دبئی کی بلند و بالا رہائشی عمارت میں آتشزدگی
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
دبئی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 14 جون 2025ء ) دبئی مرینا کی رہائشی عمارت میں آتشزدگی کے بعد 3 ہزار 800 سے زائد رہائشیوں کو بحفاظت نکال لیا گیا۔ خلیج ٹائمز کے مطابق دبئی مرینا میں ایک بلند و بالا رہائشی اور کمرشل ٹاور کی بالائی منزل سے آگ بھڑک اٹھی، 49ویں منزل پر رہائش پذیر ایک رہائشی نے بتایا کہ میں اپنے کمرے میں آنے والی تیز دھواں کی بو کے بعد نیند سے بیدار ہوا تو میں نے اپنے گھر کے ساتھیوں کو مجھے پکارتے ہوئے سنا اور ہم جلدی سے عمارت سے نیچے چلے گئے، جب ہم نیچے تو ہم نے اوپر ممکنہ طور پر 60 ویں یا اس سے بھی اوپر والی منزل سے گہرا دھواں اٹھتا دیکھا۔
بتایا گیا ہے کہ فائر بریگیڈ کے متعدد ٹرک اور ایمبولینس کو فوری طور پر علاقے میں تعینات کیا گیا، فائر فائٹرز 67 منزلہ عمارت میں لگنے والی آگ کو شروع ہونے کے تقریباً ایک گھنٹے بعد بھی بجھا رہے تھے، خصوصی ٹیموں نے آپریشن کے دوران شہریوں کی صحت اور حفاظت کو ترجیح دیتے ہوئے 67 منزلہ عمارت سے تمام رہائشیوں کو کامیابی کے ساتھ باہر نکالا، آگ پر مکمل طور پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں، ایمبولینس ٹیمیں اور طبی عملہ بحفاظت نکالے گئے رہائشیوں کو مکمل طبی مدد فراہم کرنے کے لیے سائٹ پر موجود رہے، خصوصی یونٹوں نے مرینا پنیکل کے 764 اپارٹمنٹس سے تمام 3 ہزار 820 رہائشیوں کو بحفاظت بغیر کسی چوٹ کے نکال لیا۔(جاری ہے)
بتایا جارہا ہے کہ یہ پہلی بار نہیں تھا جب مرینا پنیکل میں آگ لگی، اس سے پہلے 25 مئی 2015 کو فلک بوس عمارت کی 47 ویں منزل پر ایک رہائشی کے کچن میں ہونے والے واقعے کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی تھی، عمارت کی 47ویں منزل پر واقع ایک اپارٹمنٹ میں لگنے والی آگ 48ویں منزل تک پھیلی جس کے بعد دبئی سول ڈیفنس نے اس پر قابو پالیا تھا، علاوہ ازیں ایک اور اسکائی اسکریپر میں 2015ء اور 2017ء میں دو بار آگ لگی تھی۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے رہائشیوں کو
پڑھیں:
وہائٹ ہاؤس بھی اقربا پروری سے بالا نہیں !
جنوب مشرقی ایشیا ، جس میں پاکستان و بھارت نمایاں حیثیت رکھتے ہیں، میں مقتدر افراد اگر اپنے خاندان کے کسی اہل فرد کو بھی اگر کوئی سرکاری عہدہ تفویض کر دیتے ہیں تو وزیر اعظم یا صدر کے خلاف طوفان کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ صدارت یا وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر براجمان خاتون یا مرد پر اقربا پروری یا خویش نوازی (Nepotism) کے الزامات دھر دیے جاتے ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم ، اندرا گاندھی، نے اپنے دَورِ اقتدار میں اپنے دونوں صاحبزادگان کو خوب نوازا۔ جنرل صدر ایوب خان پر بھی دورانِ صدارت اقربا پروری کے کئی الزامات لگے۔ انھوں نے اپنے بیٹے ، گوہر ایوب ، کو فوج سے نکلوا کر سیاست میں بھی داخل کیا اور بزنس ٹائیکون بھی بنادیا ۔ زیڈ اے بھٹو پر بھی ایسا الزام عائد کیا جاتا ہے جب انھوں نے اپنی صاحبزادی، محترمہ بے نظیر بھٹو، کو سیاست کی دُنیا سے روشناس کروایا اور اپنا جانشین بھی ڈیکلیئر کیا۔
نواز شریف پر بھی ایسی ہی ’’تہمت‘‘ لگی ہے کہ انھوں نے اپنی صاحبزادی، محترمہ مریم نواز شریف، کو اپنا جانشین بھی ڈیکلیئر کیا اور پنجاب کی وزیر اعلیٰ بھی بنا دیا۔ شہباز شریف نے اپنے بڑے صاحبزادے ، حمزہ شہباز، کو ایک سے زیادہ بار رکن قومی اسمبلی منتخب کروایا اور ایک بار وزیر اعلیٰ پنجاب بھی۔اِس ضمن میں اور بھی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں ۔
