چین کے پا کستان میں توانائی کے منصوبوں نے قومی گرڈ اسٹیشن کے استحکام کو بہتر کیا ہے، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 19 May, 2025 سب نیوز

اسلام آ با د:چین نے گزشتہ 11 سال میں پاکستان میں 7 کوئلہ سے چلنے والے بجلی گھر، 5 نیو انرجی بجلی گھر، 2 ہائیڈرو پاور پلانٹس اور 1 ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر میں سرمایہ کاری کی ہے اور انہیں مکمل کر لیا ہے۔

پیر کے روز چینی میڈیا نے ایک رپورٹ میں کہا کہ چینی کمپنی کی سرمایہ کاری سے چلنے والا مٹیاری –لاہور ڈی سی ٹرانسمیشن منصوبہ پاکستان کا پہلا ہائی وولٹج ڈائریکٹ کرنٹ ٹرانسمیشن منصوبہ ہے، جو پاکستان کے انفراسٹرکچر میں ایک انقلابی منصوبہ ہے۔ اس نے نہ صرف پاکستان کے شمال اور جنوب کے درمیان بجلی کی ترسیل کی صلاحیت کو بڑھایا ہے بلکہ قومی گرڈ اسٹیشن کے استحکام کو بھی بہتر کیا ہے، ملک بھر میں بجلی کی بندش کے واقعات کو کم کیا ہے، اور توانائی کی ترسیل کے دوران ہونے والے نقصان کو بھی نمایاں طور پر کم کیا ہے، جس نے پاکستان کے “گرمیوں میں روزانہ 12 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ” کے مشکل حالات کو بدل دیا ہے۔لوڈ شیڈنگ ، یہ لفظ پاکستانی عوام کے لیے آج بھی ایک اذیت سے کم نہیں ۔

حالانکہ گزشتہ برسوں میں چین کی مدد سے پاکستان میں بجلی کی فراہمی میں نمایاں بہتری آئی ہے، لیکن لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کیلئے ابھی مزیدانتظار کرنا پڑے گا۔ درحقیقت، نہ صرف پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک، بلکہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر بجلی کی بندش کے واقعات اکثر پیش آتے ہیں۔ گزشتہ مہینے فرانس، اسپین اور پرتگال میں ہونے والے بریک ڈاؤن نے لاکھوں شہریوں کی زندگیوں کو برے طریقے سے متاثر کیا۔ اس خبر کو دیکھتے ہوئے بہت سے چینی نیٹیزنز نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ” بچپن میں ہونے والی لوڈشیڈنگ اب نہیں رہی”، “مجھے واقعی یاد نہیں کہ آخری بار بجلی کی بندش کب ہوئی تھی”!چین، جو دنیا کا سب سے بڑا ترقی پذیر ملک اور بجلی کا سب سے بڑا صارف ہے، اب بڑے پیمانے پر یا طویل عرصے تک بجلی کی بندش کے واقعات کا شکار نہیں ہوتا۔

حتیٰ کہ شدید موسمی حالات، بجلی کے زیادہ استعمال کے اوقات، یا قدرتی آفات جیسے انتہائی حالات میں بھی چین کا پاور گرڈ مجموعی طور پر مستحکم رہتا ہے۔ بجلی کی مکمل طور پر بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کا دنیا کیلئے آج بھی ایک خواب ہے ، لیکن چین نے اسے مستحکم خوشحالی میں بدلا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے ابتدائی دنوں میں ہی بجلی کی صنعت کو قومی معیشت کی بنیادی اور پیش رو صنعت کے طور پر لیا گیا۔ چونکہ چین کا رقبہ وسیع ہے اور قدرتی وسائل غیر متوازن طور پر تقسیم ہیں، لہٰذا پاور گرڈ کو بڑے پیمانے پر بجلی کی ترسیل کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بجلی سے مالا مال علاقوں سے بڑی مقدار میں بجلی ساحلی ترقی یافتہ علاقوں تک پہنچائی جا سکے۔ اصلاحات اور کھلے پن کے بعد سے، چین میں بجلی کے زیادہ استعمال والی صنعتوں جیسے کہ دھات اور کیمیکل صنعتوں میں توسیع ہوئی، اور ایئر کنڈیشنر، واشنگ مشین جیسے گھریلو آلات کے عام ہونے کے ساتھ ساتھ گھریلو بجلی کا استعمال بھی بڑھتا گیا، جس کی وجہ سے بجلی کی فراہمی میں بڑا خلاء پیدا ہو گیا۔

