22ویں شنگریلا ڈائیلاگ کا اختتام، فریقین کی جانب سے مشترکہ چیلنجز کے لئے تعاون کی درخواست
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
سنگا پور :تین روزہ 22واں شنگریلا ڈائیلاگ سنگاپور میں اختتام پذیر ہوگیا۔ شرکاء نے عمومی اتفاق رائے ظاہر کیا کہ دنیا اس وقت گہری تبدیلیوں سے گزر رہی ہے، جبکہ امن، تعاون اور ترقی اب بھی بنیادی رجحانات ہیں۔ ایشیائی ممالک کو چاہئے کہ اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے مشترکہ چیلنجز کا مقابلہ کریں۔ویتنامی وزیر دفاع جنرل پان وین گیانگ نے اپنی تقریر میں کہا کہ شنگریلا ڈائیلاگ سمیت بین الاقوامی دفاعی فورمز اور عالمی و علاقائی کثیرالجہتی تعاون کے میکانزمز کو تعاون کو فروغ دینے، تنازعات سے گریز کرنے، مشترکہ فائدے کو یقینی بنانے اور اختلافات کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں دو طرفہ اور کثیرالجہتی سطح پر موثر تعاون کے میکانزمز قائم کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں، شنگریلا ڈائیلاگ، بیجنگ شیانگشان فورم، ماسکو کانفرنس برائے بین الاقوامی سلامتی، اور میونخ سیکیورٹی کانفرنس جیسے متعدد سلامتی فورمز ایسے اہم پلیٹ فارمز ہیں جو نظریات کے تبادلے، باہمی تفہیم کو گہرا کرنے، اعتماد کو بڑھانے اور زیادہ ٹھوس و موثر تعاون کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔چینی فوج کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ڈپٹی صدر جنرل ہو گینگ فنگ نے 31 مئی کی دوپہر “ایشیا پیسیفک میں بحری سلامتی کا تعاون” کے خصوصی فورم میں شرکت کرتے ہوئے چین کے موقف کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ چین صدر شی جن پھنگ کے تین عالمی اقدامات کی روشنی میں سمندری ہم نصیب معاشرے کے تصور کو عملی جامہ پہنائے گا اور ایشیا پیسیفک کو امن، دوستی اور تعاون کا سمندر بنانے کے لیے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ اس حوالے سے ہم تین تجاویز پیش کرتے ہیں:حقیقی کثیرالجہتی نظام کو اپناتے ہوئے ایشیا پیسیفک کی بحری سلامتی کے نظم و ضبط کو برقرار رکھنامخلصانہ مکالمے اور مشاورت کے ذریعے ایشیا پیسیفک میں بحری امن کو مستحکم کرنامساوی تبادلے اور باہمی سیکھنے کو فروغ دے کر ایشیا پیسیفک کےخوبصورت سمندری مستقبل کو تخلیق کرنا۔اس سال کے شنگریلا ڈائیلاگ میں چین کی طرف سے پیش کردہ “ایشیائی سلامتی ماڈل” کے تصورات کو خطے کے ممالک کی طرف سے گرمجوشی سے قبول کیا گیا۔ شرکاء نے کہا کہ یہ ماڈل تین عناصر پر مشتمل ہے یعنی مشترکہ سلامتی ،اختلافات کے باوجود مشترکہ نکات کی تلاش اور مکالمے اور مشاورت پر زور۔شرکاء کا کہنا تھا کہ یہی وہ طریقہ کار ہے جو ایشیائی ممالک کے مشترکہ مفادات کے عین مطابق ہے اور پڑوسی ممالک کے مستحکم ترقی کے مشترکہ وژن کو حقیقت بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
بیروت اور دمشق سے ابراہیم معاہدہ ممکن نہیں، اسرائیلی اخبار معاریو
اپنے ایک کالم میں اسرائیلی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں یکطرفہ شرائط پر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی فوج کے ریٹائرڈ کرنل اور مشرق وسطیٰ امور کے ماہر "موشے ایلاد" نے "معاریو" اخبار میں لکھا کہ مشرق وسطیٰ میں یکطرفہ شرائط پر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ 2020ء میں اسرائیل اور کچھ عرب ممالک کے درمیان ہونے والا "ابراہیم معاہدہ شام اور لبنان تک بڑھایا نہیں جا سکے گا۔ تاہم موشے ایلاد نے اس معاہدے کو اسرائیل اور عرب ممالک کے تعلقات میں تاریخی قدم اور معیاری تبدیلی قرار دیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ یہ معاہدے نہ صرف سفارتی تعلقات کی نوید دیتے ہیں بلکہ ٹیکنالوجی، معیشت، سیاحت، سیکورٹی اور زراعت کے شعبوں میں بھی معمول کے تعلقات کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ سوال ابھارا کہ کیا ابراہیم معاہدہ واقعی دونوں فریقوں کے لیے فائدہ مند ہیں یا اسرائیل کو ہمیشہ ممکنہ خطرات کا سامنا رہے گا؟۔ اس سوال کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذکورہ سوال کا جواب اس معاہدے کی کامیابی کی تفصیلات میں پوشیدہ ہے۔ انہوں نے وضاحت کے ساتھ کہا کہ ابراہیم اکارڈ کا حصہ بننے والے ممالک کے ساتھ اسرائیل کے یہ معاہدے ایک نئی سیاسی صورتحال کا نتیجہ ہیں، وہ ممالک جو اقتصادی ترقی کے بارے میں سوچتے ہیں اور اپنے مفادات کو ایک مختلف نقطہ نظر سے دیکھنے کے لیے تیار ہیں۔ البتہ شام اور لبنان میں ایسی صورتحال ممکن نہیں۔
اس ریٹائرڈ کرنل نے دعویٰ کیا کہ ابراہیم معاہدہ سفارتی تعلقات سے آگے بڑھ کر دہشت گردی اور ایران جیسے مشترکہ خطرات سے نمٹنے کے بارے میں ہے جن سے اسرائیل فرنٹ لائن پر نبرد آزما ہے۔ اس کے باوجود انہیں شک ہے کہ خطے کے تمام ممالک قیام امن کے لیے حقیقی تعاون کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے گہرے شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا واقعی یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ابراہیم معاہدہ شام اور لبنان جیسے ممالک تک پھیلایا جا سکے گا؟۔ جس کی مستقبل میں کوئی خاص امید نہیں۔ دونوں ممالک کی اسرائیل کے ساتھ دشمنی کی ایک طویل تاریخ ہے اور اندرونی سیاسی مخالفت بھی امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہو گی۔ آخر میں اس اسرائیلی تجزیہ کار نے کہا کہ اگر ہم صحیح معنوں میں شام اور لبنان کے ساتھ امن کے خواہاں ہیں تو ہمیں نہ صرف سلامتی کے میدان میں بلکہ اقتصادی و ثقافتی میدانوں میں بھی ٹھوس کامیابیوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس راستے میں صبر اور موجودہ عمل میں بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر ان دو ممالک میں عوامی شعور کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ، ابراہیم معاہدے کی کامیابیاں بے حسی اور منفی رویے کی دیوار سے ٹکرا سکتی ہیں۔