Islam Times:
2025-07-03@05:16:48 GMT

جب استقامت نے مسلکوں کے قفل توڑ دیئے

اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT

جب استقامت نے مسلکوں کے قفل توڑ دیئے

اسلام ٹائمز: ایران کی استقامت، پاکستان کے اہل سنت پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس اثر کو عقلمندی اور حسنِ اخلاق سے خیر میں بدلا جا سکتا ہے، لیکن بدزبانی، توہین اور تکبر کی صورت میں یہ موقع دشمن کے ہاتھ چلا جائے گا۔ لہٰذا، اب وقت ہے کہ ہم حکمت، محبت اور اتحاد کو اپنا شعار بنائیں، تاکہ پاکستان میں ایک پرامن، باشعور اور متحد اسلامی معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔ تحریر: آغا زمانی

پاکستان کا سماجی، مذہبی اور سیاسی منظرنامہ ہمیشہ سے کثیرالمذاہب اور متنوع الخیال رہا ہے۔ تاہم موجودہ عالمی اور علاقائی حالات بالخصوص فلسطین، شام، یمن اور ایران کے انقلابی کردار نے پاکستانی عوام میں خاص طور پر اہل سنت حلقوں میں نئے رجحانات کو جنم دیا ہے۔ ایران کی طرف سے استکبارِ جہانی کے خلاف مسلسل مزاحمت، فلسطین کی بے لوث حمایت اور اخلاقی و دینی استقامت نے عوام کے دلوں میں ایک نئی بیداری پیدا کی ہے، جس کا اثر پاکستان میں بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔

ایران کی انقلابی استقامت کا عالمگیر اثر:
اسلامی جمہوریہ ایران نے انقلاب اسلامی 1979ء کے بعد سے آج تک جس استقلال اور نظریاتی وفاداری کے ساتھ عالمی استکبار کے خلاف موقف اپنایا ہے، وہ اہل تشیع ہی نہیں بلکہ اہل سنت کے اہلِ درد افراد کے لیے بھی باعثِ احترام بن چکا ہے۔ ایران کے رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کی قیادت میں فلسطین کے حق میں دی گئی قربانیاں، امریکہ و اسرائیل کے خلاف واضح موقف اور اتحاد بین المسلمین کی مسلسل دعوت نے کئی سنی حلقوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ شاید یہی راستہ امت مسلمہ کو ذلت سے عزت کی طرف لے جا سکتا ہے۔

پاکستانی اہل سنت میں بدلتا ہوا رویہ:
پاکستان میں دینی مدارس، علمی حلقے اور عوامی سطح پر اہل سنت کے کئی طبقات خاص طور پر دیوبندی، بریلوی اور جماعت اسلامی سے وابستہ نوجوان ایران کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ اس کشش کا سبب صرف ایران کا شیعی نظریہ نہیں بلکہ اس کی عملاً مزاحمتی سیاست، خودداری، فلسطین دوستی، استکبار مخالفت اور اتحادِ امت کا پیغام ہے۔ کئی دیوبندی علمائے کرام اور خطباء کی تقاریر میں اب ایران کے خلاف نفرت کے بجائے اعترافِ تحسین کے جملے سننے کو ملتے ہیں۔ بریلوی حلقوں میں بھی، خصوصاً فلسطین کی موجودہ صورتحال کے بعد ایران کی حمایت کا تاثر پہلے سے کہیں زیادہ گہرا ہوچکا ہے۔

یہ موقع ضائع نہ ہونے پائے:
یہ ایک تاریخی موقع ہے کہ اہل تشیع اور ایران سے متاثر اہل سنت کے درمیان نظریاتی، اخلاقی اور شعوری روابط مضبوط کیے جائیں۔ اگر ہم اس وقت بردباری، حکمت اور احترامِ مسلک کے ساتھ ان کے قریب ہونے کی کوشش کریں تو پاکستان میں ایک مثبت، متحد اور طاغوت دشمن اسلامی رجحان پیدا ہوسکتا ہے، جو نہ صرف فرقہ واریت کو کم کرے گا بلکہ امت کی اصل دشمن قوتوں کے خلاف ایک مشترکہ مورچہ بھی بن سکتا ہے۔ پاکستان میں اہل سنت کی بڑی دینی و سیاسی جماعتوں کے حالیہ بیانات اور رویئے ایک نئی فکری بیداری کی غمازی کر رہے ہیں۔ ان جماعتوں نے نہ صرف ایران کی فلسطین کے حق میں مستقل مزاحمت اور صہیونی ریاست کے خلاف بے خوف مؤقف کو سراہا ہے بلکہ اس موقف کو امت مسلمہ کے لیے باعثِ افتخار قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ اہم مثالیں درج ذیل ہیں:

