UrduPoint:
2025-11-19@01:25:02 GMT

امریکی پابندیاں ختم، شام کا مستقبل کیا ہو گا؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT

امریکی پابندیاں ختم، شام کا مستقبل کیا ہو گا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 مئی 2025ء) اس ہفتے شامی عوام امید اور خوشی کے ساتھ ایک بار پھر ملک بھر کی سڑکوں پر جشن منانے کے لیے نکلے۔ اس خوشی کی وجہ بنی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اعلان کہ وہ شام پر عائد سخت پابندیاں مکمل طور پر ختم کرنا چاہتے ہیں۔

یاد رہے کہ اسد خاندان کے دور حکومت میں 45 سال تک شام عالمی سطح پر تنہائی کا شکار رہا۔

تاہم اس خاندان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جنگ سے تباہ شام کا مستقبل پہلے سے کہیں زیادہ روشن دکھائی دے رہا ہے۔

ٹرمپ نے کہا، ''اب ان کا وقت ہے۔ ہم تمام پابندیاں ہٹا رہے ہیں۔‘‘ اپنے تین روزہ دورہ سعودی عرب کے دوران منگل کے دن امریکی صدر کا یہ بھی کہنا تھا، ''شام کے لیے نیک تمنائیں اور (شامیوں) ہمیں کچھ خاص کر کے دکھاؤ۔

(جاری ہے)

‘‘

شامی وزارت خارجہ نے اس اعلان کو ایک ''فیصلہ کن موڑ‘‘ اور ''شام کے لیے استحکام، خود انحصاری اور بامعنی قومی تعمیر نو کا ایک اہم موقع‘‘ قرار دیا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا کہ اپنے مستقبل کا فیصلہ شامی عوام اب خود کریں گے۔

ابھی تفصیلات غیر واضح ہیں

یہ واضح نہیں کہ آیا پابندیوں میں نرمی مخصوص شعبوں، جیسا کہ بین الاقوامی انسانی امداد، بینکاری یا عام کاروبار تک محدود ہو گی یا امریکی پابندیوں کے خاتمے کو کچھ شرائط سے مشروط کیا جائے گا۔

یورپی یونین نے شام پر عائد کردہ کچھ پابندیاں پہلے ہی ختم کر دی ہیں۔ جمعرات کے روز یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس نے تجویز دی کہ شام پر عائد دیگر پابندیاں بھی نرم کر دینا چاہییں۔

گزشتہ چھ ماہ میں شام میں بڑی تبدیلیاں

دسمبر میں حیات تحریر الشام (HTS) کے باغی گروپوں کے اتحاد نے شامی آمر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔

اس گروپ کی قیادت احمد الشرع کر رہے تھے، جو اب ملک کے عبوری صدر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

تقریباً 14 سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد شام میں تعمیر نو کی لاگت 400 ارب ڈالر سے لے کر ایک ٹریلین ڈالر تک ہو سکتی ہے۔

الشرع نے وعدہ کیا ہے کہ وہ نئی حکومت میں شام کے تمام سیاسی اور مذہبی گروہوں کو شامل کریں گے۔ تاہم متعدد پرتشدد واقعات کی وجہ سے اب بھی خدشات موجود ہیں۔

اس تازہ تشدد نے اکثریتی سنی آبادی اور اقلیتی گروہوں کے درمیان تناؤ کو جنم دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہے کہ نئی شامی حکومت کو ابھی تک ملک بھر میں مکمل کنٹرول حاصل نہیں ہوا۔

مگر ٹرمپ کے بقول الشرع کے پاس ''ملک کو سنبھالنے کا سنہری موقع ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ''وہ ایک حقیقی لیڈر ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ الشرع ماضی میں القاعدہ سمیت دیگر شدت پسند گروہوں سے بھی منسلک رہے ہیں۔

شرائط بھی منسلک؟

پابندیاں اٹھانے کے ساتھ ساتھ ٹرمپ نے شام سے پانچ مطالبات بھی کیے ہیں، وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرولین لیوٹ نے ان کی تفصیل یوں بتائی۔

