Express News:
2025-07-04@09:13:29 GMT

بھید بھری ہوتی ہے رات۔۔۔ !

اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT

وہ رات بھی عجیب رات تھی، ویرانے میں دیوانوں کی ایک اور رات، لیکن کالی نہیں تھی وہ جس میں شیاطین گھومتے ہیں۔ چاندنی میں نہائی ہوئی، سحر سے بھری ہوئی، اسرار میں لپٹی ہوئی، خاموشی میں بولتی ہوئی، خمار آلود ہوا سے ڈولتی ہوئی، عجب رات۔ اور رات کا کیا ہے، وہ تو ہوتی ہی ایسی ہے ناں۔۔۔۔ !

نہیں جی! ایسی نہیں ہوتی ہر رات۔ ہر رات، گزری ہوئی سے مختلف ہوتی ہے۔

ہمارا طرز رہائش ہی کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ ہم ہر رات کو ایک جیسا سمجھنے اور ایک جیسا دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ آپ خود ہی بتائیے کہ کیا کسی بند کمرے میں پوری رات کا رمز کُھل سکتا ہے۔۔۔ ؟

ہاں! زنداں میں تو کھل سکتا ہے لیکن ایک بند کمرے میں کیسے کھلے۔

جب دیکھو ایک سا منظر، وہی در و دیوار اور ان میں لگی ہوئی کوئی پینٹنگ، زیادہ ہُوا تو ایئر کنڈیشنر کی مصنوعی سرد ہَوا، وہی پلنگ و بستر، اور پھر یک سانیت کا گلہ بھی جو مرض اور پھر روگ میں بدل جاتا ہے۔

ایسی جگہوں پر تو آنکھیں اور دماغ منجمد ہوجاتا ہے اور کچھ دیکھنے اور سوچنے سے انکاری۔ جی! آپ کا فرمانا درست ہے کہ جیون میں اتنے مسائل ہیں کہ اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ جی درست فرمایا آپ نے! لیکن کیا کبھی آپ نے اسے بدلنے کی کوئی کوشش بھی کی ہے۔۔۔۔ ؟

اور اگر کی ہے اور پھر بھی نہیں بدل سکے تو آپ اپنی بات میں حق بہ جانب ہیں، لیکن پھر یہ بھی تو سوال ہوگا کہ یہ جو طرز زندگی ہے اسے خود آپ ہی نے اپنے لیے منتخب بھی تو کیا ہے ناں، دور جدید کے ساتھ قدم بہ قدم چلنا بھی تو آپ چاہتے ہیں ناں، اور ہاں کبھی آپ نے اس پر غور کیا ہے کہ آپ نے ترقی و آسائش کے لیے جو قیمت ادا کی ہے اور جو کر رہے ہیں تو کیا واقعی آپ نے درست انتخاب کیا ہے۔۔۔؟ ضروریات زندگی کو اسی لیے مختصر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، اسی لیے سادگی کی تلقین کی گئی ہے کہ سادہ طرز زندگی میں آپ خود کو اس منجدھار سے بچا کر رکھ سکتے ہیں، لیکن پھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ سماجی جبر کا سامنا کون کرے، اتنی ہمت و جرأت کہاں سے لائیں کہ ہم اپنا جیون آپ جییں اور سماج کے جبر کو پیچھے دھکیل دیں۔

فقیر کہیں اور نکلنے لگا ہے تو واپس پلٹتے ہیں تو بات ہو رہی تھی رات کی۔ ہر رات ایک جیسی نہیں ہوتی جی! کیسے ہو سکتی ہے ایک جیسی، نہیں ایک جیسی نہیں ہوتی کبھی رات۔ کوئی تاریکی سے نہاتی ہے، چیختی ہے، چلّاتی ہے، دھاڑتی ہے، جنوں میں اپنا سر اشجار سے ٹکراتی ہے، کوہ ساروں میں وحشت سے لڑکھڑاتی ہے، صحرا میں دیوانوں کی طرح گھومتی پھرتی ہوئی رات، کسی آوارہ کی طرح بے منزل کوئی رات، ایسی بھی ہوتی ہے رات جی۔ کیا اب یہ بھی بتایا جائے کہ مقام بدلنے سے رات بدلتی ہے، اس کا اسرار بدلتا ہے، اس کی تاثیر بدلتی ہے۔ آپ کبھی صحرا میں ہوں تو دیکھیے کتنی خوب صورت ہوتی ہے رات، ستاروں سے بھرا آکاش جسے شہر کے مکین دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔

