Daily Ausaf:
2025-05-30@04:22:37 GMT

عزت دینے والی رب کی ذات ہے

اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT

جب دنیا امن، ترقی اور تعاون کی راہوں پر گامزن ہے، بھارت کی مودی سرکار تاحال نفرت، سازش اور پراپیگنڈے کی راہ پر چل رہی ہے۔ پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ مہم میں مسلسل ناکامی کے باوجود بھارت اپنی بدنیتی پر مبنی روش سے باز نہیں آتا۔ کبھی لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی، کبھی عالمی اداروں میں جھوٹے بیانیے، اور اب ایک بار پھر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) جیسے حساس عالمی فورم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ہر بار کی طرح، اس بار بھی مودی سرکار کی سازش بے نقاب ہو گئی اور پاکستان سرخرو ہو کر ایک بار پھر عالمی سچائی کا پرچم بلند کرنے میں کامیاب ہوا۔بھارت کی حکومتی مشینری برسوں سے اس بات پر کام کر رہی ہے کہ کسی طرح پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کیا جائے۔ مودی حکومت خاص طور پر اپنی داخلی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے پاکستان دشمنی کو سیاسی آلہ بنا چکی ہے۔پاکستان نے گزشتہ چند برسوں میں FATF کی ہدایات پر عملدرآمد کے لیے وسیع پیمانے پر اصلاحات کیں۔ دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے خلاف قانونی و انتظامی اقدامات کیے گئے۔ بین الاقوامی برادری نے نہ صرف ان اقدامات کو تسلیم کیا بلکہ پاکستان کی سنجیدگی اور شفافیت کو سراہا۔ ایسے میں بھارت کی یہ کوشش کہ FATF کے پلیٹ فارم کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جائے۔مودی حکومت کا پراپیگنڈہ ایک بار پھر منہ کے بل زمین پر آ گرا، جب پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)کی گرے لسٹ میں شامل کروانے کی سازش نہ صرف ناکام ہوئی بلکہ دنیا نے بھارت کی بدنیتی اور منافقت کو پہچان کر اس کے عزائم کو رد کر دیا۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی بھارت نے اپنی تمام توانائیاں، سفارتی وسائل اور میڈیا پروپیگنڈے کو بروئے کار لا کر دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ پاکستان نے مبینہ طور پر دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف مثر اقدامات نہیں کیے، مگر سچ جھوٹ کا پردہ چاک کر دیتا ہے اور یہی سچ ایک بار پھر دنیا کے سامنے آ گیا۔یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف عالمی اداروں کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہو۔
ماضی گواہ ہے کہ مودی سرکار نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف جھوٹے الزامات لگا کر بین الاقوامی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ کبھی پلوامہ حملے کو بنیاد بنا کر، کبھی لائن آف کنٹرول پر فرضی کارروائیوں کا ڈھنڈورا پیٹ کر، اور اب FATF جیسے حساس فورم پر دبا ڈال کر۔ پاکستان کے اداروں نے دن رات محنت کی تاکہ دنیا کو یہ دکھایا جا سکے کہ ہم عالمی ذمہ داریوں کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ ان پر پورا اترنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ایسے میں بھارت کا یہ الزام کہ پاکستان دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے، نہ صرف حقائق سے متصادم ہے بلکہ خود بھارت کے چہرے پر پڑا نقاب بھی چاک کرتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت اپنے داخلی بحران سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان مخالف بیانیہ گھڑتی ہے اور FATFکی حالیہ مہم اسی پالیسی کا تسلسل تھی۔بھارت کی معیشت گراوٹ کا شکار ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، کسان دہائی دے رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر بھارت کے اندر اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ عالمی برادری اب بھارت کی ان چالاکیوں کو بخوبی سمجھ چکی ہے۔ اب صرف الزامات اور پراپیگنڈے سے کسی ملک کو عالمی فورمز پر دبایا نہیں جا سکتا۔پاکستان نے نہایت بردباری، دلیل اور سفارتکاری کے ذریعے بھارت کی اس کوشش کو ناکام بنایا۔ پاکستانی وفود نے مختلف ممالک سے رابطے کیے، حقائق اور اعداد و شمار فراہم کیے، FATF کی تکنیکی ٹیموں کو اطمینان دلایا اور عالمی میڈیا کو بتایا کہ بھارت کی کوشش دراصل ایک سیاسی چال ہے جس کا FATF کے اصل مشن سے کوئی تعلق نہیں۔ اور جب FATF کا اجلاس منعقد ہوا تو سچ نے پھر فتح پائی۔
