زباں فہمی252؛تحفظات ....مگر کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
قارئین کرام! موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے وہی دُکھڑا رونا پڑرہا ہے کہ ہمارے یہاں:
ا)۔ اہل قلم کی غالب اکثریت پڑھتی کم، لکھتی زیادہ اور بولتی اُس سے بھی زیادہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں تحقیق اور رَدِّتحقیق کا عُنصُر کہاں سے نمایاں ہوگا۔ یہاں تو لوگ کور تقلید میں سُنی سُنائی باتوں ہی کو سَنَد سمجھتے اور پھیلادیتے ہیں۔
ب)۔ یہاں ہر دوسرا شخص اپنے تئیں ہر مضمون /موضوع اور شعبے کا ماہر بنا ہوا ہے۔ دین، کھیل (خصوصاً کرکٹ)، سیاست اور اِصلاحِ زبان یعنی اُردو کے جتنے ماہرین سوشل میڈیا نے پیدا کیے ہیں، اتنے شاید کئی عشروں سے حقیقتاً پیدا نہیں ہوئے۔ لوگ تُکّے اور قیاس کی بنیاد پر اَپنی نئی لغت ترتیب دینے کو عار نہیں سمجھتے، نیز اہلِ زبان اور غیراہلِ زبان کا فرق بھی شاذہی سمجھا جاتا ہے۔
راقم کو سلسلہ زباں فہمی کے مختصر کالموں اور مفصل مضامین میں بعض موضوعات، بوجوہ مکرر لکھنے پڑتے ہیں، آج ایسا ہی ایک موضوع ہے جس پر کالم لکھ چکا ہوں، وڈیو بناکر ’زباں فہمی‘ کے یوٹیوب چینل پر اپلوڈ کرچکا ہوں اور تمام سوشل میڈیا پر بارہا تصحیح کرچکا ہوں کہ ’تحفظات‘ جیسے بھونڈے لفظ کا انگریزی اصطلاح Reservations کی جگہ بطور ترجمہ /متبادل استعمال غلط ہے۔ خاکسار نے ایک سے زائد بار، اس کے قائلین سے اس بابت استفسار کیا تھا کہ اگر Reservations کا ترجمہ تحفظات صحیح ہے تو پھر واحد یعنی Reservation کا ترجمہ کیا ہوگا.
سلسلہ زباں فہمی کا اوّلین کالم بعنوان ’صحافت کی ادائیں‘ 19اپریل 2015ء کو روزنامہ ایکسپریس کے ادبی صفحے ’ادب نگری‘ کی زینت بنا۔ اُس کا اقتباس پیشِ خدمت ہے: مجھے آپ کی اس تجویز پر تحفظات ہیں۔ اس جملے کا مطلب کیا ہوا؟ تحفظات کا واحد کیا ہے؟ انگریزی کے لفظ Reservations۔یا۔Reservation کا بھونڈا ترجمہ۔ استعمال کے لحاظ سے کہیں گے; ا)۔ مجھے اعتراض ہے ب)۔ مجھے خدشہ ہے ج)۔ میرا اختلاف ہے ۔یا۔مجھے اختلاف ہے۔ (ضرورت کے تحت جمع کا صیغہ استعمال ہوگا)۔
پچھلے دنوں کسی صاحب نے مجھے ایک پرانا مراسلہ بھیج کر رائے طلب کی۔ میں نے حسبِ عادت بے لاگ تبصرہ کردیا۔ مراسلہ ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ ناواقفین کے لیے، اِن دنوں اصلاحِ زبان کس قدر آسان ہوگئی ہے۔ جو بات سمجھ میں نہ آئے یا اپنی مرضی کے خلاف ہو، اُسے اپنی فہم کے مطابق کچھ بھی قرار دے دیتے ہیں;اب اُن کا ارشاد نقل ہوگا تو کہیں نہ کہیں سند بھی بن ہی جائے گا:
’’الفاظ کا غلط استعمال؟
مراسلہ: محسن فارانی (دارالسلام، لاہور)