 دن بدلتا ہے تو رات بدل جاتی ہے۔ جی موسم بدلتا ہے تو وہ بھی بدل جاتی ہے، سرد شب تاریک میں صحرا کی رات ہُو کے عالم میں آپ کے سامنے کھڑی ہوئی ڈراتی ہے اور چاندنی ہو تو مسکراتی ہے۔ کبھی جائیے ناں دیکھیے کسی صحرا میں رات گزار کر، کسی جنگل میں قیام کیجیے، کسی جھیل کنارے، دریا کے پاس، کوہ ساروں کے درمیان، کسی سرسبز وادی میں یا پھر کسی ویرانے میں جہاں دُور تک کوئی نہ ہو، اب یہ تو فقیر آپ سے نہیں کہتا کہ کسی قبرستان میں رات بسر کر کے دیکھیے لیکن کبھی یہ تجربہ بھی کر کے دیکھیے، مجھ فقیر کو تو رب تعالیٰ نے یہ ساری نعمتیں عنایت کی ہیں اور وافر، حمد و ثناء ہے بس رب کائنات کے لیے، بس اُسی کے لیے۔ جینا روانی کو کہتے ہیں جی! کہیں مستقل پڑاؤ کیا تو بس سمجھیے تمام ہُوا ماجرا۔

شب کا اسرار سب سے زیادہ خانہ بہ دوشوں پر کُھلتا ہے، جو اپنے ساتھ ہی سفر لکھوا کر لاتے ہیں۔ واہ جی واہ! کیا جیون ہے اُن کا، مجھ فقیر کو انہوں نے اپنے ساتھ رہنے اور سفر کرنے کی سعادت بخشی تھی، بہت عرصہ رہا اُن رازِ زندگی پانے والوں کے سنگ، ربّ کی ساری زمین اُن کی ہے جی، لیکن ملکیت کا کوئی دعویٰ نہیں، بس چل سو چل اور آگے چل۔ رب تعالیٰ نے فرمایا ہے ناں کہ زمین کی سیر کرو اور راز ہائے کائنات کو جانو۔ رب نے چاہا تو بتائے گا آپ کو فقیر کہ خانہ بہ دوش کیا ہوتے ہیں، کیسے ہوتے ہیں ؟ توکّل ہی توکّل ہوتے ہیں وہ۔

شب کھلتی ہے جی! عاشقین پر، دہقانوں پر، کوہ کنوں پر، ہجر کے ماروں پر، آوارگان پر، عابدین شب بیداروں پر، ساجدین پر اور ان پر بھی کہ جن کا ذکر کیا جائے گا تو ریاکار متّقین کی پیشانی شکن آلود ہو جائے گی، تو ایسوں پر کُھلتی ہے رات جی۔ رات وصال میں بھی کُھلتی ہے اور ہجر میں بھی!

جنگل میں رات عجب رنگ ہوتی ہے۔ سرسراتی ہوئی، گنگناتی ہوئی، گُدگداتی ہوئی، آپ کو چھیڑ کر گزر جائے گی اور آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے، جگنوؤں سے چمکتی ہوئی رات اور کبھی اس میں برسات کا موسم ہو تو پھر دیکھیے اس رات کو، اور کبھی آندھی و طوفان ہو تو آپ خود سے ڈر جائیں گے، ایسا سماں ہوتا ہے جیسے سارے شجر آپ کے گرد اشک بہاتے، اپنا دُکھڑا سناتے، بال کھولے، سینہ کوبی کر رہے ہیں۔ ربّ کی شان تو کائنات بیان کرتی ہے، جنگل و صحرا و کوہ سار بیان کرتے ہیں، جھیلیں، دریا، ندی و آبشار بیان کرتے ہیں جی! مجھ ایسا کوڑھ مغز اور کورچشم کیا دیکھے گا اور مجھ ایسا سیاہ دل و چرب زبان کیا بیان کرے گا۔ ربّ جی کرم کرے تو بات بنے کہ بس وہی ہے، بس وہی۔

