شہادت، اﷲ تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے جو وہ اپنے فرماں بردار، مقربین خاص اور انعام یافتہ بندوں کے لیے مخصوص رکھتا ہے۔ رب العالمین نے قرآن مجید میں فرمایا، مفہوم: ’’اور جو لوگ راہ خدا میں قتل کردیے جائیں۔ خبردار! انہیں مُردہ مت کہنا، وہ زندہ ہیں لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے۔‘‘ (البقرہ)

وہ دانائے سبلؐ، ختم الرسلؐ، مولائے کُلؐ جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادی سینا

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر

وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰس، وہی طہٰ

رسول کریم حضور اکرم ﷺ کے ذکر کو اﷲ تعالی نے تاقیامت بلند کردیا ہے، وہیں آپؐ کے عظیم نواسے کی شہادت کو بھی امر کردیا کہ آپؐ نے فرمایا تھا: ’’حسینِ مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔‘‘

کربلا محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بل کہ اس میں اصل اہمیت اس مقصد کی ہے جس کی خاطر امام حسینؓ نے یہ قربانی پیش کی۔ شہادت حسینؓ میں بے شمار راز ہائے زندگی اور اسباق پوشیدہ ہیں جیسا کہ دنیوی اقتدار، دولت و شہرت ابدی کام یابی کا ضامن نہیں ہے۔

یزید جو چند روزہ اقتدار کے فریب میں مبتلاء ہوکر تکبّر اور طاقت کے نشے میں مگن ہوکر، اپنی مکارانہ چالوں سے دین الٰہی سے بغاوت کرکے ایمان کے مقابلے میں اپنی ذاتی خواہشات کا سودا کر بیٹھا تھا اور خانوادہ رسول کریم ﷺ پر ظلم و جور کی انتہاء کردی گئی تھی لیکن آج امام عالی مقام حسینؓ کا نام زندہ جاوید ہے اور یزید کا نام ظلم، جور و ستم اور سفاکی کا متبادل بن گیا۔ امام عالی مقام حسینؓ کی محبّت صرف رسومات کو انجام دینے کا نام نہیں بل کہ جناب عالی مقامؓ کی سنت پر عمل کرنے کا نام حسینیت ہے۔ اس لیے اقبال نے کہا:

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیریؓ

کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دل گیری

یہ رسم شبیری باطل کے خلاف سینہ سپر ہونے اور کلمۂ حق بلند کرنے کا نام ہے۔ رسم شبیری کا تقاضا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی شریعت کو بہ ہر صورت نافذ اور اس پر اپنی زندگی میں ہر لمحہ عمل پیرا رہا جائے۔

امام عالی مقامؓ نے جس دین کو بچانے کے لیے قربانی دی وہ امن اور سلامتی کا دین ہے۔ جس ماہ محرم میں یہ قربانی دی گئی وہ حرمت کا مہینہ ہے، جس میں قتل و غارت گری اور فتنہ فساد ممنوع ہے، یہاں تک کہ اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی امن و آشتی اور امن و صلح کا حکم ہے۔ اور خدا نخواستہ کلمہ گو آپس میں ہی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجائیں اور فتنہ و فساد برپا کریں۔ خدارا! بہ نام خدا و رسول کریم ﷺ بہ ہر صورت متحد رہیں۔

حق کائنات کا حُسن ہے، احسان ہے، خُوب صورتی ہے۔ حق روشنی ہے، مینارۂ نور ہے، صراط مستقیم ہے حق۔ انسانیت کا دوام، ترقی اور فلاح، حق سے وابستہ رہنے میں ہی ہے۔ حق ہی ہے جوہر خالص باقی تو بسں ننگ ہے۔

باطل بدصورتی ہے، طاغوت ہے، کراہت ہے، غلاظت ہے، اندھیر ہے، ظلم ہے۔ باطل حیلہ و دجلِ ابلیس ہے۔ گم راہی ہے، تذلیل انسانیت ہے باطل۔ مسترد و مردود ہے باطل۔