مگر کہا جاتا ہے کہ مغربی ممالک میں حکمران طبقہ اقربا نوازی سے گریز پا رہتا ہے ۔ مگر ڈونلڈ ٹرمپ شاید پہلے امریکی صدر ہیں جو اپنے دَورِ اقتدار میں اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کو کھل کر نوازنے پر عمل کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے پہلے دَورِ صدارت کے دوران اپنے داماد جیرڈ کشنر ( ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا کا شوہر) کو کئی اختیارات سونپ رکھے تھے ۔
وہ ٹرمپ کے سینئر مشیر بھی تھے ۔ انھی کی زیر نگرانی مشرقِ وسطیٰ میں ’’ابراہام اکارڈ‘‘ معرضِ عمل میں آیا ۔ اِس معاہدے کے تحت کئی عرب ممالک نے صہیونی اسرائیل کو تسلیم کیا تھا ۔ اپنے صدر سسر کی طاقت کو بروئے کار لاتے ہُوئے جیرڈ کشنر نے کئی عرب ممالک کے انتہائی دولتمند افراد کے ساتھ مل کر اپنے نجی کاروبار کو مزید وسعت اور طاقت بخشی ۔
یاد رہے کہ جیرڈ کشنر امریکا کا ممتاز یہودی دولتمند شخص ہے ۔ پراپرٹی ڈیلنگ اُس کا اصل کاروبار ہے۔رئیل اسٹیٹ ہی ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی کاروبار ہے۔ اِس بار مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صاحبزادی ، ایوانکا ٹرمپ اور اس کے شوہر جیرڈ کشنر ، کو سرکار دربار میں دخیل ہونے کی اجازت نہیں دی ۔ ایک خاص اسٹرٹیجی کے تحت ، مبینہ طور پر ، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے داماد سے کہا ہے کہ وہ صرف عربوں کے ساتھ مل کر بدستور اربوں ڈالر کا کاروبار کرتا رہے ۔
اِس بار ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صاحبزادی ، ایوانکا ٹرمپ، کے سسر ( چارلس کشنر ) کو فرانس میں امریکی سفیر متعین کیا ہے ۔سفیر متعین کرنے سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے چارلس کشنر کی تعریفیں کرتے ہُوئے کہا: ’’ وہ ممتاز امریکی بزنس مَین ہے ۔ ڈیل کرنا جانتا ہے۔ فرانس میں ہمارے ملک کے بہترین مفادات کا تحفظ بخوبی کر سکے گا۔‘‘ پچھلی بار چارلس کشنر بدعنوانی کے ایک کیس میں پکڑا گیا تھااور سزا میں جیل بھی بھیج دیا گیا تھا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مگر اپنے پہلے دَورِ صدارت کے آخری ایام میں، خصوصی صدارتی اختیارات کے تحت، اس کی سزا معاف کر دی تھی ۔اِس بار چارلس کشنر کو واشنگٹن سے دُور بھیج دیا گیا ہے تاکہ وہ امریکی دارالحکومت میں رہ کر صدارتی معاملات میں زیادہ منہ ماری نہ کر سکے ۔
نومنتخب امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کی بیٹی، ایوانکا ٹرمپ، نے بھی وائٹ ہاؤس میں ایک مرتبہ پھر اپنے والد کی انٹری کے بعد کے اپنی خاص مصروفیات بتائی ہیں۔یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں ایوانکا ٹرمپ نے سینئر مشیر کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔ پہلے دَور میں ایوانکا ٹرمپ اور اُن کے یہودی نژاد شوہر، جیرڈ کشنر، ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ترین اور معتمد ترین ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے ۔
سرکار دربار میں ایوانکا ٹرمپ کی بہت چلتی تھی ۔ ہر کوئی اعلیٰ امریکی عہدیدار اِس حقیقت سے آگاہ تھا ۔ اُس نے ایک شہزادی کا درجہ حاصل کررکھا تھا۔ اِس بار مگر حالات مختلف ہیں۔ ٹرمپ کے دوسرے دَورِ صدارت میں، شکائتوں اور اعتراضات سے بچنے کے لیے، ایوانکا ٹرمپ کو اُن کے والد نے ایک فاصلے پر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ؛ چنانچہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کی لاڈلی صاحبزادی ، ایوانکا ٹرمپ، کی جانب سے دو بیانات سامنے آ ئے ہیں ۔
