کراچی شہر میں پانی ناپید ہوگیا ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا جب کسی بستی کے عوام پانی نہ ملنے پر کسی شاہراہ پر دھرنا دینے پر مجبور نہیں ہوتے۔ ہفتے میں کئی دفعہ کراچی کی مرکزی شاہراہ، شاہراہ فیصل مختلف مقامات پر پانی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کی بناء پر بند رہتی ہے مگر صرف شاہراہ فیصل ہی نہیں بلکہ شہر کی تمام بڑی سڑکوں پر پانی کی تلاش میں سرگرداں عوام جمع ہوتے ہیں۔
ان احتجاج کرنے والوں کی آہ و بکا آسمان تک تو ضرور پہنچتی ہے مگر واٹر کارپوریشن اور حکومت سندھ کے اکابرین تک نہیں پہنچ پاتیں۔ جب مظاہرین سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوتے ہیں تو پھر ٹریفک جام ہونا شروع ہوتا ہے۔ ایک مرکزی شاہراہ پر ٹریفک جام ہوتا ہے تو دیگر شاہراہوں پر بھی ٹریفک معطل ہوجاتا ہے۔
گرمی کے دن ہوں یا راتیں کاروں اور بسوں کے مسافر گھنٹوں پھنسے رہتے ہیں مگر احتجاج کرنے والوں کو بھی پانی نہیں ملتا، اگر ڈیوٹی پر مجبور پولیس افسران معقول رویہ اختیار کرتے ہیں تو بات چیت اور وعدے وعید کر کے مظاہرین کو رخصت کردیا جاتا ہے۔ بعض اوقات حقائق کا ادراک نہ کرنے والے پولیس افسران لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ کچھ بے قصور افراد گرفتار ہوجاتے ہیں جنھیں رقم کی فراہمی پر عدالت سے ضمانت پر رہائی ملتی ہے۔ گزشتہ ہفتہ ایک ایس ایچ او نے وی آئی پی موومنٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے مظاہرین کے ساتھ معقول رویہ اختیار کیا تو انھیں معطل کردیا گیا۔
کراچی میں پانی کی لائنوں کا ٹوٹنا عام سی بات بن گئی ہے۔ پندرہ دن قبل قیامِ پاکستان کے بعد تعمیر ہونے والی دو میٹر قطر والی پائپ لائن کراچی یونیورسٹی کے احاطے میں پھٹ گئی۔ واٹر کارپوریشن کے حکام کو گھنٹوں پائپ لائن پھٹنے کا علم ہی نہیں ہوا تو زبردست دباؤ میں پائپ لائن سے نکلنے والے اس پانی نے کراچی یونیورسٹی میں ہر طرف تباہی مچا دی۔
یہ پانی ایک طرف تو اساتذہ اور ملازمین کے گھروں میں داخل ہوا جس سے گھروں کا سامان تباہ ہوا تو دوسری طرف کئی تعلیمی شعبہ جات اس پانی میں ڈوب گئے۔ شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق کلیہ سائنس کے مختلف شعبے اس ناگہانی آفت سے بری طرح متاثر ہوئے۔ ایک طرف تو اس پانی نے کراچی یونیورسٹی میں تباہی مچا دی تو دوسری طرف شہر کی بہت سی آبادیوں میں پانی کی سپلائی معطل ہوئی۔ واٹر کارپوریشن کا عملہ یا تو جدید آلات سے لیس نہیں ہے یا جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت کو واٹر کارپوریشن نے محسوس نہیں کیا۔ یہی وجہ تھی کہ پانچ چھ دنوں تک یہ لائن بند رہیں۔
ایک انگریزی اخبار نے اپنے ادارتی نوٹ میں لکھا کہ اس لائن کی مرمت کے پندرہ دن بعد بھی شہر میں پانی کی سپلائی معمول پر نہیں آسکی مگر معاملہ صرف ایک پائپ لائن کے ٹوٹنے کا نہیں ہے۔ کراچی میں پانی کی پائپ لائن ٹوٹنا معمول کی بات ہے۔ حکومت سندھ نے ملیر کینٹ سے نمائش تک جدید بسوں کی آمدورفت کے لیے ریڈ لائن کا منصوبہ شروع کیا تھا۔ اس ریڈ لائن تعمیر کرنے والے انجنیئروں نے ریڈ لائن کی تعمیر میں آنے والی پانی، گیس، بجلی اور سیوریج کی لائنوں کی متبادل مقامات پر منتقلی اور متبادل لائنوں کی تعمیر کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اس ریڈ لائن کی تعمیر کے لیے استعمال ہونے والی ہیوی مشینری کے استعمال سے ریڈ لائن کی تعمیر میں تو تیزی نہیں آئی، البتہ پانی کی لائنوں کا ٹوٹنا معمول کی بات بن گیا ہے۔ ہر پندرہ بیس دن کے عرصے میں اس مرکزی شاہراہ پر پانی کی لائن ٹوٹ جاتی ہے۔ عجب بات یہ ہے کہ جب تک ان ٹوٹی ہوئی لائنوں سے علاقہ کا وسیع علاقہ سیراب نہیں ہوجاتا پائپ لائن سے پانی آنا بند نہیں ہوتا۔ یوں ایک طرف تو اچانک سڑکوں پر پانی آنے سے بیچارے موٹر سائیکل والے سب سے پہلے مشکل میں آتے ہیں اور پھر کاریں اور بسیں بھی حادثات کا شکار ہوتی ہیں، بہت سے علاقوں کو پانی کی فراہمی معطل ہوجاتی ہے اور ان علاقوں میں پانی کی فراہمی میں چار سے پانچ دن لگتے ہیں۔
