پاکستان کی عید پر بیروت اور لبنان پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
پاکستان نے اسرائیلی افواج کی بیروت سمیت لبنان کے دیگر علاقوں پر فضائی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور ثالث ممالک سے اسرائیلی جارحیت کا فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا۔
لبنانی حکومت نے دارالحکومت بیروت پر فضائی حملوں اور جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوجیوں کی موجودگی کو جنگ بندی کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
دفتر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ عیدالاضحیٰ کی شب جنوبی بیروت اور جنوبی لبنان کے علاقوں پر فضائی حملے بین الاقوامی قانون اور لبنان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی حملے نومبر 2024ء کی جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی ہیں، بےقابو طاقت کے استعمال سے شہری جانوں کو خطرہ ہے اور علاقائی استحکام بھی متاثر ہو رہا ہے۔
پاکستان نے مشکل وقت میں لبنانی حکومت اور عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا اور مزید کشیدگی کو روکنے اور قابض افواج کو جوابدہ بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنے پر زور دیا۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
جنوبی شام میں اسرائیلی حملوں سے جانی و مالی نقصان
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 جون 2025ء) اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ شام کی جانب سے اسرائیل کے خلاف میزائل لانچ کیے گئے تھے، جس کے جواب میں اس نے منگل کے روز شام کے متعدد اہداف کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ اسرائیلی وزیر دفاع کاٹز نے کہا کہ وہ ان حملوں کے لیے شام کے رہنما کو "براہ راست ذمہ دار" ٹھہراتے ہیں۔
ادھر شام کی وزارت خارجہ نے میزائل فائر کرنے کے اسرائیلی دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا ملک "خطے میں کبھی کسی کے لیے خطرہ نہیں رہا اور نہ کبھی ہو گا۔
"اسرائیل شام میں حملے فوری طور پر روک دے، اقوام متحدہ
شام کی وزارت خارجہ نے بتایا کہ اسرائیل کے ان تازہ حملوں سے "اہم انسانی اور مادی نقصان ہوا ہے۔" اس نے مزید کہا کہ اسرائیل "خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
(جاری ہے)
"
امریکی پابندیاں ختم، شام کا مستقبل کیا ہو گا؟
اسرائیلی حملوں کے بارے میں ہمیں مزید کیا معلوم ہے؟برطانیہ میں قائم ایک مانیٹرنگ گروپ 'سیریئن آبزرویٹری آف ہیومن رائٹس' کا کہنا ہے کہ " اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد، پرتشدد دھماکوں نے جنوبی شام کے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا، خاص طور پر قنیطرہ کا قصبہ اور درعہ کے علاقے کو۔
"شام کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا، "کشیدگی میں یہ اضافہ شام کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے اور خطے میں کشیدگی کو ہوا دیتا ہے۔"
اسرائیلی فضائیہ کا دمشق میں شامی صدارتی محل کے قریب حملہ
اس نے مزید کہا کہ "شام کبھی بھی خطے میں کسی کے لیے خطرہ نہیں رہا ہے اور نہ کبھی ہو گا۔"
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اسرائیل کے حملوں میں کتنے افراد ہلاک یا زخمی ہوئے۔
اسرائیل کا کیا کہنا ہے؟ادھر اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ شام سے داغے گئے دو میزائل ملک کے کھلے علاقوں میں گرے، جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور یہ حملے اسی کے رد عمل میں کیے گئے ہیں۔
اسرائیلی میڈیا نے دعوی کیا کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام سے پہلی بار اس طرح کا حملہ کیا گیا۔ البتہ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آخر یہ میزائل کس نے فائر کیے تھے۔
اسرائیلی وزیر دفاع کاٹز نے کہا کہ "ہم اسرائیل کی ریاست کے لیے کسی بھی خطرے اور حملے کے لیے براہ راست شام کے صدر کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔"
تاہم شام کی وزارت خارجہ نے کہا کہ شام کے اندر سے ان مبینہ میزائل لانچوں کی اطلاعات کی "ابھی تک تصدیق نہیں ہوئی ہے۔"
اسرائیل اور ترکی کے درمیان لفظی جنگ حقیقی جنگ بن سکتی ہے؟
شام کے خلاف اسرائیلی حملوں کا سلسلہاسد حکومت کا تختہ الٹنے کے فوری بعد اسرائیل نے شام کے فوجی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے لیے فضائی حملوں کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔
اسرائیل نے مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں میں اپنی بستیوں کی توسیع کا بھی اعلان کیا تھا۔یہ وہ علاقہ ہے جس اسرائیل نے سن 1976 میں شام سے چھین لیا تھا اور بین الاقوامی قوانین کے تحت گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔
گزشتہ ماہ، اسرائیل نے دمشق میں شام کے صدارتی محل کے قریب ایک علاقے پر بمباری کی تھی۔
اس حملے کے بارے میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ یہ ایک "واضح پیغام" ہے کہ وہ "دمشق کے جنوب میں فورسز کی تعیناتی کی اجازت نہیں دے گا۔"جنوبی شام میں اسرائیلی حملے، پانچ افراد ہلاک
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش نے اس وقت اس اسرائیلی بمباری کو شام کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام پر عشروں سے عائد پابندیاں اٹھانے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا، جو 13 سالہ خانہ جنگی کے دوران اسد کی وفادار افواج کے مظالم کے جواب میں لگائی گئی تھیں۔
اسرائیلی فوج کا حزب اللہ کے ’انفراسٹرکچر‘ پر حملہ
شام کی خانہ جنگی کے دوران چھ لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے اور 12 ملین دیگر اپنے گھروں سے بے دخل ہونے پر مجبور ہوئے۔
روئٹرز کے ساتھ
ادارت: جاوید اختر