امریکی شہری سے رشوت وصولی‘پولیس اہلکاروں کیخلاف کارروائی کاانتباہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ ہائی کورٹ نے امریکی شہری ظفراللہ مرچنٹ سے پولیس اہلکاروں کی جانب سے 80 ہزار امریکی ڈالر رشوت وصولی کے خلاف درخواست پر سینٹرل پولیس آفس کو ہدایت دی کہ اگر درخواست گزار کو ہراساں کیا گیا تو سولجر بازار تھانہ ہراساں کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائے۔جمعرات کو سندھ ہائی کورٹ میں امریکی شہری ظفراللہ مرچنٹ سے پولیس اہلکاروں کی جانب سے 80 ہزار امریکی ڈالر رشوت وصولی کے معاملے کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران ڈی ایس پی لیگل نے مؤقف اختیار کیا کہ مبینہ رشوت خوری میں ملوث سپاہی آصف نور کا کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے جبکہ سینٹرل پولیس آفس سے بھی سپاہی آصف نور کی موجودہ پوسٹنگ سے متعلق بھی کوئی معلومات دستیاب نہیں۔ سب انسپکٹر ندیم اختر نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ درخواست گزار کے ساتھ عدالت سے باہر معاملات طے کرنے پر آمادہ ہیں جس پر عدالت نے فریقین کو مصالحت کی اجازت دیتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ اگر سات روز میں معاملہ طے نہ ہوا تو آئی جی سندھ کو محکمانہ کارروائی کا حکم دیا جائے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پولیس ا
پڑھیں:
سندھ میں آئینی بینچز سے متعلق گورنر سندھ کے جاری آرڈیننس چیلنج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ ہائیکورٹ میں سندھ میں آئینی بینچز سے متعلق گورنر سندھ کے جاری کردہ آرڈیننس کو چیلنج کر دیا گیا ہے۔ درخواست بیرسٹر علی طاہر کی جانب سے دائر کی گئی ہے، جس میں مؤقف اختیار کیا کہ کانسٹیٹیوشنل بینچز آف ہائیکورٹ آف سندھ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس سندھ ہائیکورٹ کے انتظامی معاملات میں غیر قانونی مداخلت ہے۔ درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ 27 ویں آئینی ترمیم کے بعد آرٹیکل 202(A)(6) کے تحت آئینی بینچز کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار صوبائی اسمبلی کو حاصل ہے لیکن آرڈیننس گورنر سندھ کے بجائے قائم مقام گورنر نے جاری کیا ہے۔ درخواست میں ہے کہ اس عمل سے عدلیہ کو جلد از جلد قابو پانے کی کوشش واضح ہوتی ہے۔ درخواست میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ قانون سازی اسمبلی کے ذریعے کیوں نہیں کی گئی؟۔ آرڈیننس کے اجرا سے قبل عدلیہ، بار کونسل اور سول سوسائٹی سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی، قائم مقام گورنر کو صرف روزمرہ کے امور انجام دینے کے لیے مختصر مدت کے لیے تعینات کیا جاتا ہے۔ درخواست گزار نے کہا کہ موجودہ حالات میں جلدی بازی کی کوئی وجہ نہیں ہے اور آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 128 کی خلاف ورزی ہے کیونکہ گورنر کو آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار صرف مخصوص حالات میں یا اس وقت ہے جب اسمبلی سیشن نہ ہو۔ درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ آرڈیننس کو کالعدم قرار دیا جائے اور آئینی بینچز کو سندھ ہائیکورٹ کا اندرونی معاملہ قرار دے کر انتظامیہ کی کسی بھی مداخلت کو روکا جائے۔