چلیے! فقیر اب آپ کو ایک رات دکھاتا ہے۔

ہُوا یوں کہ ہمارے سنگ ایک دیوانہ رہتا تھا، حنیف اور پھر وہ اک ساحرہ سے دل ہار بیٹھا تھا، ویسے تو ہمارے ساتھ ہی تھا لیکن چلا گیا تھا کہیں دور بہت دور، اور پھر بہت سمے بعد وہ واپس لوٹ آیا تھا۔

وہ رات بھی عجیب رات تھی، ویرانے میں دیوانوں کی ایک اور رات، لیکن کالی نہیں تھی وہ۔ چاندنی میں نہائی ہوئی، سحر سے بھری ہوئی، اسرار میں لپٹی ہوئی، خاموشی میں بولتی ہوئی، خمار آلود ہوا سے ڈولتی ہوئی، عجب رات۔ خلد مکیں بابا نے فقیر کو بتایا تھا کہ تمہارے حنیف بھائی واپس لوٹ آئیں گے تب انہیں سنبھالنا مُشکل ہوگا، جی ایسے جیسے کسی مُردے میں کوئی روح داخل ہوگئی ہو، جی پھر ایسا ہی ہُوا۔ میں اور بابا زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔

 ہم سے کچھ فاصلے پر حنیف بھائی سر نیہوڑائے گم سم تھے، پھر اچانک ہی وہ کھڑے ہوئے اور رقص کرنے لگے، خاموش، پھر وہ ہمارے قریب آئے اور بابا کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنا شریک بنایا، فقیر یہ سب دیکھ رہا تھا، حیرت سے نہیں، اب یہ مناظر فقیر کے لیے معمول تھے، پھر بابا اور حنیف بھائی فقیر کے پاس آئے اور اب ہم تین تھے، اور پھر اچانک خاموشی کو حنیف بھائی کی دل دوز چیخ نے چیر ڈالا تھا، اور پھر تو ان کی چیخوں سے ویرانہ گونجنے لگا۔ بابا انہیں سنبھالے ہوئے تھے، فقیر لاکھ کوشش کر لے آپ سے وہ منظر بیان نہیں کر پائے گا۔ آپ جاننا چاہتے ہیں تو بس اتنا ہی جان لیں کہ کبھی کسی کے گلے پر تیز نہیں کُند چُھری پھیر دی جائے اور اس کی شہہ رگ کچھ کٹ جائے، تو جان سکتے ہیں کیا حالت ہوگی اُس کی اور کیسا ہوگا وہ منظر؟ چلیے کچھ اور آسان کیے دیتے ہیں جیسے کسی دیسی مرغ کی گردن پر چھری پھیر کر اسے تڑپنے کے لیے چھوڑ دیا جائے، تو جان سکتے ہیں یہ کیفیت جس پر گزر رہی ہو۔

نہیں جان سکتے آپ! نہیں بہت مشکل ہے بیان کرنا، یہ جو آپ اپنے تئیں سمجھ بیٹھے ہیں ناں کہ فقیر کتنی آسانی سے یہ سب کچھ بیان کر دیتا ہے! نہیں جناب ایسا ہے نہیں، بالکل بھی نہیں، فقیر خود کو وہیں پاتا ہے اور اُسی تکلیف میں، رقم کرتے ہوئے آنکھیں ساون کی جھڑی بن جاتی ہیں اور پھر سب دُھندلا ہو جاتا ہے اور کسی جگہ بیان کر رہا ہو تو آواز ہی روٹھ جاتی اور سکت ہی نہیں رہتی۔

چھوڑیے اور آگے چلیے!

حنیف بھائی کی حالت ایسی ہی تھی، پھر ہم سب کی آنکھیں برسات ہوئیں اور اس میں ہم نہائے، پھر قرار آیا، سکینت اتری اور اُس نے گلے سے لگایا اور پھر مسکراہٹ اترائی، فضا مسکرائی، ہَوا گنگنائی اور منظر بدل گیا، رہے نام اﷲ کا۔۔۔۔!

