UrduPoint:
2025-08-16@12:28:46 GMT

امریکی پابندیاں ختم، شام کا مستقبل کیا ہو گا؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT

امریکی پابندیاں ختم، شام کا مستقبل کیا ہو گا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 مئی 2025ء) اس ہفتے شامی عوام امید اور خوشی کے ساتھ ایک بار پھر ملک بھر کی سڑکوں پر جشن منانے کے لیے نکلے۔ اس خوشی کی وجہ بنی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اعلان کہ وہ شام پر عائد سخت پابندیاں مکمل طور پر ختم کرنا چاہتے ہیں۔

یاد رہے کہ اسد خاندان کے دور حکومت میں 45 سال تک شام عالمی سطح پر تنہائی کا شکار رہا۔

تاہم اس خاندان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جنگ سے تباہ شام کا مستقبل پہلے سے کہیں زیادہ روشن دکھائی دے رہا ہے۔

ٹرمپ نے کہا، ''اب ان کا وقت ہے۔ ہم تمام پابندیاں ہٹا رہے ہیں۔‘‘ اپنے تین روزہ دورہ سعودی عرب کے دوران منگل کے دن امریکی صدر کا یہ بھی کہنا تھا، ''شام کے لیے نیک تمنائیں اور (شامیوں) ہمیں کچھ خاص کر کے دکھاؤ۔

(جاری ہے)

‘‘

شامی وزارت خارجہ نے اس اعلان کو ایک ''فیصلہ کن موڑ‘‘ اور ''شام کے لیے استحکام، خود انحصاری اور بامعنی قومی تعمیر نو کا ایک اہم موقع‘‘ قرار دیا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا کہ اپنے مستقبل کا فیصلہ شامی عوام اب خود کریں گے۔

ابھی تفصیلات غیر واضح ہیں

یہ واضح نہیں کہ آیا پابندیوں میں نرمی مخصوص شعبوں، جیسا کہ بین الاقوامی انسانی امداد، بینکاری یا عام کاروبار تک محدود ہو گی یا امریکی پابندیوں کے خاتمے کو کچھ شرائط سے مشروط کیا جائے گا۔

یورپی یونین نے شام پر عائد کردہ کچھ پابندیاں پہلے ہی ختم کر دی ہیں۔ جمعرات کے روز یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس نے تجویز دی کہ شام پر عائد دیگر پابندیاں بھی نرم کر دینا چاہییں۔

گزشتہ چھ ماہ میں شام میں بڑی تبدیلیاں

دسمبر میں حیات تحریر الشام (HTS) کے باغی گروپوں کے اتحاد نے شامی آمر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔

اس گروپ کی قیادت احمد الشرع کر رہے تھے، جو اب ملک کے عبوری صدر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

تقریباً 14 سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد شام میں تعمیر نو کی لاگت 400 ارب ڈالر سے لے کر ایک ٹریلین ڈالر تک ہو سکتی ہے۔

الشرع نے وعدہ کیا ہے کہ وہ نئی حکومت میں شام کے تمام سیاسی اور مذہبی گروہوں کو شامل کریں گے۔ تاہم متعدد پرتشدد واقعات کی وجہ سے اب بھی خدشات موجود ہیں۔

اس تازہ تشدد نے اکثریتی سنی آبادی اور اقلیتی گروہوں کے درمیان تناؤ کو جنم دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہے کہ نئی شامی حکومت کو ابھی تک ملک بھر میں مکمل کنٹرول حاصل نہیں ہوا۔

مگر ٹرمپ کے بقول الشرع کے پاس ''ملک کو سنبھالنے کا سنہری موقع ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ''وہ ایک حقیقی لیڈر ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ الشرع ماضی میں القاعدہ سمیت دیگر شدت پسند گروہوں سے بھی منسلک رہے ہیں۔

شرائط بھی منسلک؟

پابندیاں اٹھانے کے ساتھ ساتھ ٹرمپ نے شام سے پانچ مطالبات بھی کیے ہیں، وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرولین لیوٹ نے ان کی تفصیل یوں بتائی۔

اسرائیل کے ساتھ ابراہیم معاہدے پر دستخط

تمام غیر ملکی دہشت گردوں کو شام سے نکالنا

فلسطینی دہشت گردوں کی ملک بدری

داعش کے دوبارہ ابھرنے سے روکنے میں امریکہ کی مدد

شمال مشرقی شام میں داعش کے حراستی مراکز کی ذمہ داری سنبھالنا

ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ شام ''حالات درست ہونے پر‘‘ اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے۔

تاہم دمشق کی جانب سے سرکاری طور پر یہ تصدیق نہیں کی گئی کہ وہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان امریکہ کی ثالثی میں طے پانے والے ابراہیم معاہدے میں شامل ہوگا یا نہیں۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی اہمیت