چراغ مصطفویؐ ہے حق اور شرار بولہبی ہے باطل۔

حق اور اس کے پیروکار سر جھکاتے ہیں فقط خالق کائنات کے رُو بہ رُو، سر تسلیم خم کرتے ہیں بس وحدہُ لا شریک کے احکامات پر۔ حق کے ندیم باصفا رب کی مخلوق کے حقوق کے محافظ اور زمینی خداؤں سے ہمیشہ برسر پیکار رہتے ہیں۔ حق کے دل دادہ اپنے لیے نہیں، رب کائنات کی مخلوق کے لیے جیتے ہیں۔ حق کی پیشانی خاک آلود ہوتی ہے بس رب کائنات کی بارگاہ میں۔

باطل اور اس کے حواری اپنے نفس کے اسیر اور ہر اک کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ باطل خاک آلود و خوار رہتا ہے نفس کی شررگاہ میں۔ باطل، خلق خدا کے حقوق کو غصب کرتا ہے۔ باطل رب کے باغیوں کا گروہ ہوتا ہے، جن کا امام راندۂ درگار ابلیس مایوس ہے۔ باطل رب کی مخلوق کے لیے آزار ہوتا ہے۔ باطل رب کے آزاد بندوں کو غلامی کی زنجیریں پہناتا ہے۔ روز ازل سے باطل کے رُو بہ رُو حق ہمیشہ برسر پیکار رہا ہے اور ابد تک رہے گا، کہ حق ہی کے لیے ہے سرخ روئی اور سربلندی، فقط حق کا نصیبا ہے سر بلندی اور سرخ روئی۔ وہ حق، حق ہی نہیں، جس کے مقابل باطل نہ آئے کہ دجل و فریب باطل کی موت ہے، حق فقط حق۔

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغ مصطفویؐ سے شرار بولہبی

کربلا، حق و باطل میں امتیاز کا نام ہے۔ کربلا، سچائی اور کذب میں تفریق کا نام ہے۔ کربلا، انسانیت کی پناہ کا نام ہے۔ کربلا، آمریت کے خلاف جمہور کی آواز ہے۔ کربلا، غاصبوں اور حقوق انسانی کے نغمہ خوانوں کے درمیان حد فاصل ہے۔ کربلا، حق و باطل کی ازلی کش مکش کا نام ہے۔ کردار حسینؓ ہی دراصل بقائے انسانیت ہے۔ حسینؓ، مظلوم کی سر پرستی کا نام ہے۔ حسینؓ اسلام کی حقانیت اور سربلندی کا نام ہے۔ حسینؓ قافلۂ عشاق کا امام ہے۔ حسینؓ بقائے دوام ہے۔ حسینؓ حقوق انسانی کے جری علم بردار کا نام ہے۔ حسینؓ آمریت کے مقابل جمہور کا ترجمان اور اس معرکے میں مظلوم انسانیت کا سپاہ سالار ہے۔ حسینؓ شجیع نے اپنے اور اپنے چہیتوں کے خون سے اسلام کے شجر طیّب کی آب یاری کی اور ثابت کردیا کہ نظریہ اور دین اہم ہوتا ہے۔

جواں مردوں کا امتحان ہمیشہ میدان کارزار میں ہُوا کرتا ہے اور جواںمرد ہی سرخ رُو اور سربلند رہتے ہیں اور ایسے سربلند کہ ان سے زیادہ سربلند کوئی اور نہیں ہوتا۔ ایسے سربلند کہ گردن کٹوا کے بھی جن کے سر بلند ہی رہتے ہیں۔ اور جب وہ راہ حق میں قتل کر دیے جائیں تو خالق کُل کائنات خبردار کرتا ہے کہ کوئی انہیں مردہ مت جانے، کوئی اپنے شعور کے دھوکے میں نہ آئے، انہیں ہی دوام ہے جو راہ خدا میں جان کا نذرانہ پیش کردیں۔ حسینؓ اسی قافلے کا امام سربلند و سرخ رُو ہے اور رہتی دنیا تک رہے گا۔ حسینؓ اپنی مثال آپ ہے، کہاں سے لائے گی دنیا حسینؓ جیسا کوئی۔

