Islam Times:
2025-11-19@03:03:52 GMT

جب استقامت نے مسلکوں کے قفل توڑ دیئے

اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT

جب استقامت نے مسلکوں کے قفل توڑ دیئے

اسلام ٹائمز: ایران کی استقامت، پاکستان کے اہل سنت پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس اثر کو عقلمندی اور حسنِ اخلاق سے خیر میں بدلا جا سکتا ہے، لیکن بدزبانی، توہین اور تکبر کی صورت میں یہ موقع دشمن کے ہاتھ چلا جائے گا۔ لہٰذا، اب وقت ہے کہ ہم حکمت، محبت اور اتحاد کو اپنا شعار بنائیں، تاکہ پاکستان میں ایک پرامن، باشعور اور متحد اسلامی معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔ تحریر: آغا زمانی

پاکستان کا سماجی، مذہبی اور سیاسی منظرنامہ ہمیشہ سے کثیرالمذاہب اور متنوع الخیال رہا ہے۔ تاہم موجودہ عالمی اور علاقائی حالات بالخصوص فلسطین، شام، یمن اور ایران کے انقلابی کردار نے پاکستانی عوام میں خاص طور پر اہل سنت حلقوں میں نئے رجحانات کو جنم دیا ہے۔ ایران کی طرف سے استکبارِ جہانی کے خلاف مسلسل مزاحمت، فلسطین کی بے لوث حمایت اور اخلاقی و دینی استقامت نے عوام کے دلوں میں ایک نئی بیداری پیدا کی ہے، جس کا اثر پاکستان میں بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔

ایران کی انقلابی استقامت کا عالمگیر اثر:
اسلامی جمہوریہ ایران نے انقلاب اسلامی 1979ء کے بعد سے آج تک جس استقلال اور نظریاتی وفاداری کے ساتھ عالمی استکبار کے خلاف موقف اپنایا ہے، وہ اہل تشیع ہی نہیں بلکہ اہل سنت کے اہلِ درد افراد کے لیے بھی باعثِ احترام بن چکا ہے۔ ایران کے رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کی قیادت میں فلسطین کے حق میں دی گئی قربانیاں، امریکہ و اسرائیل کے خلاف واضح موقف اور اتحاد بین المسلمین کی مسلسل دعوت نے کئی سنی حلقوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ شاید یہی راستہ امت مسلمہ کو ذلت سے عزت کی طرف لے جا سکتا ہے۔

پاکستانی اہل سنت میں بدلتا ہوا رویہ:
پاکستان میں دینی مدارس، علمی حلقے اور عوامی سطح پر اہل سنت کے کئی طبقات خاص طور پر دیوبندی، بریلوی اور جماعت اسلامی سے وابستہ نوجوان ایران کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ اس کشش کا سبب صرف ایران کا شیعی نظریہ نہیں بلکہ اس کی عملاً مزاحمتی سیاست، خودداری، فلسطین دوستی، استکبار مخالفت اور اتحادِ امت کا پیغام ہے۔ کئی دیوبندی علمائے کرام اور خطباء کی تقاریر میں اب ایران کے خلاف نفرت کے بجائے اعترافِ تحسین کے جملے سننے کو ملتے ہیں۔ بریلوی حلقوں میں بھی، خصوصاً فلسطین کی موجودہ صورتحال کے بعد ایران کی حمایت کا تاثر پہلے سے کہیں زیادہ گہرا ہوچکا ہے۔

