شام کا ڈیڑھ کروڑ ڈالر قرض سعودی عرب اور قطر نے اداکردیا. ورلڈبنک
اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 17 مئی ۔2025 )عالمی بینک نے کہا ہے کہ شام پر واجب الاداد ڈیڑھ کروڑ ڈالر کا قرض سعودی عرب اور قطر نے اداکردیا ہے جس کے بعد ورلڈ بنک 14 سال بعد شام میں اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے جارہا ہے ورلڈ بینک نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ شام اب اس کے کم آمدنی والے ممالک کے لیے مختص فنڈ کا مقروض نہیں رہا.
(جاری ہے)
عالمی بینک کا شام میں پہلا منصوبہ بجلی کی ترسیل اور رسائی کو بہتر بنانے کے حوالے سے ہوگا کیونکہ یہ طبی سہولیات، تعلیم اور پانی کی فراہمی جیسی بنیادی ضروریات کے لیے اہم ہے اس سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو اعلان کیا تھا کہ واشنگٹن شام پر عائد پابندیاں اٹھانا شروع کرے گا. امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض میں جی سی سی سربراہ اجلاس کے موقع پر شام کے صدر احمد الشرع سے ملاقات کی تھی اس ملاقات کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا گیا اور یہ 25 سالوں میں دونوں ممالک کے راہنماﺅں کے درمیان اس طرح کی پہلی ملاقات ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ ہونے والے ہر ڈالر سے عالمی معیشت میں تین ڈالر کا فائدہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 30 جون 2025ء) کم وسیلہ لوگوں کی مدد کرنا خیراتی عمل نہیں بلکہ بہتر مستقبل پر مشترکہ سرمایہ کاری ہوتا ہے، تاہم دنیا بھر میں ترقیاتی مقاصد کے لیے مالی وسائل کی شدید قلت ہے۔ 30 جون سے سپین میں شروع ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنس میں اس مقصد کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے لیے غورخوض ہو گا تاکہ مزید منصفانہ اور پائیدار دنیا کی بنیاد رکھی جا سکے۔
اندازوں کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ کیا جانے والا ہر ڈالر اوسطاً 2.80 ڈالر کا منافع دیتا ہے جس سے عالمی جی ڈی پی میں اربوں کا اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح پانی کی فراہمی اور صحت و صفائی کے شعبے میں ایک ڈالر خرچ کرنے سے طبی اخراجات میں 4.30 ڈالر کی بچت ہوتی ہے۔
معجزہ نہیں، سادہ حسابیہ کوئی معجزہ نہیں بلکہ قابل پیمائش نتائج ہیں۔
(جاری ہے)
ریاضی جنس یا بنیادی ڈھانچے کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرتی بلکہ یہ محض ہندسوں کی صورت میں حقائق کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ اعداد ثابت کرتے ہیں کہ کم وسائل والے ملکوں کی مدد کرنا ترقی یافتہ ممالک سمیت سبھی کے مفاد میں ہے۔صرف ایک ڈالر سے ہی بہت بڑا فرق پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر غیرمتعدی بیماریوں پر قابو پانے کے لیے ہر شخص پر سالانہ ایک ڈالر خرچ کیا جائے تو 2030 تک تقریباً 7 لاکھ اموات روکی جا سکتی ہیں۔
اسی طرح، قدرتی آفات سے لاحق خطرات پر قابو پانے کے لیے ایک ڈالر خرچ کرنے سے بحالی کے اخراجات میں 15 ڈالر تک بچت ممکن ہے۔تاہم، اس قدر واضح شواہد کے باوجود ترقیاتی امداد کو بعض اوقات غلط انداز سے دیکھا جاتا ہے۔ بعض لوگ اسے خیرات سمجھتے ہیں جبکہ ایسے بھی ہیں جو اسے منافع کمانے کا ذریعہ تصور کرتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی افغان کاروباری خواتین کے بارے میں تازہ ترین رپورٹ ترقیاتی امداد کی افادیت پر شبہ رکھنے والوں کے سوالات کا موثر جواب ہے۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ یہ خواتین خیرات نہیں مانگتیں بلکہ اپنے لیے منصفانہ مواقع کی طلب کرتی ہیں۔ اپنی محنت کی کمائی انہیں خودمختاری دیتی ہے جو ان کے معاشروں کو مضبوط بناتی ہے۔مشکلات کے باوجود یہ خواتین آمدنی پیدا کر رہی ہیں، روزگار تخلیق کر رہی ہیں اور بھرپور زندگیاں تعمیر کر رہی ہیں۔ اگر سرکاری و نجی مالی وسائل تک رسائی کو وسعت ملے، قرض فراہمی کی ضمانت دی جائے، بینالاقوامی منڈیوں میں سازگار مواقع میسر آئیں اور معاون نظام مضبوط کیے جائیں تو افغانستان ہو یا ایکواڈور، ہر جگہ کاروبار کو ترقی کا موقع ملے گا۔
