آزاد کشمیر حکومت کا مغلیہ دور کے تاریخی مقام کی بحالی اور مکینوں کی منتقلی کا منصوبہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
مظفر آباد(نیوز ڈیسک) آزاد جموں و کشمیر (اے جے کے) حکومت ایک ڈونر فنڈڈ پروگرام کے تحت لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب ایک تاریخی مقام پر رہائش پذیر افراد کی منتقلی پر غور کر رہی ہے تاکہ ان کی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے اور اس تاریخی عمارت کی بحالی سیاحت کے مقاصد کے لیے ممکن ہو سکے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات میرپور کے ڈویژنل کمشنر چوہدری مختار حسین نے ضلع بھمبر کی وادی سماہنی میں ایل او سی سے صرف 5 کلومیٹر دور واقع ’سرائے سعادت آباد‘ کے دورے کے بعد بتائی، یہ دورہ وزیر اعظم آزاد کشمیر چودھری انوار الحق کی ہدایت پر کیا گیا تھا۔
ڈپٹی کمشنر بھمبر چوہدری حق نواز اور دیگر افسران کے ہمراہ کمشنر نے مغلیہ دور کی اس سرائے کا تفصیلی معائنہ کیا، اس موقع پر انہوں نے وہاں مقیم خاندانوں کے حالات زندگی کا جائزہ لیا اور ان کے نمائندوں سے ملاقات بھی کی۔
انہیں بتایا گیا کہ تقریباً 33 خاندان اس 12 کنال رقبے پر محیط تاریخی سرائے میں مقیم ہیں، جو کبھی مغل بادشاہوں کے پنجاب اور کشمیر کے درمیان سالانہ سفر کے دوران عارضی قیام گاہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔
ایل او سی کے اُس پار اسی راستے پر ضلع راجوڑی (مقبوضہ کشمیر) میں چنگُس سرائے واقع ہے، سماہنی وادی میں نہ صرف سرائے سعادت آباد واقع ہے، بلکہ یہاں باغسر قلعہ بھی موجود ہے جو 3 ہزار 422 فٹ کی بلندی پر کالیدھر پہاڑی پر قائم ہے۔
تاریخی حوالوں کے مطابق، اکتوبر 1627 میں مغل بادشاہ جہانگیر کشمیر سے لاہور واپسی کے دوران چنگس سرائے اور سرائے سعادت آباد کے درمیان کہیں انتقال کر گئے تھے، جانشینی کی جنگ روکنے کے لیے ان کی بیوی ملکہ نور جہاں نے بادشاہ کی موت کو چھپایا اور لاش کے گلنے سڑنے کو روکنے کے لیے اس کی آنتیں اور اندرونی اعضا نکالنے کا حکم دیا تاکہ لاش کو لاہور تک محفوظ پہنچایا جا سکے۔
جہانگیر کے جسمانی اعضا کی تدفین کے مقام پر اختلاف پایا جاتا ہے، بعض مؤرخین کے مطابق انہیں چنگس سرائے میں دفن کیا گیا جہاں احاطے کے وسط میں ایک قبر موجود ہے، جب کہ دیگر کا دعویٰ ہے کہ تدفین باغسر قلعے میں کی گئی جہاں داخلی دروازے کے قریب ایک بڑی قبر موجود ہے۔
جولائی 2019 میں آزاد کشمیر حکومت نے تقریباً 85 عمارتوں اور مقامات، جن میں سرائے سعادت آباد بھی شامل ہے، کو ’محفوظ آثار قدیمہ‘ قرار دے کر محکمہ سیاحت و آثار قدیمہ کے حوالے کر دیا تھا، بعد ازاں اس فہرست میں مزید اضافہ کیا گیا۔
کمشنر مختار حسین نے زور دیا کہ اگرچہ ورثے کے تحفظ کی اہمیت ہے، لیکن فوری توجہ ان خاندانوں کی حفاظت پر مرکوز ہے جو انتہائی غربت میں ایل او سی کے قریب گولا باری کے خطرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے پہلے بھی یہ مسئلہ وزیر اعظم کے علم میں لایا تھا، جنہوں نے بعد میں ان خاندانوں کی منتقلی کے لیے مناسب انتظامات کی ہدایت دی۔
انہوں نے کہا کہ ان خاندانوں کی منتقلی اور دوبارہ آبادکاری سے نہ صرف ان کی سلامتی یقینی بنائی جا سکے گی، بلکہ اس تاریخی مقام کی بحالی بھی ورثہ قوانین کے مطابق ممکن ہو سکے گی۔
انہوں نے کہا کہ کسی قسم کی زبردستی نہیں کی جائے گی، بلکہ تمام مستحق خاندانوں کو باقاعدہ ریکارڈ کی بنیاد پر جدید گھروں کی چابیاں عزت و احترام کے ساتھ حوالے کی جائیں گی، اور اس کے بعد ہی منتقلی عمل میں آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ سرائے کی اصل حالت میں بحالی کا کام اس کے بعد شروع کیا جائے گا۔