رات نے رخت سفر باندھا اور فضا میں حنیف بھائی کی اذان فجر گونجی! واہ جی تیری آواز مکّے اور مدینے۔ بابا کی اقتداء میں صلوۃ الفجر ادا کی گئی اور ان کی مختصر سی دعا: ’’ہم تیرے ہیں مالک، ہمیں کسی اور کے حوالے مت کرنا، ہماری ساری تقصیریں معاف ہوں، تُو ہی ہے ہمارا کارساز و مالک و مختار۔‘‘

فقیر اب بھی سوچتا ہے اور بس اتنا ہی جان پایا ہے کہ وہ کچھ جانتا ہی نہیں ہے۔ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ پہلے سوچو پھر کلام کرو، فقیر اب بھی بے سوچے سمجھے کلام کرتا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کے ہر پہلو پر غور کرو لیکن فقیر تو کام پہلے کر لیتا ہے اور سوچتا بعد میں ہے۔ اسی طرح کی اور بہت سی باتیں۔ فقیر تو اب بھی ویسے کا ویسا ہے جی! دھاک کے تین پات بس، بے سوچے سمجھے کلام کرتا ہے۔

 نتیجے کو سوچے بغیر کر گزرتا ہے، کسی بھی دلدل میں اُتر جاتا ہے لیکن اس کا اعتراف بھی اور شُکر کے ساتھ کہ رب تعالیٰ اُس کے بگاڑے ہوئے کام کو درست فرما دیتا ہے، اسے ہر دلدل سے نکال باہر کرتا ہے، مجھ فقیر کو اُس کے خالق و مالک و مختار ربّ جلیل و کریم نے کسی کے حوالے نہیں کیا، نہیں جی کبھی نہیں، کبھی نہیں کیا، فقیر کے لیے بس وہ خود ہی کافی ہے، بس اُسی کی حمد ہے، اُسی کی ستائش ہے، بس اُسی کی بندگی ہے، بس اُسی کی ثناء ہے، بس وہی ہے کار کُشا و کار ساز، بس وہی، صرف وہی۔

جی! بہت لاڈ پیار سے رکھا ہُوا ہے ربّ جی نے مجھ ایسے کمّی کمین فقیر کو۔ واہ واہ شُکر الحمدﷲ۔

باہر ہیں حدِ فہم سے رندوںکے مقامات

کیا تجھ کو خبر، کون کہاں جُھوم رہا ہے

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حنیف بھائی بھی نہیں فقیر کو ہوتی ہے اور پھر ا سی کی نہیں ک کیا ہے ہر رات ہیں جی بس وہی ہے اور کے لیے ہے رات

پڑھیں:

آٹھ فروری کو انتخابات نہیں، نیلامی ہوئی، اصغر اچکزئی

کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے اے این پی رہنماء اصغر اچکزئی نے کہا کہ جعلی حکومت اور جعلی اسمبلی کا سب سے بڑا ثبوت اپوزیشن کیجانب سے وزیراعلیٰ کو پھولوں کے ہار پہنانا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی نے کہا کہ نااہل جعلی فارم 47 کے نتیجے میں برسر اقتدار حکمران ٹولہ ملازمین کا سامنا کرنے کے بجائے انہیں جیلوں میں بند کر رہے ہیں۔ جس نے حکمرانوں کو کرسی پر بٹھائے رکھا، وہ انہیں سڑکوں پر خون میں لت پت کرکے گھسیٹ رہے ہیں۔ آج استاد، ڈاکٹر اور انجنئیر گرفتار، سیاسی کارکن قید، سیاست اور میڈیا پر قدغن ہے۔ اساتذہ اور ملازمین کی کال ٹریس کرنیوالے 8 مہینوں تک معصوم مصور کاکڑ کے والدین سے کروڑوں کی تاوان طلب کرنے والوں کی کال ٹریس نہ کرسکے۔ جعلی حکومت اور جعلی اسمبلی کا سب سے بڑا ثبوت اپوزیشن کی جانب سے وزیراعلیٰ کو پھولوں کے ہار پہنانا ہے۔ ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں جو ڈھونگ 8 فروری کو انتخابات کے نام رچایا گیا وہ انتخاب نہیں نیلام تھا۔ مائنز اینڈ منرل بل پاس کرنیوالے ہمارے بچوں کے نوالے کے مجرم ہے۔ گرینڈ الائنس کی طرف سے جس احتجاج کا اعلان کیا جائے گا، عوامی نیشنل پارٹی تحصیل، ضلع اور صوبے کے لیول پر ان کے شانہ بشانہ ہوگی۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ آغا ظاہر، ڈاکٹر اکرام، اقبال زہری کی گرفتاری حکمرانوں پر خوف طاری کی سب سے بڑی علامت ہے۔ جبر استبداد کے یہ دن جلد ختم ہوں گے۔ جو ہمیں قید و بند سے ڈراتے ہیں، جو لوگ ہمیں گرفتاریوں سے مرعوب کرانا چاہتے ہیں، انہیں پتہ ہونا چاہئے کہ سروں کی قربانی دینے والے ان جیسے حربوں سے مرعوب نہیں ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ملازمین کے گرینڈ الائنس کے مطالبات کے حق میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کے دوران کیا۔ مظاہرے سے ضلع کوئٹہ کے صدر ثناء اللہ کاکڑ، مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری جنرل عبیداللہ عابد، مرکزی سیکرٹری طلباء، رشید خان ناصر، بلوچستان گرینڈ الائنس کے قائمقام آرگنائزر عبدالسلام زہری، صوبائی نائب صدر جمال الدین رشتیا، گرینڈ الائنس کے رہنماء علی بخش جمالی، سیسا رہنماء سائرہ خان، ضلع کوئٹہ کے سینئر نائب صدر حاجی شان عالم کاکڑ، پریس سیکرٹری زین اللہ درانی اور ملک عبدالستار خلجی نے بھی خطاب کیا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء اصغر خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پریس کلب کے سامنے بارہا احتجاج کیا ہے، لیکن آج جس مقصد کیلئے احتجاج پر مجبور ہوئے ہیں وہ یقینا تکلیف دہ عمل ہے۔ وہ طبقہ جنہیں سر آنکھوں پر بٹھانا چاہئے، انہیں آج سڑکوں پر گھسیٹا جا رہا ہے۔ حکمران ملازمین کا سامنا کرنے کے بجائے انہیں تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں، جو ان کی بوکھلاہٹ اور کھوکھلا پن کی سب سے بڑی علامت ہے۔ ہم شروع دن سے کہتے آرہے ہیں کہ جو ڈھونگ 8 فروری کو انتخابات کے نام پر آکشن کرایا گیا، اس کے ثمرات آج قدرتی وسائل کی نیلامی سے لیکر اساتذہ کرام، ڈاکٹر اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی کٹوتی تک آپہنچی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گرینڈ الائنس مستقبل میں جس سطح پر احتجاج کا اعلان کرے گی، اے این پی تحصیل، ضلع اور صوبے کی سطح پر آپ کے شانہ بشانہ ہوں گی۔

متعلقہ مضامین

  • اسکاٹ لینڈ کی کلینک میں عوام کی ایسی حرکت؛ انتظامیہ کو التجا کرنی پڑ گی
  • قلات اور گردونواح میں زلزلے کے جھٹکے
  • کے پی حکومت کا تختہ الٹنے کی خبریں، وزیراعظم کی گورنر فیصل کریم اور ایمل ولی سے ملاقاتیں
  • مولانا سے عدم اعتماد  لانے پر کوئی بات نہیں ہوئی: رانا ثناء 
  • بجٹ کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی قوم پر پیٹرول بم گرادیا ،رفیق منصوری
  • آٹھ فروری کو انتخابات نہیں، نیلامی ہوئی، اصغر اچکزئی
  • گاڑی کی بیک ونڈو کی ان لکیروں کا کیا مقصد ہوتا ہے
  • بہاولپور: گیس لیکیج کے باعث طالبات سے بھری وین میں آتشزدگی، 10 طالبات شدید زخمی
  • بہاولپور: گیس لیکیج کے باعث طالبات سے بھری وین میں آتشزدگی، 10 طالبات شدید زخمی
  • طالبات سے بھری وین میں آگ لگ گئی، ایک طالبہ جاں بحق، 8 زخمی