اس وقت چین میں لوڈ شیڈنگ ایک عام بات تھی۔اس مسئلے کو بنیادی طور پر حل کرنے کے لیے، چین نے ایک طرف تو تھری گورجز ڈیم اور دایاواں نیوکلیئر پاور پلانٹ جیسے عالمی شہرت یافتہ بجلی کے منصوبوں کو عملی شکل دی، تو دوسری طرف بجلی کی ترسیل کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے چین نے ایک ہائبرڈ الٹرنیٹنگ کرنٹ (AC) اور ڈائریکٹ کرنٹ (DC) الٹرا ہائی وولٹج ٹرانسمیشن ٹیکنالوجی پر کام کیا، جس کی بدولت چین دنیا کا واحد ملک بن گیا جو بڑے پیمانے پر الٹرا ہائی وولٹج گرڈ استعمال کرتا ہے۔ اس کے بعد سے چین میں کبھی بھی بڑے پیمانے پر بجلی کے بحران یا بندش کے واقعات پیش نہیں آئے۔اس کے علاوہ، چین کے بجلی کے نظام کے استحکام کا ایک اور سبب ملک کے انتظامی نظام اور طریقہ کار میں مسلسل بہتری ہے۔ چین نے “پاور پلانٹس اور گرڈ کی علیحدگی” اور ” بجلی کی قومی مارکیٹ” جیسی اصلاحات کے ذریعے علاقائی تقسیم کو ختم کیا اور قومی گرڈ اور جنوبی گرڈ کی مربوط منصوبہ بندی اور صلاحیت کو مضبوط بنایا ، جس سے نہ صرف اسٹریٹجک سلامتی کو یقینی بنایا گیا ہے بلکہ مارکیٹ کے نظام کے ذریعے ترقی کی رفتار بھی تیز ہوئی ہے۔

یہ دوہرا نظام جو منصوبہ بندی اور مارکیٹ کی سرگرمی دونوں کو یکجا کرتا ہے، چین کے بجلی کے نظام کو نہ صرف مستحکم اور قابل اعتماد بناتا ہے بلکہ اس کی موافقت اور جدت طرازی کو بھی بڑھاتا ہے، اور آج چین کو گرین ٹرانزیشن کی رفتار برقرار رکھتے ہوئے پورے بجلی کے نظام کے استحکام کو یقینی بنانے میں مدد دیتا ہے۔تیل کے چراغوں کی مدہم روشنی کے دور سے لے کر روشن بجلی کے موجودہ دور تک، یہ سب قومی حکمرانی کی صلاحیتوں کے ارتقاء، سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی کی پیش رفت ، اور نظام کے ” انقلاب” کا نتیجہ ہے۔ چین کے بجلی کی ترقی کے تجربات نہ صرف اپنے ملک بلکہ “بیلٹ اینڈ روڈ” منصوبوں کے ذریعے دوسرے ممالک کو توانائی کے بحران سے نمٹنے میں مدد دے رہے ہیں۔

یہ منصوبے نہ صرف ٹیکنالوجی کی برآمد ہیں بلکہ ترقی کے تصورات کی منتقلی بھی ہیں۔ کسی بھی معاشرتی نظام کا حتمی مقصد عوام کیلئے خوشحالی کے حصول کو یقینی بنانا ہونا چاہیے، نہ کہ تجریدی “عالمی اقدار” کا اسیر ہونا۔ چین نے بجلی کی مساوی رسائی کے ذریعے بجلی کی بندش سے نجات پا کر “مستحکم خوشحالی” کو حاصل کیا ہے، جو بنیادی طور پر “حفاظتی ضروریات” اور “سماجی بہبود” کی عملی تلاش ہے۔ چین کے تھری گورجز ڈیم سے لے کر پاکستان کے کروٹ ہائیڈرو پاور پلانٹ تک، الٹرا ہائی وولٹج گرڈ سے “مصنوعی سورج” کی ٹیکنالوجی تک، چین نے عملی طور پر ثابت کیا ہے کہ ترقی کے حصول کی حقیقی تعریف کیا ہے – یہ نظریاتی نعروں پر انحصار نہیں کرتی بلکہ ان گھروں میں نظر آتی ہے جہاں ہمیشہ روشنی ہو، ان فیکٹریوں میں جو مستقل چلتی ہوں، اور ان طالب علموں کے ڈیسک لیمپ میں جو کبھی بند نہ ہوں۔ یہ سب ایک واضح سچ کی طرف اشارہ کرتے ہیں: خوشحالی کی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں، اسے صرف حاصل کرنا ہوتا ہے۔ چین کی بجلی کی کہانی اسی سچ کی زندہ تفسیر ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکہ نے چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر دباؤ کے لئے ریاستی طاقت استعمال کرتے ہوئے متعدد بل منظور کیے ، چینی میڈیا اعظم سواتی کی جیل میں پی ٹی آئی رہنماؤں سے ملاقات کی درخواست خارج اسلام آباد،مارگلہ ہلز کے جنگلات میں آگ بھڑک اٹھی مسلم لیگ (ن) نے عمران خان کی پیرول پر رہائی کی مخالفت کر دی پی ٹی آئی اور اپوزیشن اتحاد کا اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ پاکستان اور چین کا دفاعی تعاون جنگی برتری میں تبدیل، عالمی میڈیا کا بھی اعتراف قوم اپنے ہیرو کو سلام پیش کرتی ہے: سربراہ پاک فضائیہ کا اسکواڈرن لیڈر عثمان یوسف شہید کے گھر جا کر فاتحہ، سی ایم.

.. TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: بندش کے واقعات بڑے پیمانے پر کے استحکام کو بجلی کی بندش چینی میڈیا پاکستان کے لوڈ شیڈنگ کے ذریعے کی ترسیل میں بجلی نظام کے کے نظام بجلی کے کیا ہے چین کے چین نے کے لیے

پڑھیں:

خطے کے استحکام کا سوال

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے طورخم سرحد کو صرف افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے دوبارہ کھولا ہے، جب تک صورتحال میں بہتری نہیں آتی، سرحدی مقامات کارگو ٹرکوں اور عام مسافروں کے لیے بند رہیں گے۔

اس وقت سیکڑوں افغان پناہ گزیں طورخم امیگریشن سینٹر پہنچ گئے ہیں اور امیگریشن عملہ ضروری کارروائی کے بعد انھیں افغانستان جانے کی اجازت دے رہا ہے۔ دوسری جانب وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان کے ترجمان کے گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی بیانات پر شدید ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا کے عوام افغان طالبان کی سرپرستی میں جاری بھارتی پراکسیوں کی دہشت گردی سے بخوبی واقف ہیں اور اس بارے میں کوئی ابہام نہیں۔

 ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات بار بار ناکام ہو رہے ہیں۔ جنگ کے حالات اور بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے درمیان، پاکستان کی وزارت خارجہ نے 6 نومبرکو جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے اپنی توقعات کا اظہارکیا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان چند روز قبل ترکیہ میں امن مذاکرات ہوئے تھے، تاہم یہ مذاکرات طالبان کی ہٹ دھرمی کے باعث بری طرح ناکام رہے تھے۔ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں استنبول میں چار روزہ مذاکرات ہوئے لیکن وہ بے نتیجہ رہے۔

 بھارت کے بعد افغانستان نے جس طرح پاکستانی سرحدوں کو پامال کیا اور پاکستانی افواج نے جوابی حملہ کر کے طالبان اور فتنہ الخوارج اور ان کی سرحدی چوکیوں کو جس طرح تباہ کیا۔ اس سے انھیں حقیقت کا خاصا ادراک ہوگیا ہے لیکن بھارتی آشیر باد، فنڈنگ، سہولت کاری صورتحال کو نارمل ہونے میں حائل ہو رہی ہے۔ افغان انڈیا گٹھ جوڑ خطے میں امن کی بجائے بدامنی کا باعث بن رہا ہے، افغان ایک سیاہ تاریخ رقم کر رہے ہیں اور یہ تاریخ اوراقوام عالم میں احسان فراموش محسن کش کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔

پاکستان نے 40 سالوں تک افغان مہاجرین کو پناہ دے کر کاروبار تعلیم صحت کے مواقعے فراہم کر کے انھیں اپنے شہریوں کے برابر حقوق و سہولیات مہیا کیں اور وطن عزیز میں بطور مہمان رکھا مگر ہماری مہمان نوازی کے جواب میں یہ لوگ واپس جاتے جاتے، اپنے گھروں خیموں یہاں تک مساجد کو بھی شہید کرکے جا رہے ہیں جو کہ اسلام دشمنی اور احسان فراموشی کی بد ترین مثال ہے۔