جماعت اہل حرم پاکستان کا موقف:
پرنسپل جامعہ نعیمیہ اسلام آباد اور مرکزی صدر جماعت اہل حرم پاکستان، مفتی گلزار احمد نعیمی کا شمار ان دردمند علماء میں ہوتا ہے، جو امت مسلمہ کے زخموں پر مرہم رکھنے کی جرأت رکھتے ہیں۔ غاصب صہیونی ریاست کے خلاف ان کا مسلسل اور بے باک موقف، خواہ وہ خطبات میں ہو یا سوشل میڈیا پر ایک بیدار ضمیر کی گواہی دیتا ہے۔ ایران کے حق میں ان کا دو ٹوک اظہارِ تائید، نہ صرف ایک ہمسایہ اسلامی ریاست سے محبت کا مظہر ہے بلکہ مزاحمتی قوتوں کے ساتھ فکری ہم آہنگی کا اعلان بھی ہے۔ آپ کا یہ سوال کہ "آج مظلومینِ جہاں کی عملی مدد کون سا ملک کر رہا ہے۔؟" سوشل میڈیا پر ہزاروں قلوب کو جھنجھوڑ گیا اور اکثریت نے جواب میں صرف ایک نام لیا، وہ تھا ایران۔

آپ نے واضح فرمایا کہ اگر کسی ملک کی فرنٹ لائن قیادت کو شہید کر دیا جائے اور پھر بھی وہ سرخرو رہے، تو یہ صرف نصرتِ خداوندی کی دلیل ہے۔ مفتی نعیمی کا یہ اعلان کہ آئندہ جمعۃ المبارک کو "یومِ فتح" کے طور پر منایا جائے گا، دراصل اُمت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک پکار ہے۔ انہوں نے نہ صرف ایران پر امریکی حملے کی شدید مذمت کی بلکہ عالمِ اسلام کو دعوت دی کہ وقت کا تقاضا ہے کہ عرب و عجم کی تقسیم سے نکل کر ایران کی حمایت میں یک زبان ہو جائیں۔ ان کے بقول، ایران اب ایک عظیم اسلامی ملک کے طور پر تسلیم کیے جانے کا محتاج نہیں رہا، بلکہ حقیقتِ حال نے اس کا مقام خود منوا لیا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کا مؤقف:
مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں جمعیت علمائے اسلام (ف) ماضی میں ایران کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کرتی رہی ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں، جب غاصب اسرائیل نے غزہ پر سنگین مظالم کیے تو مولانا فضل الرحمان نے اپنے بیانات میں فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے ایران کی پالیسی کو سراہا۔ ان کے بقول: "ایران نے جس استقامت کے ساتھ اسرائیل کے خلاف دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے، وہ امت مسلمہ کے لیے مشعلِ راہ ہے۔" مزید برآں، جے یو آئی (ف) کے کئی رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ایران کی مزاحمتی حکمت عملی سے سیکھنے کی ضرورت ہے اور مسلم امہ کو امریکہ و اسرائیل کے دباؤ سے نکل کر یک آواز ہونا چاہیئے۔

جماعت اسلامی پاکستان کا مؤقف:
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے فلسطین پر جاری مظالم کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے ایران کی طرف سے فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی ہمہ جہت حمایت کو بارہا سراہا ہے۔ ان کا ایک حالیہ بیان ملاحظہ کیجئے: "جب پوری دنیا نے فلسطینیوں کو تنہا چھوڑ دیا، تب ایران نے تنہاء مگر غیرت مندانہ موقف اختیار کرکے امت مسلمہ کا سر فخر سے بلند کیا۔ ہمیں ایران کی اس اصولی پالیسی کی تائید کرنی چاہیئے۔" جماعت اسلامی کی قیادت اس بات پر زور دیتی رہی ہے کہ ایران نے جس استقلال کے ساتھ اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے، وہ آج کے مسلم حکمرانوں کے لیے ایک سبق ہے۔