نئے حالات کے تیور دیکھ کر پہلے بیان میں ایوانکا نے کہا: ’’ مَیں اِس بار کوشش کررہی ہوں کہ وہائٹ ہاؤس کے بجائے اپنے تینوں بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت کروں۔ انھیں میری بے حد ضرورت ہے ۔‘‘ دوسرے بیان میں مبینہ طور پر ایوانکا نے کہا:’’ مَیں پہلے کی طرح ایک مرتبہ پھر اپنے والد کا بھرپور سیاسی ساتھ نبھانے کے لیے تیار ہُوں۔ امریکی صدارت دنیا کی تنہا ترین پوزیشن ہے جہاں آپ روزانہ کی بنیاد پر اہم فیصلے کرتے ہیں۔ میری کوشش ہوگی کہ میں صرف ایک بیٹی کی حیثیت سے اپنے والد کے لیے وائٹ ہاؤس میں موجود رہوں، اُن کا دھیان بٹا سکوں، اُن کے ساتھ کوئی فلم یا اسپورٹس میچ دیکھوں۔ میرے والد اور ہم پُرجوش ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اِس ملک میں ایک عمومی جوش و خروش ہے۔ یہ 4 سال بہت اچھے ہوں گے‘‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دَورِ صدارت میں ایوانکا ٹرمپ کی جگہ ٹرمپ کی42سالہ بہو ، لارا ٹرمپ، نے لے لی ہے۔ لارا ٹرمپ نَو منتخب امریکی صدر کے بڑے صاحبزادے ، ایرک ٹرمپ، کی اہلیہ ہیں۔ وہ سیاستدان بھی ہیں ، امریکا ٹی وی اسٹار بھی اور ری پبلکن نیشنل کمیٹی کی سابق سینئر عہدیدار بھی ۔ ایک عرصہ تک امریکی ٹی وی ’’ فاکس نیوز‘‘ کی اینکر پرسن رہی ہیں۔
نارتھ کیرولائنا اسٹیٹ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات کے دوران لارا ٹرمپ نے اپنے سسر ، ڈونلڈ ٹرمپ، کی ہر انتخابی معاملے میں بے حد معاونت کی تھی ۔ لارا چونکہ خود ٹی وی میزبان رہ چکی ہیں، اس لیے انھوں نے امریکی نجی ٹی ویوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کو زیادہ سے زیادہ حصہ دینے کی کامیاب کوششیں کیں۔اب ٹرمپ اپنی اِس بہو کو امریکی سینیٹر بنوا کر کوئی اہم عہدہ دینے کے خواہاں ہیں ۔ لارا ٹرمپ اپنے سسر صدر کی زبردست حامی اور موید ہیں ۔ انھوں نے گزشتہ روز امریکی اخبار ( نیویارک پوسٹ) کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا تھا: ’’میرے سسر صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، امریکی خواتین کے محبوب ترین صدر ہیں۔‘‘
کئی امریکی لارا ٹرمپ کے اِس بیان پر طنزیہ طور پر ہنسے بھی ہیں ، یہ کہہ کر کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی خواتین کے محبوب صدر نہیں بلکہ واقعی معنوں میں یہ ٹرمپ صاحب کئی امریکی خواتین کا ’’شکار‘‘ بھی کر چکے ہیں۔ ایک خاتون کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھنے کی پاداش میں ٹرمپ کو نیویارک کی عدالت سے سزا بھی دی جا چکی ہے ۔ جج صاحب نے مگر یہ خصوصی رعائت دے دی کہ نَو منتخب امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کو جیل نہیں بھیجا۔ یہ مگر امریکی تاریخی میں پہلی بار ہُوا ہے کہ کوئی ایسا صدر بھی امریکی صدارت کے تخت پر بیٹھا ہے جو بدکاری کے الزام میں سزا یافتہ ہے ۔ epstien Filesاسکینڈل بھی انکشاف کررہا ہے کہ ٹرمپ صاحب کا دامن اخلاقی اعتبار سے خاصا داغدار ہے۔ ٹرمپ اور اُن کے حامیوں کو مگراِس کی کوئی خاص پروا نہیں ہے ۔ اور نہ ہی ٹرمپ کے قریبی رشتہ داروں کو ۔ یہ راز بھی مگر عیاں ہو چکا ہے کہ ایوانکا ٹرمپ اور لارا ٹرمپ کے درمیان رقابت اور حسد اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے ۔ ٹرمپ کی ایک31سالہ بیٹی (ٹفی ٹرمپ، ٹرمپ کی درمیانی بیوی، مارلامیپل ٹرمپ، کے بطن سے) سیاست و اقتدار سے بالکل الگ تھلگ ہے۔ دوسری طرف ٹرمپ کے بڑے بیٹے (41سالہ کاروباری ایرک ٹرمپ جو ٹرمپ کی پہلی بیوی، ایوانا ٹرمپ، سے ہیں) اور چھوٹے صاحبزادے ( اٹھارہ سالہ بیرن ٹرمپ، جو78سالہ ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودہ 54سالہ جوان بیوی ، میلانیا ٹرمپ،سے ہیں) کے درمیان بھی کشمکش شروع ہو چکی ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دَورِ صدارت میں واشنگٹن ٹرمپ کے قریبی رشتہ داروں کے کارن محلاتی سازشوں کی آماجگاہ بننے جارہا ہے ۔