دو کشتی حادثوں میں 427 روہنگیا کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے، اقوام متحدہ کا اظہار تشویش
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
نیویارک / میانمار: اقوام متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 9 اور 10 مئی کو میانمار کے ساحل کے قریب دو کشتی حادثوں میں 427 روہنگیا افراد جاں بحق ہو گئے۔ اگر یہ تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ 2025 میں روہنگیا پناہ گزینوں کی سمندر میں سب سے بڑی ہلاکت خیز سانحہ ہو گا۔
یو این ایچ سی آر (UNHCR) کے مطابق ایک کشتی میں 267 افراد سوار تھے، جو 9 مئی کو ڈوب گئی، اور صرف 66 افراد بچ پائے۔ اگلے دن 247 افراد پر مشتمل ایک اور کشتی الٹ گئی، جس میں سے صرف 21 افراد زندہ بچے۔
اقوام متحدہ کے مطابق یہ افراد یا تو بنگلہ دیش کے کاکس بازار کیمپوں سے فرار ہو رہے تھے یا میانمار کی ریاست راکھین سے جان بچا کر نکلے تھے، جہاں فوج اور اراکان آرمی کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق صرف 2024 میں 657 روہنگیا افراد سمندری سفر کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔ روہنگیا مسلمان کئی دہائیوں سے میانمار میں ظلم و ستم، شہریت سے محرومی، اور نسلی امتیاز کا شکار ہیں اور ہر سال ہزاروں افراد خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش، ملائیشیا اور انڈونیشیا جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ
پڑھیں:
سوڈان میں والدین کے سامنے سیکڑوں بچے قتل،ہزاروں افراد محصور
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-01-25
خرطوم (مانیٹرنگ ڈیسک) سوڈان میں والدین کے سامنے سیکڑوں بچے قتل کو قتل کردیا گیا‘ ہزاروں افراد محصور ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق سوڈان کے شہر الفاشر سے فرار ہونے والے عینی شاہدین نے انکشاف کیا ہے کہ نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے جنگجوؤں نے شہر پر قبضے کے دوران بچوں کو والدین کے سامنے قتل کیا، خاندانوں کو الگ کر دیا اور شہریوں کو محفوظ علاقوں میں جانے سے روک دیا۔بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق الفاشر میں اجتماعی قتل عام، جنسی تشدد، لوٹ مار اور اغوا کے واقعات ہوئے۔ اقوامِ متحدہ نے بتایا کہ اب تک 65 ہزار سے زاید افراد شہر سے نکل چکے ہیں، لیکن ہزاروں اب بھی محصور ہیں۔ جرمن سفارتکار جوہان ویڈیفل نے موجودہ صورتحال کو “قیامت خیز” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بنتا جا رہا ہے۔عینی شاہدین کے مطابق جنگجوؤں نے عمر، نسل اور جنس کی بنیاد پر شہریوں کو الگ کیا، کئی افراد کو تاوان کے بدلے حراست میں رکھا گیا۔ رپورٹس کے مطابق صرف پچھلے چند دنوں میں سیکڑوں شہری مارے گئے، جب کہ بعض اندازوں کے مطابق 2 ہزار سے زاید ہلاکتیں ہوئی ہیں۔سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوا ہے کہ الفاشر میں درجنوں مقامات پر اجتماعی قبریں اور لاشیں دیکھی گئی ہیں۔ ییل یونیورسٹی کے تحقیقاتی ادارے کے مطابق یہ قتل عام آخری اطلاعات تک جاری تھا۔سوڈان میں جاری یہ خانہ جنگی اب ملک کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کر چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق جنگ کے نتیجے میں ایک کروڑ 20 لاکھ سے زاید افراد بے گھر اور ہزاروں ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ خوراک اور ادویات کی شدید قلت نے انسانی المیہ پیدا کر دیا ہے۔یہ واقعات پانچ دن بعد پیش آ رہے ہیں جب ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) نے الفاشر پر قبضہ کر لیا تھا۔اپریل 2023 سے سوڈانی فوج کے ساتھ جاری جنگ کے دوران آر ایس ایف نے 18 ماہ کے محاصرے کے بعد بالآخر دارفور کے اس آخری فوجی گڑھ پر قبضہ کر لیا۔ کئی عینی شاہدین کے مطابق تقریباً 500 شہریوں اور فوج کے ساتھ منسلک اہلکاروں نے اتوار کے روز فرار کی کوشش کی مگر زیادہ تر کو آر ایس ایف اور اس کے اتحادیوں نے قتل یا گرفتار کر لیا۔رپورٹس کے مطابق دارفور میں زیادہ تر غیر عرب نسلوں کے لوگ آباد ہیں، جو سوڈان کے غالب عرب باشندوں سے مختلف ہیں۔اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کے مطابق آر ایس ایف کو متحدہ عرب امارات سے ہتھیار اور ڈرون فراہم کیے گئے، تاہم اماراتی حکام نے بیان میں اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسی کسی بھی حمایت کے الزام کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور مظالم کی مذمت کرتے ہیں۔دوسری جانب فوج کو مصر، سعودی عرب، ایران اور ترکیہ کی حمایت حاصل ہے۔ الفاشر پر قبضے کے بعد آر ایس ایف نے دارفور کے تمام 5 صوبائی دارالحکومتوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا، جس سے ملک عملاً مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