویر تصاویر کی فہرست سلائیڈ شو
یوم نکبہ پر فلسطین فاؤنڈیشن کا کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ، فلسطینیوں کے حق کی واپسی کا مطالبہ
یوم نکبہ پر فلسطین فاؤنڈیشن کا کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ، فلسطینیوں کے حق کی واپسی کا مطالبہ
یوم نکبہ پر فلسطین فاؤنڈیشن کا کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ، فلسطینیوں کے حق کی واپسی کا مطالبہ
یوم نکبہ پر فلسطین فاؤنڈیشن کا کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ، فلسطینیوں کے حق کی واپسی کا مطالبہ
یوم نکبہ پر فلسطین فاؤنڈیشن کا کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ، فلسطینیوں کے حق کی واپسی کا مطالبہ
یوم نکبہ پر فلسطین فاؤنڈیشن کا کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ، فلسطینیوں کے حق کی واپسی کا مطالبہ
یوم نکبہ پر فلسطین فاؤنڈیشن کا کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ، فلسطینیوں کے حق کی واپسی کا مطالبہ
یوم نکبہ پر فلسطین فاؤنڈیشن کا کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ، فلسطینیوں کے حق کی واپسی کا مطالبہ
یوم نکبہ پر فلسطین فاؤنڈیشن کا کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ، فلسطینیوں کے حق کی واپسی کا مطالبہ
یوم نکبہ پر فلسطین فاؤنڈیشن کا کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ، فلسطینیوں کے حق کی واپسی کا مطالبہ
یوم نکبہ پر فلسطین فاؤنڈیشن کا کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ، فلسطینیوں کے حق کی واپسی کا مطالبہ
یوم نکبہ پر فلسطین فاؤنڈیشن کا کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ، فلسطینیوں کے حق کی واپسی کا مطالبہ
یوم نکبہ پر فلسطین فاؤنڈیشن کا کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ، فلسطینیوں کے حق کی واپسی کا مطالبہ
یوم نکبہ پر فلسطین فاؤنڈیشن کا کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ، فلسطینیوں کے حق کی واپسی کا مطالبہ
یوم نکبہ پر فلسطین فاؤنڈیشن کا کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ، فلسطینیوں کے حق کی واپسی کا مطالبہ
یوم نکبہ پر فلسطین فاؤنڈیشن کا کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ، فلسطینیوں کے حق کی واپسی کا مطالبہ
یوم نکبہ پر فلسطین فاؤنڈیشن کا کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ، فلسطینیوں کے حق کی واپسی کا مطالبہ
اسلام ٹائمز۔ ملی یکجہتی کونسل سندھ اور فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے زیر اہتمام کراچی پریس کلب کے باہر یوم نکبہ کے موقع پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرے میں سینکڑوں شہریوں نے شرکت کی اور فلسطین پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ناجائز قیام کے 77 سال مکمل ہونے پر احتجاج کیا۔ مظاہرے کی قیادت ملی یکجہتی کونسل سندھ کے صدر اسداللہ بھٹو اور فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم نے کی۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر فلسطینیوں کے حق واپسی کی حمایت سمیت اسرائیل ایک ناجائز ریاست کے نعرے درج تھے جبکہ فلسطینیوں کے حق واپسی کی حمایت کے لئے مظاہرین نے ہاتھوں میں چابیوں کے علامتی نشان بھی اٹھا رکھے تھے۔احتجاجی مظاہرے سے سابق رکن قومی اسمبلی محمد حسین محنتی، علامہ قاضی احمد نورانی، احمد ندیم اعوان، علامہ باقر زیدی، علامہ مرتضی رحمانی، اسرار عباسی، یونس بونیری،سابق رکن سندھ اسمبلی میجر (ر) قمر عباس، علامہ جعفر سبحانی، پاسٹر امانوئیل، علامہ امین انصاری، مولانا محمد قاسم اور دیگر نے خطاب کیا۔ احتجاجی مظاہرے میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین میں علامہ صادق جعفری، علامہ مبشر حسن، ثقلین اسحاق، عبد العظیم، علامہ بدر الحسنین، علامہ عقیل انجم، ناصر رضوان ایڈوکیٹ ، علامہ شوکت مغل، علامہ عبد الغفار، علامہ عبد الوحید یونس، علامہ حیات عباس، علامہ ملک عباس، علامہ سجاد حیدر سمیت دیگر بھی موجود تھے۔.
