وفاقی کابینہ کا اجلاس؛ پاکستان کی سب سے بڑی مالیاتی اسکیم کی منظوری
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
سٹی 42 : وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس آج وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔
وزیراعظم نے آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی دورہءِ امریکہ کے دوران امریکہ میں مقیم پاکستانیوں سے خطاب کی تعریف کی۔ وزیرِاعظم نے امریکہ میں مقیم پاکستانی برادری سے خطاب میں فیلڈ مارشل کو پاکستان کی سرحدوں و مفادات کے دفاع کیلئے پختہ عزم کے اظہار پر خراجِ تحسین پیش کیا۔
ریپ کے مجرم کو 25 سال قید کی سزا
اجلاس میں وفاقی کابینہ نے اگلے مالی سال کے عوام دوست وفاقی بجٹ پر وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور ان کی ٹیم کو خراج تحسین پیش کیا۔ وزیراعظم نے اس سال حج بیت اللہ کے موقع پر شاندار انتظامات پر وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
اجلاس میں پاور سیکٹر کے گردشی قرضے کے خاتمے کے حوالے سے وفاقی کابینہ نے پاور سیکٹر میں مالیاتی استحکام کی بحالی کی جانب ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے پاکستان کی سب سے بڑی مالیاتی اسکیم کی منظوری دے دی۔ یہ اسکیم گردشی قرضے کے خاتمے کے لئے ملک کے توانائی کے شعبے کی اصلاحات میں ایک اہم قدم ہے، جس مقصد قومی بجٹ پر نیا مالی دباؤ ڈالے بغیر، اگلے 6 سالوں میں 1,275 بلین روپے کے گردشی قرضے کو ختم کرنا ہے۔
مخصوص نشستیں کیس؛ سپریم کورٹ آئینی بینچ کی سماعت کل تک ملتوی
اس اسکیم کے تحت پاور ہولڈنگ کمپنی کی 683 ارب روپےکی ری فنانسنگ کی جائے گی اور انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے بقایا جات کی ادائیگی بھی کی جائے گی۔ یہ فیصلہ حکومت پاکستان کے پائیدار ادارہ جاتی اصلاحات کے نفاذ ، مالیاتی بوجھ کو کم کرنے اور توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنے کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کی معیشت اور بجلی کے شعبے کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے، جس سے ملک کو مستحکم مستقبل کی طرف لے جانے میں مدد ملے گی۔
شہریوں میں خوشیاں بانٹتے ہیں، بے جا تنگ نہ کیا جائے، ٹولنٹن مارکیٹ والوں کی مریم نواز سے اپیل
وفاقی کابینہ نے وزارت انسانی حقوق کی سفارش پر کمال الدین ٹیپو کو کمیشن برائے پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز کا چیئرپرسن تعینات کرنے کی منظوری دے دی۔ وفاقی کابینہ نے نیشنل پاور پارکس مینجمنٹ کمپنی لمیٹیڈ کو روش پاور پلانٹ کے حصول کے تناظر میں مختلف خدمات کی خریداری کے لئے پاکستان پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2002 کے سیکشن 21 کے تحت استثنٰی دینے کی منظوری دے دی۔ اس کے علاوہ وفاقی کابینہ نے کابینہ کمیٹی برائے لیجسلیٹو کیسز کے 21 مئی 2025 کو ہوئے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کی توثیق کردی۔
عالمی برادری ایران اسرائیل جنگ بندی کیلئے فوری اقدامات کرے؛ وزیراعظم
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: وفاقی کابینہ نے پاکستان کی کی منظوری
پڑھیں:
عالمی مالیاتی خاندانوں کا بازار، میڈیا اور جامعات پر کنٹرول
