پاکستان میں بجلی منصوبوں پر کس حکومت نے کتنا کام کیا؟ تفصیلی رپورٹ جاری
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: پاکستان جیسے توانائی بحران سے دوچار ملک میں یہ سوال ہمیشہ زیر بحث رہا ہے کہ مختلف حکومتوں نے بجلی بحران پر قابو پانے کے لیے کتنا عملی کام کیا۔ مختلف ادوارِ حکومت نے توانائی منصوبوں کی منظوری سے متعلق اہم تفصیلات جاری کی ہیں۔
دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دورِ حکومت میں متبادل توانائی کے شعبے کو سب سے زیادہ ترجیح دی گئی۔ اس دور میں ہوا، شمسی اور دیگر قابل تجدید ذرائع سے 2710 میگاواٹ بجلی کے 16 منصوبے منظور کیے گئے، جو کسی بھی دور میں متبادل توانائی کے سب سے زیادہ منصوبے ہیں۔
دوسری جانب، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں مجموعی طور پر 9142 میگاواٹ کے 33 بجلی منصوبے منظور کیے گئے، جن میں اکثریت فرنس آئل، کوئلہ اور گیس سے چلنے والے تھرمل پلانٹس کی تھی۔ تاہم کچھ ہوا، سولر اور ہائیڈرو پاور منصوبے بھی شامل تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دور حکومت میں بھی بجلی بحران کے خاتمے کے لیے کوششیں کی گئیں۔ اس دور میں 3382 میگاواٹ کے 24 منصوبے منظور کیے گئے۔ ان منصوبوں میں کوئلہ، فرنس آئل، گیس، ونڈ انرجی اور دیگر فیول بیسڈ پلانٹس شامل تھے۔
اگر بات کریں مسلم لیگ (ق) کی، تو مشرف دورِ حکومت میں 1884 میگاواٹ کے 9 منصوبے منظور کیے گئے، جن میں زیادہ تر کوئلے، فرنس آئل اور گیس سے چلنے والے پلانٹس شامل تھے۔
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ مختلف حکومتوں نے توانائی بحران کے حل کے لیے اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق منصوبے متعارف کروائے، تاہم خطے میں سب سے مہنگی بجلی اب بھی پاکستانی صارفین کو ہی ادا کرنا پڑتی ہے، اور بجلی کا بحران آج بھی جوں کا توں برقرار ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: منصوبے منظور کیے گئے حکومت میں
پڑھیں:
ملک کے پسماندہ ترین علاقوں کی فہرست جاری، بلوچستان کے کتنے اضلاع شامل ہیں؟
پاکستان پاپولیشن کونسل نے ملک کے ترقیاتی ڈھانچے کی رپورٹ جاری کردی ہے جس نے مختلف علاقوں کے درمیان سہولیات اور ترقی میں عدم برابری سے متعلق تشویشناک تصویر پیش کردی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 20 پسماندہ ترین اضلاع میں سے 17 کا تعلق بلوچستان سے ہے، جبکہ 2 اضلاع خیبر پختونخوا اور ایک سندھ سے تعلق رکھتا ہے، اس فہرست میں پنجاب کا کوئی ضلع شامل نہیں۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان: گزشتہ مالی سال کی آٰڈٹ رپورٹ جاری، 48 ارب روپے کی بے قاعدگیوں کا انکشاف
رپورٹ کے مطابق واشک، خضدار، کوہلو اور ژوب ملک کے کمزور ترین اضلاع میں سرفہرست ہیں، جبکہ کوہستان، شمالی وزیرستان (خیبر پختونخوا) اور تھرپارکر (سندھ) بھی نہایت پسماندہ علاقوں میں شامل ہیں۔
بلوچستان کے جن اضلاع میں زندگی کا معیار سب سے زیادہ متاثر ہے ان میں واشک، خضدار، کوہلو، ژوب، موسیٰ خیل، ڈیرہ بگٹی، قلعہ سیف اللہ، قلات، شیرانی، جھل مگسی، نصیرآباد، چاغی، بارکھان، ہرنائی، آواران، خاران اور پنجگور شامل ہیں۔
ان اضلاع میں ترقیاتی سہولیات کی قلت، مواصلاتی کمزوری اور معاشی زبوں حالی نے نہ صرف عوام کی روزمرہ زندگی دشوار بنا دی ہے بلکہ مجموعی ترقیاتی عمل کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان شدید خشک سالی کے خطرے سے دوچار، ماحولیاتی تبدیلی اور کم بارشیں بڑا چیلنج
رپورٹ کے مطابق ملک کے کمزور ترین اضلاع میں رہائشی سہولیات نہایت خراب ہیں۔ ان علاقوں میں 65 فیصد سے زائد گھر کچے یا عارضی ڈھانچوں پر مشتمل ہیں۔ جھل مگسی میں صورتحال اس حد تک سنگین ہے کہ 97 فیصد گھرانے کچے یا نیم پکے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ کئی اضلاع میں نصف سے زیادہ گھرانے بیت الخلا کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں جبکہ بڑی تعداد میں گھرانوں کو صاف پانی تک قابلِ بھروسہ رسائی حاصل نہیں۔