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
فلسطینیوں کا ہمدرد پوپ چلا گیا
ان کی ساری ہمدردیاں دنیا بھر کے غریب عوام کے ساتھ تھیں۔ پوپ فرانسس نے مظلوموں کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے کبھی مذہب، نسل، ذات اور قومیت کو اہمیت نہیں دی۔ پوپ نے فلسطین،غزہ، یوکرین، ایران، شام، افغانستان، پاکستان، ایران، بھارت اور نیوزی لینڈ جہاں بھی، جب بھی کسی فرد یا کمیونٹی کو نسلی یا مذہبی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا تو پوپ فرانسس نے ان مظلوموں کے لیے دنیا کی رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی۔ پوپ فرانسس فلسطینی عوام کی جدوجہد کے سب سے بڑے حامی تھے۔
وہ سمجھتے تھے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کررہا ہے، وہ اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ فلسطینیوں کو آزاد ریاست قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔ جب پوپ فرانسس کی زندگی میں ایسٹر کا تہوار آیا تو انھوں نے اپنے خطاب میں اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی کی اپیل کی تھی۔ پوپ فرانسس کے انتقال پر نشر ہونے والے ایک ٹی وی ٹاک شو میں بتایا گیا تھا کہ پوپ فرانسس غزہ کی صورتحال سے اتنا زیادہ پریشان تھے کہ وہ روزانہ غزہ کے چرچ کے پادریوں سے ٹیلی فون پر رابطہ کرتے تھے اور ان کی خیریت دریافت کرتے تھے ۔
پوپ فرانسس غزہ کے لوگوں کے لیے اتنے زیادہ پریشان تھے کہ انھوں نے وصیت کی تھی کہ ان کی ذاتی کار غزہ بھیج دی جائے۔ کیتھولک خیراتی ادارہ کیرٹساس نے اعلان کیا ہے کہ پوپ فرانسس نے اپنے انتقال سے قبل اپنی بڑی موبائل گاڑی جنگ زدہ غزہ میں بچوں کے کلینک میں تبدیل کرنے کے لیے یہ عطیہ کیا تھا۔ پوپ کے خیر خواہوں کے لیے ہجوم کو پوپ کا دیدار کرنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئی تھی۔
اس کھلی گاڑی کو اب مضبوط ایمبولینس میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ جب بھی اسرائیل راہداری کھولتا ہے تو یہ گاڑی غزہ بھیج دی جائے گی۔ کھلے چھت والی اس گاڑی کو پوپ نے 2014 میں بیت اللھم کے دورہ کے دوران استعمال کیا تھا۔ جب سے یہ گاڑی کھڑی ہوئی تھی تو اس پر دھول جمی ہوئی تھی اور زنگ لگ رہا تھا۔ اب اگر اسرائیل نے اجازت دی تو یہ گاڑی غزہ میں موبائل کلینک کے طور پر استعمال ہوگی۔
پوپ فرانسس کی زندگی کی ایک اور پہلو ان کی سادہ زندگی گزارنے کا طریقہ کار تھا۔ جب پوپ کو اس عہدہ پر فائزکیا گیا تو وہ ویٹیکن کی روایت کے مطابق لیموزین گاڑی جس کا شمار دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں میں ہوتا ہے، ان کے استعمال کے لیے موجود تھی مگر پوپ فرانسس نے یہ جدید لگژری گاڑی استعمال کرنے سے انکارکیا۔ انھوں نے کہا کہ ارجنٹینا میں انھوں نے اپنے پیسہ سے جو چھوٹی گاڑی خریدی تھی وہی گاڑی استعمال کریں گے۔ یوں انھوں نے پوپ کا عہدہ سنبھالتے ہی ویٹیکن سٹی میں نئی روایت کا اعزاز حاصل کیا۔