دیگر اہل سنت علماء کا مثبت ردعمل:
پاکستان کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ علماء، جیسے مفتی تقی عثمانی، مولانا طارق جمیل، مفتی پوپلزئی، مفتی طارق مسعود، مفتی فضل ہمدرد، انجینئر محمد علی مرزا، مولانا عبدالمجید ہزاروی، مفتی کفایت اللہ، علامہ طاہرالقادری، مولانا ثاقب مصطفائی، مولانا شفیق امینی و دیگر، حالیہ برسوں میں ایران کی پالیسی پر مثبت بیانات دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ: ایران کی سیاست دین کی بنیاد پر قائم ہے۔ فلسطین، لبنان، شام اور یمن کے مظلوموں کی حمایت ایران کا شرعی اور انسانی فریضہ ہے۔ امت کو فرقہ واریت سے نکل کر ایران کی استکبار دشمن پالیسی سے استفادہ کرنا چاہیئے۔

یہ فضا ایک پل بن سکتی ہے:
اہل سنت حلقوں سے آنے والی یہ تائیدات، چاہے جزوی یا مکمل، اس بات کی دلیل ہیں کہ ایران کی مزاحمتی سیاست نے فکری سرحدیں پار کر لی ہیں۔ اب اسے صرف شیعہ سیاست کہنا ایک سطحی تجزیہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب دیوبندی، بریلوی، جماعت اسلامی اور آزاد علماء ایران کے مؤقف کی تحسین کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک عمومی اسلامی ضمیر بیدار ہوچکا ہے۔ یہی وہ مقام ہے، جہاں اہل تشیع حلقوں کو مکالمہ، رواداری اور عملی تعاون کے دروازے کھولنے کی ضرورت ہے، تاکہ اس عمومی رجحان کو پائیدار اتحاد میں بدلا جا سکے۔ اہل سنت حلقوں کی جانب سے ایران کی استقامت، فلسطین نوازی اور صہیونی مخالف پالیسی کی حمایت، پاکستان میں ایک نئی شعوری فضا کو جنم دے رہی ہے۔ اس فضا میں جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، جماعت اہلِ حرم پاکستان اور دیگر علماء کے مثبت بیانات ایک نئی امید کی کرن ہیں۔ یہ موقع اگر احترام، حکمت اور اسلامی اخلاق کے ساتھ استعمال کیا جائے تو پاکستان کی فضا کو فرقہ واریت سے نکال کر ایک مشترکہ مزاحمتی و انقلابی امت کی طرف لے جایا جا سکتا ہے۔

مگر خطرہ اب بھی موجود ہے:
یہ حقیقت بھی مدنظر رہے کہ کٹر تکفیری اور فرقہ پرست گروہ اس وقت پوری قوت کے ساتھ سرگرم ہیں، تاکہ اس بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا جائے۔ وہ ایران کی ہر مثبت بات کو مسخ کرکے تہران کی ہر پالیسی کو مشکوک بنا کر اور اہل تشیع کے ہر موقف کو "باطل" اور "گمراہ کن" قرار دے کر اہل سنت کے ذہنوں میں نفرت بھرتے جا رہے ہیں۔ ان کے لیے ایران کی استقامت اور عالمِ اسلام میں اس کا بڑھتا اثر ایک ناقابلِ برداشت امر ہے۔ اس لیے وہ فیس بک، یوٹیوب، مدرسوں، مسجدوں اور لٹریچر کے ذریعے اہل سنت کے متاثرہ طبقے کو واپس اپنے انتہاء پسندانہ فریم میں گھسیٹنے کی کوشش میں ہیں۔

ہماری سب سے بڑی ضرورت:
اب ضرورت ہے کہ اتحاد بین المسلمین کو صرف نعرہ نہیں بلکہ حکمتِ عملی بنایا جائے۔ میدانِ فلسطین، کشمیر، یمن اور مظلوم اقوام پر توجہ مرکوز رکھی جائے، تاکہ مشترکہ درد کے ذریعے قلوب قریب آئیں۔ سوشل میڈیا پر اہل تشیع کی جانب سے علمی، بااخلاق اور تعمیری مکالمہ کو فروغ دیا جائے۔ ایران کی حمایت کو سیاسی مفادات کی بجائے انسانی و اسلامی بنیادوں پر پیش کیا جائے اور سب سے بڑھ کر اخلاقِ محمدی و علوی کو اپنے کردار میں ڈھالا جائے۔