بھارت کی تمام کوششوں کے باوجود پاکستان نہ صرف گرے لسٹ سے محفوظ رہا بلکہ کئی ممالک نے پاکستان کے اقدامات کو سراہا۔ یہ محض ایک سفارتی کامیابی نہیں، بلکہ پاکستان کے نظام، اس کے اداروں، اور اس کی قیادت کی ایک بڑی اخلاقی فتح ہے۔مودی حکومت کے لیے یہ ایک اور زخم ہے جو اس کی جھوٹی انا اور مصنوعی برتری کے غبارے سے ہوا نکال دیتا ہے۔ بھارت نے سوچا تھا کہ FATF کے ذریعے پاکستان پر دبا ئو ڈال کر اسے عالمی سطح پر شرمندہ کیا جا سکتا ہے لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا۔ اب بھارت خود تنقید کی زد میں ہے اور FATF جیسے غیر جانبدار ادارے کے سیاسی استعمال کی کوشش پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ دنیا یہ پوچھ رہی ہے کہ کیا عالمی فورمز کو کسی ملک کے سیاسی ایجنڈے کا آلہ کار بنایا جا سکتا ہے؟ کیا ایک جمہوری اور خودمختار ریاست کے خلاف اس طرح کا میڈیا ٹرائل اور سفارتی دبائو قابل قبول ہے؟ ان سوالوں کا جواب عالمی ضمیر کو دینا ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ وہ ضمیر اب جاگ چکا ہے۔ بھارت جس تیزی سے سفارتی میدان میں اپنی اخلاقی برتری کھو رہا ہے وہ خود اس کے لئے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ ایک طرف بھارت میں اقلیتوں پر ظلم، مذہبی شدت پسندی اور اظہارِ رائے کی آزادی پر پابندیاں عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بن رہی ہیں تو دوسری طرف وہ خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلوانا چاہتا ہے۔
پاکستان دنیا کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتا ہے، جبکہ بھارت دنیا کو اپنے ساتھ کھڑا دیکھنے پر بضد ہے، چاہے وہ زبردستی ہو یا جھوٹ کی بنیاد پر۔یہ حقیقت اب سب پر عیاں ہو چکی ہے کہ بھارت کا اصل مسئلہ پاکستان کی ترقی ہے۔ جب پاکستان سی پیک جیسے منصوبوں سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے، جب پاکستان عالمی اداروں میں اپنی موجودگی مستحکم کرتا ہے، جب پاکستان دنیا کے ساتھ مل کر امن کی بات کرتا ہے، تو مودی سرکار کے سینے پر سانپ لوٹنے لگتے ہیں۔ اسی لیے ہر کامیابی کے بعد ایک نئی سازش جنم لیتی ہے۔ کبھی دہشت گرد حملے کی جھوٹی کہانی، کبھی سرجیکل اسٹرائیک کا دعوی، کبھی FATF کا شور۔ مگر یہ سب کچھ اب پرانے ہتھکنڈے بن چکے ہیں، جنہیں دنیا اب سنجیدگی سے نہیں لیتی۔مودی حکومت شاید یہ بھول گئی کہ دنیا اب صرف الزامات پر یقین نہیں کرتی۔ آج کے دور میں ڈیٹا، شواہد، شفافیت اور پرفارمنس بولتی ہے اور یہی وہ محاذ ہے جہاں پاکستان جیت رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری نے پاکستان کے بیانیے کو اپنایا اور بھارت کے شور شرابے کو مسترد کر دیا۔پاکستان کے لیے یہ وقت خوشی اور اطمینان کا ضرور ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ وقت مزید ذمہ داری، سنجیدگی اور تسلسل کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا۔ اس کی پروپیگنڈا مشینری، جعلی خبریں پھیلانے والے نیٹ ورکس اور سفارتی محاذ پر پاکستان کو نقصان پہنچانے والے عناصر اب بھی سرگرم ہیں۔ لہذا پاکستان کو اپنی سفارتی مشینری کو مزید فعال، تحقیقی اور ذمہ دار بنانا ہو گا۔ ہمیں دنیا کے ہر کونے میں پاکستان کا مقف بھرپور اور سچائی کے ساتھ پیش کرنا ہوگا تاکہ آئندہ بھی کسی دشمن ملک کو ہماری طرف منہ کرنے کا موقع نہ ملے۔پاکستان نے نہ صرف مودی حکومت کے پراپیگنڈے کو شکست دی بلکہ ایک نئی تاریخ رقم کی: سچائی، شفافیت اور تدبر کے ہتھیاروں سے جھوٹ، دھونس اور دھوکہ بازی کو زیر کر دیا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان کے خلاف ایک بار پھر مودی سرکار جب پاکستان مودی حکومت پاکستان کو کہ پاکستان پاکستان نے کہ بھارت بھارت کی کوشش کی کرتا ہے دنیا کے کی کوشش کے ساتھ ہے اور رہی ہے کے لیے

