اپریل میں کرنٹ اکاؤنٹ ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر سرپلس رہا؛ اسٹیٹ بینک
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
کراچی:
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق اپریل کے مہینے میں کرنٹ اکاؤنٹ ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر سرپلس رہا۔
مرکزی بینک نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ جولائی تا اپریل جاری کھاتہ (کرنٹ اکاؤنٹ) ایک ارب 88 کروڑ ڈالر سرپلس رہا جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں کرنٹ اکاؤنٹ کو ایک ارب 33 کروڑ 70 لاکھ ڈالر خسارے کا سامنا تھا ۔
اسی طرح اپریل میں کرنٹ اکاؤنٹ ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر فاضل رہا ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق مارچ 2025 میں کرنٹ اکاؤنٹ ایک ارب 20 کروڑ ڈالر سرپلس رہا تھا ۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں نے والی ریکارڈ ترسیلات زر کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے محفوظ رہا اور سرپلس رہنے سے روپے کی قدر میں اضافہ ہوگا۔
تارکین وطن نے اپریل میں 8 ہزار سے زائد روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کھلوائے
اسٹیٹ بینک نے اپریل میں کھلوائے گئے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کی تفصیلات جاری کردیں، جس کے مطابق تارکین وطن کی جانب سے اپریل میں8 ہزار 802 روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کھلوائے گئے اور اسی ماہ روشن ڈیجیٹل کاؤنٹس میں17 کروڑ 70 لاکھ ڈالر جمع کرائے گئے۔
مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ اپریل کے بعد روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کی مجموعی تعداد 8 لاکھ 14 ہزار 244 ہوگئی ہے اور روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں 56 ماہ میں 10.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں کرنٹ اکاؤنٹ ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر اسٹیٹ بینک اپریل میں
پڑھیں:
کراچی: متنازعہ پلاٹ پر سکول کی تعمیر، 3 کروڑ 35 لاکھ روپے سرکاری خزانے سے ضائع
عاجزجمالی: آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ایک چشم کشا رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کراچی کے علاقے قائد آباد، خلد آباد میں ایک متنازعہ پلاٹ پر اسکول کی غیر قانونی تعمیر کے باعث سرکاری خزانے کو 3 کروڑ 35 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ عمارت محکمہ ایجوکیشن ورکس کی نگرانی میں تعمیر کی گئی، باوجود اس کے کہ آڈیٹر جنرل نے ابتدائی مراحل میں ہی تعمیراتی کام پر اعتراض اٹھایا تھا۔
پی آئی اے کا برطانیہ کیلئے 5سال بعدفضائی آپریشن کا باضابطہ اعلان
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسکول کی تعمیر کے لیے 2 کروڑ 26 لاکھ روپے کی غیر قانونی ادائیگی ایم ایس فرح الیکٹرک سروس کو کی گئی، حالانکہ پلاٹ کی قانونی حیثیت واضح نہیں تھی۔ اسکول کی تعمیر مکمل ہونے تک مجموعی طور پر 3 کروڑ 35 لاکھ روپے خرچ کیے جا چکے تھے۔
اسکول کی تعمیر کے دوران آڈیٹر جنرل کو بتایا گیا تھا کہ پلاٹ کے کاغذات ڈپٹی کمشنر ملیر کے نام پر ہیں، مگر جنوری 2024 میں اسکول انتظامیہ عدالت میں پلاٹ سے متعلق کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہ کر سکی۔ نتیجتاً، پلاٹ کے اصل مالک نے معاملہ عدالت میں لے جا کر قانونی کارروائی شروع کر دی۔
سیاسی حالات اور مہنگائی نے بہت کچھ بدل دیا: گورنر سندھ
رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ آڈیٹر جنرل کے اعتراضات کے باوجود محکمہ ایجوکیشن ورکس نے تعمیراتی کام جاری رکھا اور مکمل بجٹ بھی خرچ کر دیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی قواعد و ضوابط کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں اس معاملے کو سرکاری خزانے کے زیاں سے تعبیر کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو سفارش کی ہے کہ ذمہ دار افسران و اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ ایسے اقدامات کو روکا جا سکے۔
پنجاب میں فیڈ ملز پر گندم کے استعمال پر پابندی، دفعہ 144 نافذ