یہ موقع ضائع نہ ہونے پائے:
یہ ایک تاریخی موقع ہے کہ اہل تشیع اور ایران سے متاثر اہل سنت کے درمیان نظریاتی، اخلاقی اور شعوری روابط مضبوط کیے جائیں۔ اگر ہم اس وقت بردباری، حکمت اور احترامِ مسلک کے ساتھ ان کے قریب ہونے کی کوشش کریں تو پاکستان میں ایک مثبت، متحد اور طاغوت دشمن اسلامی رجحان پیدا ہوسکتا ہے، جو نہ صرف فرقہ واریت کو کم کرے گا بلکہ امت کی اصل دشمن قوتوں کے خلاف ایک مشترکہ مورچہ بھی بن سکتا ہے۔ پاکستان میں اہل سنت کی بڑی دینی و سیاسی جماعتوں کے حالیہ بیانات اور رویئے ایک نئی فکری بیداری کی غمازی کر رہے ہیں۔ ان جماعتوں نے نہ صرف ایران کی فلسطین کے حق میں مستقل مزاحمت اور صہیونی ریاست کے خلاف بے خوف مؤقف کو سراہا ہے بلکہ اس موقف کو امت مسلمہ کے لیے باعثِ افتخار قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ اہم مثالیں درج ذیل ہیں:

جماعت اہل حرم پاکستان کا موقف:
پرنسپل جامعہ نعیمیہ اسلام آباد اور مرکزی صدر جماعت اہل حرم پاکستان، مفتی گلزار احمد نعیمی کا شمار ان دردمند علماء میں ہوتا ہے، جو امت مسلمہ کے زخموں پر مرہم رکھنے کی جرأت رکھتے ہیں۔ غاصب صہیونی ریاست کے خلاف ان کا مسلسل اور بے باک موقف، خواہ وہ خطبات میں ہو یا سوشل میڈیا پر ایک بیدار ضمیر کی گواہی دیتا ہے۔ ایران کے حق میں ان کا دو ٹوک اظہارِ تائید، نہ صرف ایک ہمسایہ اسلامی ریاست سے محبت کا مظہر ہے بلکہ مزاحمتی قوتوں کے ساتھ فکری ہم آہنگی کا اعلان بھی ہے۔ آپ کا یہ سوال کہ "آج مظلومینِ جہاں کی عملی مدد کون سا ملک کر رہا ہے۔؟" سوشل میڈیا پر ہزاروں قلوب کو جھنجھوڑ گیا اور اکثریت نے جواب میں صرف ایک نام لیا، وہ تھا ایران۔

آپ نے واضح فرمایا کہ اگر کسی ملک کی فرنٹ لائن قیادت کو شہید کر دیا جائے اور پھر بھی وہ سرخرو رہے، تو یہ صرف نصرتِ خداوندی کی دلیل ہے۔ مفتی نعیمی کا یہ اعلان کہ آئندہ جمعۃ المبارک کو "یومِ فتح" کے طور پر منایا جائے گا، دراصل اُمت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک پکار ہے۔ انہوں نے نہ صرف ایران پر امریکی حملے کی شدید مذمت کی بلکہ عالمِ اسلام کو دعوت دی کہ وقت کا تقاضا ہے کہ عرب و عجم کی تقسیم سے نکل کر ایران کی حمایت میں یک زبان ہو جائیں۔ ان کے بقول، ایران اب ایک عظیم اسلامی ملک کے طور پر تسلیم کیے جانے کا محتاج نہیں رہا، بلکہ حقیقتِ حال نے اس کا مقام خود منوا لیا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کا مؤقف:
مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں جمعیت علمائے اسلام (ف) ماضی میں ایران کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کرتی رہی ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں، جب غاصب اسرائیل نے غزہ پر سنگین مظالم کیے تو مولانا فضل الرحمان نے اپنے بیانات میں فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے ایران کی پالیسی کو سراہا۔ ان کے بقول: "ایران نے جس استقامت کے ساتھ اسرائیل کے خلاف دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے، وہ امت مسلمہ کے لیے مشعلِ راہ ہے۔" مزید برآں، جے یو آئی (ف) کے کئی رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ایران کی مزاحمتی حکمت عملی سے سیکھنے کی ضرورت ہے اور مسلم امہ کو امریکہ و اسرائیل کے دباؤ سے نکل کر یک آواز ہونا چاہیئے۔