کربلا میں بہ ظاہر تو باطل مردود کو فتح حاصل ہوئی، شیرخوار اور معصوم بچوں، عفت مآب خواتین، باکردار جوانوں اور افضل مردان حق کے ساتھ ظلم و ستم ہوا اور سب ہی جانتے ہیں کیسا ظلم، ایسا ظلم کہ خود ظلم بھی شرم سار اور رسوا ہوا۔ مگر رازدارانِ حقیقت اور صاحبانِ بصیرت خوب جانتے ہیں اور اس کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ شکست کس کا مقدر بنی اور بدکرداری کی کالک کس کے حصے میں آئی۔ کون نہیں جانتا یہ سچائی، کہ حسینؓ اور حسینؓ کے انصار ہی سربلند اور سرخ رُو رہے۔ یزید بہ ظاہر جیت کر بھی ایسا ہارا کہ رہتی دنیا تک ہار کی بدترین اور عبرت ناک مثال بن گیا اور بنا رہے گا۔

ہر انسان پیدائش کے بعد طبعی عمر گزار کر اپنے وجود کے خاک ہوجانے کا شعور رکھتا ہے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد انسان کو زندگی اور موت کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ عقل اور حاصل ہونے والے دنیاوی علم کی بنیاد اور مشاہدے پر وہ اس بات کا یقین کرلیتا ہے کہ دنیا میں ہر جنم لینے والے کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ تاہم قرآن حکیم اپنے ماننے والوں کو ایک اور روشن ترین اور ابدیت کی طرف جانے والے راستے کا ادراک کرواتا اور اس کا فہم عطا کرتا ہے۔ قرآن عظیم کے بتائے ہوئے اس راستے میں وہ زندگی پوشیدہ ہے جو بقا میں قیام کرتی ہے، جسے فنا نہیں، جو نیست سے ہم آغوش نہیں ہوتی اور جو کبھی معدوم نہیں ہوتی۔ اس ابدیت کے راستے پر بس وہی مسافران حق سفر کرتے ہیں جو خالقِ کائنات کی وحدانیت اور اس کے حبیب کریمؐ پر ایمان لاتے ہیں۔ حسینؓ کے نانا جناب رسول اﷲ ﷺ جو شہر علم ہیں، حسینؓ کے والد گرامی جناب علیؓ جنہیں شہر علم کے باب علم کا شرف عظیم حاصل ہے، وہ حسینؓ ہی تو جانتے ہیں کہ علم کیا ہے، حقیقت کیا ہے، بصیرت کسے کہتے ہیں، بصارت کیا ہوتی ہے، کائنات میں کیا راز پوشیدہ ہے، ہاں! حسینؓ جانتے ہیں۔

قرآن حکیم ہمیں بتاتا ہے، مفہوم: ’’جو اﷲ کی راہ میں قتل کر دیے جائیں انہیں مردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں اور اپنے رب سے رزق پا رہے ہیں، مگر تمہیں اس کا شعور نہیں۔‘‘

یہ کیسی زندگی ہے، جس سے ہمیں کتاب اﷲ، جو ہر شک اور شبہے سے پاک و منزہ ہے، آگاہ کر رہی ہے؟ یہ کون سا رتبہ و مقام ہے جس کا ذکر قرآن حکیم فرقان مجید نے کیا ہے؟ اس کا جواب بھی قرآن سے ہی ہمیں ملا ہے۔ یہ وہ اعزاز ہے جو اﷲ رب العزت خلوصِ نیت کے ساتھ اپنی راہ میں جان قربان کردینے والوں کو عطا فرماتا ہے۔ مسلمان اس رتبے کے حامل کو شہید اور شہادت کے نام سے جانتے ہیں۔ حقیقی اور ابدی زندگی کی طرف جاتا ہوا یہ راستہ مومن کا انعام ہے۔ قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کرنے والوں کے لیے رب کائنات کی رضا کا عظیم سندیسہ، سند اور جزا ہے۔

