data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بیجنگ: چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی نے ایک نئی اور پراسرار دفاعی ٹیکنالوجی کا انکشاف کیا ہے جسے پاور انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے والا ’بلیک آؤٹ بم‘ قرار دیا جا رہا ہے، یہ ہتھیار دشمن کے بجلی گھروں اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز کو مکمل طور پر مفلوج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس سے جدید جنگی حکمت عملیوں میں ایک نیا باب کھلنے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق  سی سی ٹی وی کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک اینیمیٹڈ ویڈیو جاری کی گئی جس میں گرافائٹ بم کی طرز پر ایک جدید میزائل کو دکھایا گیا ہے، ویڈیو میں بتایا گیا کہ یہ میزائل زمین سے فائر کیا جاتا ہے اور فضا میں جا کر 90 چھوٹے سلینڈر نما کیپسولز (سب میونیشنز) خارج کرتا ہے۔ یہ کیپسول زمین سے ٹکرا کر دوبارہ اچھلتے ہیں اور فضا میں پھٹ کر نہایت باریک کاربن فائبرز ہوا میں بکھیرتے ہیں۔

یہ کاربن فائبرز ہائی وولٹیج برقی نظام میں داخل ہو کر شارٹ سرکٹ پیدا کرتے ہیں جس سے بڑے پیمانے پر بجلی کی ترسیل کا نظام متاثر ہوتا ہے اور وسیع علاقہ تاریکی میں ڈوب جاتا ہے۔ ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ہتھیار کم از کم 10 ہزار مربع میٹر کے رقبے میں بجلی کے نظام کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

چینی نشریاتی ادارے نے اس ہتھیار کے اصل نام، نوعیت اور تکنیکی تفصیلات کو خفیہ رکھتے ہوئے صرف اسے ایک “پراسرار قسم کا مقامی ساختہ میزائل” قرار دیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین اس ہتھیار کی دفاعی صلاحیت کو فی الحال جزوی طور پر منظر عام پر لانا چاہتا ہے۔

چین کی جانب سے ایسے ہتھیار کی موجودگی کا عندیہ ایک واضح پیغام ہے کہ مستقبل کی جنگوں میں روایتی حملوں کے بجائے تکنیکی اور سائبر نوعیت کے حملے کلیدی کردار ادا کریں گے۔

دفاعی ماہرین کے مطابق یہ ہتھیار نہ صرف دشمن کے بنیادی ڈھانچے کو کم از کم نقصان کے ساتھ ناکارہ بنانے کے لیے کارآمد ہے بلکہ اس سے شہری آبادی کو جانی نقصان پہنچائے بغیر جنگی برتری حاصل کی جا سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

ایران کا چینی جے-10 سی لڑاکا طیاروں کی خریداری کا فیصلہ، میڈیا رپورٹس میں دعویٰ

گزشتہ ماہ جب درجنوں اسرائیلی اور امریکی جنگی طیاروں نے ایرانی فضائی حدود میں داخل ہو کر شدید بمباری کی، تو ایران کی فضائیہ مکمل طور پر غیر فعال نظر آئی۔ ایرانی ایئر فورس نے نہ تو حملہ آور طیاروں کو روکنے کی کوشش کی، نہ ہی اپنے لڑاکا طیارے فضا میں بھیجے۔ اس ناکامی کے بعد ایران نے اب چین سے جدید ”چینگڈو جے-10 سی“ لڑاکا طیارے خریدنے کے لیے مذاکرات تیز کر دیے ہیں۔ یہ دعویٰ ایرانی اور یوکرینی میڈیا کی رپورٹس میں کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایرانی ایئر فورس کے پاس اس وقت تقریباً 150 لڑاکا طیارے موجود ہیں، جن میں اکثریت 1979ء کی اسلامی انقلاب سے قبل خریدے گئے امریکی ایف-4 فینٹم، ایف-5 ٹائیگر اور ایف-14 ٹام کیٹ جیسے پرانے طیاروں پر مشتمل ہے۔ چند سوویت نژاد مِگ-29 بھی ایرانی فضائی بیڑے کا حصہ ہیں، مگر ان کی بڑی تعداد یا تو ناکارہ ہو چکی ہے یا ناکافی دیکھ بھال کے باعث قابل استعمال نہیں۔

