حکومت بوکھلاہٹ کا شکار اور ہمیں ڈرایا جا رہا ہے، احمد خان بھچر
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی احمد خان بھچر نے ہفتے کے روز پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے موجودہ حکومت، اسپیکر اسمبلی اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
یہ بھی پڑھیں:اسپیکر پنجاب اسمبلی کا پی ٹی آئی کے معطل کیے گئے 26 ارکان کیخلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجنے کا اعلان
انہوں نے کہا کہ پنجاب کی تاریخ میں اس نوعیت کے واقعات پہلے نہیں دیکھے گئے، حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور ہمیں ڈرایا جا رہا ہے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی مجبوریوں کے تحت فیصلے کر رہے ہیںاحمد خان بھچر نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے 26 ارکان کی معطلی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اسپیکر نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کی اور ہمارے 26 لوگوں کو معطل کر دیا، جبکہ وہ خود کچھ مجبوریوں کے تحت فیصلے کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم فارم 47 کی بنیاد پر قائم اس حکومت کو نہیں مانتے، کل کے احتجاج میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں:پنجاب اسمبلی میں توڑ پھوڑ کے مرتکب 10 ارکان پر بھاری جرمانہ عائد
انہوں نے مزید کہا کہ ان ڈکٹیٹر نما حکمرانوں کی شان میں ہم گستاخی کرتے رہیں گے، کیونکہ یہ لوگ فسطائیت کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کل سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا، اس کی کڑیاں ان فیصلوں سے جڑتی ہیں۔ پہلے اسپیکر کو یہ وضاحت دینی چاہیے کہ آیا انہوں نے اپوزیشن کے پارلیمانی لیڈر کو نوٹیفائی کیا یا نہیں۔
احتجاج ہمارا آئینی حق ہےاپوزیشن لیڈر نے کہا کہ احتجاج ہمارا آئینی حق ہے، اگر چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں کرسیاں چلائی گئیں تو آج ہم صرف آواز بلند کر رہے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم وزیر اعلیٰ کے سامنے جھک جائیں گے تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر 26 لوگوں کو معطل کر سکتے ہیں تو سب کو بھی کر دیں، ہم پھر بھی احتجاج کرتے رہیں گے۔
ہمیں کسی رعایت کا شوق نہیںانہوں نے مزید کہا کہ ہمیں کسی رعایت کا شوق نہیں، اور اگر ہمارے لیڈر کے خلاف نعرے لگائے گئے تو ہم بھی جواب دیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:مریم نواز کیخلاف احتجاج پر اپوزیشن کے 26 ارکان 15 اجلاس کے لیے معطل
انہوں نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ ہم خاموش بیٹھ جائیں، لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت فسطائیت کی انتہا پر ہے اور ان ’فرعونوں‘ کے لیے اڈیالہ جیل میں قیدی نمبر 804 موجود ہے۔
جرمانے کے خلاف ہم قانونی جنگ لڑیں گےاحمد خان بھچر نے کہا کہ 20 لاکھ روپے جرمانے کے خلاف ہم قانونی جنگ لڑیں گے اور کیس کریں گے، اگر حکومت چاہے تو ہمیں ایک سال کے لیے معطل کر دے، مگر احتجاج اپوزیشن کا حق ہے، جو ہمیشہ سے حکومت کے خلاف ہوتا ہے۔
اپنے خطاب میں انہوں نے اسپیکر ملک محمد احمد خان کو دباؤ میں آیا ہوا شخص قرار دیا اور کہا کہ ہمیں کل کے بجائے آج ہی ایوان سے نکال دیں، لیکن وزیر اعلیٰ 10 کھرب روپے کے خرچ کا جواب دیں۔ یہ ایک جانبدار فیصلہ ہے، اگر ان کے ممبران نے بھی نازیبا زبان استعمال کی ہے تو ان کے خلاف بھی سخت کارروائی ہونی چاہیے۔
بانی پی ٹی آئی کو ان کی بہنوں سے بھی نہیں ملنے دیا جا رہاانہوں نے کے پی کے میں پیش آنے والے واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے اس کی مکمل انکوائری اور ذمہ داران کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں:پنجاب اسمبلی میں مریم نواز نے غصے سے دیکھا تو ڈپٹی اسپیکر ،وزرا نے اپوزیشن کی طرف دوڑ کیوں لگائی ؟
احمد خان بھچر نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو ہم ایوان کے اندر بھی احتجاج کریں گے اور باہر بھی، جبکہ اڈیالہ جیل کو پنجاب کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو ان کی بہنوں سے بھی نہیں ملنے دیا جا رہا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر اسپیکر پنجاب اسمبلی فارم 47.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر اسپیکر پنجاب اسمبلی فارم 47 اسپیکر پنجاب اسمبلی احمد خان بھچر نے یہ بھی پڑھیں وزیر اعلی نے کہا کہ انہوں نے کے خلاف جا رہا کے لیے
پڑھیں:
شیرافضل مروت کی قومی اسمبلی میں جذباتی تقریر، صدر اور فوج کے حق میں بول پڑے
رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت صدر مملکت آصف علی زرداری اور پاک فوج کے حق میں کھل کر بول پڑے ہیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران رکنِ اسمبلی شیر افضل مروت نے ایک تفصیلی اور جذباتی خطاب کیا، انہوں نے تقریر کے آغاز میں اسپیکر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہیں صرف 3 منٹ دیے گئے ہیں مگر وہ چند اہم باتیں کرنا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ڈیل، شیر افضل مروت کے تہلکہ خیز انکشافات