شہادت دراصل باطل کی نفی کرنے اور راہ حق میں اپنی جان قربان کردینے کا نام ہے۔ اسلام ایسا دین ہے جس میں عدل، انصاف اور احسان کو بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ ہمارا دین اسلام، جو رب کائنات کا پسندیدہ دین ہے، ہمیں بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنے، مجبور اور محکوم کو ظالم کے مظالم سے نجات دلانے اور حق بات کہنے میں جرات کا مظاہرہ کرنے کا درس دیتا ہے، اور اعلائے کلمہ الحق کی راہ میں زندگی بھی نچھاور کردینا حق کے داعیوں کا شیوہ ہے، جس کا انعام شہادت کے مرتبے اور مقام کی صورت میں ملتا ہے۔ دنیائے اسلام میں قربانی اور ایثار کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ کہیں مسلمانوں نے اﷲ کی راہ میں مال و دولت اور دنیاوی آسائشوں کو قربان کردیا تو کہیں ظالمین اور جبر کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں۔ یہ مہینہ محرم الحرام سن ہجری کا پہلا ماہ مکرم جو ہمیں راہ حق پر ڈٹ جانے اور ظالم کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے کا درس دیتا ہے۔

اس ماہ میں میدان کربلا میں حق و انصاف کے علم برداروں کی طرف سے دی جانے والی عظیم قربانی مسلمانوں کے لیے قیامت تک مثال بن گئی۔ محرم الحرام میں نواسۂ رسول حضرت امام عالی مقام حسینؓ نے یزید اور یزیدیت کو شکست فاش دی۔ اپنے اہل خانہ اور چند جاں نثاروں کے ساتھ آپ نے اپنی اور اپنے چہیتوں کی جان کا نذرانہ اپنے رب کی بارگاہ عظیم میں پیش کرکے اسلام کو زندہ و جاوید کردیا، ہر ظلم کو خندہ پیشانی اور پامردی سے برداشت کیا، لیکن حسینؓ شجیع نے ظلم کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی۔ حسینؓ جری نے اسلام کی حقیقی تعلیمات کا درس میدان کار زار کرب و بلا میں بہ نوک سناں بھی پیش کیا۔ حسینؓ ذی وقار نے آمریت کے خلاف اپنے خون مطہّر سے وہ تاریخ رقم کردی جس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔

کرب و بلا کے میدان میں باطل نے بہ ظاہر تو مٹھی بھر جان نثاران حسینؓ کو زیر کرلیا ، مگر رازدارانِ حقیقت اور صاحبانِ بصیرت جانتے ہیں کہ شکست کسے ہوئی اور رہتی دنیا تک کون رسوا ہوا۔ یزید رسوائی کا نشان عبرت اور حسینؓ نشان عزم و استقلال اور مظلوموں کی زندگی بن گئے۔

ایک بار پھر ہم کرب و بلا کے معرکے میں امام عالی مقام حسینؓ شجیع و جری اور ان کے وفا شعار ساتھیوں کی شہادت عظمیٰ کو یاد کررہے ہیں اور تاقیامت یاد کرتے رہیں گے۔ قرآن کی مذکورہ بالا آیت ہمیں بتاتی ہے کہ شہید کبھی نہیں مرتے۔ ہر مسلمان اس بات پر کامل یقین رکھتا ہے کہ اﷲ اپنے بندوں سے کیے گئے وعدے ضرور پورے کرتا ہے اور یہی یقین ہمیں اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ ہم ظلم کا مقابلہ کریں اور راہ حق میں اپنے مال اور جان کی قربانی کی اگر ضرورت پڑجائے تو اس سے بھی دریغ نہیں کریں۔ دنیا میں ہمیشہ ہی حق اور باطل معرکہ آرا رہے ہیں اور رہیں گے اور کردار حسینؓ ہر دور میں قافلۂ عشاق کی نمائندگی اور راہ نمائی کرتا رہے گا۔

شہادت حسینؓ شریعت محمدیؐ کی سربلندی کے لیے قربانی دینے کا نام ہے۔ حسینیت حق کی آواز بلند کرنے کا نام ہے۔ حسینیت عالم کے لیے پیغام امن ہے۔ شہادت امام حسینؓ، ہم سب سے فتنہ، فساد، تفریق و انتشار کی نابودی اور اتحاد کی جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے۔ عصر حاضر میں پیغام حسینؓ کو اجاگر کرتے ہوئے اس کی روح کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔

رضائے رب میں لٹایا ہے گھر کا گھر جس نے

وہ جانِ بنت پیغمبرؐ ہے، دم حسینؓ کا ہے

بھلا سکے گا نہ تاحشر جس کو سارا جہاں

وہ ذات ابن علیؓ ہے، وہ غم حسینؓ کا

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امام عالی مقام حسین رب کائنات کائنات کی جانتے ہیں کا نام ہے کرتا ہے ہیں اور راہ میں میں قتل کے ساتھ کرنے کا کے خلاف راہ حق کے لیے رہے گا اور اس ہے اور