جماعت اسلامی پاکستان کا مؤقف:
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے فلسطین پر جاری مظالم کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے ایران کی طرف سے فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی ہمہ جہت حمایت کو بارہا سراہا ہے۔ ان کا ایک حالیہ بیان ملاحظہ کیجئے: "جب پوری دنیا نے فلسطینیوں کو تنہا چھوڑ دیا، تب ایران نے تنہاء مگر غیرت مندانہ موقف اختیار کرکے امت مسلمہ کا سر فخر سے بلند کیا۔ ہمیں ایران کی اس اصولی پالیسی کی تائید کرنی چاہیئے۔" جماعت اسلامی کی قیادت اس بات پر زور دیتی رہی ہے کہ ایران نے جس استقلال کے ساتھ اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے، وہ آج کے مسلم حکمرانوں کے لیے ایک سبق ہے۔

دیگر اہل سنت علماء کا مثبت ردعمل:
پاکستان کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ علماء، جیسے مفتی تقی عثمانی، مولانا طارق جمیل، مفتی پوپلزئی، مفتی طارق مسعود، مفتی فضل ہمدرد، انجینئر محمد علی مرزا، مولانا عبدالمجید ہزاروی، مفتی کفایت اللہ، علامہ طاہرالقادری، مولانا ثاقب مصطفائی، مولانا شفیق امینی و دیگر، حالیہ برسوں میں ایران کی پالیسی پر مثبت بیانات دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ: ایران کی سیاست دین کی بنیاد پر قائم ہے۔ فلسطین، لبنان، شام اور یمن کے مظلوموں کی حمایت ایران کا شرعی اور انسانی فریضہ ہے۔ امت کو فرقہ واریت سے نکل کر ایران کی استکبار دشمن پالیسی سے استفادہ کرنا چاہیئے۔

یہ فضا ایک پل بن سکتی ہے:
اہل سنت حلقوں سے آنے والی یہ تائیدات، چاہے جزوی یا مکمل، اس بات کی دلیل ہیں کہ ایران کی مزاحمتی سیاست نے فکری سرحدیں پار کر لی ہیں۔ اب اسے صرف شیعہ سیاست کہنا ایک سطحی تجزیہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب دیوبندی، بریلوی، جماعت اسلامی اور آزاد علماء ایران کے مؤقف کی تحسین کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک عمومی اسلامی ضمیر بیدار ہوچکا ہے۔ یہی وہ مقام ہے، جہاں اہل تشیع حلقوں کو مکالمہ، رواداری اور عملی تعاون کے دروازے کھولنے کی ضرورت ہے، تاکہ اس عمومی رجحان کو پائیدار اتحاد میں بدلا جا سکے۔ اہل سنت حلقوں کی جانب سے ایران کی استقامت، فلسطین نوازی اور صہیونی مخالف پالیسی کی حمایت، پاکستان میں ایک نئی شعوری فضا کو جنم دے رہی ہے۔ اس فضا میں جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، جماعت اہلِ حرم پاکستان اور دیگر علماء کے مثبت بیانات ایک نئی امید کی کرن ہیں۔ یہ موقع اگر احترام، حکمت اور اسلامی اخلاق کے ساتھ استعمال کیا جائے تو پاکستان کی فضا کو فرقہ واریت سے نکال کر ایک مشترکہ مزاحمتی و انقلابی امت کی طرف لے جایا جا سکتا ہے۔

مگر خطرہ اب بھی موجود ہے:
یہ حقیقت بھی مدنظر رہے کہ کٹر تکفیری اور فرقہ پرست گروہ اس وقت پوری قوت کے ساتھ سرگرم ہیں، تاکہ اس بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا جائے۔ وہ ایران کی ہر مثبت بات کو مسخ کرکے تہران کی ہر پالیسی کو مشکوک بنا کر اور اہل تشیع کے ہر موقف کو "باطل" اور "گمراہ کن" قرار دے کر اہل سنت کے ذہنوں میں نفرت بھرتے جا رہے ہیں۔ ان کے لیے ایران کی استقامت اور عالمِ اسلام میں اس کا بڑھتا اثر ایک ناقابلِ برداشت امر ہے۔ اس لیے وہ فیس بک، یوٹیوب، مدرسوں، مسجدوں اور لٹریچر کے ذریعے اہل سنت کے متاثرہ طبقے کو واپس اپنے انتہاء پسندانہ فریم میں گھسیٹنے کی کوشش میں ہیں۔