شیر افضل مروت نے کہا کہ میں سب سے پہلے معذرت چاہتا ہوں اگر میری باتوں سے کسی کو دکھ پہنچے۔ میں پاکستان تحریکِ انصاف کا رکن رہا ہوں، مجھے تین بار نکالا جا چکا ہے۔ مجھے 34 بار نکالنے کا حق تو کسی کو نہیں، لیکن آج جو کچھ ہوا ہے، اس پر میں چند باتیں کرنا چاہتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ آئین میں 48 نکات پر مشتمل نئی ترامیم پیش کی گئی ہیں، مگر ان نکات پر علمی اور سنجیدہ گفتگو کے بجائے محض سیاسی نعرے بازی کی جا رہی ہے۔ ہمیں چاہیے تھا کہ ان نکات پر تفصیلی بات کرتے، عوام کو بتاتے کہ یہ تبدیلیاں کس مقصد کے لیے لائی جا رہی ہیں۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ موجودہ حالات، الزامات، اور سیاسی کشیدگی نے معاشرتی فضا کو مکدر کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک خاتون کی شہادت کو بھی سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، جس پر وہ افسردہ ہیں۔ ایک ماں شہید ہوئیں، اس کی قربانی کو بھی سیاست کا ایندھن بنایا جا رہا ہے۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ایک ڈکٹیٹر نے پھانسی دی، مگر اس وقت بھی قانون کی بالادستی کی بات کرنے والے ہم سب موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کا معاملہ، پارلیمنٹیرینز کیا کہتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ اس وقت اسمبلی کو متفقہ طور پر قرارداد منظور کرنی چاہیے تھی مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔
پی ٹی آئی کے سابق اسپیکر اسد قیصر کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے شیر افضل مروت نے کہا کہ ہمارا لیڈر عمران خان آج جیل میں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ زیادتی ہے، یہ غیر اخلاقی اور غیر منصفانہ ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جب راجہ پرویز اشرف تقریر کر رہے تھے اور ان پر آوازیں کسیں جا رہی تھیں، تب ہم کہاں تھے؟ ایک محترم شخص، ایک سابق وزیراعظم کے ساتھ اس طرح کا سلوک مناسب نہیں۔
انہوں نے ایوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری گزارش ہے، ایمان داری سے سوچیں، تمام سیاست دانوں میں اگر کسی نے سب سے زیادہ وقت جیل میں گزارا ہے تو وہ آصف علی زرداری ہیں۔ پھر ہم بار بار انہیں چور کہہ کر کیا حاصل کرتے ہیں؟ ہم ایوان کا ماحول خود برباد کرتے ہیں۔
مروت نے کہا کہ اگر راجہ پرویز اشرف اور شہباز شریف شریف ایک دوسرے سے مصافحہ کر سکتے ہیں تو ہم سب کو بھی ایک دوسرے کو انسان سمجھنا چاہیے۔ سیاست میں اختلافات رہتے ہیں، مگر باہمی احترام ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فیلڈ مارشل کے خلاف بات کرنے والے لوگ گمراہ ہیں: پرویز اشرف کی قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران اپوزیشن کا احتجاج
انہوں نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے دو نکات پر رائے دیتے ہوئے کہا کہآرٹیکل 243 میں ترمیم کی جا رہی ہے۔ یہ وہ شق ہے جو فوجی نظم و نسق سے متعلق ہے اور شہری بالادستی کے اصول کو واضح کرتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ فوج براہ راست یا بالواسطہ طور پر بارہا اقتدار میں آئی۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ اب اس آرٹیکل میں چیف آف ڈیفنس کا نیا عہدہ بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے تحت آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے سربراہان مل کر ایک چیف آف اسٹاف مقرر کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے آرمی چیفس کے پاس پہلے سے اختیارات کی کمی ہے؟ ہم انہیں مزید طاقت کیوں دینا چاہتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ کل جب ہم ترمیم پر ووٹ دیں گے تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم اس ملک کی کس سمت کا تعین کر رہے ہیں۔ عوام ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ، جمہوریت کے استحکام، اور قانون کی بالادستی کے لیے متحد ہو کر کام کریں گے۔
انہوں نے فوج کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری فوج ہمیں عزیز ہے۔ یہ جنگیں لڑتی ہے، قربانیاں دیتی ہے، یہ اس کا فرض، اس کا پیشہ اور اس کی تنخواہ ہے۔ ہم اس کے کردار کے معترف ہیں مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ریاستِ پاکستان ہے، بادشاہت نہیں۔
انہوں نے اختتام پر کہا کہ ہم سب کو مل کر سوچنا ہوگا، جب ہم کل ووٹ ڈالیں گے، تو آنے والی نسلیں ہمیں کس نام سے یاد کریں گی، محافظِ آئین یا تابعِ قوت؟
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آصف علی زرداری پاک فوج راجہ پرویز اشرف شیرافضل مروت صدر