مکول دیو 54 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
بھارت کے سابق ماڈل اور اداکار مُکل دیو 54 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم انسٹاگرام پر مکول دیو کے بھائی راہول دیو نے اداکار کی موت کی تصدیق کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مکول گزشتہ شب نئی دہلی میں چل بسے۔ سوگواروں میں ان کی ایک بیٹی، بھائی اور بھتیجا شامل ہیں، جبکہ ان کی آخری رسومات آج شام 5 بجے ادا کی جائیں گی۔
البتہ انہوں نے اداکار کی موت کی وجہ سے متعلق کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی۔
مُکول دیو ہندی، پنجابی اور جنوبی بھارتی فلموں کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن میں اپنے کرداروں میں جان ڈالنے کےلیے شہرت رکھتے تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ساتھی فنکار اداکاروندو دارا سنگھ نے سوشل میڈیا پوسٹ میں مکول سے متعلق لکھا، “آپ کے ساتھ گزارا ہوا وقت ہمیشہ ناقابلِ فراموش رہے گا۔ سن آف سردار 2 آپ کے ساتھ آخری پروجیکٹ رہے گا جس میں یقیناً آپ کے کردار نے ناظرین کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیری اور انہیں خوب ہنسایا۔”
انہوں نے میڈیا کو مزید بتایا کہ اپنے والدین کی موت کے بعد مکول نے بامشکل اپنے آپ کو سنبھالا تھا، گزشتہ دنوں ان کی طبیعت کچھ ناساز رہی جس کی وجہ سے وہ اسپتال میں بھی داخل رہے۔ میں ان کے بھائیوں سے تعزیت کرتا ہوں۔ مکول ہمیشہ یادوں میں رہے گا۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
اسلامی ممالک قطر پر اسرائیل کے حملے سے عبرت حاصل کریں، سید عبدالمالک الحوثی
اپنے ایک خطاب میں انصار الله کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عرب ممالک کیلئے یہ امکان بھی موجود ہے کہ وہ اپنے سربراہی اجلاسوں میں حماس، جہاد اسلامی اور القسام بریگیڈ جیسی فلسطینی مقاومتی تنظیموں کو دہشتگردوں کی فہرست سے نکال سکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ یمن کی مقاومتی تحریک "انصار الله" كے سربراہ "سید عبدالمالک بدر الدین الحوثی" نے آج دوپہر کو غزہ میں اسرائیل کے جرائم اور عالمی و علاقائی صورت حال پر ایک خطاب کیا۔ جس میں انہوں نے کہا کہ صیہونی دشمن، غزہ میں دنیا کے سامنے صدی کی سب سے بڑی ظلم کی داستان کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اتنی بڑی نسل کشی اور تباہی کو دیکھ کر ہر وہ شخص دہل جاتا ہے جس کے دل میں انسانیت کی رمق باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں نسل کشی کے لئے صیہونی رژیم! امریکہ، برطانیہ اور جرمنی کے بم استعمال کر رہی ہے، جن کا ایندھن عرب ممالک کے تیل سے فراہم کیا جاتا ہے۔ سید الحوثی نے کہا کہ اسرائیل، اسلامی ممالک کی کمزوری اور بے بسی کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس کے حملے صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل بیت المقدس کو یہودیانے کی کوشش کر رہا ہے اور مسلسل مسجد اقصیٰ و اسلامی مقدسات کی توہین کر رہا ہے۔ انہوں نے امریکی وزیر خارجہ و نتین یاہو کی دیوارِ براق کے پاس موجودگی اور مسجد اقصیٰ کے نیچے سرنگ کھولنے کے واقعے کو امت مسلمہ کی غفلت قرار دیا۔ اسی تناظر میں انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل ہر سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔
سید عبدالمالک الحوثی نے کہا کہ ایسے وقت میں جب لبنان پر اسرائیلی جارحیت جاری ہے، امریکہ وہاں کی حکومت پر مزاحمت کو ختم کرنے کے دباؤ ڈال رہا ہے۔ انہوں نے صابرا اور شتیلا کے قتل عام کو مثال بناتے ہوئے کہا کہ مقاومت کو غیر مسلح کرنے سے ایسے دلسوز سانحات انجام پائیں گے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا صابرا و شتیلا کے مرتکب کرداروں کو سزاء ملی؟۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ استقامتی محاذ کے ہتھیار مسئلہ نہیں، بلکہ ان ہاتھوں کو غیر مسلح ہونا چاہئے جو نسل کشی کرتے ہیں۔ انہوں نے دوحہ اجلاس ایک اچھی کوشش تھی لیکن اس کا نتیجہ بھی صفر رہا۔اس اجلاس کا کمزور نتیجہ اسرائیل کو قطر اور دیگر ممالک پر حملے کی ہمت دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قطر کی بین الاقوامی حیثیت، اسرائیل کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی، چاہے وہاں امریکی فوجی اڈے ہی کیوں نہ موجود ہوں۔ سید الحوثی نے سوال اٹھایا کہ یورپی ممالک اپنے اجلاسوں میں یوکرین کے لئے اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں، تو اسلامی ممالک فلسطین کے لئے ایسا کیوں نہیں کرتے؟۔ انہوں نے کہا کہ بعض عرب ممالک اسرائیل کے لئے اپنی فضائی حدود بند کر سکتے ہیں۔ عرب ممالک کے لئے یہ امکان بھی موجود ہے کہ وہ اپنے سربراہی اجلاسوں میں حماس، جہاد اسلامی اور القسام بریگیڈ جیسی فلسطینی مقاومتی تنظیموں کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکال سکتے ہیں۔
انصار الله کے سربراہ نے کہا کہ کئی عرب حکومتوں نے اپنے ملک میں فلسطینی عوام کے حق میں مظاہروں کو ممنوع اور جُرم قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ بحیرہ احمر اور باب المندب میں اسرائیلی جہازوں کی آمد و رفت پر پابندی جاری ہے اور اس ہفتے 24 میزائل و ڈرون حملے اسرائیلی علاقوں پر کئے گئے۔ آخر میں انہوں نے سعودی عرب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک وہ اسرائیل کی مالی، سیاسی اور انٹیلیجنس مدد کرتا رہے گا، اسرائیلی حملوں سے محفوظ رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ بحیرہ احمر میں سعودی عرب کا برطانیہ کے ساتھ تعاون صرف اور صرف اسرائیل کی خدمت ہے۔ انہوں نے سعودی عرب کو مشورہ دیا کہ وہ اسرائیلی بحری جہازوں کی حمایت نہ کرے اور خود کو اسرائیل کے جال میں نہ پھنسائے۔