پوپ فرانسس نے ساری زندگی اپنا گھر نہیں بنایا۔ انھوں نے کبھی بینک اکاؤنٹ نہیں کھولا۔ جب پوپ فرانسس کا انتقال ہوا تو ان کے پاس 100 ڈالر تھے۔ انھوں پوپ کی حیثیت سے 340,000 یورو بطور اعزازیہ مل سکتا تھا۔ یہ ایک بڑی خطیر رقم تھی مگر پوپ فرانسس کے لیے اتنی بڑی رقم میں کوئی کشش نہیں تھی۔ پوپ فرانسس کے لیے پرکشش اپارٹمنٹ رہنے کے لیے دستیاب تھے مگر پوپ فرانسس نے عالیشان رہائش کی پیشکش کو رد کردیا۔ انھوں نے اتنی بڑی رقم لینے کے بجائے ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک انتہائی سادہ عمارت ہے جہاں انتہائی کم فرنیچر موجود ہے۔
پوپ فرانسس نے پرکشش اور مہنگے ملبوسات استعمال کرنے سے ہمیشہ گریزکیا اور پوپ کا روایتی قیمتی سرخ لوفر استعمال کرنے سے بھی گریزکیا۔ ہمیشہ پرانے لوفر پہنے۔ پوپ فرانسس نے اپنا کوئی ذاتی ملازم نہیں رکھا اور ہمیشہ ویٹیکن کے ملازمین کے ساتھ کھانا کھایا۔ وہ ہمیشہ پادریوں کو تلقین کرتے تھے کہ عام آدمی کی بھلائی کے لیے کام کریں۔ وہ فرانس کے سرمایہ دارانہ نظام کے ہمیشہ مخالف رہے۔ پوپ فرانسس کا کہنا تھا کہ عالمی معاشی نظام غریب ممالک اور عام آدمی کے لیے تباہی کا باعث ہے۔
اس نظام میں عام آدمی کے لیے سماجی بھلائی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ پوپ فرانسس نے عالمی معاشی نظام کا Fundamental Terrorism کا ہمیشہ موازنہ کیا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ It is the communists who think like Christians۔ اسی طرح پوپ فرانسس نے 2013ء میں Gustavo Gotierres کی Liberation theologyکو بھی سراہا تھا۔ وہ ہمیشہ کیپیٹل ازم اور Idolatary of Money کی مذمت کرتے تھے۔
پوپ فرانسس کے نظریات لاطینی امریکا کے چرچ کے اس نظریے کی ہمیشہ حمایت کرتے تھے کہ لاطینی امریکا کے ممالک کو سامراجی قوتوں سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے اور پوپ فرانسس نے اگرچہ کوشش کی کہ ویٹیکن سٹی، یورپی ممالک کے علاوہ لاطینی امریکا اور دیگر ایشیائی و افریقی ممالک کے پادریوں کو شامل کیا جائے ، یوں وہ ویٹیکن کے ماحول میں ایک تبدیلی لانا چاہتے تھے۔
مارکسی دانشور علی اوسط نے لاطینی امریکا میں کیتھولک چرچ کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ قدیم تاریخ کے جائزہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں کیتھولک چرچ قدامت پرست تھا اور چرچ کے پادری اسپین سامراج اور امراء کی پیروی کرتے تھے۔ بیسویں صدی میں کتھولک چرچ میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اب چرچ سماجی تبدیلیوں کی حمایت کرنے لگا۔ یہی وقت تھا جب ویٹیکن کونسل کے اجلاس کے بعد مظلوم عوام کے لیے Political Liberation Theologyسامنے آئی۔
دو معروف پادریوں کا نظریہ عام ہوا تو اب لاطینی امریکا کے چرچ نے نوآبادیاتی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریکوں میں کردار ادا کرنا شروع کیا۔ جابرانہ حکومتوں نے چرچ کے اس روشن خیال پادریوں کو سخت سزائیں دیں۔ پوپ فرانسس چرچ کی سماجی انصاف کی تحریک سے متاثر ہوئے، مگر پوپ فرانسس نے چرچ کی بعض فرسودہ روایات کی پیروی کی اور ساری زندگی شادی نہیں کی۔ اسی طرح وہ ہمیشہ عورتوں کے استحقاق حمل کے حق کے خلاف رہے مگر بہرحال فلسطینیوں کا حامی پوپ چلا گیا۔