اتحاد ہی بقا کی ضمانت ہے:
یہ موقع اگر درست انداز میں استعمال کیا جائے تو پاکستان میں ایک ایسا ماحول پیدا ہوسکتا ہے، جہاں شیعہ سنی باہمی احترام کے ساتھ ساتھ ایک مشترکہ اسلامی مزاحمتی سوچ کی طرف بڑھیں۔ اس سوچ کا فائدہ امت مسلمہ کو ہوگا، مظلوم اقوام کو ہوگا اور سب سے بڑھ کر استکبار دشمن تحریکات کو ہوگا۔ لیکن اگر ہم نے ذرا سی بھی غفلت، تعصب یا جذباتی نادانی کا مظاہرہ کیا تو یہ موقع گنوا بیٹھیں گے اور فرقہ پرست عناصر دوبارہ فضا پر قابض ہو جائیں گے۔

آخری گزارش:
ایران کی استقامت، پاکستان کے اہل سنت پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس اثر کو عقلمندی اور حسنِ اخلاق سے خیر میں بدلا جا سکتا ہے، لیکن بدزبانی، توہین اور تکبر کی صورت میں یہ موقع دشمن کے ہاتھ چلا جائے گا۔ لہٰذا، اب وقت ہے کہ ہم حکمت، محبت اور اتحاد کو اپنا شعار بنائیں، تاکہ پاکستان میں ایک پرامن، باشعور اور متحد اسلامی معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ایران کی استقامت پاکستان میں ایک جماعت اسلامی ایران کی اس جا سکتا ہے اہل سنت کے اور اتحاد ایران نے اہل تشیع ایران کے کی حمایت یہ موقع کے ساتھ ایک نئی کے خلاف کے لیے دیا جا کی طرف رہی ہے کیا جا دیا ہے

پڑھیں:

کوئٹہ، انصاف لائرز فورم کے وفد کی ایرانی قونصل جنرل سے ملاقات

وفد نے غاصب صہیونی حکومت کیساتھ حالیہ 12 روزہ جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مزاحمتی کامیابی پر اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا اور ایران، اسلامی انقلاب اور ایرانی عوام کیساتھ اپنی پختہ وابستگی اور مکمل یکجہتی کا اعلان کیا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان تحریک انصاف کی وکلاء ونگ انصاف لائرز فورم کے وفد نے صدر سید اقبال شاہ کی قیادت میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قائم مقام قونصل جنرل علی رضا رجائی سے کوئٹہ میں ملاقات کی۔ اس موقع پر وفد نے غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ حالیہ 12 روزہ جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مزاحمتی کامیابی پر اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا اور ایران، اسلامی انقلاب اور ایرانی عوام کے ساتھ اپنی پختہ وابستگی اور مکمل یکجہتی کا اعلان کیا۔ اراکین وفد نے خطے کی صورتحال اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے جارحانہ اقدامات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوامی سطح پر شعور بیدار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے سیمینارز اور آگاہی مہمات کے انعقاد کی تجویز دی۔ مزید برآں، دونوں ممالک کی بار ایسوسی ایشنز کے درمیان روابط کے فروغ اور وفود کے تبادلے پر بھی زور دیا گیا۔ قائم مقام قونصل جنرل علی رضا رجائی نے وفد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پاکستانی عوام، بالخصوص وکلاء کی جانب سے غزہ اور فلسطین کے مظلوم عوام کے حق میں اظہار ہمدردی اور حمایت کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی مظالم اور جنگی جرائم کو مؤثر انداز میں دستاویزی شکل دے کر عالمی قانونی اداروں میں پیش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، اور اس میدان میں وکلاء کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • برطانوی وزارت دفاع نے 3 جدیدہوور کرافٹس پاکستان بحریہ کے حوالے کر دیئے
  • ایران کا ساتھ نہ دینا منافقت اور جرم ہے، فلسینی عالم دین
  • پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ مسترد‘ لیوی ختم کی جائے: حافظ نعیم
  • اسرائیل، امریکا کے عزائم کو متحد ہو کر ہی ناکام بنانا ہوگا( حافظ نعیم )
  • قومی نصاب میں اسلامی اقدار کو مؤثر انداز میں شامل کیا جائے‘تنظیم اساتذہ
  • مقدسات کا احترام یقینی بنایا جائے، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل
  • امریکی ،اسرائیلی جارحیت کیخلاف حمایت پر ایران کا جماعت اسلامی سے اظہار تشکر
  • ایران نے ترقی یافتہ اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھ دی، حزب‌ الله
  • کوئٹہ، انصاف لائرز فورم کے وفد کی ایرانی قونصل جنرل سے ملاقات