مکرمی! نوبہار بٹ صاحب نے نوائے وقت (5مئی) میں جانے کیسے یہ دعویٰ کرڈالا کہ ’’دنیا کی کوئی لغت لفظ تحفظات کے وہ معنی نہیں دیتی جو ہمارے ادیب، شاعر، سیاستدان، مقرر یا ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے سمجھتے ہیں۔‘‘ انہیں بلاوجہ اصرار ہے کہ ’’ریزرویشنز‘‘ کے معنی میں لفظ ’’تحفظات‘‘ کی جگہ متبادل الفاظ ’’خدشات‘‘ یا ’’اعتراضات‘‘ استعمال کئے جائیں حالانکہ یہ دونوں الفاظ اپنا الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں اور ’تحفظات‘ کا ایک خاص مفہوم ہے جسے گزشتہ چند دہائیوں میں قبولِ عام حاصل ہوچکا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ’اس نے ذہنی تحفظ سے کام لیا‘ تو یہاں ’تحفظ‘ ریزرویشن یا ’دوسروں سے الگ محفوظ سوچ‘ کے معنی دیتا ہے۔ رہا لغت کا معاملہ تو عربی انگریزی کی معتبر لغت ’المورد الوسیط مزدوج‘ لفظ ’تحفظ‘ کے معنی ’حفاظت کرنا‘کے علاوہ ’احتیاط، احتراز، reservation، شرط، مشروط بیان‘ بھی دیتی ہے۔
جب اردو کا بکثرت ذخیرہ الفاظ عربی ہے تو پھر یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے کہ لفظ تحفظات استعمال نہ کیا جائے کیونکہ یہ پچاس، سو یا ڈیڑھ سو سال پہلے مرتب ہونے والی اردو لغتوں میں نہیں ملتا اور یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اس کے معنی ہر حالت میں لفظ ’حفاظت‘ ہی سے جڑتے ہیں۔ الفاظ کے مفاہیم جامد نہیں ہوتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ نئے نئے مفاہیم شامل ہوتے رہتے ہیں۔ چونکہ قومی زبان اردو اور اس کی ترویج کو ابھی تک کماحقہ سرکاری پذیرائی نہیں ملی، اس لیے تقسیم برصغیر کے بعد ہمارے ہاں کوئی مستند اور محقق اردو لغت وجود میں نہیں آئی، سوائے اردو لغت (تاریخی اصول پر) کے جو بہت ضخیم اور پچیس چھبیس جلدوں میں ہے، اس میں تحفظات کے معنی ’ذہن میں پہلے سے محفوظ خیالات‘ یا ’یادداشتیں‘ دئیے گئے ہیں‘‘۔ (روزنامہ نوائے وقت، لاہور۔ مؤرخہ 07 مئی 2013ء)
نقل ختم شُد
۱۔ ایک مرتبہ پھر ان صاحب سے وہی استفسار کرتا ہوں کہ اگر Reservations کا ترجمہ تحفظات صحیح ہے تو پھر واحد یعنی Reservation کا ترجمہ کیا ہوگا....کیا تحفظہ ۔یا۔تحفظ؟
۲۔ اگر ’رائج ومروّج‘ کے اصول کی ایسی ہی اندھادھند پیروی کی جائے تو پھر معیاری، رسمی، ادبی وکتابی زبان اور عوامی بول چال یا Slangمیں پایا جانے والا فرق بھی جلد مِٹ جائے گا۔
۳۔ اردو لغت بورڈ کی ’’اردو لغت (تاریخی اصول پر)‘‘ کی بائیس جلدیں ہیں۔