کمشنر نے مقامی لوگوں کے حوصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ دشمن کے سامنے ان کی استقامت قابل تحسین ہے، اور حکومت ان کی مکمل دیکھ بھال اور بہبود کی ذمہ داری لے گی۔
بعد ازاں ’ڈان‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کمشنر حسین نے تصدیق کی کہ منتقلی کے لیے زمین کی نشان دہی کر دی گئی ہے اور حکومت اگلے مرحلے کی تیاری کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے محدود مالی وسائل کے پیش نظر، ہم قومی اور بین الاقوامی ڈونرز کی حمایت کا خیر مقدم کریں گے، جو ان خاندانوں کے لیے گھر بنانے میں مدد فراہم کرنا چاہیں۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ کی منتقلی ایل او سی کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
بارشوں اور سیلاب سے نقصان ،متاثرہ خاندانوں کی فوری اور مکمل مدد کی جائے: وزیر اعظم
اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ بارشوں اور سیلاب سے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ متاثرہ خاندانوں کی فوری اور مکمل مدد کی جائے۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم نے اس قدرتی آفت کو قومی امتحان قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم صرف اتحاد اور مشترکہ کوششوں سے اس چیلنج سے نکل سکتے ہیں۔
اسلام آباد میں باپ اور بیٹی کے سیلابی پانی میں بہہ جانے کے سانحے پر وزیراعظم نے افسوس کا اظہار کیا اور انسانی جانوں کے تحفظ کو حکومت کی اولین ترجیح قرار دیا ہے۔
وزیر اعظم کی جانب سے سیلاب متاثرہ تمام علاقوں میں ریلیف اور ریسکیو آپریشنز تیز کرنے، اور ہر قسم کی تاخیر یا کوتاہی کے خاتمے کی ہدایت دی گئی ہے۔
وزیراعظم نے این ڈی ایم اے کو صوبوں اور متعلقہ اداروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہوئے فوری امدادی سامان، خوراک اور مشینری متاثرہ علاقوں تک پہنچانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ زخمیوں کو فوری طبی امداد دی جائے، اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہو، اور ریسکیو ٹیمیں مسلسل الرٹ رہیں۔
متاثرہ سڑکوں، پلوں اور شاہراہوں کی فوری بحالی کے لیے نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور ایف ڈبلیو او کو بحالی کا کام فوری مکمل کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ حالیہ مون سون بارشوں سے خیبرپختونخوا، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور آزاد کشمیر میں درجنوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں، سینکڑوں زخمی اور املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ریسکیو کارروائیاں جاری ہیں، پاک فوج کے دستے امدادی مشن میں سرگرم ہیں، جبکہ کئی علاقوں میں محصور افراد کو ہیلی کاپٹروں سے نکالا گیا ہے۔
وزیراعظم نے آئندہ بارشوں کے پیش نظر تمام اداروں کو تیار رہنے، شیلٹرز قائم کرنے اور بروقت انخلاء یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
وزیراعظم نے کہا ہے کہ ریاست کے تمام وسائل عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے وقف ہیں، حکومت آزمائش کی اس گھڑی میں اپنی عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔
بارشوں اور سیلاب سے قیمتی جانوں کا ضیاع، پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کی قیادت کا اظہارِ افسوس
مزید :