پڑھیں:

یہی اعزاز ہے اپنا!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بلا شبہ ہم سب مسلمانوں پر اللہ کریم کا یہ احسان عظیم ہے کہ ہم مسلم گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں اور پھر یہ بھی کہ یہی اعزاز ہے اپنا کہ ہم حق و باطل میں امتیاز کر سکتے ہیں۔ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ تمام مسلم امہ جسد واحد کی طرح ہیں جیسے جسم کے کسی بھی حصہ کو اگر کوئی تکلیف پہنچے تو پورا جسم اُس کا درو محسوس کرتا ہے ہم بھی اسلامیان عالم ایک دوسرے کے ساتھ چولی دامن کی طرح جڑے ہوئے ہیں، ہمارا مرنا جینا فقط رضائے الٰہی کے لیے ہی ہے اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے سارے طور طریقے قرینے اور سلیقے اور اعمال و افعال اللہ کریم کی خوشنودی اطاعت و تابع فرمانی مجبوب خدا سید نا احمد مجتبیٰ محمد مصطفیؐ کے ارشادات گرامی کی پیروی اور قرآن مجید فرقان حمید کے بتائے ہوئے اصولوں اور قواعد و ضوابط کے مطابق ہوں تاکہ ہم حق و باطل میں امتیاز کر سکیں، حق و باطل کی جنگ تو ازل سے شروع ہوئی جو ابد تک جاری رہے گی لیکن فتح ہمیشہ حق کی ہی ہوتی ہے، ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ باطل سے ٹکرانے کے لیے مومن کامل ہونا ضروری ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ملت اسلامیہ نے باطل کے خلاف علم جہاد بلند کیا، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُسے شاندار فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔ آج بھی باطل قوتیں حق کے خلاف برسر پیکار ہیں لیکن انہیں ہمیشہ منہ کی کھانا پڑتی ہے اور وہ حق کے مقابلہ میں ہمیشہ شکست فاش سے دوچار ہوتی ہیں، یہ بات تو طے ہے اور قرآن مجید میں تبایا گیا اللہ کا اٹل فیصلہ ہے کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے ہر گز دوست نہیں ہو سکتے ہمارے آج کے کالم کا موضوع ہے کہ ’’یہی اعزاز ہے اپنا‘‘ اور یہ اعزاز کم نہیں ہے کہ خالق کائنات نے ہمیشہ مسلم امہ کو ہر میدان میں سرخرو اور سرفراز و سر بلند رکھا ہے حالیہ پاک بھارت جھڑپ اور ایران اسرائیل جنگ حق و باطل کے درمیان دو عظیم معرکے ثابت ہوئے۔ حق کو دونوں مقامات پر مثالی فتح نصیب ہوئی اور باطل کا منہ کالا ہوا، پاک بھارت جنگ میں فوج کی شاندار حکمت عملی، جرأت و استقلال اور بصیرت نے بھارت کو ناکوں چنے چبوا دیے اور دوسری جانب جمہوری اسلامی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی شجاعت و دلیری عزم و استقلال، جذبہ شہادت نے اقوام عالم پر واضح کر دیا کہ دین مبین اسلام سے جڑی ہوئی قوتیں، حیدر کرار علی کرم اللہ وجہہ کے مقلدین، کرب و بلا میں شجاعت و دلیری کی داستانیں رقم کرنے والے طاغوتی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کا مقابلہ کرنے کی جرأت و استقامت رکھتے ہیں۔