یادش بخیر! نوجوانی میں تحریک ِپاکستان سے متعلق کئی کتب زیرِمطالعہ رہیں جن میں سید حسن ریاض کی ’پاکستان ناگزیر تھا‘ کئی بار پڑھی۔ ابھی کچھ روز قبل اپنے نجی کتب خانے میں اس پر نظر پڑی تو یونہی ورق گردانی کرتے ہوئے انکشاف ہوا کہ مصنف موصوف نے انگریزی (غالباً اپنی بیاض ودیگر کتب) سے مواد اُردو میں منتقل کرتے ہوئے ایک اصطلاح s/Guarantees Assurance کا ترجمہ ’تحفظات‘ لکھ دیا ہے۔ یہ ترجمہ یا اختراع کبھی کسی اور پُرانی کتاب میں نظر سے نہیں گزری۔ ناواقفین کے لیے عرض ہے کہ سید حسن ریاض تحریک ِ پاکستان کے کارکن، صحافی اور جامعہ کراچی کے استاد تھے جن کی متعددکتب میں شامل اس مشہور کتاب کو 1967ء کا ’داؤد انعام‘ اور 1940ء تا 1980ء لکھی گئی کتب میں بہترین کتاب کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ وہ 1894ء میں بلندشہر، یوپی (ہندوستان) میں پیدا ہوئے اور 18اکتوبر1972ء کو کراچی میں وفات پاگئے۔
اب ذرا دیکھتے ہیں کہ محض چند عشروں پہلے ہمارے نجی ٹیلیوژن چینلز اور اخبارات کے توسط سے ہماری زبان میں داخل ہونے والا یہ لفظ انگریزی۔اردولغات میں بھی موجودہے کہ نہیں۔ آکسفرڈ اِنگلش اردو ڈکشنری (از شان الحق حقّی) میں شامل ہونے والے نسبتاً نئے اندراج کے معانی کے ذیل میں Reservationکے چوتھے معنیٰ یوں لکھے گئے ہیں: کسی معاہدے وغیرہ پر واضح یا کنایۃً اعتراض یا اِستثناء۔ پھر حقّی مرحوم نے مروّجہ بولی ٹھولی کی مثال سے ترجمہ بھی پیش کیا کہ ....had reservations about the plan یعنی منصوبے کے بارے میں کچھ تحفظات تھے۔ بصداَدب عرض کرتا ہوںکہ حقّی مرحوم نے یہاں کوئی لسانی قیاس نہیں کیا بلکہ جدید رواج کے پیش نظر شُنیدہ مثال لکھ دی۔ لغت نوِیس کو بعض اوقات کوئی نکتہ فقط رائج ومروّج کے اصول کے تحت نقل کرنا پڑتا ہے، لیکن بہتر یہی ہے کہ وہ تحقیق کرے۔ اس ضمن میں سب سے بڑی مثال فرہنگِ آصفیہ کے فاضل مؤلف سید احمد دہلوی کی ہے جن کی تنہا کاوش سے اُردو کی اوّلین ’دائرۃ المعارف نُما‘ لغت یعنی Encyclopaedic dictionary منصہ شہود پر آئی، مگر کہیں کہیں وہ کسی باب میں تحقیق نہیں کرسکے، مثال کے طور پر مصالحہ اور مسالہ کی بحث دیکھ لیں۔
اسی طرح ایک مثال اردو لفظ ’تکان‘ بمعنیٰ تھکن یا تھکاوٹ (fatigue) کی ہے جس کا مُحرّف (بِگاڑ) تھکان ہمارے یہاں بولا جاتا ہے اور بعض ادیبوں اور شاعروں نے بھی استعمال کیا ہے، جبکہ یہ معیاری زبان نہیں، عوامی بول چال کی مثال ہے۔ حوالہ سرِدست پیش نہیں کرسکتا، البتہ فرہنگِ آصفیہ میں تکان اور تھکان دونوں موجود ہیں اور مولوی سید احمد دہلوی نے اس ضمن میں کوئی وضاحت نہیں کی جس کی اُن سے توقع تھی۔ فرہنگ آصفیہ کے مندرجات اس طرح ہیں:
تکان۔ (اردو): اسم مؤنث۔کسلمندی، تھکان، تھکاوٹ، ماندگی، اعضاشکنی، سُستی، آلکس، کاہلی، تکاسُل، ہچکولوں کا صدمہ۔ (آخری یکسر مختلف اور فارسی لفظ ’تکان‘ کے معانی میں شامل ہے: س ا ص)۔
تھکان۔ (ہندی): اسم مؤنث۔ماندگی ، کوفتگی، تکان۔
