امریکی پابندیاں ختم، شام کا مستقبل کیا ہو گا؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 مئی 2025ء) اس ہفتے شامی عوام امید اور خوشی کے ساتھ ایک بار پھر ملک بھر کی سڑکوں پر جشن منانے کے لیے نکلے۔ اس خوشی کی وجہ بنی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اعلان کہ وہ شام پر عائد سخت پابندیاں مکمل طور پر ختم کرنا چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ اسد خاندان کے دور حکومت میں 45 سال تک شام عالمی سطح پر تنہائی کا شکار رہا۔
تاہم اس خاندان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جنگ سے تباہ شام کا مستقبل پہلے سے کہیں زیادہ روشن دکھائی دے رہا ہے۔ٹرمپ نے کہا، ''اب ان کا وقت ہے۔ ہم تمام پابندیاں ہٹا رہے ہیں۔‘‘ اپنے تین روزہ دورہ سعودی عرب کے دوران منگل کے دن امریکی صدر کا یہ بھی کہنا تھا، ''شام کے لیے نیک تمنائیں اور (شامیوں) ہمیں کچھ خاص کر کے دکھاؤ۔
(جاری ہے)
‘‘شامی وزارت خارجہ نے اس اعلان کو ایک ''فیصلہ کن موڑ‘‘ اور ''شام کے لیے استحکام، خود انحصاری اور بامعنی قومی تعمیر نو کا ایک اہم موقع‘‘ قرار دیا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا کہ اپنے مستقبل کا فیصلہ شامی عوام اب خود کریں گے۔
ابھی تفصیلات غیر واضح ہیںیہ واضح نہیں کہ آیا پابندیوں میں نرمی مخصوص شعبوں، جیسا کہ بین الاقوامی انسانی امداد، بینکاری یا عام کاروبار تک محدود ہو گی یا امریکی پابندیوں کے خاتمے کو کچھ شرائط سے مشروط کیا جائے گا۔
یورپی یونین نے شام پر عائد کردہ کچھ پابندیاں پہلے ہی ختم کر دی ہیں۔ جمعرات کے روز یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس نے تجویز دی کہ شام پر عائد دیگر پابندیاں بھی نرم کر دینا چاہییں۔
گزشتہ چھ ماہ میں شام میں بڑی تبدیلیاںدسمبر میں حیات تحریر الشام (HTS) کے باغی گروپوں کے اتحاد نے شامی آمر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔
اس گروپ کی قیادت احمد الشرع کر رہے تھے، جو اب ملک کے عبوری صدر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔تقریباً 14 سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد شام میں تعمیر نو کی لاگت 400 ارب ڈالر سے لے کر ایک ٹریلین ڈالر تک ہو سکتی ہے۔
الشرع نے وعدہ کیا ہے کہ وہ نئی حکومت میں شام کے تمام سیاسی اور مذہبی گروہوں کو شامل کریں گے۔ تاہم متعدد پرتشدد واقعات کی وجہ سے اب بھی خدشات موجود ہیں۔
اس تازہ تشدد نے اکثریتی سنی آبادی اور اقلیتی گروہوں کے درمیان تناؤ کو جنم دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہے کہ نئی شامی حکومت کو ابھی تک ملک بھر میں مکمل کنٹرول حاصل نہیں ہوا۔مگر ٹرمپ کے بقول الشرع کے پاس ''ملک کو سنبھالنے کا سنہری موقع ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ''وہ ایک حقیقی لیڈر ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ الشرع ماضی میں القاعدہ سمیت دیگر شدت پسند گروہوں سے بھی منسلک رہے ہیں۔
شرائط بھی منسلک؟پابندیاں اٹھانے کے ساتھ ساتھ ٹرمپ نے شام سے پانچ مطالبات بھی کیے ہیں، وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرولین لیوٹ نے ان کی تفصیل یوں بتائی۔
اسرائیل کے ساتھ ابراہیم معاہدے پر دستخط
تمام غیر ملکی دہشت گردوں کو شام سے نکالنا
فلسطینی دہشت گردوں کی ملک بدری
داعش کے دوبارہ ابھرنے سے روکنے میں امریکہ کی مدد
شمال مشرقی شام میں داعش کے حراستی مراکز کی ذمہ داری سنبھالنا
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ شام ''حالات درست ہونے پر‘‘ اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے۔
تاہم دمشق کی جانب سے سرکاری طور پر یہ تصدیق نہیں کی گئی کہ وہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان امریکہ کی ثالثی میں طے پانے والے ابراہیم معاہدے میں شامل ہوگا یا نہیں۔
اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی اہمیتانٹرنیشنل کرائسس گروپ میں شامی امور کے سینیئر تجزیہ کار نانر ہاوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل شام کو غیر مستحکم کرنے والا کردار ادا کر رہا ہے۔
‘‘انہوں نے کہا، ''وہ (اسرائیل) شامی فوجی تنصیبات پر سینکڑوں فضائی حملے کر چکا ہے اور جنوبی شام میں بھی دراندازی کی گئی ہے۔ جب تک کوئی مفاہمت نہیں ہو گی،اسرائیل کا یہ کردار جاری رہے گا۔‘‘
ہاوچ نے مزید کہا کہ اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات، الشرع پر اندرونی دباؤ بھی ڈال سکتے ہیں۔ تاریخی طور پر شام اور اسرائیل ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور سن 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد کئی بار دونوں کے درمیان جنگ بھی ہو چکی ہے۔
ابھی تک اسرائیل نے نئی شامی حکومت کے ساتھ ممکنہ سفارتی تعلقات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اسرائیل کو شامی حکومت کے ایران اور حزب اللہ سے سابقہ تعلقات اور اپنی سرحدوں پر حملے کا خوف لاحق ہے۔ تاہم نئے سفارتی تعلقات شاید اسرائیل کے ان خدشات کو کم کر سکیں۔
شام دنیا کے بدترین پناہ گزین بحرانوں میں سے ایک ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سن 2011 سے اب تک 1.
ادارت: شکور خان
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیل کے حکومت کے کے خاتمے کے ساتھ کے بعد
پڑھیں:
شام پر عائد امریکی پابندیاں ہٹائے جانے پر پاکستان کا خیرمقدم
پاکستان نے امریکا کی جانب سے شام پر عائد پابندیاں ہٹانے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ علاقائی استحکام اور معاشی بحالی کے لیے اہم ثابت ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ محمد بن سلمان کی درخواست پر شام پر عائد تمام پابندیاں ہٹانے پر رضامند
دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق پاکستان نے ہمیشہ تعمیری بات چیت اور مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ پابندیاں ہٹائے جانے سے نہ صرف معاشی بڑھوتری میں اضافہ ہو گا بلکہ ضروری خدمات تک رسائی اور شام کی تعمیر نو کی کوششوں کے لیے بھی فائدہ مند ہو گا۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان شام میں امن کی بحالی کے لیے امریکا سعودی عرب، ترکئے اور قطر کی تعریف کرتا ہے جنہوں نے اس سلسلے میں اپنے عزم کا اظہار کیا۔
مزید پڑھیے: شاہ سلمان امدادی مرکز کی ٹیم دل کی سرجری اور کیتھیٹرائزیشن کے لیے شام پہنچ گئی
دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ شام کے مسائل کا حل شامی عوام کی سوچ اور ان کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے اور پاکستان شام کی خودمختاری، جغرافیائی سالمیت اور اتحاد کی حمایت کرتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا پاکستان شام شام پر پابندیاں