اسلام ٹائمز: یہ صرف مالیاتی اداروں یا میڈیا کی طاقت کا معاملہ نہیں ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ چند خاندانوں نے سرمائے، علم اور ابلاغ کے تمام اہم ذرائع پر ایسی گرفت قائم کر رکھی ہے کہ دنیا کے بیشتر لوگ ان کی بنائی ہوئی پالیسیوں کو اپنی مرضی سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نظر نہ آنے والا جال ہے جہاں مارکیٹس کو کنٹرول کرنے سے زیادہ خطرناک کام انسانوں کے شعور کو کنٹرول کرنا ہے۔ یہی آج کے عالمی مالیاتی نیٹ ورکس کی اصل حکمت عملی ہے۔ یہ ایک ایسا پیچیدہ منظر نامہ ہے جہاں ہر عمل ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، اور بظاہر آزاد نظر آنے والے ادارے درحقیقت ایک ہی مقصد کے تحت کام کر رہے ہیں۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ (سید رحمان شاہ)
جب بھی ہم عالمی معیشت یا سرمایہ داری پر بات کرتے ہیں، ہماری سوچ اکثر بڑے اداروں، معروف کمپنیوں اور سٹاک ایکسچینج تک محدود رہتی ہے۔ لیکن ان دیکھے پردوں کے پیچھے کچھ ایسی خاندانی قوتیں موجود ہیں جو نہ صرف مارکیٹس کو کنٹرول کرتی ہیں بلکہ عالمی رائے عامہ، تعلیمی شعور اور پالیسی سازی کو بھی اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان خاندانوں میں راتھشائلڈ اور واربرگ خاندان سر فہرست ہیں، جن کے زیر اثر ایسے ادارے اور نیٹ ورکس کام کر رہے ہیں جن کے نام ہم روز سنتے ہیں، مگر ان کے پس منظر سے ناواقف ہیں۔ یہ ایک ایسا پیچیدہ جال ہے جس میں سرمائے، علم، اور ابلاغ کو ایک ہی قوت کے تحت رکھا گیا ہے۔ یہ خاندان براہِ راست اور بالواسطہ طریقوں سے عالمی معیشت پر اپنی گرفت مضبوط کیے ہوئے ہیں۔
انویسٹمنٹ کنٹرول کے ذریعے
BlackRock، Vanguard Group، اور State Street جیسے بڑے سرمایہ کاری ادارے، جو مجموعی طور پر $10 ٹریلین سے زیادہ کے اثاثوں کا انتظام کرتے ہیں، دنیا کی تقریباً تمام بڑی کمپنیوں (Apple، Microsoft، Amazon، Pfizer، Coca-Cola) میں بڑے شیئر ہولڈرز ہیں۔ ان اداروں کی ملکیت یا "beneficial ownership" کا ڈھانچہ پیچیدہ اور اکثر خفیہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، Vanguard کی ملکیت ایک "ٹرسٹ اسٹرکچر" کے ذریعے چھپائی گئی ہے، جہاں مالیاتی خاندانوں کا اثر براہِ راست نہ ہونے کے باوجود ان کے گہرے روابط اور اثر و رسوخ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ڈالر اور سونے پر اثر
1800ء کی دہائی سے راتھشائلڈ خاندان نے عالمی سونے کے معیار (London Gold Fix) کو قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آج بھی ڈالر کی قدر کو کنٹرول کرنے والے اداروں جیسے IMF، World Bank، اور Federal Reserve میں ان خاندانوں کا اثر و رسوخ موجود ہے۔ یہ ادارے عالمی معیشت کی نبض تھامے ہوئے ہیں اور ان کے فیصلوں پر ان خاندانوں کے نمائندوں کی چھاپ واضح نظر آتی ہے۔
مالیاتی اداروں کے ذریعے دنیا کو قرض دینا