پڑھیں:

بھارتی وزیراعظم کی اشتعال انگیزی

دفتر خارجہ نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے پاکستان پر دہشت گردی، اشتعال انگیزی کی حمایت کے الزامات کو سختی سے مسترد کردیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ریاست گجرات میں ایک ریلی سے خطاب میں ایک بار پھر پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا دیا۔ انھوں نے ڈرامائی انداز میں یہ بھی کہا کہ پاکستان کو آتنک کی بیماری سے مکت کرنے کے لیے پاکستان کے عوام کو آگے آنا ہوگا، سکھ چین کی زندگی جیو، روٹی کھاؤ۔ ورنہ میری گولی تو ہے۔

 نریندر مودی نے جب بھی اقتدار سنبھالا ہے، پاکستان کے خلاف بھارت کی جارحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے حال ہی میں پاکستان پر جنگ مسلط کی، پاکستانی فوج نے دس مئی کو ایسا کرارا جواب دیا کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی منت سماجت کرکے بھارت نے جنگ بندی کرائی۔

اہم سوال یہ ہے کہ کیا فاشز م بھارتی جمہوریت میں داخل ہوگیا ہے؟ بی جے پی تشدد پسندانہ نظریات، مذہبی تعصب اور مسلم دشمنی، کی بنیاد پر اپنی سیاست کو آگے بڑھا رہی ہے۔ پاکستان کے بارے میں بھی بی جے پی کے نظریات ڈھکے چھپے نہیں ہیں تاہم نریندر مودی نے جب سے بی جے پی پر کنٹرول حاصل کرکے وزارت عظمیٰ حاصل کی ہے، بھارت کی پاکستان کے بارے میں جارحانہ پالیسی میں شدت پیدا ہوئی ہے جب کہ ہماری طرف سے امن کا واضح پیغام ہے۔

بھارت کے جنگی جنون کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ اسلحہ ساز فیکٹریوں کے مالی مفادات کے لیے جنگ کا خواہش مند ہو اور اگر واقعی ایسا ہے تو بھارتی دانشور، اہل قلم اور بھارتی عوام کو اس جنگی جنونیت کے خلاف باہر نکل کر احتجاج اور مظاہرے کرنے ہوںگے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بھارت اپنی نفرتوں کی زنجیروں سے آزاد نہیں ہوپا رہا۔ وہ ناقابلِ یقین جمہوریت، معاشی طاقت یا ترقی پسند ہونے کا کتنا ہی جھوٹا راگ کیوں نہ الاپے، دنیا اس کی حقیقت سے آشنا ہوتی جارہی ہے۔

بھارت کے اپنے اندر اس بات نے زور پکڑنا شروع کردیا ہے کہ جب پاکستان نے دوستی کا ہاتھ بڑھائے رکھا ہوا ہے تو آخر ہم کس لیے جنگ مسلط کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟ بھارتی عوام اپنی ہی حکومت اور میڈیا سے سوال کر رہے ہیں کہ بھارتی فضائیہ پاکستان کے اندر حملے کے نہ کوئی ثبوت دے سکی، نہ ہی پاکستانی جہاز کے گرنے کا کوئی ملبہ دکھایا جاسکا، نہ ہی بھارت او آئی سی اجلاس میں کوئی کامیابی سمیٹ سکا، الٹا مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کی جانب سے بھارت کو کشمیر میں مظالم بند کرنے کا کہا گیا ہے۔ اتنی سفارتی تنہائی کے بعد بھی جنگی جنونیت آخر کس لیے؟

 بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے انتہاء پسندانہ نظریات سے عالمی برادری مکمل طور پر آشنا ہے، انتہاپسندی کا یہ بخار آج کا نہیں برسوں پرانا ہے۔ اس وقت دنیا میں ہر طرف پاکستان کی امن کو فروغ دینے کی کوششوں کو سراہا جا رہا ہے۔ دنیا پر واضح ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان امن پسند ملک ہے اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے مستقل جدوجہد میں مصروف ہے، جب کہ دوسری جانب بھارت نفرت پھیلانے اور دوبارہ جنگ مسلط کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا ہے۔

دنیا میں بہت سی ایسی شخصیات اور اربابِ اقتدار گزرے ہیں جو اپنے انتہاء پسندانہ نظریات، اور ظلم و ستم کی وجہ سے ایڈولف ہٹلر اور میسولینی کی مانند تاریخ کا سیاہ باب ہیں جنھوں نے نازی ازم اور فاشزم جیسی تحریکوں کو پروان چڑھایا ہے۔ نسلی تعصب اور تفاخر کی آڑ میں ظلم و ستم ان تحریکوں کا وطیرہ رہا جس سے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے، اسی لیے جب بھی ظلم و بربریت کی بات ہوتی ہے تو دنیا انھیں بطورِ حوالہ پیش کرتی ہے۔ بدقسمتی سے عصرِ حاضر میں بھی ایسے اربابِ اقتدار موجود ہیں۔ اس وقت دنیا کی نام نہاد جمہوری ریاست بھارت کے سربراہ نریندر مودی کو دنیا کے ظالم حکمرانوں سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔

 پہلگام میں پیش آنے والے المناک واقعے میں اہم سیکیورٹی کوتاہیوں کی ذمے داری قبول کرنے کے بجائے مودی اور ان کے اتحادیوں نے خوف و ہراس، جنگی جنون، قوم پرستی اور اسلامو فوبیا کی نئی لہر کو بھڑکانے کے لیے صورتحال کا فائدہ اٹھایا۔ وہ پوری قوم کو پاکستان کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کی طرف سے لاحق سیکیورٹی کے خطرے کے گرد گھیرنے میں کامیاب ہو گئے، بھارتی میڈیا ان کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔

بڑے میڈیا چینلوں نے روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کے بارے میں نت نئے جھوٹے پراپیگنڈے کرکے اس صورتحال کو آسان بنایا۔ یہ میڈیا آؤٹ لیٹس میدان جنگ میں تبدیل ہوگئے، مودی حکومت نے جان بوجھ کر اس ماحول کو اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے ترتیب دیا ہے۔ یہ سب ایسے وقت میں کیا گیا جب خاص طور پر ریاست بہار میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات قریب تھے۔ یہ بھارت کے محنت کش عوام کی توجہ ملک کو درپیش مادی مسائل، بڑھتی ہوئی بیروزگاری، عدم مساوات، غربت اور مختلف قسم کی محرومیوں سے ہٹانے کی بھی ایک کوشش تھی۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ 2025 کی پہلی سہ ماہی میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح 16.1 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

 بھارت اور پاکستان ماضی میں جموں و کشمیر پر تین مکمل جنگیں لڑ چکے ہیں اور اب دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ کوئی بھی ملک ایک اور مکمل تنازعہ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کی معیشت اس وقت خاصی مشکلات کا شکار ہے۔ یہ بہت زیادہ مقروض ہے اور اسے بہت سے قرضوں کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ صرف 2 فیصد سے زیادہ کی سست اقتصادی ترقی کی شرح کے ساتھ یہ ملک ایک اور بڑی جنگ میں الجھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ بھارت کی معیشت کافی مضبوط اور بڑی ہے۔

