اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیاں ناقابل برداشت ہیں, غزہ پر ملالہ یوسفزئی کا دردناک بیان
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
اسلام آباد: نوبیل انعام یافتہ انسانی حقوق کی کارکن ملالہ یوسفزئی نے عالمی برادری سے فوری اقدام کی اپیل کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ اسرائیل پر دباؤ ڈالا جائے تاکہ غزہ کے معصوم شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
ملالہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنی پوسٹ میں کہا"جب میں غزہ میں بھوکے بچوں، تباہ شدہ اسکولوں اور ہسپتالوں، روکی گئی انسانی امداد اور بے گھر خاندانوں کو دیکھتی ہوں تو میرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیاں ناقابل برداشت ہیں۔"
ملالہ نے کہا کہ ہماری اجتماعی انسانیت عالمی اور فوری ردعمل کا تقاضا کرتی ہے۔ انہوں نے عالمی رہنماؤں سے اپیل کی کہ اسرائیلی حکومت پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالیں تاکہ اس ظلم کو روکا جا سکے اور معصوم شہریوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ، فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی (UNRWA) اور فلسطین چلڈرن فنڈ جیسی تنظیموں کی حمایت پر بھی زور دیا، جو جنگ زدہ علاقوں میں انسانی جانیں بچانے کے لیے سرگرم ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
غزہ کی صورت حال: یورپی یونین کی اسرائیل سے تجارتی تعلقات پر نظرثانی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 مئی 2025ء) یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس نے اسرائیل کے ساتھ اس بلاک کے تجارتی تعلقات پر نظرثانی کے فیصلے کا اعلان کیا۔ یہ غزہ پٹی میں جاری انسانی بحران پر سخت کارروائی کے بڑھتے ہوئے مطالبات کے جواب میں پہلا باضابطہ قدم ہے۔
اسرائیل نے مئی کے اوائل میں جنوبی غزہ پٹی کے شہر رفح میں اور اس کے آس پاس شروع ہونے والے فوجی حملے میں شدت پیدا کی اور غزہ میں داخل ہونے والی امداد پر سخت کنٹرول برقرار رکھا ہوا ہے۔
یورپی یونین کے کئی رکن ممالک کی جانب سے برسلز پر اسرائیلی حکومت کو ایک مضبوط اشارہ بھیجنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلے میں منگل کو برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا، جس میں یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس نے اسرائیل کے ساتھ یورپی تجارتی تعلقات پر نظرثانی کے فیصلے کا اعلان کیا، جو غزہ میں جاری انسانی بحران پر سخت کارروائی کے بڑھتے ہوئے مطالبات کے جواب میں پہلا باضابطہ اقدام ہے۔(جاری ہے)
یورپی کمیشن کا اعلان
یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس نے اعلان کیا کہ یورپی کمیشن ای یو۔اسرائیل ایسوسی ایشن معاہدے پر نظرثانی کرے گا۔ یہ ایک آزاد تجارتی معاہدہ ہے، جو دونوں فریقوں کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو کنٹرول کرتا ہے۔
کایا کالاس نے اگرچہ اس خبر کا خیرمقدم کیا کہ اسرائیل نے 11 ہفتوں کی طویل اور مکمل ناکہ بندی کے بعد کچھ امداد کے غزہ میں داخلے کی اجازت دی ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ موجودہ ''تباہ کن‘‘ صورتحال میں یہ اقدام ''سمندر میں ایک قطرے‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اقوام متحدہ نے منگل کے روز کہا تھا کہ اسے غزہ میں امداد سامان کے کے تقریباً 100 ٹرک بھیجنے کی اجازت مل گئی ہے، کیونکہ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر یہ امداد علاقے میں واپس پہنچنا شروع ہو گئی ہے۔ لیکن ماضی میں اقوام متحدہ کی طرف سے کہا جا چکا ہے غزہ پٹی میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے روزانہ 500 امدادی ٹرکوں اور تجارتی سامان کی ضرورت ہے۔
مارچ میں اسرائیل نے غزہ پٹی میں عسکریت پسند گروپ حماس کے ساتھ عارضی جنگ بندی ختم کر دی تھی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ترسیل پر دوبارہ سخت پابندیاں نافذ کر دی تھیں۔
اپریل میں یورپی یونین نے غزہ پٹی اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے لیے تین سالہ مالی امدادی پیکج کا اعلان کیا تھا جس کی مالیت 1.6 بلین یورو یا 1.8 بلین ڈالر بنتی ہے۔
کایا کالاس نے اس امر پر زور دیا کہ یورپی یونین کی یہ امداد متعلقہ افراد تک پہنچنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ''یہ یورپی پیسہ ہے، جسے متاثرہ افراد تک پہنچنا چاہیے۔‘‘اسپین کی طرف سے پابندیوں کا مطالبہ
یورپی یونین کے کچھ رکن ممالک، خاص طور پر اسپین، آئرلینڈ، نیدرلینڈز اور فرانس نے اسرائیل کے ساتھ اس یورپی بلاک کے تجارتی تعلقات پر باضابطہ نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ ای یو اسرائیل ایسوسی ایشن معاہدے کے زیر انتظام ہیں، جس میں ''آرٹیکل 2 ‘‘ نامی ایک شق بھی شامل ہے، جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے معاملات میں اسے معطل کرنے کی اجازت بھی دیتی ہے۔منگل کو پیرس میں فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل بیرو نے کہا تھا، ''ایک بار انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ثابت ہو جائیں، تو پھر 'معاہدے‘ کو معطل کیا جا سکتا ہے۔
‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدام اسرائیل کے ساتھ تجارت پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔یورپی یونین سے قومی سطح تک
غزہ پٹی کے انسانی بحران کے سلسلے میں یورپی یونین کی جانب سے بہت کم مشترکہ کارروائی کے سبب کئی یورپی ممالک نے معاملات کو خود اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔
ناروے، آئرلینڈ اور اسپین نے پچھلے سال فلسطین کی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا تھا اور قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ فرانس اور بیلجیم بھی جلد ہی ایسا کر سکتے ہیں۔
یورپی یونین منقسم
اکتوبر 2023 سے یورپی یونین کی ریاستیں جیسے جرمنی، آسٹریا، ہنگری اور چیک جمہوریہ نے اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی بھرپور حمایت کی ہے اور وہ اسرائیل کے خلاف کسی بھی طرح کے تعزیری اقدامات کی توثیق کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔
جرمنی نے بارہا اسرائیل کے حوالے سے اپنی تاریخی ذمہ داری پر زور دیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو غزہ پٹیمیں مبینہ جنگی جرائم کے الزامات کے تحت بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی طرف سے تحقیقات کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود اس ماہ کے شروع میں جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر نے جرمن اسرائیلی سفارتی تعلقات کے قیام کے 60 سال مکمل ہونے کے موقع پراسرائیل کا دورہ کیا اور وہاں وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات بھی کی تھی۔منگل کے روز ہسپانوی وزیر خارجہ خوزے مانوئل الباریس نے اسرائیل کے خلاف پابندیوں کا مطالبہ کیا اور یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ انسانی تباہی کو روکنے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کرے۔ لیکن مشرق وسطیٰ میں یورپی یونین کے سابق سفیر اور اب سینٹر فار یورپی پالیسی اسٹڈیز (CEPS) کے سینئر فیلو جیمز موران نے کہا ہے کہ
غزہ پٹی میں اسرائیل کے اقدامات پر اندرونی اختلافات نے یورپی یونین کو مؤثر طریقے سے سائیڈ لائن کر دیا ہے۔