بلوچستان کے مواصلاتی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل بھی اس رپورٹ کا اہم حصہ ہیں۔ صوبے کے زیادہ تر اضلاع میں رابطہ سڑکوں، ٹرانسپورٹ اور ٹیلی فون سروسز کی شدید کمی ہے، جس کے باعث مقامی آبادی بنیادی خدمات، بازاروں، تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز تک رسائی میں شدید مشکلات کا شکار ہوتی ہے۔ رابطے کے اس فقدان کے باعث ایمرجنسی ردعمل نہایت کمزور پڑ جاتا ہے، جس کا نتیجہ ہنگامی حالات میں نقصان کے بڑھ جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس کے برعکس پنجاب کے وسطی اور شمالی علاقوں میں مواصلاتی نظام نسبتاً بہتر ہے، جس نے مقامی ترقی کو فروغ دیا ہے۔
معاشی طور پر بھی بلوچستان کی صورت حال نہایت مایوس کن ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ معاشی سرگرمیوں اور روزگار کے لحاظ سے ملک کے بدترین 20 اضلاع میں سے 15 بلوچستان میں ہیں جہاں بے روزگاری کی شرح بلند ہے اور بڑی تعداد میں لوگ بلا معاوضہ گھریلو مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ خیبرپختونخوا کے پسماندہ علاقوں میں بھی معاشی صورتحال کمزور ہے، تاہم وہاں حالات بلوچستان جتنے تشویشناک نہیں۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان مہاجرین کے لیے ہمیشہ خوش آمدید کہنے والا صوبہ ہے، وزیراعظم شہباز شریف
صحت کے شعبے میں بھی بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع سنگین مسائل کا شکار ہیں۔ متعدد علاقوں میں قریبی صحت مرکز تک رسائی کے لیے 30 کلومیٹر سے زائد سفر کرنا پڑتا ہے، اور بدترین ٹرانسپورٹ کی وجہ سے ہنگامی حالات میں تیز طبی امداد ملنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال بچوں اور ماؤں کی صحت کے لیے شدید خطرہ ہے۔
تعلیمی میدان میں کراچی ملک کے ان چند علاقوں میں شامل ہے جہاں اسکولوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جبکہ بلوچستان اس حوالے سے سب سے پیچھے رہ جانے والا صوبہ ہے۔ صوبے کے بیشتر اضلاع میں اسکولوں کی تعداد نہایت کم ہے جبکہ لڑکیوں کے لیے ہائی اور ہائیر سیکنڈری اسکول تک فاصلہ بہت زیادہ ہے، جس کے باعث شرحِ تعلیم خاص طور پر لڑکیوں میں بہت کم ہے۔
رپورٹ کے ڈیموگرافک حصے میں سندھ کے ضلع تھرپارکر کو ملک کا سب سے زیادہ کمزور ضلع قرار دیا گیا ہے، جہاں شرح پیدائش غیر معمولی طور پر زیادہ ہے اور 5 سال سے کم عمر بچوں کی تعداد آبادی میں نمایاں حصہ رکھتی ہے۔ بڑے خاندانوں کی یہ ساخت نہ صرف تعلیمی نظام بلکہ صحت کی خدمات تک رسائی کو بھی مزید مشکل بنا رہی ہے۔
یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ پاکستان میں پسماندگی کا مسئلہ متعدد عوامل کے مجموعے کا نتیجہ ہے، جس میں حکومتی عدم توجہی، کمزور انفراسٹرکچر، ناکافی معاشی سرگرمیاں، ناقص صحت و تعلیم کے نظام اور آبادی کے بے تحاشا اضافے جیسے عوامل شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل
بلوچستان جیسے صوبے، جو رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا حصہ ہے، مسلسل کم سرمایہ کاری، جغرافیائی دوری، سیکیورٹی چیلنجز اور سیاسی عدم استحکام کے باعث ترقیاتی دوڑ سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
اگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مربوط حکمت عملی نہ اپنائی، پسماندہ اضلاع کے لیے علیحدہ ترقیاتی پیکیج نہ بنائے، مواصلات اور ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری نہ کی، اور تعلیم و صحت کے نظام کو مضبوط نہ کیا تو یہ پسماندگی آنے والے برسوں میں مزید گہری ہو سکتی ہے۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے دور دراز اضلاع کی ترقی نہ صرف مقامی آبادی کے لیے ضروری ہے بلکہ قومی استحکام اور ترقی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان پسماندگی پنجاب رپورٹ