ہماری سب سے بڑی ضرورت:
اب ضرورت ہے کہ اتحاد بین المسلمین کو صرف نعرہ نہیں بلکہ حکمتِ عملی بنایا جائے۔ میدانِ فلسطین، کشمیر، یمن اور مظلوم اقوام پر توجہ مرکوز رکھی جائے، تاکہ مشترکہ درد کے ذریعے قلوب قریب آئیں۔ سوشل میڈیا پر اہل تشیع کی جانب سے علمی، بااخلاق اور تعمیری مکالمہ کو فروغ دیا جائے۔ ایران کی حمایت کو سیاسی مفادات کی بجائے انسانی و اسلامی بنیادوں پر پیش کیا جائے اور سب سے بڑھ کر اخلاقِ محمدی و علوی کو اپنے کردار میں ڈھالا جائے۔

اتحاد ہی بقا کی ضمانت ہے:
یہ موقع اگر درست انداز میں استعمال کیا جائے تو پاکستان میں ایک ایسا ماحول پیدا ہوسکتا ہے، جہاں شیعہ سنی باہمی احترام کے ساتھ ساتھ ایک مشترکہ اسلامی مزاحمتی سوچ کی طرف بڑھیں۔ اس سوچ کا فائدہ امت مسلمہ کو ہوگا، مظلوم اقوام کو ہوگا اور سب سے بڑھ کر استکبار دشمن تحریکات کو ہوگا۔ لیکن اگر ہم نے ذرا سی بھی غفلت، تعصب یا جذباتی نادانی کا مظاہرہ کیا تو یہ موقع گنوا بیٹھیں گے اور فرقہ پرست عناصر دوبارہ فضا پر قابض ہو جائیں گے۔

آخری گزارش:
ایران کی استقامت، پاکستان کے اہل سنت پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس اثر کو عقلمندی اور حسنِ اخلاق سے خیر میں بدلا جا سکتا ہے، لیکن بدزبانی، توہین اور تکبر کی صورت میں یہ موقع دشمن کے ہاتھ چلا جائے گا۔ لہٰذا، اب وقت ہے کہ ہم حکمت، محبت اور اتحاد کو اپنا شعار بنائیں، تاکہ پاکستان میں ایک پرامن، باشعور اور متحد اسلامی معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ایران کی استقامت پاکستان میں ایک جماعت اسلامی ایران کی اس جا سکتا ہے اہل سنت کے اور اتحاد ایران نے اہل تشیع ایران کے کی حمایت یہ موقع کے ساتھ ایک نئی کے خلاف کے لیے دیا جا کی طرف رہی ہے کیا جا دیا ہے

پڑھیں:

پاکستان اور طالبان رجیم مذاکرات کے دروازے بند یا کوئی کھڑکی کھلی ہے؟

6  نومبر کو استنبول میں مذاکرات کی ناکامی کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات میں تعطل آ گیا ہے جس میں دہشتگرد ٹی ٹی پی کے حوالے سے افغان طالبان رجیم کی ہٹ دھرمی اہم رکاوٹ تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کی شہ پر افغان طالبان کی ہٹ دھرمی، استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات ناکام

مذاکرات میں تعطل کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان قیام امن کے لیے علاقائی ممالک خصوصاً ایران متحرک ہے جس کی وزارت خارجہ کی جانب سے علاقائی ممالک کا اجلاس بلائے کی اعلان اس سلسلے میں ایک اہم پیشرفت ہے۔

اسی طرح سے برادر اسلامی ملک ترکیہ بھی اس حوالے سے سرگرم اور اس کے اعلیٰ سطحی وفد کی آمد کا امکان ہے۔

علاقائی ممالک افغانستان میں موجود دہشتگردی کے خطرے سے آگاہ اور پاکستان کے مؤقف سے ہم آہنگ ہیں۔