ہم تمام مسلم امہ سے بلا کی عقیدت رکھتے ہیں کیونکہ تمام اسلامی ممالک ہمارے ماتھے کا جھومر اور ہمارے دلوں کا سرور ہیں جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اِن تمام مسلم امہ کا مضبوط اسلامی قلعہ ہے۔ ایران سے ہمارے دیرینہ اور برادرانہ مضبوط اور اٹوٹ رشتے ہیں۔ یہ بھی ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے کہ پشاور میں قائم ایرانی قونصل خانہ کے قونصل جنرل اور تمام دیگر عہدیداروں نے علم و قلم سے جڑے لوگوں کی ہمیشہ بے حد پزیرائی کی ہے، اباسین کالم رائیٹرز ایسوسی ایشن خیبر پختون خوا پشاور ممتاز لکھاریوں، قلم کاروں اور کالم نگاروں کے پانچ رکنی وفد نے راقم الحروف کی قیادت میں پشاور میں ایران کے قونصل جنرل علی بنفشہ خواہ کے ساتھ ملاقات کرکے تنظیم کی طرف سے اسرائیل، ایران جنگ میں ایران کی شاندار فتح پر انہیں مبارکباد پیش کی، اس موقع پر بحیثیت صدر اباسین کالم رائیٹرز ایسوسی ایشن راقم الحروف نے قونصل جنرل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی فتح در اصل مسلم امہ کی فتح ہے انہوں نے کہا کہ استعماری قوتوں کے خلاف جہاد ایران پر ہم ایرانی قوم اور اُن کے عظیم قائد آیت اللہ خامنہ ای کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں کہ ادھر پاکستان اور اُدھر ایران نے دشمنان دیں کو دندان شکن جواب دے کر ان کی کمر توڑ دی ہے۔ ایران کے قونصل جنرل علی بنفشہ خواہ نے وفد کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ایران آپس میں دینی، تمدنی اور ثقافتی اعتبار سے چولی دامن کا ساتھ رکھتے ہیں، ہمارے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں اور باطل قوتوں کے خلاف ہمارا ایک ہی فلسفہ اور جذبہ جہاد ہے انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں پاکستان کے لکھاریوں، قلمکاروں اور میڈیا سے جڑے لوگوں نے جس طرح ایران کا حوصلہ بڑھایا ہے ہم ان کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ مسلم امہ متحد و منظم ہو کر باطل قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے، ان شاء اللہ فتح ہماری ہوگی۔ اس وقت عالم کفر حق کے خلاف یکجا ہو چکا ہے عالم اسلام کا اتحاد و یگانگت اور یکجہتی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی اسلامی اقدار و روایات، تہذیب و تمدن اور ثقافت کو زندہ رکھنا ہے، ایکوا کے وفد میں تنظیم کے جنرل سیکرٹری عابد اخترحسن، فنانس سیکرٹری وسیم شاہد، لیگل ایڈوائزر صاحبزادہ طلحہ سعید ایڈوکیٹ اور رکن ایگزیکٹیو کمیٹی اورنگزیب غزنوی شامل تھے جبکہ ایرانی قونصل خانہ کے ترجمان فضل عظیم بھی اس موقع پر موجود تھے، ایرانی قونصل جنرل علی بنفشہ خواہ کی جانب سے اباسین کالم رائیٹرز ایسوسی ایشن (ایکوا) کی طرف سے قونصل خانہ آمد اور مبارکبادی کے پیغام سے متعلق ایرانی حکومت اور جمہوری اسلامی ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ خامند ای کو باضابطہ آگاہ کیا گیا ہے۔ ملت اسلامیہ کا اتحاد یگانگت، یکجہتی، سوچ اور افکارکا یکساں ہونا ہی تو مسلم امہ کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔

متعلقہ مضامین

  • شہادتِ امام حسینؓ کا پیغام
  • کربلا حق و باطل کا معرکہ ہے، امام حسینؑ کا پیغام رہتی دنیا تک زندہ رہے گا، علامہ مبشر حسن
  • یہی اعزاز ہے اپنا!
  • کربلا حق اور باطل کی جنگ کا نام ہے،خیرمحمد تنیو
  • حق کی تلوار اور ظلم کا تخت
  • پشاور،ادارہ تبلیغ الاسلام کے زیر اہتمام عشرہ محرم الحرام کا تیسرا اجتماع
  • اہل بیت اورصحابہ سے محبت رکھنا ایمان کا حصہ ہے ،دعوت اسلامی
  • امام حسینؑ نے اپنے عزیز ترین رفقاء اور اہلِ بیت کو قربان کر دیا مگر باطل کے سامنے سر نہ جھکایا، علامہ شہنشاہ نقوی
  • کراچی کے ساتھ ظلم کی تاریخ