IMF اور World Bank جیسے ادارے ترقی پذیر ممالک کو قرض دیتے ہیں لیکن ان کے ساتھ "Structural Adjustment Programs" کی شرائط مسلط کرتے ہیں۔ ان شرائط میں اکثر نجکاری، سرکاری سبسڈی کا خاتمہ، اور عالمی سرمایہ کاروں کے لیے ملکی منڈیوں کو کھولنا شامل ہوتا ہے۔ ان اداروں میں فیصلہ سازی پر امریکہ کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے اور امریکہ میں Federal Reserve کے پس پردہ واربرگ خاندان کا تاریخی کردار رہا ہے۔ یوں، قرض کی صورت میں مالیاتی امداد کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی معاشی پالیسیوں کا کنٹرول بھی ان کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔
میڈیا اور تعلیم پر گرفت،فہم و ادراک کی تشکیل
مالیاتی خاندانوں نے صرف معیشت ہی نہیں، بلکہ رائے عامہ کی تشکیل کو بھی اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے۔ Bloomberg، Reuters، The Economist، اور Financial Times جیسے بڑے میڈیا ہاؤسز میں یا تو ان خاندانوں کی براہِ راست شراکت ہے یا ان کے مشیران کا گہرا اثر موجود ہے۔ مثال کے طور پر، The Economist کے ایڈیٹوریل بورڈ میں ماضی میں راتھشائلڈ خاندان کا اثر ثابت شدہ ہے۔ یہ ادارے خبروں اور معلومات کی ترسیل کے ذریعے رائے عامہ کو ایک مخصوص سمت دیتے ہیں۔
خبروں کی زبان اور زاویہ
اگر کوئی ترقی پذیر ملک مغربی مالیاتی ایجنڈے سے ہٹ کر اپنی پالیسیاں بناتا ہے تو یہی میڈیا اسے "پاپولسٹ، کرپٹ یا آمر" جیسے القابات سے نوازتا ہے۔ اس کے برعکس، جو حکومتیں ان مالیاتی اداروں کے ایجنڈے کے مطابق کام کرتی ہیں، انہیں "اصلاح پسند، معتدل اور جمہوری" قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح خبروں کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں ایک مخصوص تصویر بنائی جاتی ہے جو ان طاقتور خاندانوں کے مفادات کی ترجمانی کرتی ہے۔
جامعات: ذہن سازی کے مراکز
Yale، Harvard، Oxford، اور Cambridge جیسی دنیا کی بہترین جامعات وہ مراکز ہیں جہاں عالمی ماہرین معاشیات، بینکار اور پالیسی ساز تیار ہوتے ہیں۔ ان اداروں میں ہونے والی تحقیق اور ریسرچ پروگرامز کو اکثر انہی خاندانوں کی فاؤنڈیشنز سے فنڈنگ ملتی ہے۔ یہ تھنک ٹینکس جیسے Council on Foreign Relations (CFR) اور Chatham House براہِ راست عالمی پالیسی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان اداروں کے بانی یا فنڈنگ ذرائع بھی انہی سرمایہ دار خاندانوں سے منسلک ہوتے ہیں۔ یوں، علم اور فکری رہنمائی کے ذریعے ایک ایسی سوچ پروان چڑھائی جاتی ہے جو ان مالیاتی قوتوں کے مقاصد کو پورا کرتی ہے
ایک نظر نہ آنے والا جال
یہ صرف مالیاتی اداروں یا میڈیا کی طاقت کا معاملہ نہیں ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ چند خاندانوں نے سرمائے، علم اور ابلاغ کے تمام اہم ذرائع پر ایسی گرفت قائم کر رکھی ہے کہ دنیا کے بیشتر لوگ ان کی بنائی ہوئی پالیسیوں کو اپنی مرضی سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نظر نہ آنے والا جال ہے جہاں مارکیٹس کو کنٹرول کرنے سے زیادہ خطرناک کام انسانوں کے شعور کو کنٹرول کرنا ہے۔ یہی آج کے عالمی مالیاتی نیٹ ورکس کی اصل حکمت عملی ہے۔ یہ ایک ایسا پیچیدہ منظر نامہ ہے جہاں ہر عمل ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، اور بظاہر آزاد نظر آنے والے ادارے درحقیقت ایک ہی مقصد کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی ہماری دنیا آزادانہ فیصلوں پر چل رہی ہے، یا یہ ایک طے شدہ ایجنڈے کا حصہ ہے؟