26  ستمبر کو نیویارک جنرل اسمبلی اجلاس کے موقعے پر روس کی جانب سے افغانستان پر 4 علاقائی ممالک چین، پاکستان، ایران اور روس کا اجلاس طلب کیا گیا جس نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں افغانستان سے پیدا ہونے والے دہشتگردی کے خطرے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور داعش، القاعدہ، مشرقی ترکستان اسلامی تحریک، تحریک طالبان پاکستان، جیش العدل اور بلوچستان لبریشن آرمی جیسے گروہوں کو علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا گیا۔

ان ممالک کے وزرائے خارجہ نے افغان حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام دہشتگرد تنظیموں کے خاتمے کے لیے قابل تصدیق اقدامات کریں، بھرتی اور مالی معاونت کو روکیں، اور تربیتی کیمپوں اور انفراسٹرکچر کو مکمل طور پر بند کریں۔

مزید پڑھیں: کچھ پتا نہیں طالبان سے مذاکرات پھر کب ہوں گے، عطا تارڑ

اسی طرح گزشہ ماہ افغانستان کے حوالے سے گزشتہ ماہ روس میں منعقد ہونے والے ماسکو فارمیٹ ڈائیلاگ کے اعلامیے میں بھی افغانستان پر دہشتگردی کے خاتمے کے لیے جامع اقدامات کرنے اور افغان سرزمین کو ہمسایوں کے خلاف استعمال نہ کرنے پر زور دیا گیا۔

مذاکرات کا تعطل اور افغان عوام کی مشکلات

جس چیز پر سب سے زیادہ گفتگو ہو رہی ہے وہ افغان تجارت کی بندش ہے اور اس کے ساتھ افغان عوام کو پاکستان کی جانب سے علاج اور تعلیم کی سہولیات بھی تعطل کا شکار ہیں جہاں ایک طرف افغان طالبان رجیم کے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تجارت مکمل طور پر ختم کر کے متبادل تجارت کے دعوے کیے جا رہے ہیں وہیں افغان تاجروں کی جانب سے کئی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی راستے کھلنے چاہییں کیونکہ پاکستان کے ساتھ تجارتی راستے سب سے زیادہ کم وقت اور کم لاگت ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان سامان کی ترسیل ایک دن میں مکمل ہو جاتی ہے جب کہ دیگر ممالک کے ساتھ تجارت میں سامان پہنچنے اور وصول کرنے میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں: افغان طالبان سے مذاکرات ختم ہوگئے، ثالثوں نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے، خواجہ آصف

اسی طرح سے افغانستان سے لوگ علاج کے لیے پاکستان آنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے بھی مُشکلات بڑھ گئی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ افغان بالب علموں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان، افغانستان کے لیے ایسا ملک ہے جہاں زیادہ تر افغان آبادی سہولت کے ساتھ چند گھنٹوں کی مسافت طے کر کے پہنچ سکتی اور پاکستان میں تجارت، تعلیم اور علاج کی سہولیات حاصل کر سکتی ہے۔

دوست ممالک کی کوششیں

9  نومبر کو ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان نے اعلان کیا کہ ترک وزیرخارجہ خاقان فیدان، وزیردفاع اور انٹیلی جنس چیف پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری اور مذاکرات کے لیے اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔ لیکن تاحال ترک وفد اسلام آباد نہیں پہنچا جس کی بظاہر وجہ ترک فوجی طیارے کو پیش آنے والا حادثہ بیان کی جا رہی ہے جو آذربائیجان سے اڑان بھرنے کے بعد جارجیا میں گر کر تباہ ہو گیا تھا تاہم اطلاعات کے مطابق یہ وفد کسی بھی وقت اسلام آباد پہنچ سکتا ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی گزشتہ دنوں میں 2 بار افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان مُتقی سے ٹیلی فون بات چیت کر چکے ہیں جس میں انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے۔