مولوی صاحب نے ایک ناگزیر وضاحت نہیں کی کہ فارسی میں بھی تکان موجود ہے، مگر فارسی لفظ تکان کے معانی یکسر مختلف ہیں اور فارسی میں اس کے معانی ہیں: جنبش، ارتعاش، لرزہ، لرزش، صدمہ، اضطراب، ہلانا، کُہنی مارنا وغیرہ )، جبکہ تھکاوٹ یا تھکن کو ’خستگی‘ کہتے ہیں۔
فارسی کی متعدد مستند لغات آنلائن دستیاب ہیں۔ لغت دہخُدا سے اقتباس پیشِ خدمت ہے:
معنی: تکان. ] ت َ [ (اِ) جنبش و حرکت، (یادداشت بخط مرحوم دہخدا). صدمہ و جنبش و لرزش و برجہیدگی از جای. (ناظم الاطباء). || ترس سخت ناگہانی. ترسی کہ از امر فجائی پیدا شود و دل بلرزاند. (یادداشت بخط مرحوم دہخدا). || لرزہ. (یادداشت ایضاً). رجوع بہ تکان دادن و تکان خوردن شود.
یہ معانی بہت آسان فہم ہیں۔ اب خستگی کے مفاہیم کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں جو وِکی پیڈیا نے متعدد فارسی لغات ودیگر کتب کی مدد سے پیش کیا ہے:
خستگی نوعی احساس نداشتن نیرو است]۱[ کہ باید از ضعف عضلانی تفکیک شود. خستگی برخلاف ضعف عضلانی معمولاً با استراحت رفع می شود.]۲[ خستگی می تواند خستگی جسمی ناشی از نبودن توان عضلانی یا خستگی ذہنی ناشی از فعالیت فکری طولانی باشد. خستگی واژہ ای عام تر از خواب آلودگی است. علل خستگی می تواند بیماری ہا (بیماری ہای خودایمنی، سرطان، کم خونی)، استرس، افسردگی، فیبرومیالژیا، سندرم خستگی مزمن، ایدز، بیماری کبدی، بیماری قلبی، بیماری لایم، پرواززدگی، بی خوابی و موارد دیگر باشند. (۳)
ان سب معانی کا خلاصہ یہی ہے کہ تھکن اور جسمانی کمزوری کو عام فارسی نیز طبّی زبان میں خستگی کہتے ہیں۔ توانائی کی کمی کے سبب اعصابی کمزوری ظاہر ہوتی ہے جو عموماً آرام سے دُور ہوجاتی ہے۔ یہ تھکن کسی اعصابی اہلیت کی کمی کے سبب جسمانی تھکن ہوسکتی ہے یا متواتر ذہنی ورزش یا محنت کے سبب، ذہنی تھکن بھی ہوسکتی ہے۔ اس کے اسباب کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ اس کے بعد ایک مرکب لفظ ’بے تکان‘ (یا بعض کے نزدیک بلا تکان) بھی ہے جس کے معانی ہیں، بلا تأمل، بغیر رُکے ہوئے، بلاتوقف، بے خوف وخطر، بے تحاشا، بہ آسانی اور بغیر تھکے ہوئے۔ اس کے استعمال میں بھی اکثر سہو ہوجاتا ہے۔
ہمارے یہاں روزمرّہ کا معمول ہے کہ تحریروتقریر میں ہونے والے لسانی مباحث میں عموماً تحقیق کا کشٹ نہیں اُٹھایا جاتا، بس یہ دیکھا کہا اور لکھا جاتا ہے کہ فُلاں نے یہ لکھا ہے۔ یہ کافی نہیں۔ ہمارے اہل قلم اور قارئین کرام کو بہرحال یہ سمجھنا چاہیے کہ بلاتحقیق کسی بھی لفظ کے کسی بھی معنیٰ میں استعمال سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایک بار پھر اپنا پُرانا قول دُہرانا پڑتا ہے کہ ہمارے اہل قلم پڑھتے کم، لکھتے زیادہ اور بولتے اُس سے بھی زیادہ ہیں۔