ایرانی میڈیا اور یوکرینی خبر رساں اداروں کے مطابق، تہران نے روس سے جدید سخوئی ایس یو-35 طیاروں کی خریداری کے معاہدے کی ناکامی کے بعد چین کے ساتھ جے-10 سی طیاروں کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا ہے۔ روس کے ساتھ معاہدے کے تحت ایران کو 50 ایس یو-35 طیارے فراہم کیے جانے تھے، لیکن اب تک صرف چار تربیتی طیارے ہی فراہم کیے گئے، جبکہ باقی معاہدہ تعطل کا شکار رہا۔

جے-10 سی طیارے، جنہیں چین ”ویگرس ڈریگن“ کے نام سے جانتا ہے، 4.5 جنریشن کے جدید ملٹی رول طیارے ہیں جو جدید ”اے ای ایس اے“ ریڈار اور پی ایل-15 میزائلوں سے لیس ہوتے ہیں۔ یہ طیارے لمبی دوری تک دشمن کے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور فضائی جنگ میں اسرائیل کے بعض جدید طیاروں کا مقابلہ کرنے کی حد تک مؤثر سمجھے جا رہے ہیں۔ یہی طیارے پاکستان کی فضائیہ نے بھی بھارت کے خلاف مئی 2025 کی جھڑپ میں کامیابی سے استعمال کیے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایران نے 2015 میں بھی جے-10 طیارے خریدنے کی کوشش کی تھی، اور اُس وقت 150 طیاروں پر مشتمل ممکنہ معاہدہ زیر غور تھا، مگر چین کی جانب سے غیر ملکی کرنسی میں ادائیگی کے مطالبے اور اقوام متحدہ کی اسلحہ پابندی کے باعث معاہدہ نہ ہو سکا۔ ایران صرف تیل اور گیس کے ذریعے ادائیگی کی پیشکش کر رہا تھا۔

چینی جے-10 سی طیارے، جو پاکستانی فضائیہ کا بھی حصہ ہیں، پی ایل-15 میزائل سے لیس ہوتے ہیں جنہیں مغربی میزائلوں پر سبقت حاصل ہے۔ ان طیاروں کی ساخت اور رفتار انہیں ڈاگ فائٹس میں بھی خاصی برتری دیتی ہے۔ ڈبلیو ایس-10 چینی انجن اور ڈیلٹا وِنگ کینارڈ ڈیزائن کی بدولت ان کی پرواز اور چابکدستی نمایاں مانی جاتی ہے۔

اگر یہ سودا مکمل ہو جاتا ہے تو یہ نہ صرف ایران کی فضائی طاقت میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوگا بلکہ چین اور ایران کے دفاعی تعلقات میں بھی نئی جہتوں کا آغاز ہوگا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب روس ایران کو اس کے اہم ہتھیار فراہم کرنے سے گریزاں دکھائی دے رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کی یہ کوشش ایک ایسی فضائی ناکامی کے بعد کی جا رہی ہے جس نے نہ صرف اس کی فوجی کمزوریوں کو بے نقاب کیا بلکہ خطے میں طاقت کے توازن پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اس تناظر میں ایران کا چینی دفاعی صنعت کی طرف رجوع ایک عملی اور اسٹریٹجک قدم تصور کیا جا رہا ہے۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • بجلی کے بل سے پی ٹی وی فیس کے خاتمے کا نوٹیفکیشن جاری
  • علی امین گنڈاپور نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کی کلاس لے لی، مؤثر بیانیہ نہ بنانے پر برہم
  • ایران کا چینی جے-10 سی لڑاکا طیاروں کی خریداری کا فیصلہ، میڈیا رپورٹس میں دعویٰ
  • ترکی: پیغمبر اسلام کا خاکہ بنانے والا کارٹونسٹ حراست میں
  • ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی: جی 7 وزرائے خارجہ
  • چینی آئی پی پیز کے واجبات 500 ارب روپے سے متجاوز، تاخیر سے ادائیگیاں سی پیک منصوبوں کو متاثر کرنے لگیں
  • جیکب آباد،زیرو ریکوری والا فیڈر سارا دن چلنے کا انکشاف
  • بلنگ میں شفافیت، صارفین کو بااختیار بنانے کی نئی راہ ہموار، پاور اسمارٹ ایپ متعارف
  • خواتین کیلئے تہلکہ خیز انکشاف: ’کانٹا لگا گرل‘ شیفالی کی موت کی وجہ ’جوان بنانے والی‘ دوائیاں؟