خطے کے ممالک کو افغانستان کے رویے پر تشویش ہے، صحافی افضل رضا ایرانی

ایرانی سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کے اسلام آباد میں موجود نمائندے افضل رضا نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی قیادت افغان طالبان رجیم کے رویے کو بخوبی جانتی ہے کیونکہ افغانستان، ایران کے پانی کے حقوق کی خلاف ورزیاں بھی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے بعد برادر اسلامی ممالک بطور ثالث کردار کے لیے متحرک ہوئے لیکن ان ملکوں کی سرحدیں پاکستان یا افغانستان کے ساتھ مُتصل نہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی سے ایران بھی متاثر ہوتا ہے۔ پاکستان اور ایران دونوں ممالک افغانستان کے پڑوسی ہیں اور ان دونوں ملکوں نے گزشتہ 45 برس افغان باشندوں کو اپنے ملکوں میں پناہ دی ہے جبکہ مغربی ایشیا کے ممالک اِس صورتحال سے دوچار نہیں ہوئے۔ لہٰذا ایران نے یہ محسوس کیا کہ افغان طالبان رجیم کے رویے کے باعث دونوں ملکوں کے مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکے۔ اب ایران نے اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پاک افغان بے نتیجہ مذاکرات اور طالبان وزرا کے اشتعال انگیز بیانات، جنگ بندی کب تک قائم رہے گی؟

گزشتہ روز ایرانی وزارت خارجہ کے ماتحت ادارے انسٹیٹیوٹ آف پولیٹیکل اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز نے تہران میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس کے حاشیے پر ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان اور افغانستان کے درمیان قیام امن کے لیے کوشش کر رہے ہیں، ہم نے دونوں ملکوں سے رابطے کیے ہیں اور ایک علاقائی حل کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔

اسی طرح ایرانی نائب وزیر خارجہ سعید خطیب زادہ نے روسی خبر رساں ادارے اِسپُتنِک سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگلے ماہ ہم ایک اِجلاس بلانے جا رہے ہیں جِس کا مقصد پاکستان اور ایران کے درمیان ثالثی ہے اور اس کانفرنس میں روس اور چین کو بھی مدعو کیا جائے گا۔

افضل رضا نے کہا کہ اِس معاملے میں ایران کے کردار کے مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مزید کشیدگی اب نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ایران اور دیگر علاقائی ممالک اس کشیدگی کے باعث تشویش کا شکار ہیں اور اُنہیں پاکستان سے زیادہ افغانستان کے رویے پر تشویش ہے۔ کیونکہ افغان طالبان رجیم کے افغانستان میں استحکام لانے سے متعلق دعوے کھوکھلے اور فرضی ہیں۔ پاکستان کے پاس اِتنی طاقت ہے کہ وہ افغان طالبان رجیم کے غیر ذمے دارانہ بیانات کا جواب دے سکتا ہے لیکن چونکہ پاکستان ایک ذمے دار ملک ہے اس لیے وہ چاہتا ہے کہ وہ برادار ممالک کو اس سلسلے میں اپنے کردار کی ادائیگی کا موقع فراہم کرے۔

مزید پڑھیں: طالبان رجیم دہشتگردی پر پردہ ڈال رہی ہے، ترجمان دفتر خارجہ

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ایران کا کردار ادا کرنا روس سے بھی زیادہ بہتر ہے کیونکہ ایران دونوں ملکوں ہمسایہ اور افغان طالبان رجیم کو اِس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

افضل رضا نے بتایا پانی کے حقوق کے حوالے سے افغانستان ایران کو بھی تنگ کرتا ہے اور افغان طالبان رجیم اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کرتے اور ایران کے پانی کے حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہے کیونکہ پاکستان اپنے بردارانہ ممالک کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کو ہمیشہ اچھی نظر سے دیکھتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امید کی جا سکتی ہے کہ ایران کی جانب سے اس معاملے میں کردار ادا کرنے کے بعد کابل اور اسلام آباد کے درمیان امن معاہدے پر پیشرفت کا اِمکان ہے کیونکہ ایرانی قیادت پاکستان کے جائز سکیورٹی مفادات کو سمجھتی ہے اور کابل کو سمجھانے کی کوشش کرے گی۔