مجھے ’زباں فہمی‘ کے سلسلے میں سرقہ وتوارد اور چربہ وجعل سازی پر لکھے ہوئے ایک عرصہ گزرا۔ اپنے مضمون میں بعض دستیاب مواد سے بوجوہ صَرفِ نظر کرنا پڑا تھا تو بعض حوالے دستیاب نہ تھے۔ ان دنوں ایک ’بڑے صاحب‘ کی مدح سرائی کا سلسلہ زورشور سے جاری ہے جو اِسی زُمرے میں آتے ہیں۔
اردو کے بعض بہت بڑے ناموں کے متعلق تحقیق یا رَدّتحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ جعل ساز تھے، دوسروں کی معاشی احتیاج پورا کرتے ہوئے اُن سے بڑے بڑے تحقیقی، علمی وادبی کام کروانے کے بعد، اپنے نام سے شائع کروالیتے تھے ۔آج اُن میں شامل ایک بزرگ کی تعریف میں لوگوں کا بہت بڑا حلقہ رطب اللسان ہے، مگر یہ نہیں جانتا کہ ان کی بہت سی کتب میں چند ایک ہی اُن کے اپنے قلم سے نکلی ہیں، باقی دوسروں کی محنت اور تحقیق کا نتیجہ ہے۔ اگر کوئی غریب اپنی عارضی یا مستقل معاشی تنگی کے سبب ایسا کارنامہ انجام دیتا ہے تو ہمارے یہاں لوگ اسے بھی مختلف طریقوں سے نشانہ یا ہدفِ تنقیص بناتے ہیں (تنقید تو صحیح اور غلط، پختہ اور خام کو جُدا کرتی ہے)، مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ ایک باصلاحیت، ہنرمند، صاحب ِ علم وفضل شخص پر اِتنا بُرا وقت کیوں آپڑا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہمارے یہاں زباں فہمی تحقیق کا کا ترجمہ کے معانی جاتا ہے کے معنی ہوئے ا مجھے ا تو پھر کے سبب
پڑھیں:
شہباز شریف اور آصف علی زرداری کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
باوثوق ذرائع کے مطابق صدر اور وزیراعظم کی ملاقات میں پیپلز پارٹی کے بجٹ پر تحفظات زیر غور آئے، ملاقات میں پیپلز پارٹی نے سکھر حیدر آباد موٹروے، کراچی، حیدر آباد کے الگ ترقیاتی منصوبوں کا معاملہ بھی رکھا۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعظم اور صدر کے درمیان ہونے والی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق صدر اور وزیراعظم کی ملاقات میں پیپلز پارٹی کے بجٹ پر تحفظات زیر غور آئے، ملاقات میں پیپلز پارٹی نے سکھر حیدر آباد موٹروے، کراچی، حیدر آباد کے الگ ترقیاتی منصوبوں کا معاملہ بھی رکھا۔
ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی نے وفاقی پی ایس ڈی پی میں سندھ کو نظر انداز کرنے کے معاملے پر تحفظات سے بھی آگاہ کیا، وزیراعظم نے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرادی۔ باوثوق ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے ارکان نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران بجٹ میں ساتھ نہ دینے بارے تنبیہ بھی کی تھی، آج ہونے والی ملاقات میں تمام امور پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، پیپلز پارٹی نے بجٹ تیاری میں اعتماد میں نہ لینے پر بھی گلہ کیا۔