چین کے پا کستان میں توانائی کے منصوبوں نے قومی گرڈ اسٹیشن کے استحکام کو بہتر کیا ہے، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
اسلام آ با د:چین نے گزشتہ 11 سال میں پاکستان میں 7 کوئلہ سے چلنے والے بجلی گھر، 5 نیو انرجی بجلی گھر، 2 ہائیڈرو پاور پلانٹس اور 1 ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر میں سرمایہ کاری کی ہے اور انہیں مکمل کر لیا ہے۔پیر کے روز چینی میڈ یا نے ایک رپورٹ میں کہا کہ چینی کمپنی کی سرمایہ کاری سے چلنے والا مٹیاری –لاہور ڈی سی ٹرانسمیشن منصوبہ پاکستان کا پہلا ہائی وولٹج ڈائریکٹ کرنٹ ٹرانسمیشن منصوبہ ہے، جو پاکستان کے انفراسٹرکچر میں ایک انقلابی منصوبہ ہے۔ اس نے نہ صرف پاکستان کے شمال اور جنوب کے درمیان بجلی کی ترسیل کی صلاحیت کو بڑھایا ہے بلکہ قومی گرڈ اسٹیشن کے استحکام کو بھی بہتر کیا ہے، ملک بھر میں بجلی کی بندش کے واقعات کو کم کیا ہے، اور توانائی کی ترسیل کے دوران ہونے والے نقصان کو بھی نمایاں طور پر کم کیا ہے، جس نے پاکستان کے “گرمیوں میں روزانہ 12 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ” کے مشکل حالات کو بدل دیا ہے۔لوڈ شیڈنگ ، یہ لفظ پاکستانی عوام کے لیے آج بھی ایک اذیت سے کم نہیں ۔ حالانکہ گزشتہ برسوں میں چین کی مدد سے پاکستان میں بجلی کی فراہمی میں نمایاں بہتری آئی ہے، لیکن لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کیلئے ابھی مزیدانتظار کرنا پڑے گا۔ درحقیقت، نہ صرف پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک، بلکہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر بجلی کی بندش کے واقعات اکثر پیش آتے ہیں۔ گزشتہ مہینے فرانس، اسپین اور پرتگال میں ہونے والے بریک ڈاؤن نے لاکھوں شہریوں کی زندگیوں کو برے طریقے سے متاثر کیا۔ اس خبر کو دیکھتے ہوئے بہت سے چینی نیٹیزنز نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ” بچپن میں ہونے والی لوڈشیڈنگ اب نہیں رہی”، “مجھے واقعی یاد نہیں کہ آخری بار بجلی کی بندش کب ہوئی تھی”!چین، جو دنیا کا سب سے بڑا ترقی پذیر ملک اور بجلی کا سب سے بڑا صارف ہے، اب بڑے پیمانے پر یا طویل عرصے تک بجلی کی بندش کے واقعات کا شکار نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ شدید موسمی حالات، بجلی کے زیادہ استعمال کے اوقات، یا قدرتی آفات جیسے انتہائی حالات میں بھی چین کا پاور گرڈ مجموعی طور پر مستحکم رہتا ہے۔ بجلی کی مکمل طور پر بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کا دنیا کیلئے آج بھی ایک خواب ہے ، لیکن چین نے اسے مستحکم خوشحالی میں بدلا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے ابتدائی دنوں میں ہی بجلی کی صنعت کو قومی معیشت کی بنیادی اور پیش رو صنعت کے طور پر لیا گیا۔ چونکہ چین کا رقبہ وسیع ہے اور قدرتی وسائل غیر متوازن طور پر تقسیم ہیں، لہٰذا پاور گرڈ کو بڑے پیمانے پر بجلی کی ترسیل کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بجلی سے مالا مال علاقوں سے بڑی مقدار میں بجلی ساحلی ترقی یافتہ علاقوں تک پہنچائی جا سکے۔ اصلاحات اور کھلے پن کے بعد سے، چین میں بجلی کے زیادہ استعمال والی صنعتوں جیسے کہ دھات اور کیمیکل صنعتوں میں توسیع ہوئی، اور ایئر کنڈیشنر، واشنگ مشین جیسے گھریلو آلات کے عام ہونے کے ساتھ ساتھ گھریلو بجلی کا استعمال بھی بڑھتا گیا، جس کی وجہ سے بجلی کی فراہمی میں بڑا خلاء پیدا ہو گیا۔ اس وقت چین میں لوڈ شیڈنگ ایک عام بات تھی۔اس مسئلے کو بنیادی طور پر حل کرنے کے لیے، چین نے ایک طرف تو تھری گورجز ڈیم اور دایاواں نیوکلیئر پاور پلانٹ جیسے عالمی شہرت یافتہ بجلی کے منصوبوں کو عملی شکل دی، تو دوسری طرف بجلی کی ترسیل کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے چین نے ایک ہائبرڈ الٹرنیٹنگ کرنٹ (AC) اور ڈائریکٹ کرنٹ (DC) الٹرا ہائی وولٹج ٹرانسمیشن ٹیکنالوجی پر کام کیا، جس کی بدولت چین دنیا کا واحد ملک بن گیا جو بڑے پیمانے پر الٹرا ہائی وولٹج گرڈ استعمال کرتا ہے۔ اس کے بعد سے چین میں کبھی بھی بڑے پیمانے پر بجلی کے بحران یا بندش کے واقعات پیش نہیں آئے۔اس کے علاوہ، چین کے بجلی کے نظام کے استحکام کا ایک اور سبب ملک کے انتظامی نظام اور طریقہ کار میں مسلسل بہتری ہے۔ چین نے “پاور پلانٹس اور گرڈ کی علیحدگی” اور ” بجلی کی قومی مارکیٹ” جیسی اصلاحات کے ذریعے علاقائی تقسیم کو ختم کیا اور قومی گرڈ اور جنوبی گرڈ کی مربوط منصوبہ بندی اور صلاحیت کو مضبوط بنایا ، جس سے نہ صرف اسٹریٹجک سلامتی کو یقینی بنایا گیا ہے بلکہ مارکیٹ کے نظام کے ذریعے ترقی کی رفتار بھی تیز ہوئی ہے۔ یہ دوہرا نظام جو منصوبہ بندی اور مارکیٹ کی سرگرمی دونوں کو یکجا کرتا ہے، چین کے بجلی کے نظام کو نہ صرف مستحکم اور قابل اعتماد بناتا ہے بلکہ اس کی موافقت اور جدت طرازی کو بھی بڑھاتا ہے، اور آج چین کو گرین ٹرانزیشن کی رفتار برقرار رکھتے ہوئے پورے بجلی کے نظام کے استحکام کو یقینی بنانے میں مدد دیتا ہے۔تیل کے چراغوں کی مدہم روشنی کے دور سے لے کر روشن بجلی کے موجودہ دور تک، یہ سب قومی حکمرانی کی صلاحیتوں کے ارتقاء، سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی کی پیش رفت ، اور نظام کے ” انقلاب” کا نتیجہ ہے۔ چین کے بجلی کی ترقی کے تجربات نہ صرف اپنے ملک بلکہ “بیلٹ اینڈ روڈ” منصوبوں کے ذریعے دوسرے ممالک کو توانائی کے بحران سے نمٹنے میں مدد دے رہے ہیں۔ یہ منصوبے نہ صرف ٹیکنالوجی کی برآمد ہیں بلکہ ترقی کے تصورات کی منتقلی بھی ہیں۔ کسی بھی معاشرتی نظام کا حتمی مقصد عوام کیلئے خوشحالی کے حصول کو یقینی بنانا ہونا چاہیے، نہ کہ تجریدی “عالمی اقدار” کا اسیر ہونا۔ چین نے بجلی کی مساوی رسائی کے ذریعے بجلی کی بندش سے نجات پا کر “مستحکم خوشحالی” کو حاصل کیا ہے، جو بنیادی طور پر “حفاظتی ضروریات” اور “سماجی بہبود” کی عملی تلاش ہے۔ چین کے تھری گورجز ڈیم سے لے کر پاکستان کے کروٹ ہائیڈرو پاور پلانٹ تک، الٹرا ہائی وولٹج گرڈ سے “مصنوعی سورج” کی ٹیکنالوجی تک، چین نے عملی طور پر ثابت کیا ہے کہ ترقی کے حصول کی حقیقی تعریف کیا ہے – یہ نظریاتی نعروں پر انحصار نہیں کرتی بلکہ ان گھروں میں نظر آتی ہے جہاں ہمیشہ روشنی ہو، ان فیکٹریوں میں جو مستقل چلتی ہوں، اور ان طالب علموں کے ڈیسک لیمپ میں جو کبھی بند نہ ہوں۔ یہ سب ایک واضح سچ کی طرف اشارہ کرتے ہیں: خوشحالی کی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں، اسے صرف حاصل کرنا ہوتا ہے۔ چین کی بجلی کی کہانی اسی سچ کی زندہ تفسیر ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بندش کے واقعات بڑے پیمانے پر بجلی کی بندش کے استحکام پاکستان کے لوڈ شیڈنگ کی ترسیل کے ذریعے میں بجلی کے نظام بجلی کے نظام کے چین کے چین نے کیا ہے
پڑھیں:
ایم ڈبلیو ایم نے گلگت بلتستان کیلئے قومی اسمبلی میں مضبوط آواز بلند کر دی
انجینئر حمید حسین طوری نے قومی اسمبلی میں گلگت بلتستان کیلئے آواز اٹھائی، معدنیات اور گرین ٹوور ازم پر تحفظات کا اظہار کیا، ایف سی میں حصہ، جی بی کونسل اجلاس کا نہ بلایا جانا، سکردو میں پانی بجلی کے مسائل اور روڈز کے فنڈز بحال کرنے جیسے مطالبات پیش کیے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے پارلیمانی لیڈر انجینئر حمید حسین طوری نے قومی اسمبلی میں گلگت بلتستان کیلئے آواز اٹھائی، معدنیات اور گرین ٹوور ازم پر تحفظات کا اظہار کیا، ایف سی میں حصہ، جی بی کونسل اجلاس کا نہ بلایا جانا، سکردو میں پانی بجلی کے مسائل اور روڈز کے فنڈز بحال کرنے جیسے مطالبات پیش کیے۔ تفصیلات کے مطابق ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے پارلیمانی لیڈر اور رکنِ قومی اسمبلی، انجینئر حمید حسین طوری نے قومی اسمبلی میں گلگت بلتستان کے عوام کی آواز بنتے ہوئے اہم قومی مطالبات پیش کیے۔ انہوں نے پوائنٹ آف آرڈر پر خطاب کرتے ہوئے سکردو میں جاری بدترین بجلی لوڈ شیڈنگ کا معاملہ اٹھایا اور وفاقی حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا۔
انجینئر حمید حسین طوری نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام پہلے ہی بنیادی آئینی و سیاسی حقوق سے محروم ہیں، ایسے میں بجلی اور دیگر سہولیات سے محرومی ظلم ہے۔ انہوں نے قومی اسمبلی کی توجہ دلائی کہ گلگت بلتستان کونسل، جس کا سربراہ وزیر اعظم پاکستان ہوتا ہے، گزشتہ تین سال سے ایک بھی اجلاس نہیں بلا سکی، جو جی بی کے عوام کے ساتھ سنگین ناانصافی اور مجرمانہ غفلت ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فوری طور پر گلگت بلتستان کونسل کا اجلاس بلائے، بجلی بحران کا خاتمہ کرے اور علاقے کے عوام کے آئینی و سیاسی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے تاکہ گلگت بلتستان کے عوام میں پھیلتی ہوئی بےچینی اور بداعتمادی کا خاتمہ ہو۔