ترک اعلیٰ سطحی وفد کبھی بھی آ سکتا ہے، طاہر خان

افغان امور کے ماہر، معروف صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات پر ڈیڈ لاک تو جاری ہے اور بظاہر کوئی ایسی کوشش نظر نہیں آتی جس سے اندازہ ہو کو اس ڈیڈلاک کو ختم کرنے کی کوئی کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترک صدر رجب طیب اردگان نے جو اعلٰی سطحی وفد پاکستان بھجوانے کا اعلان کیا تھا وہ ترکیہ کا فوجی طیارہ گرنے کے حادثے کے بعد سے تاخیر کا شکار ہے۔ وفد نے آنا تو ضرور ہے کیونکہ اس کا اعلان ترک صدر نے خود اُس وقت کیا تھا جب وہ اور وزیراعظم شہباز شریف آذربائیجان میں اکٹھے تھے۔ پاکستان نے ترک اعلیٰ سطحی وفد کی آمد کا خیر مقدم کیا تھا اور افغان سائیڈ بھی اس بات سے خوش ہے۔

طاہر خان نے کہا کہ پاک افغان کشیدگی ختم کرانے کے لیے ایران کا کردار بھی اہم ہے۔ ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک علاقائی ملکوں پر مشتمعل کانفرنس بلانا چاہتے ہیں جس سے دونوں ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی کم ہو۔ یہ بھی ایک اہم پیشرفت ہے اور پاکستان نے اس کو بھی خوش آئند قرار دیا ہے۔ اگر علاقائی سطح پر اس طرح کی کاوش ہوتی ہے تو یہ اس لیے بھی اچھا ہے کہ اس سے یہ تاثر نہیں رہے گا کہ کوئی ایک ملک یعنی ترکی یا قطر یا روس اس میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ علاقائی ممالک کی سطح پر بات ہو گی تو اس میں تمام ممالک شامل ہو جائیں گے اور اس کا اثر بھی ہوگا اور وہ دونوں ملکوں کو کسی نہ کسی طرح قائل کریں گے کہ ان کی موجودہ صورتحال ان کے لیے بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔

مزید پڑھیے: پاکستان کا افغان سرزمین سے دہشتگرد کارروائیاں روکنے پر زور

طاہر خان نے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کب بنتا ہے لیکن سب سے بہتر حل دوطرفہ مذاکرات سے نکلتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب دیگر ممالک اس مسئلے میں بات کریں گے تو دونوں ملکوں کو کچھ نہ کچھ ماننا ہی پڑے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایران پاکستان اور افغان طالبان پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات پاکستان اور افغانستان ترکیہ ٹی ٹی پی

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور طالبان رجیم مذاکرات کے دروازے بند یا کوئی کھڑکی کھلی ہے؟
  • اہم ریاستی اداروں پر 2بڑے سائبر حملے ناکام بنائے جانے کا انکشاف
  • عظمیٰ بخاری جعلی ویڈیو کیس: نامزد ملزم کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری
  • فارم 47 کی بنیاد پر حکومت بنے گی تو لوگوں کا جمہوریت سے اعتماد اٹھ جائے گا، حافظ نعیم الرحمان
  • پاکستان‘ ایران سیاسی مشاورت‘ دوطرفہ تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • جو بندہ زیادہ دیر جیل میں رہ جائے وہ پھر میڈیکل گراؤنڈ پر ہی باہر آتا ہے،ضمانت کے مقدمے میں جسٹس محسن کے دلچسپ ریمارکس
  • بھارتی چیف آف ڈیفنس سٹاف نے شکایتوں کے انبار لگا دیئے
  • 27ویں آئینی ترمیم پر آزاد کشمیر کی حکومت پی پی کی جھولی میں ڈال دی جائے گی، لیاقت بلوچ
  • 27ویں آئینی ترمیم پر آزاد کشمیر کی حکومت پی پی کی جھولی میں ڈال دی جائے گی: لیاقت بلوچ
  • تہران میں "جارحیت، حملے اور دفاع سے متاثر حقوق بین الملل كانفرنس" كا آغاز