امریکہ سے آئے ڈاکٹرز اور تاجر کی عمران خان سے جیل میں ملاقات ہوئی یا نہیں ؟ نجی ٹی وی نے بڑا دعویٰ کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) نجی ٹی وی کے سینئر صحافی انصار عباسی نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیاہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان اور اہم عہدیداروں سے ملاقات کیلئے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے دورے پر آئے پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹرز اور تاجروں کا وفد اسلام آباد میں 4 روز گزارنے کے بعد بغیر کسی بریک تھرو کے لاہور پہنچ گیا۔
نجی ٹی وی جیونیوز کے مطابق یہ وفد ہفتے کے روز پاکستان پہنچا تھا اور اسے امید تھی کہ اڈیالہ جیل میں پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان سے ملاقات ہوگی اور خاموش سفارتکاری کا آغاز ہوگا تاکہ عمران خان کو درپیش قانونی اور سیاسی مسائل میں ریلیف مل سکے تاہم وفد کو ان کوششوں میں تاحال کوئی کامیابی نہیں ملی۔
پاکستان ریلویز نے 11 مہینوں میں کتنے پیسے کمائے؟ جان کر آپ کو بھی یقین نہیں آئے گا
ذرائع کے مطابق، وفد کو ہفتے کے روز امریکا واپس جانا تھا لیکن ممکن ہے وہ اب یہ وفد پاکستان میں اپنے قیام کو توسیع دے گا تاکہ اہم ملاقاتیں ہو سکیں، وفد کا خیال ہے کہ عمران خان کو اس کی پاکستان میں موجودگی کا علم ہے اور شاید وہ ان سے ملاقات کیلئے آمادہ ہوں، یہ وفد عمران خان سے ملاقات کی کوشش کر رہا ہے لیکن اسے اب تک کوئی کامیابی نہیں ملی۔
یہ وفد چند ماہ قبل بھی پاکستان آیا تھا اور اُس وقت اس وفد کی عمران خان اور ایک اعلیٰ عہدیدار سے پرسکون ملاقات ہوئی تھی تاہم، موجودہ حالات مختلف ہیں کیونکہ یہ وفد اب تک اسلام آباد میں کسی اہم شخصیت سے رابطہ نہیں کر پایا۔
دبئی میں 41 بھکاری گرفتار، ان سے کتنے پیسے برآمد ہوئے؟ تہلکہ خیز انکشاف
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ وفد پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں سے رابطے میں ہے جن میں کے پی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور عمران خان کی بہن علیمہ خان شامل ہیں، موجودہ سیاسی ماحول، اور پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان نہ ختم ہونے والی کشیدگی کی وجہ سے اس وفد کو عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت کیلئے سہولت کاری میں کوئی کامیابی نہیں ملی۔
پی ٹی آئی کے مسلسل محاذ آرائی پر مبنی مؤقف سے لگتا ہے کہ عسکری قیادت کو کوئی فرق نہیں پڑا، جو پہلے ہی اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں رکھے گی، ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر مسلسل تنقید، جارحانہ آن لائن مہمات اور بین الاقوامی لابنگ بالخصوص امریکا اور برطانیہ میں پی ٹی آئی کے بیرون ملک چیپٹرز کے اقدامات نے حالات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔
فرانسیسی صدر کو اہلیہ سے ’تھپڑ‘ پڑنے پر صدر ٹرمپ کا موقف بھی آگیا