کراچی کو پانی کی فراہمی دھابیجی سے ہوتی ہے۔ دھابیجی میں کراچی واٹر کارپوریشن کے دفاتر قائم ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تربیت یافتہ عملہ دھابیجی پمپنگ اسٹیشن پر تعینات رہتا ہے مگر جب بھی کسی وجہ سے کے الیکٹرک کی بجلی کی لائن پر سپلائی رک جاتی ہے تو دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کا نظام درھم برھم ہوجاتا ہے۔
ایسے موقع پر کراچی واٹر کارپوریشن والے یہ مختصر ہینڈ آؤٹ جاری کرتے ہیں کہ کے الیکٹرک کی پاور سپلائی اچانک معطل ہونے سے دھابیجی سے کراچی پانی فراہم کرنے والی پائپ لائن میں کئی جگہ پر شگاف پڑگئے ہیں جس کی وجہ سے اگلے پورے پورے ہفتہ شہر کے گنجان آبادی والے علاقوں میں پانی کی سپلائی معطل رہے گی۔ کے الیکٹرک کے ایک سابق مکینیکل انجنیئر رشید ابراہیم کا کہنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی میں بجلی کی فراہمی معطل ہونے کی صورت میں متبادل نظام موجود نہ ہونا المیہ ہے۔ جدید نظام میں بجلی پیدا کرنے والے جدید جنریٹر کے ذریعہ بجلی سپلائی چند سیکنڈ میں بحال کرسکتا ہے، مگر پیپلز پارٹی کی حکومت گزشتہ 17برسوں کے دوران بجلی کی فراہمی برقرار رکھنے والے متبادل نظام بنانے کے بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کرسکی۔ اس کی ساری سزا شہر کراچی کے عوام کو بھگتنی پڑتی ہے۔
پانی سے متعلق دستیاب اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کراچی میں 1100 MGD کے قریب مقدار میں پانی کی ضرورت ہے مگر جب کراچی کو تقریباً400 MGD پانی مختلف ذرائع سے فراہم ہوتا ہے تو پھر تقریباً 650 MGD پانی کی کمی رہتی ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں کراچی میں پانی کی فراہمی بڑھانے کے لیے K-IV منصوبہ شروع کیا گیا۔ یہ منصوبہ جب شروع ہوا تھا تو جماعت اسلامی کے ناظم نعمت اللہ خان شہر کے ناظم تھے، اس منصوبے کو 2015ء میں مکمل ہونا تھا۔
جب اس منصوبے کی منظوری دی گئی تھی تو اس منصوبہ کے لیے جس رقم کا تخمینہ لگایا گیا تھا وقت پر منصوبہ پر کام نہ ہونے کی وجہ سے اس منصوبہ پر آنے والی لاگت بڑھتی چلی گئی۔ صوبائی حکومت کے ترجمان کہتے ہیں کہ 2014ء سے وفاق میں آنے والی حکومتوں نے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے مقررہ رقم فراہم نہیں کی۔ وفاقی حکومت کے افسران حکومت سندھ پر بدعنوانی اور نااہلیت کے الزامات لگاتے رہے مگر اس منصوبے کے مکمل نہ ہونے کی سزا کراچی کے عوام کو ملی۔
جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے کراچی واٹر بورڈ کا ادارہ قائم کیا ، پانی کی فراہمی کے علاوہ سیوریج کے نظام کی نگرانی بھی اس ادارے کے فرائض میں شامل تھی۔ جب مختلف وجوہات کی بناء پر شہر میں پانی کی کمی پیدا ہوئی تو حکومت سندھ اور واٹر بورڈ کے افسروں نے پانی کی تقسیم کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے بجائے پانی کے ہائیڈرنٹ تعمیر کیے اور ٹینکروں کے ذریعہ پانی فراہم کرنا شروع کیا گیا۔ اب واٹر بورڈ کے علاوہ سیاسی جماعتوں کی مافیاز نے بھی ٹینکروں کے ذریعے پانی کی فراہمی کے نظام سے فائدہ اٹھانا شروع کیا۔
