شہری صبح جاگنے پر اپنے صحن میں مال بردار جہاز دیکھ کر حیران رہ گیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
یہ واقعہ سننے میں کسی فلمی منظر جیسا لگتا ہے لیکن قدرتی آفات میں کبھی کبھار ایسا غیر متوقع واقعہ بھی ہو جاتا ہے۔
ایک شہری اُس وقت حیرت زدہ رہ گیا جب صبح جاگنے پر اپنے گھر کے صحن میں ایک کارگو شپ (مال بردار جہاز) کو کھڑا پایا۔
یہ غیر معمولی واقعہ عام طور پر سیلاب، سونامی یا سمندری طوفان کے بعد پیش آ سکتا ہے، جب زور دار پانی کا بہاؤ بڑے بحری جہازوں کو خشکی پر لے آتا ہے۔
درج ذیل چند ایسے ہی قدرتی آفات کے نتائج کا ذکر کیا گیا ہے؛
2011 جاپان کا سونامی:
کئی بحری جہاز اور کشتیاں زمین کے اندر تک دھنس گئیں جبکہ کچھ گھروں، سڑکوں یا اسکولوں کے قریب جا لگیں۔
2004 انڈونیشیا کا سونامی:
کئی کشتیاں اور سمندری جہاز میلوں دور پہنچ گئے حتیٰ کہ کچھ گھروں کے اوپر آ گرے۔
اسی طرح سمندری طوفان یا آندھیوں کے دوران بھی ایسا ممکن ہے کہ جہاز یا بڑی کشتیاں زمین پر بہہ آئیں۔
بعض ایسی جگہوں پر جہاں جہاز زمین پر آ کر پھنس جاتے ہیں، مقامی لوگ انہیں بعد میں عجائب گھر، ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں بھی تبدیل کر لیتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
خلانورد نے خلا سے زمین پر نایاب برقی مظہر کی تصویر بنالی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
زمین پر رونما ہونے والے غیر معمولی سائنسی مظاہر ہمیشہ سے انسان کے لیے تجسس کا باعث رہے ہیں، لیکن جب انہی مظاہر کو خلا سے براہِ راست عکس بند کیا جائے تو یہ مشاہدہ نہ صرف حیرت انگیز ہوتا ہے بلکہ سائنسی تحقیق کے لیے بھی ایک قیمتی سرمایہ بن جاتا ہے۔
حالیہ دنوں ایک ایسا ہی غیر معمولی لمحہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) پر موجود ایک امریکی خلانورد نے خلا سے ایک نایاب برقی مظہر کی حیران کن تصویر کھینچی، جسے سائنسی اصطلاح میں ’’اسپرائٹ‘‘کہا جاتا ہے۔
یہ واقعہ 3 جولائی کو پیش آیا جب نِکول ’ویپر‘ آئیرز، جو اس وقت خلائی مشن ایکسپیڈیشن 73 پر فلائٹ انجینئر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں، بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے میکسیکو کے اوپر سے گزر رہی تھیں۔
اس دوران انہیں زمین کے بالائی ماحول میں اچانک ایک سرخ روشنی کا دھماکا سا دکھائی دیا، جو دراصل ایک ’اسپرائٹ‘تھا۔ اس منظر کو دیکھتے ہی انہوں نے فوری طور پر اس کی تصویر لے کر سائنسی برادری کو حیران کر دیا۔
نِکول نے یہ تصویر سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر شیئر کی اور بتایا کہ یہ اسپرائٹس دراصل زمین پر شدید طوفانی برقی سرگرمیوں کے نتیجے میں بنتے ہیں، جن کا مشاہدہ محض مخصوص موسمی حالات میں ہی کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ مظہر زمین کے طوفانی بادلوں سے اوپر، تقریباً 50 سے 90 کلومیٹر کی بلندی پر پیدا ہوتا ہے اور لمحوں میں ختم ہو جاتا ہے، اس لیے ان کا مشاہدہ انتہائی مشکل سمجھا جاتا ہے۔
ماہرین فلکیات اور موسمیات کے مطابق اسپرائٹس وہ غیرمرئی برقی چمک ہوتی ہے جو شدید آسمانی بجلی کی وجہ سے زمین کے برقی میدان میں اچانک تبدیلی کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ ان مظاہر کا رنگ عام طور پر سرخ یا نیلا ہوتا ہے اور یہ بہت مختصر وقت کے لیے ظاہر ہوتے ہیں، لیکن ان کی توانائی انتہائی طاقتور ہوتی ہے۔
اب تک اسپرائٹس کے مشاہدات زمین سے ہی کیے جاتے تھے، لیکن نِکول آئیرز کی کھینچی گئی یہ تصویر خلا سے لی جانے والی ان نایاب جھلکوں میں سے ایک ہے جو سائنس دانوں کے لیے ان مظاہر کو مزید بہتر انداز میں سمجھنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
نِکول آئرز کا تعلق امریکی خلائی ادارے ناسا سے ہے اور وہ رواں سال اپریل میں شروع ہونے والے ایکسپیڈیشن 73 مشن کا حصہ ہیں، جو نومبر 2024 میں مکمل ہوگا۔
ان کی یہ دریافت نہ صرف سائنسی نقطہ نظر سے اہمیت رکھتی ہے بلکہ یہ اس بات کی بھی گواہی ہے کہ خلا میں موجود انسانی آنکھ کس قدر قیمتی اور کارآمد ہو سکتی ہے۔ زمین سے ایسے مظاہر کو نہایت مشکل سے ریکارڈ کیا جا سکتا ہے، لیکن خلانوردوں کی مدد سے ہمیں زمین کے ماحول کے ایسے زاویے دیکھنے کو ملتے ہیں جو عام طور پر نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین نے بھی نِکول کی جانب سے شیئر کی گئی اس تصویر پر حیرت کا اظہار کیا اور اسے ایک بصری شاہکار قرار دیا۔ ناسا نے بھی اس تصویر کو سائنسی ذخیرے میں شامل کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ مستقبل میں اسپرائٹس پر مزید تحقیقات ممکن بنائی جا سکیں۔
اس واقعے نے ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ خلا سے زمین کا مشاہدہ نہ صرف خوبصورت بلکہ سائنسی اعتبار سے بھی بے حد مفید اور ضروری ہے۔