ذرائع نے بتایا کہ دورہ پر آئے ڈاکٹرز اور تاجروں کا بھی یہ خیال ہے کہ پارٹی کے سخت مؤقف نے تعمیری بات چیت کیلئے ماحول تنگ کر دیا ہے، کوئی ملاقات طے نہ ہونے اور بریک تھرو کے کسی اشارے کے بغیر وفد کا دورہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتی خلیج کی عکاسی کرتا ہے، پاکستان میں وفد کا طویل قیام مفاہمت کی مسلسل امید کی نشانی ہے لیکن تعطل تاحال برقرار ہے۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی کے سے ملاقات یہ وفد
پڑھیں:
جنگ اور امن
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 جون 2025ء) جبکہ تاجر طبقہ قوموں کے درمیان خوشگوار تعلقات کو قائم رکھتا تھا۔ لوگوں کی معیشت کو مستحکم کرتا تھا۔ اس کی تجارت کے لیے امن کا ہونا ضروری تھا۔
قدیم اور عہد وسطیٰ کے ادوار میں تاجروں کا سماجی رقبہ کم تھا۔ کیونکہ زراعتی معاشرے میں زمین، عزت اور وقار کا باعث تھی۔ تاجروں کے پاس زمین بطور جائیداد نہیں ہوتی تھی۔
اس لیے وہ جاگیرداروں کی نظروں میں قابل عزت نہیں تھے۔ دوسری وجہ جو ان کے سماجی درجے کو کم تر کرتی تھی۔ وہ یہ تھی کہ وہ خود سے کسی پیداواری عمل کا حصہ نہیں ہوتے تھے۔ کاریگر اور ہنر مند جو اپنی محنت و مشقت سے مال تیار کرتے تھے یہ اُسے خرید کر دوسرے ملکوں میں منافع پر فروخت کرتے تھے۔ اس لیے ارسطو کا کہنا تھا کہ تاجر طبقہ بغیر کسی محنت کے دولت مند بن جاتا ہے۔(جاری ہے)
اس کے پیشے میں منافع کی لالچ ہوتی ہے جو اسے انسانی احساسات سے عاری رکھتی ہے۔لیکن دوسری جانب تاجروں کے مثبت کردار کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کا تجزیہ نہیں کیا جاتا کہ وہ سامان تجارت سے لے کر خطرناک راستوں سے گزرتا ہوا ڈاکوؤں اور وحشی قبائل سے لڑتا ہوا اور سامان تجارت کو بچاتا ہوا منزل مقصود تک جاتا تھا۔ اس کی کامیابی اس میں پوشیدہ تھی کہ وہ جن ملکوں میں جاتا تھا ان ملکوں کے لوگوں کی ضروریات کو جانتا تھا اور وہ اشیاء لے کر جاتا تھا جو ان کی منڈیوں میں نہیں ہوتیں۔
واپسی پر وہ اپنے ملک کی منڈیوں کی طلب کے مطابق تجارتی سامان لے کر آتا تھا۔ کیونکہ اس وقت کوئی کرنسی نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے یا تو اشیاء کے بدلے اشیاء کا تبادلہ کیا جاتا تھا یا سونے کے ذریعے کسی شئے کی قیمت ادا کی جاتی تھی۔ چاندی کا استعمال اس وقت شروع ہوا جب لاطینی امریکہ میں چاندی کی کانیں دریافت ہوئیں۔ لہٰذا سونے اور چاندی کے سکے ڈھالے جانے لگے۔ جن کی وجہ سے تجارت میں ترقی ہوئی۔تاجروں کا یہ کارنامہ بھی ہے کہ انہوں نے کاریگروں اور صنعت کاروں کی سرپرستی کی اور ان سے وہ اشیاء بنوائیں جن کی دوسرے ملکوں میں ضرورت تھی۔ تاجروں نے نہ صرف ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دیا بلکہ ایک دوسرے کے کلچر، زبان، ادب، آرٹ اور موسیقی کو بھی ایک دوسرے سے روشناس کرایا۔
میسوپوٹامیہ میں اسیرین کی سلطنت سیکنڈ میلینیم بی سی میں قائم ہوئی تو اس کے تاجر خچروں اور گدھوں پر سامان تجارت لاد کر اناطولیہ تک جاتے تھے۔