مودی حکومت نے بھارت کے 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے اور ایک بڑی اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی طاقت کے طور پر ابھرنے کے امکانات کو ظاہر کیا ہے۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کا کوئی بھی موقع بھارت کے اندر استحکام پر منحصر ہے اور جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسی کے ساتھ جنگ کی صورت میں سرمایہ کاروں کو راغب نہیں کیا جا سکتا۔

سیاحت کو پہنچنے والا نقصان اس کے علاوہ ہوگا۔ ہم دونوں ملکوں میں پروازوں کی منسوخی کا پہلے ہی مشاہدہ کر چکے ہیں، اور حالیہ تناؤ کا مزید سنگین صورت اختیار کرنا کسی بھی ملک کے تزویراتی یا اقتصادی مفاد میں نہیں ہے، اگرچہ بھارتی سرمایہ داروں نے ابتدائی طور پر جنگی جنون کی حمایت کی ہو گی، لیکن بعد میں ہوائی اڈوں کی بندش اور پروازوں کا رخ موڑے جانے جیسے اقدامات نے ان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ بھارتی صنعتی شعبے نے تب سے بیانات جاری کیے، جن میں تحمل سے کام لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 9 مئی کوبھارتی اسٹاک مارکیٹس اور روپے کو گراؤٹ کا سامنا کرنا پڑا۔

حالات کی نزاکت کے مطابق امریکا ہی وہ واحد طاقت ہے جس پر بھارت اور پاکستان دونوں ہی توجہ دینے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ تاریخی طور پر امریکا نے دونوں ریاستوں کے درمیان امن قائم کرنے میں ایک کردار ادا کیا ہے۔

جنگ بندی نے مسلح کارروائیاں روک دی ہیں، البتہ زبانی اور سفارتی حملے جاری ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کی تاریخ میں کوئی ردوبدل نہیں ہوا ہے، جس میں ویزوں کی روک تھام، سفارت کاروں کی بے دخلی، سرحدوں کی بندش، فضائی حدود کی پابندی اور تجارت کی معطلی کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ بالآخر یہ سرحد کے دونوں اطراف جموں و کشمیر کے باسی اور دونوں ملکوں کے عام لوگ ہیں، جو سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور جو اس جاری بحران میں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔

اگر انتہاء پسندانہ نظریات کی سرکوبی نہ کی گئی تو عالمی برادری کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہٹلر کی طرح مودی بھی تیسری جنگ عظیم کا باعث بن سکتا ہے۔

بیسویں صدی میں دو عظیم جنگوں کی وجہ سے اقوام عالم سنگین حالات و واقعات سے دو چار رہی ہیں، پوری دنیا میں تباہی برپا ہوئی جس کی بہت بھاری قیمت جان و مال اور عزت و آبرو کی صورت میں ادا کی گئی، آج بھی نسل پرستانہ نظریات کی بنیاد پر ’’ گجرات کا قصائی‘‘ کے نام سے مشہور نام نہاد جمہوری ریاست کے وزیر اعظم نریندر مودی کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کے جنون میں انسانی حقوق کی پامالی میں ہر حد پار کرچکے ہیں۔ بی جے پی قومیت پرستی کی آڑ میں عالمی دنیا کو ایک بڑی تباہی کی طرف لے کر جا رہی ہے جہاں سے واپسی کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ جنوبی ایشیا کے لیے ہی نہیں بلکہ عالمی امن اور سیکیورٹی کے لیے بھی یہ بہت بڑا خطرہ ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ طاس معاہدہ: بھارت کی متواتر خلاف ورزیاں، تیر کمان سے نکلنے سے پہلے دنیا کارروائی کرلے
  • مودی کی پانی کو ہتھیار بنانے کی دھمکی عالمی اصولوں کی خلاف ورزی ہے: پاکستان
  • بھارتی وزیراعظم کی اشتعال انگیزی
  • بھارت کا پانی کو ہتھیار بنانا عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی، پاکستان
  • مودی کی پانی کو ہتھیار بنانے کی دھمکی عالمی اصولوں کیخلاف ہے: پاکستان
  • مودی کی پانی کو ہتھیار بنانے کی باتیں عالمی اصولوں کیخلاف ہے: ترجمان دفتر خارجہ
  • ناسمجھ میں آنے والی سیاست
  • مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
  • دنیا مودی کے عالمی اصولوں کیخلاف نفرت انگیز بیان کا نوٹس لے، پاکستان