افغانوں کے انخلاء کے بعد حکومت پاکستان کو اس بات پر بھی خاص نظر رکھنی ہوگی یہ لوگ دوبارہ پاکستان واپس نہ آجائیں تو اس کے لیے ان کا ڈیجٹیل ریکارڈ بھی رکھنا ضروری ہے۔ اب افغانستان کا چترال سے نکلنے والے دریائے کنہڑکے مقام پر ڈیم بنانے کا اعلان کرنا، بھارت کا کابل میں سفارتخانہ کھولنا، ہندو بنیے سے پیسے لے کر پاکستان کے خلاف اقدامات کرنا اور بھارت کے پیسوں سے پاکستان میں من پسند شریعت کے نفاذ کے دعوے، دین اسلام ،قرآن و سنت اور اللہ کے فرمان کے منافی سرگرمیاں ہیں۔

آج افغانوں کو اپنی منفی سرگرمیوں اور شرپسندی کے بھرپور جواب کے لیے تیار رہنا ہوگا اور اسی میں پاکستان کی بقا ہے۔ گو نئی کشمکش میں پاکستان کو فوجی برتری حاصل ہے۔ پاکستان کے پاس دنیا کی نویں بڑی فوج ہے، جو جدید فضائیہ اور جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے، وہ افغانستان کے اندر گہرائی تک حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، حتیٰ کہ اعلیٰ طالبان رہنماؤں کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے۔

 سوویت افغان جنگ 1979سے لے کر 1989تک جاری رہی اور اس جنگ میں پاکستان نے افغان فوج کا مکمل ساتھ دیا اور تعاون جاری رکھا جب کہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی پسپائی میں بھی پاکستان نے اہم کردار ادا کیا مگر اس کے بعد پاکستان پر دہشت گردانہ حملے اور دراندازیوں کا آغاز ہو گیا جو آج تک جاری ہے جب کہ پاکستان نے سفارتی احتجاج کیے، دہشت گردی اور دراندازی کے ثبوت بھی فراہم کیے، وفود کی ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، مگر افغانستان کی طرف سے ہمیشہ منفی رویہ اپنایا گیا۔

پاک افغان جنگ بندی اچھا عمل ہے مگر تاریخ کے مطابق افغان حکومت پر اعتبار کرنا کسی طور پر بھی خوشگوار نتائج کا حامل نہیں ہوگا۔بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کی ابھرتی معیشتوں میں دوسرے نمبر پر ہے، اس کی وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت2.41 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان اس وقت سی پیک کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لیے کوشاں ہے جب کہ یہی سی پیک دنیا کو 85.9 فیصد تجارتی راستوں سے جوڑتا ہے جو براہ راست چین، وسطی ایشیاء، مشرقی وسطی اور افریقہ تک پھیل سکتا ہے، یہ بات بہت یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان دنیا کے طاقت کے توازن کو بدل رہا ہے، ایسے میں ہمیں دشمنوں کے بچھائے جال میں الجھنے اور پھنسنے کی بجائے اپنی اسٹرٹیجک صورتحال اور میلوں پر پھیلے قیمتی معدنی ذخائر سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں نئے دروازے کھولنے چاہیں اور پیچھے مڑ کر ماضی کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے، ماضی کے بوجھ تلے دبے رہ کر دونوں برادر ہمسایہ ممالک کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا دونوں کو بداعتمادی کی فضا ختم کرنا ہوگی۔ دانش مندانہ اور پائیدار حکمت عملی سے نئے، خود مختار اور محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

بھارت جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا وہ دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں اور ماضی کی رنجشوں کو ابھارے گا، جب کہ وہ افغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ قونصل خانے بھی کھولنے جا رہا ہے، دہلی اور کابل کے درمیان بڑھتی قربت پاکستان کے لیے نقصان دہ ہیں، پاکستان کے افغانستان پر سب سے زیادہ احسانات ہیں ،اس لیے اسے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں جذباتیت کی بجائے توازن کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا تاکہ برادر ہمسایہ ملک جس کی غذائی ضروریات کا بڑا انحصار پاکستان پر ہے، اسے دشمن کی صفوں میں شامل ہونے سے ممکنہ حد تک روکا جا سکے تاکہ ملک کو جس دہشت گردی اور بدامنی کی لہر کا سامنا ہے اس میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکے۔

 پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے فوجی اور انٹیلی جنس نمائندے ایک مشترکہ نظام کے تحت کارروائیوں کی نگرانی کریں تاکہ کسی حملے کی صورت میں فوری ردعمل ممکن ہو، مگر افغان فریق نے اسے ’’ غیر ملکی مداخلت‘‘ قرار دے کر رد کر دیا۔

سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تو پھر تصدیق کے نظام سے خوف کیوں؟ دراصل طالبان حکومت داخلی طور پر منقسم ہے۔ ایک طرف وہ بین الاقوامی شناخت چاہتی ہے، دوسری طرف ٹی ٹی پی اور القاعدہ سے روابط توڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ترکیہ اور قطر نے ثالثی کے طور پر ایک سمجھوتے کی صورت تجویز کیا کہ پہلے تکنیکی سطح پر رابطے بحال کیے جائیں، بعد میں سیاسی معاملات طے کیے جائیں۔ یہ ایک قابل عمل تجویز تھی مگر کابل کے رویے نے اس کی راہ میں بھی رکاوٹ ڈال دی۔

مذاکرات کا ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ دونوں فریقوں نے ’’تکنیکی سطح‘‘ پر رابطے برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔ یعنی دروازہ مکمل طور پر بند نہیں ہوا۔ مگر اعتماد کا فقدان اتنا گہرا ہے کہ کوئی پیش رفت تبھی ممکن ہے جب کابل اپنے وعدوں کو تحریری شکل دے۔ زبانی یقین دہانیوں اور مذہبی حوالوں سے اب کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ خود مختاری صرف ایک ملک کا حق نہیں، ایک ذمے داری بھی ہے۔ جب اس کے علاقوں سے پاکستان پر حملے ہوں تو وہ خودمختاری نہیں، لاپرواہی کہلاتی ہے۔

پاکستان نے اپنے عوام، فوج اور سفارت کاروں کی قربانیوں سے جو امن حاصل کیا ہے، اسے کسی دوسرے ملک کی کمزوریوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ اس تنازع میں ترکیہ اور قطرکا کردار امید کی کرن ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف اسلامی برادری میں معتبر حیثیت رکھتے ہیں بلکہ ان کے پاس ثالثی کا عملی تجربہ بھی ہے، اگر وہ ایک مشترکہ مانیٹرنگ کمیشن کے قیام میں کامیاب ہو گئے تو شاید مستقبل قریب میں کوئی پیش رفت ممکن ہو۔ آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ استنبول مذاکرات مشکلات کا شکار ضرور ہوئے مگر انھوں نے پاکستان کے اصولی اور حقیقت پسندانہ موقف کو بین الاقوامی سطح پر واضح کر دیا۔ اسلام آباد نے ثابت کیا کہ وہ جنگ نہیں، امن چاہتا ہے۔

مگر ایسا امن جو احترامِ خود مختاری، تصدیق شدہ عمل اور دہشت گردی سے پاک ہمسائیگی پر مبنی ہو۔ افغانستان کے حکمرانوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ماضی کے خول میں بند رہنا چاہتے ہیں یا ایک ذمے دار ریاست کے طور پر اپنے ہمسایوں کے ساتھ نئے باب کا آغاز چاہتے ہیں۔

پاکستان کا دروازہ اب بھی کھلا ہے، مگر شرط وہی ہے ’’امن کے بدلے امن۔‘‘ جنگ کبھی مسائل کا حل نہیں ہوا کرتی، پاک افغان جنگ بندی معاہدہ اچھی پیشرفت ہے، یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اگر اس معاہدے پر من و عن عملدرآمد ہوجاتا ہے تو پھر دونوں ملکوں کے عوام کو دہشت گردی سے چھٹکارا حاصل ہوگا اور امن و امان کے عوض سکھ کا سانس نصیب ہوگا اور خطے میں سیاسی و معاشی استحکام بھی آئے گا۔

متعلقہ مضامین

  • معیشت مستحکم، ٹیکس نظام، توانائی ودیگر شعبوں میں اصلاحات لائی جا رہی: وزیر خزانہ
  • ٹیکس نظام، توانائی سمیت دیگر شعبوں میں اصلاحات لائی جارہی ہیں، وزیرخزانہ
  • وزارت صحت کا سیفٹی میڈیسن تقریب کا انعقاد، ادویات کا نظام بہتر کرنے کا عزم
  • معیشت بہتر ہوتے ہی ٹیکس شرح‘ بجلی گیس کی قیمت کم کریں گے: احسن اقبال
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • حکومت بجلی، گیس و توانائی بحران پر قابوپانے کیلئے کوشاں ہے،احسن اقبال
  • چین نے اپنا سب سے کم عمر خلا باز چینی خلائی اسٹیشن پر بھیج دیا
  • اسمارٹ میٹرز کی تنصیب کے کام کا آغاز کردیا گیا
  • جماعت اسلامی ویمن ونگ کراچی کا میڈیا اجلاس
  • پاکستانی خلا باز جلد چینی اسپیس اسٹیشن پر جائیں گے