جو لوگ ٹینکرز کی تجارت سے وابستہ ہیں ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ محض ٹینکرز کا پانی فروخت کر کے وہ لوگ ارب پتی بن گئے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی کی کمی کا واحد حل سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنانا ہے مگر گزشتہ پانچ برسوں میں اعلانات کے باوجود اس جدید ٹیکنالوجی پر توجہ نہیں دی گئی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کراچی میں پانی کی کمی نہیں مگر تقسیم کا نظام ناکارہ ہے۔ بہرحال کچھ بھی وجہ ہو، کراچی کے عوام اب پانی سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ اس کی ساری ذمے داری پیپلز پارٹی کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کراچی میں پانی کی واٹر کارپوریشن پانی کی فراہمی پانی کی کمی حکومت سندھ پائپ لائن کی تعمیر شروع کیا ریڈ لائن کے عوام بجلی کی کی لائن جاتا ہے پر پانی لائن کی ہے مگر کے لیے
پڑھیں:
پاکستان کو وہ پانی نہیں ملے گا جس پر بھارت کا حق ہے، بھارتی وزیراعظم مودی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 مئی 2025ء) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہوئے خونریز حملے کے ایک ماہ بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعرات کو پاکستان سے متصل بھارت کی شمال مغربی ریاست راجھستان میں ایک عوامی تقریب سے خطاب کیا۔ اپنی تقریر میں مودی نے گزشتہ ماہ یعنی اپریل کی 22 تاریخ کو پہلگام میں ہونے والے حملے ، جس میں 26 افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن کی اکثریت ہندوؤں کی تھی، کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعے نے نئی دہلی کو پانیکی تقسیم کے معاہدے کی معطلی پر مجبور کیا تھا۔
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟
ورلڈ بینک کی ثالثی میں 1960ء میں دونوں پڑوسی ممالک کے مابین پانی کی تقسیم کا 'سندھطاس معاہدہ‘ طے ہوا تھا۔ اس معاہدے کی معطلی کا اعلان بھارت نے اپریل کے حملے کے بعد پاکستان کے خلاف سخت اقدامات کا فیصلہ کرتے ہوئے کیا تھا۔
(جاری ہے)
نئی دہلی کا کہنا تھا کہ یہ حملہ پاکستان کی حمایت سے ہوا۔ پاکستان کی طرف سے تاہم اس الزام کی تردید کی گئی تھی۔
بعد ازاں دونوں پڑوسی ممالک 10 مئی کو جنگ بندی پر عملدرآمد سے پہلے تقریباً گزشتہ تین دہائیوں میں اپنی بدترین فوجی جھڑپوں کے ساتھ جنگ کے دہانے پر کھڑے تھے۔بعد ازاں معاملات بہتر ہوئے اور جنگ بندی کے کچھ روز بعد بھارت کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے ایک بیان میں تصدیق کی، ’’فی الحال دونوں ملکوں کے درمیان فائرنگ کا کوئی تازہ تبادلہ نہیں ہوا اور دونوں فورسز کی کچھ ضروری ری پوزیشننگ عمل میں آئی ہے۔
‘‘سندھ طاس معاہدہ کتنا اہم؟
سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کی 80 فیصد آبادی کو پانی میسر ہوتا ہے۔ تین دریاؤں سے پاکستان میں آنے والا پانی ملک کی زرعی ضروریات کو پورا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ تاہم رواں ماہ پاکستان کے وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ اس کی معطلی سے کوئی ’’فوری اثر‘‘ نہیں پڑے گا۔
جنوبی ایشیا کی دو جوہری ریاستیں بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے پیچیدہ رہے ہیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک دونوں ممالک تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ ان میں سے دو ہمالیہ کے متنازعہ علاقے کشمیرپر ہوئیں۔
ادارت: عاصم سلیم