اسرائیل کے ساتھ ابراہیم معاہدے پر دستخط

تمام غیر ملکی دہشت گردوں کو شام سے نکالنا

فلسطینی دہشت گردوں کی ملک بدری

داعش کے دوبارہ ابھرنے سے روکنے میں امریکہ کی مدد

شمال مشرقی شام میں داعش کے حراستی مراکز کی ذمہ داری سنبھالنا

ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ شام ''حالات درست ہونے پر‘‘ اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے۔

تاہم دمشق کی جانب سے سرکاری طور پر یہ تصدیق نہیں کی گئی کہ وہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان امریکہ کی ثالثی میں طے پانے والے ابراہیم معاہدے میں شامل ہوگا یا نہیں۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی اہمیت

انٹرنیشنل کرائسس گروپ میں شامی امور کے سینیئر تجزیہ کار نانر ہاوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل شام کو غیر مستحکم کرنے والا کردار ادا کر رہا ہے۔

‘‘

انہوں نے کہا، ''وہ (اسرائیل) شامی فوجی تنصیبات پر سینکڑوں فضائی حملے کر چکا ہے اور جنوبی شام میں بھی دراندازی کی گئی ہے۔ جب تک کوئی مفاہمت نہیں ہو گی،اسرائیل کا یہ کردار جاری رہے گا۔‘‘

ہاوچ نے مزید کہا کہ اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات، الشرع پر اندرونی دباؤ بھی ڈال سکتے ہیں۔ تاریخی طور پر شام اور اسرائیل ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور سن 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد کئی بار دونوں کے درمیان جنگ بھی ہو چکی ہے۔

ابھی تک اسرائیل نے نئی شامی حکومت کے ساتھ ممکنہ سفارتی تعلقات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اسرائیل کو شامی حکومت کے ایران اور حزب اللہ سے سابقہ تعلقات اور اپنی سرحدوں پر حملے کا خوف لاحق ہے۔ تاہم نئے سفارتی تعلقات شاید اسرائیل کے ان خدشات کو کم کر سکیں۔

شام دنیا کے بدترین پناہ گزین بحرانوں میں سے ایک ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سن 2011 سے اب تک 1.

4 کروڑ سے زائد شامی اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں، جن میں سے 60 لاکھ ملک سے باہر اور باقی اندرون ملک بے گھر ہوئے ہیں۔

ادارت: شکور خان

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیل کے حکومت کے کے خاتمے کے ساتھ کے بعد

پڑھیں:

پاکستان کی معیشت کا مستقبل آبادی اور موسمی تبدیلیوں سے وابستہ ہے، وفاقی وزیر خزانہ

وفاقی وزیر خزانہ، سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان کی طویل المدتی اقتصادی ترقی کا انحصار ملک کے 2 بڑے قومی چیلنجز یعنی تیز رفتار آبادی بڑھوتری اور موسمی خطرات کا مؤثر مقابلہ کرنے پر ہے۔

یہ بات انہوں نے آج اسلام آباد میں پاپولیشن کونسل کی جانب سے منعقدہ ڈسٹرکٹ وُلنیربلٹی انڈیکس (DVIP) کے آغاز کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک اگرچہ میکرو اکنامک استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے، مگر آبادی کے دباؤ اور بڑھتے ہوئے موسمی خطرات کے بغیر پاکستان اپنی مکمل صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ آبادی کی وجہ سے انسانی ترقی کے مسائل جیسے بچوں میں سٹَنٹنگ، تعلیمی غربت، اور مستقبل کے لیے تیار نہ ہونے والا ورک فورس پیدا ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیرِاعظم کی زیر صدارت اجلاس، کیش لیس معیشت کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار

اسی دوران موسمیاتی تبدیلیاں شدید درجہ حرارت، سیلاب، خشک سالی اور ماحولیاتی نقصان کے خطرات بڑھا رہی ہیں، اور ان کے اثرات زیادہ تر وہی اضلاع محسوس کرتے ہیں جو غربت، کمزور انفراسٹرکچر اور بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ وزارت خزانہ، آبادی اور موسمیاتی پالیسی سازی میں قومی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گی اور ان ترجیحات کو بجٹ اور وسائل کی تقسیم میں شامل کرے گی۔

انہوں نے بین الاقوامی تناظر میں مالیاتی اداروں کے بڑھتے ہوئے کردار کو اجاگر کیا، اور کہا کہ پاکستان کو بھی یہی نقطہ نظر اپنانا ہوگا تاکہ طویل المدتی پائیداری اور مساوی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔

سینیٹر اورنگزیب نے پاپولیشن کونسل کی 3 سالہ تحقیق پر مبنی جامع ڈسٹرکٹ وُلنیربلٹی انڈیکس کی تعریف کی اور کہا کہ یہ انڈیکس چھ اہم شعبوں میں تفصیلی تجزیہ فراہم کرتا ہے، جس سے جغرافیائی تفاوت اور سب سے زیادہ خطرے والے اضلاع کی نشاندہی ہوتی ہے، خاص طور پر بلوچستان اور سندھ میں۔

انہوں نے بتایا کہ سماجی کمزوریاں اور موسمی خطرات ایک دوسرے کو بڑھاوا دیتے ہیں، جس سے پہلے ہی پسماندہ آبادی کے لیے خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں۔

وزیر خزانہ نے شہری اور دیہی ہجرت کے بڑھتے رجحان اور غیر رسمی بستیوں میں پانی، صفائی اور حفظان صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے غذائیت اور بچوں کی نشوونما پر پڑنے والے اثرات کی بھی نشاندہی کی۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی معیشت مستحکم راہ پر، ریٹنگ میں بہتری کی امید: وزیر خزانہ کی موڈیز کو بریفنگ

انہوں نے کہا کہ شہری کمزوریوں پر مزید تحقیق ضروری ہے تاکہ قومی منصوبہ بندی آبادی اور موسمی خطرات کے تمام پہلوؤں کو شامل کر سکے۔

سینیٹر اورنگزیب نے کہا کہ آبادی کی حرکیات اور موسمی اثرات کے درمیان باہمی انحصار کو تسلیم کرنا ضروری ہے اور مستقبل میں وسائل کی تقسیم کے فریم ورک میں وُلنیربلٹی میٹرکس کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان بصیرتوں کو قومی منصوبہ بندی میں شامل کرنا مساوات، مضبوطی اور سب سے زیادہ ضرورت والے اضلاع کو معاونت فراہم کرنے کے لیے اہم ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

DVIP آبادی اور موسمیاتی پالیسی سازی وفاقی وزیر خزانہ، سینیٹر محمد اورنگزیب

متعلقہ مضامین

  • پاکستان ریلوے، مستقبل کے چیلنجز
  • پاکستان و امریکی نجی کمپنیز کے مابین ریئر ارتھ منرلز اور قیمتی دھاتوں پر بڑا معاہدہ ہوگیا
  • جرمنی کا اسرائیل کو اسلحہ برآمدات پر عائد پابندیاں ختم کرنیکا اعلان
  • جرمنی نے اسرائیل کو اسلحہ برآمدات پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا
  • پاکستان کی معیشت کا مستقبل آبادی اور موسمی تبدیلیوں سے وابستہ ہے، وفاقی وزیر خزانہ
  • پاکستان ایک آزاد ملک، قرضوں میں نہیں پھنسنا چاہیے: امریکی ناظم الامور
  • پاکستان ایک آزاد ملک ہے اسے قرضوں میں نہیں پھنسنا چاہیے، امریکی ناظم الامور
  • سفاک اسرائیلی رژیم کی اندھی حمایت پر "جرمن چانسلر" کا اظہار فخر
  • ٹرمپ کی قریبی ساتھی امریکی صدر کا ساتھ چھوڑ گئیں، سبب کیا بنا؟
  • اسرائیل نے مزید 15 فلسطینیوں کی لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کردیں