سیکشن 37اے ،37بی منسوخ کیا جائے ، کراچی چیمبر
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (کامرس رپورٹر)کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر جاوید بلوانی اور چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا نے سیلز ٹیکس ایکٹ کے نئے سیکشن 37 اے اور 37 بی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے فوری طور پر ان ظالمانہ سیکشن کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان دونوں سیکشن کے تحت ایف بی آر افسران کو گرفتاری کے وسیع اختیارات دیے گئے ہیں جو ایک آمرانہ اقدام ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایسے غیر معقول اختیارات نہ صرف پاکستان کے بزنس فرینڈلی امیج کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی سرمایہ کاری سے روکتے ہیں۔ جمعرات کوکے سی سی آئی آڈیٹوریم میں ایک پُرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر کے سی سی آئی اور چیئرمین بی ایم جی نے بزنس اناملیز کمیٹی کے حالیہ ہونے والے اجلاس میں حکومت کی عدم توجہ پر بھی سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث کراچی چیمبر نے بڑے پیمانے پر احتجاجی مہم کا آغاز کیا جو کراچی بھر میں بینرز آویزاں کرنے سے شروع ہوئی اور آج کی اس پُرہجوم پریس کانفرنس کی صورت میں مزید شدت اختیار کر گئی ہے۔ اس موقع پر بی ایم جی کے وائس چیئرمین انجم نثار، میاں ابرار احمد، سینیئر نائب صدر ضیاء العارفین، نائب صدر فیصل خلیل احمد، ساتوں انڈسٹریل ٹائوں ایسوسی ایشنز کے صدور، سابق صدور کے سی سی آئی، ممتاز کاروباری شخصیات، کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین اور بڑی تعداد میں تاجر و صنعتکار بھی موجود تھے۔صدر کے سی سی آئی جاوید بلوانی نے کہا کہ ملک کے متعدد چیمبرز آف کامرس بھی اس اہم مسئلے پر پہلے ہی پریس کانفرنس کر چکے ہیں اور اس بات پر متفق ہیں کہ سیکشن 37 اے پاکستان میں کاروبار کرنے کے لیے بالکل بھی سازگار نہیں ہے۔ پوری تاجر برادری اس قانون کی سخت مخالف ہے اور اس کے خاتمے کا پُرزور مطالبہ کر رہی ہے اور کراچی چیمبر ان سب کے مؤقف سے مکمل طور پر اتفاق کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کے سی سی آئی کو ان سیکشنز کے حوالے سے بے شمار شکایات اور تشویش موصول ہو رہی ہیں جہاں کاروباری مالکان بار بار یہ سوال کر رہے ہیں کہ سیکشن 37 اے کے مستقل خطرے میں ہم کیسے کام جاری رکھ سکتے ہیں جو ہماری عزت پر تلوار کی طرح منڈلا رہا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ اس سال پہلی بار طے شدہ طریقہ کار کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ کوئی مناسب مشاورت نہیں کی گئی جس کے باعث بزنس اناملیز کمیٹی کے ارکان کو استعفیٰ دینے اور احتجاجاً اجلاس سے واک آؤٹ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کے باوجود بجٹ کو عجلت میں منظور کر لیا گیا جس میں تاجر برادری کی رائے شامل نہیں تھی۔ یہ بات نہایت تشویشناک ہے کہ وہ اناملیز جن کی نشاندہی نہ صرف کمیٹی نے بلکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں نے بھی کی تھی ان میں اکثریت کو نظرانداز کر دیا گیا حالانکہ ان پر غور و خوض کے بعد اتفاقِ رائے بھی ہو چکا تھا۔
.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے سی سی ا ئی کراچی چیمبر انہوں نے سیکشن 37
پڑھیں:
یونائیٹڈانشورنس کمپنی کو گارنٹی بزنس جاری رکھنے کی اجازت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (کامرس ڈیسک)اسلام آباد ہائیکورٹ نے یونائیٹڈ انشورنس کمپنی (یو آئی سی)کے خلاف سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستا ن( ایس ای سی پی )کا فیصلہ معطل کر تے ہوئے اسے عبوری ریلیف فراہم کر دیا ہے۔ فیصلے کے تحت کمپنی گارنٹی بزنس دوبارہ شروع کر سکتی ہے۔ایس ای سی پی نے یو آئی سی کے خلاف یہ قدم اس الزام کی بنیاد پر اٹھایا گیا تھا کہ اس نے بارہا انشورنس گارنٹیوں کی ادائیگی سے انکار کیا۔اس کاروائی سے کمپنی کی ساکھ کو نقصان پہنچا اور بھاری مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ ایس ای سی پی نے اس فیصلے کی بھرپور تشہیر بھی کی جس نے مارکیٹ میں بے چینی پھیلی اور صارفین کااعتماد متاثر ہوا۔بعد ازاں یو آئی سی نیایس ای سی پی اپیلیٹ بنچ میں اپیل دائر کی جس نے فیصلہ برقرار رکھا جس پر یو آئی سی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیصلے کو چیلنج کر دیاجس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ یہ فیصلہ ایک غیر مصدقہ شکایت کی بنیاد پر، غیر منصفانہ، غیر قانونی اور قانون کے طے شدہ طریقہ کار کے بغیر کیا گیا۔عدالت نے دونوں جانب سے دلائل سننے کے بعدفیصلے کو معطل کر تے ہوئے کہا کہ الزام کی بنیاد پر کسی کمپنی کا اکروبار بند نہیں کیا جا سکتا ہے۔عدالت نے قرار دیا کہ ایس ای سی پی کا فیصلہ قدرتی انصاف کے اصولوں اور ملکی قانون کی خلاف ورزی ہے، اور ہدایت دی کہ ریگولیٹر مختلف بہانوں سے درخواست گزار کو ہراساں کرنے سے باز رہے۔اس پیش رفت نے ملک میں ریگولیٹری اداروں کے کردار پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ قانونی اور کارپوریٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریگولیٹرز کو اپنے اختیارات کا استعمال محتاط شفاف اور ذمہ دار انداز میں کرنا چاہیے۔ اچانک اور یکطرفہ فیصلے اور انکی تشہیر کمپنیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں ،مارکیٹ کے استحکام کو متاثر اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو کمزور کر دیتے ہیں۔ ایسے فیصلے مکمل جانچ پڑتال اور اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر کرنے سے معیشت پر بہت منفی اثرات مرتب کرتے ہیں ان سے صارفین کا اعتماد متاثر مارکیٹ میں بے یقینی اور اربوں روپے کا مالی نقصان شامل ہے۔ ایسے اقدامات بڑے پیمانے پرروزگار اور کاروباری تسلسل کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ایس ای سی پی کو ان کمپنیوں کے خلاف میڈیا ٹرائل سے گریز کرنا چاہیے جو ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کر رہی ہیں اور قومی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔واضع رہے کہ یو آئی سی پاکستان کی ٹاپ فائیو کمپنیوں میں شامل ہے جس کی درجہ بندی ڈبل اے پلس ہے۔ یہ انشورنس انڈسٹری میں سب سے بڑا آجر اور گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس کا گراس پرائمیم 13 ارب روپے ہے جبکہ اس نے 2024 میں 4.5 ارب روپے کے کلیمز ادا کیے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ریگولیٹری نگرانی ضروری ہے لیکن اس کا اطلاق متوازن موزوں ہونا چاہیے۔ احتساب کے بغیر ریگولیٹری اختیارات کا استعمال کاروباری اعتماد پر منفی اثر ڈال سکتا ہے، مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو روک سکتا ہیاور پاکستان کی کمزور معیشت کو مزید دھچکا پہنچا سکتا ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ ریگولیٹری اختیارات کے غیر جانبدارانہ استعمال کو روکنے میں اہم ثابت ہو گا۔ یہ مقدمہ اب ادارہ جاتی گورننس اور کاروباری حقوق کے درمیان توازن کے ایک اہم امتحان کے طور پر آگے بڑھ رہا ہے۔