اس کا اندازہ ایک تاجر کا خط جو اس نے مٹی کی تختی پر لکھا تھا جو اس کی بیوی کے نام تھا اور لکھا تھا کہ اس کا سامان تجارت ختم ہو گیا ہے اور وہ اسے مال مزید بھجوائے۔ بیوی کا جواب تھا کہ گھریلو اخراجات بڑھ گئے ہیں اس لیے اسے مزید رقم درکار ہے۔ تجارت کے سلسلے میں خچروں اور گدھوں کے علاوہ دو کوہانوں والے اونٹ بھی مال برداری کا کام کرتے تھے اور تجارت کا سامان لے کر شاہراہ ریشم سے چین تک جاتے تھے۔ہندوستان میں بنجارے گائؤں اور دیہاتوں سے گندم اور مصالحہ جات، گدھوں اور خچروں پر لاد کر شہروں میں بھیجتے تھے۔ ان کا کاروبار اس وقت ختم ہوا جب برطانوی عہد میں ریلوے لائنیں بچھیں اور مال بردار گاڑیاں تجارتی سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جانے لگیں۔
ہندوستان کے عہد وسطیٰ میں ملتانی تاجر بڑے مشہور تھے۔ جب علاؤالدین خلجی نے ہر شئے کی قیمت مقرر کر دی تو ملتانی تاجروں کو دہلی میں یہ دقت پیش آئی کہ وہ اپنا مال حکومت کی مقرر کردہ قیمت پر فروخت نہیں کر سکتے۔
اس پر علائو الدین خلجی نے ان کو حکم دیا کہ سامان تجارت تو اسی قیمت پر فروخت کریں اور جو انہیں اس طرح نقصان ہو گا اس کی ادائیگی شاہی خزانے سے کی جائے گی۔ہندوستانی تاجر وادی سندھ کے عہد میں کاٹھیاواڑ کی بندرگاہ سے سامان تجارت لے کر میسوپوٹامیہ تک جاتے تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ وادی سندھ کے کاریگر ایسی اشیاء تیار کرتے تھے کہ جن کی مانگ میسوپوٹامیہ میں تھی۔
عہد وسطیٰ میں ہندوستان کے تاجر سورت کی بندرگاہ سے بحری جہازوں کے ذریعے کوریا، تھائی لینڈ، ویت نام اور انڈونیشیا تک جاتے تھے۔خلیج فارس کے عرب تاجر اپنی کشتیوں کی ذریعے جنوبی ہندوستان میں سامان تجارت لاتے تھے۔ جنوبی ہند کی ریاستوں نے عرب تاجروں کی سرپرستی کی کیونکہ ان کی بحری تجارت کی وجہ سے ریاستوں کو بڑا فائدہ ہوا۔ انہیں پوری آزادی دی گئی۔
یہ عرب تاجر جنوبی ہند میں مستقل آباد ہو کر وہاں کا کلچر بھی اختیار کر لیا۔ یہ موپلے کہلاتے ہیں اور آج بھی جنوبی ہندوستان میں ان کی بڑی تعداد ہے۔ہندوستان کے تاجر جب دوسرے ملکوں سے قیمتی اشیاء لاتے تھے تو ان کے خریدار امراء اور ان کی خواتین ہوتی تھیں۔ وہ اپنا سامان لے کر محلوں میں جاتے تھے اور وہیں امراء اور ان کی خواتین اپنی پسند کے سامان خریدتی تھیں اور عام لوگوں کے لیے بہت کم سامان لاتے تھے۔
تجارت میں انقلابی تبدیلی اس وقت آئی جب 1498 میں واسکوڈے گاما نے راس امیہ کو دریافت کرکے ایشیا کا بحری راستہ تلاش کر لیا۔ پرتگالیوں نے گجرات کے ساحلوں پر اپنی آبادیاں قائم کیں۔ گوا اور ملاکر پر قبضہ کیا اور مصالحوں کی تجارت شروع کی۔ اب تجارت تاجروں کی بجائے ریاست کی اجارہ داری میں آ گئی۔ پرتگال کے بحری جہازوں پر تجارتی مال ہوتا تھا بلکہ ان جہازوں پر توپیں بھی نصب ہوتی تھیں۔
انہوں نے کالی کٹ پر بمباری کی۔ گوا اور ملاکر میں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔بحرہند پر قبضہ کر کے عرب تاجروں کے جہازوں کو اپنی بندرگاہ پر بند کر دیا۔ یہاں تک کہ پرتگالیوں سے حج پر جانے کے لیے ان سے اجازت (ویزا) لینا پڑتا تھا۔اس کے بعد انگلستان، فرانس اور ہالینڈ نے ایشیائی ملکوں سے تجارت کے لیے کمپنیاں قائم کیں اور یورپی ملکوں کے درمیان تجارت کے سلسلے میں جنگوں کی ابتداء ہوئی۔ تجارت پرامن نہیں رہی بلکہ اس کے لیے جنگ کا ہونا بھی لازمی قرار پایا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