انٹرنیشنل کرائسس گروپ میں شامی امور کے سینیئر تجزیہ کار نانر ہاوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل شام کو غیر مستحکم کرنے والا کردار ادا کر رہا ہے۔

‘‘

انہوں نے کہا، ''وہ (اسرائیل) شامی فوجی تنصیبات پر سینکڑوں فضائی حملے کر چکا ہے اور جنوبی شام میں بھی دراندازی کی گئی ہے۔ جب تک کوئی مفاہمت نہیں ہو گی،اسرائیل کا یہ کردار جاری رہے گا۔‘‘

ہاوچ نے مزید کہا کہ اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات، الشرع پر اندرونی دباؤ بھی ڈال سکتے ہیں۔ تاریخی طور پر شام اور اسرائیل ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور سن 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد کئی بار دونوں کے درمیان جنگ بھی ہو چکی ہے۔

ابھی تک اسرائیل نے نئی شامی حکومت کے ساتھ ممکنہ سفارتی تعلقات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اسرائیل کو شامی حکومت کے ایران اور حزب اللہ سے سابقہ تعلقات اور اپنی سرحدوں پر حملے کا خوف لاحق ہے۔ تاہم نئے سفارتی تعلقات شاید اسرائیل کے ان خدشات کو کم کر سکیں۔

شام دنیا کے بدترین پناہ گزین بحرانوں میں سے ایک ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سن 2011 سے اب تک 1.

4 کروڑ سے زائد شامی اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں، جن میں سے 60 لاکھ ملک سے باہر اور باقی اندرون ملک بے گھر ہوئے ہیں۔

ادارت: شکور خان

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیل کے حکومت کے کے خاتمے کے ساتھ کے بعد

پڑھیں:

شمالی غزہ پر اسرائیلی بمباری، 90 سے زائد فلسطینی شہید 

 

شمالی غزہ میں اسرائیلی فوج کی تازہ بمباری سے 90 سے زائد فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق حملے صرف شمالی غزہ تک محدود نہیں، بلکہ دیگر علاقوں پر بھی بمباری کی گئی ہے۔

ادھر غزہ میں انسانی بحران مزید شدید ہوتا جا رہا ہے۔ صرف بمباری ہی نہیں، بلکہ شدید بھوک اور قحط سے بھی لوگ جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بھوک کے باعث مزید 8 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جس کے بعد قحط سے مرنے والوں کی مجموعی تعداد 235 ہو گئی ہے۔

یورپی ممالک نے اس بگڑتی صورتحال پر تشویش ظاہر کی ہے اور اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امدادی سامان کی محفوظ ترسیل کو یقینی بنائے، تاکہ متاثرہ لوگوں تک خوراک، پانی اور دوائیں پہنچ سکیں۔

نیوزی لینڈ نے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی اور امداد روکنے کے اقدامات کو “شرمناک” قرار دیا ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جو تھوڑی بہت امداد غزہ پہنچ رہی ہے، وہ سمندر میں قطرے کے برابر ہے، جس سے حالات مزید بگڑ رہے ہیں۔ اب تک اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد 61,722 سے تجاوز کر گئی ہے۔

ناروے نے اسرائیلی مظالم کے خلاف بڑا قدم اٹھایا ہے اور اسرائیل سے سرمایہ کاری کے کئی معاہدے ختم کر دیے ہیں۔ 11 اسرائیلی کمپنیوں سمیت متعدد بین الاقوامی منصوبے بھی بند کیے جا رہے ہیں، جو اسرائیل پر بڑھتی عالمی تنقید کا واضح اشارہ ہے۔

غزہ میں بحران اب انتہائی خطرناک شکل اختیار کر چکا ہے۔ عالمی برادری کے لیے یہ ایک بڑا امتحان ہے کہ وہ اسرائیلی حملوں اور امداد میں رکاوٹوں کے باوجود فلسطینی عوام کی مدد کیسے کرے۔

 

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • ایران کے خلاف یورپی ممالک کی آئندہ پابندیوں پر چین کی تنقید
  • ایران: جالوت کے مقابلے میں داؤد (ع)
  • روسی صدر کے ساتھ اہم ڈیل کیلیے تیار ہوں، صدر ٹرمپ
  • نیتن یاہو کا گریٹر اسرائیل سے وابستگی کا دعویٰ، عرب دنیا کا سخت ردعمل 
  • شمالی غزہ پر اسرائیلی بمباری، 90 سے زائد فلسطینی شہید 
  • فرانس، جرمنی اور برطانیہ ایران پر دوبارہ پابندیاں لگانے کے لیے تیار
  • سبز رنگ، مستقبل کی ترقی کا بنیادی رنگ
  • ایران کے ایٹمی پروگرام پر یورپی ممالک کا سخت انتباہ، دوبارہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کا عندیہ
  • اور بات ختم ہو گئی!
  • پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے اتحاد کا مستقبل