'ایف ایف ڈی 4' کو درپیش مشکلاتترقی پر سوچ سمجھ کر کی گئی سرمایہ کاری سبھی کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔ مالیات برائے ترقی پر اقوام متحدہ کی چوتھی کانفرنس (ایف ایف ڈی 4) میں اسی پیغام کو نمایاں ہونا چاہیے جو 30 جون سے 3 جولائی تک سپین کے شہر سیویلا میں منعقد ہو رہی ہے۔ لیکن اس کانفرنس کو کڑی مشکلات کا سامنا بھی ہے۔
بدھ کو اقوام متحدہ ہیڈکوارٹر (نیویارک) میں رکن ممالک نے ایک دستاویز پر اتفاق کیا جس کی منظوری سیویلا کانفرنس کے اختتام پر دی جائے گی۔
یہ دستاویز مستقبل میں ترقیاتی امداد کے لیے رہنما اصول مہیا کرے گی۔ تاہم، بعض ممالک اس معاملے میں پیچھے ہٹ رہے ہیں جن میں امریکہ بھی شامل ہے جس نے اعلان کیا ہے کہ وہ کانفرنس میں اپنا وفد نہیں بھیجے گا۔اگرچہ سپین سمیت چند ممالک نے ترقیاتی مقاصد کے لیے دیے جانے والے مالی وسائل میں 12 فیصد اضافہ کیا ہے مگر موجودہ غیر یقینی صورتحال میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح عالمگیر تعاون پر شبہات نے جنم لیا ہے۔
ترقیاتی مالیاتی میں سالانہ 40 کھرب ڈالر کے خسارے سے ان شبہات کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، عطیہ دہندگان کا قبل ازیں کیے گئے وعدوں سے پھر جانا اور ترقیاتی امداد کی عدم فراہمی بھی باعث تشویش ہے۔ دنیا بھر کے رہنماؤں کی جانب سے محض 10 سال قبل طے پانے والے پائیدار ترقی کے اہداف کی جانب پیش رفت بھی بہت سست رفتار ہے۔
کامیابی کی ضمانت کیا ہے؟یونیورسٹی آف میساچوسیٹس میں معاشیات کی پروفیسر جیاتی گھوش کے مطابق، سیویلا میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ دیگر ممالک عالمی قیادت کے خلا کو پر کریں اور کثیرالجہتی تعاون کے لیے معتبر عزم دکھائیں جو سبھی کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں بروقت پیش رفت کے لیے بینالاقوامی مالیاتی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات درکار ہیں۔ موجودہ نظام ترقی پذیر ممالک کی ضروریات پوری نہیں کرتا بلکہ امیروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں قرضوں پر کم از کم دو گنا زیادہ سود ادا کرنا پڑتا ہے۔
آج نجی قرض دہندگان ان ممالک سے پچھلے 15 سال کی بلند ترین سطح پر سود وصول کر رہے ہیں۔2023 میں ترقی پذیر ممالک نے بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر ریکارڈ 1.4 ٹریلین ڈالر خرچ کیے جو پچھلے 25 سال کی بلند ترین سطح ہے۔
2024 میں ایسے ممالک کی آبادی 1.1 ارب سے زیادہ تھی جہاں قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہونے والی رقم حکومت کی سالانہ آمدن کا 20 فیصد سے زیادہ ہے۔ ایسے ممالک کی آبادی تقریباً 2.2 ارب ہے جہاں یہ تناسب 10 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔یہ سود ترقی میں رکاوٹ بن رہا ہے اور خاص طور پر اس سے صحت کا بنیادی ڈھانچہ اور تعلیم پر سرمایہ کاری متاثر ہورہی ہے۔ لہٰذا قرضوں کی واپسی میں سہولت دینا بہت ضروری ہے کیونکہ ترقی کے لیے بہت سی امید امداد اور قرض کے لین دین کی نذر ہو جاتی ہے۔
کارآمد سرمایہ کاری کا فروغبھوک کا خاتمہ، صنفی مساوات، ماحولیاتی تحفظ، موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ اور سمندروں کی حفاظت کوئی انتہا پسندانہ تصورات نہیں بلکہ مشترکہ انسانی ترجیحات ہیں جن پر 2015 میں اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک کے رہنماؤں نے اتفاق کیا تھا۔
ترقیاتی امداد اور کثیرالجہتی نظام کے مخالفین اقلیت میں ہیں۔ اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے سپین کی وزیر برائے بینالاقوامی تعاون اینا گراناڈوز گالینڈو سیویلا کانفرنس کو بین الاقوای یکجہتی کا چراغ قرار دیتی ہیں۔
اس وقت جب دنیا کی توجہ 'ایف ایف ڈی 4'، ریاضی اور شماریات پر مرکوز ہے، افغان خواتین اپنے عام فہم 'ترقیاتی جادو' سے کام لینے میں مشغول ہیں۔