24 قیراط سونے میں لپٹا دنیا کا مہنگا ترین کی بورڈ
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ٹیکنالوجی اور گیمنگ کے دیوانوں کی دنیا میں روزانہ نئی جدتیں سامنے آتی ہیں، مگر جب کسی عام چیز کو لگژری کا رنگ دے دیا جائے، تو وہ دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔
ایسا ہی کچھ ہوا جب معروف ہارڈویئر کمپنی Adata نے اپنی گیمنگ مصنوعات کی لائن XPG کے تحت ایک ایسا کی بورڈ متعارف کروایا جس کی قیمت عام گیمنگ کی بورڈز سے ہزاروں گنا زیادہ ہے۔ یہ کی بورڈ نہ صرف مہنگا ہے بلکہ نایاب بھی، کیونکہ اسے صرف چند افراد کے لیے تیار کیا گیا ہے اور وہ بھی صرف وی آئی پی طبقے کے لیے۔
اس خاص کی بورڈ کا نام ہے Adata Golden Summoner، جو دراصل XPG Summoner گیمنگ کی بورڈ کا خصوصی ایڈیشن ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس ماڈل کو عام دھاتوں یا پلاسٹک سے نہیں، بلکہ 24 کیرٹ خالص سونے سے بنایا گیا ہے۔ سونے کی یہ تہہ کی بورڈ کی پوری سطح پر چڑھائی گئی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف اس کا وزن عام کی بورڈز کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہو گیا ہے بلکہ قیمت بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے۔
اس شاندار اور منفرد کی بورڈ کی مارکیٹ ویلیو تقریباً 10,000 امریکی ڈالرز رکھی گئی ہے، جو پاکستانی روپے میں کروڑوں بنتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسے بنانے میں کمپنی کا اصل خرچ 2,500 ڈالر کے قریب آیا، مگر اسے ایک لگژری آئٹم کے طور پر مارکیٹ کیا گیا ہے، جہاں قیمت کا تعین کارکردگی کے بجائے انفرادیت اور برانڈنگ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
Adata نے واضح کیا ہے کہ Golden Summoner کی صرف 6 یونٹس تیار کی گئی ہیں، جو کہ عام صارفین کو فروخت کے لیے دستیاب نہیں ہیں بلکہ یہ خاص شخصیات، برانڈ ایمبیسیڈرز یا سرمایہ کاروں کو بطور تحفہ پیش کیے گئے ہیں۔ یہ یونٹس نہ صرف نایاب ہیں بلکہ ہر یونٹ کی اپنی ایک منفرد شناخت بھی ہے، جو اسے مزید قیمتی بناتی ہے۔
اگر بات کی جائے اس کی ٹیکنیکل خصوصیات کی تو وہ XPG Summoner سے خاص طور پر مختلف نہیں۔ اس میں 104 کیز شامل ہیں، جن میں مکمل RGB بیک لائٹنگ، میڈیا کنٹرولز اور ایک اسکرول ایبل والیوم رولر بھی شامل ہے۔ گیمنگ کے شوقین افراد کے لیے یہ تمام خصوصیات ایک معیاری تجربہ فراہم کرتی ہیں، مگر چونکہ یہ کی بورڈ خاص سونے سے تیار کیا گیا ہے، اس لیے یہ عملی استعمال سے زیادہ نمائش کی چیز معلوم ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو یہ کی بورڈ استعمال کرنے کا موقع ملا، ان کی جانب سے کچھ حیرت انگیز ردِعمل سامنے آئے۔ کئی افراد نے شکایت کی کہ سونے کی سطح ٹھنڈی ہونے کی وجہ سے ہاتھوں کو سن کر دیتی ہے، خاص طور پر ایسے ماحول میں جہاں درجہ حرارت کم ہو۔ یہ صورتحال صارف کے لیے بسا اوقات غیر آرام دہ بھی بن سکتی ہے۔
ایک اور مسئلہ جس کا ذکر کیا گیا وہ کیز پر موجود علامات اور حروف کی ناقص وضاحت تھی۔ سونے کی چمکتی سطح پر جو لیبلز یا نمبر لکھے گئے ہیں وہ زیادہ واضح نہیں، جس سے ٹائپنگ یا گیمنگ کے دوران دشواری پیش آتی ہے۔ اس کی بورڈ کا ظاہری حسن تو بلاشبہ لاجواب ہے، مگر عملی استعمال میں یہ کچھ تکنیکی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔
یہاں ایک سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ اگر کوئی کی بورڈ 10 ہزار ڈالر میں فروخت ہو رہا ہے اور اس میں ایسے بنیادی مسائل موجود ہوں، تو آخر کون لوگ ہیں جو اسے خریدنے یا وصول کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ اس کا جواب شاید سادگی سے یہی ہو سکتا ہے کہ یہ کی بورڈ گیمنگ یا ورک کے لیے نہیں بلکہ حیثیت اور اسٹیٹس کی علامت ہے۔ جس طرح دنیا کے امیر افراد سونے کی گھڑیاں یا لگژری گاڑیاں رکھتے ہیں، بالکل ویسے ہی یہ کی بورڈ بھی ایک اسٹائل اسٹیٹمنٹ ہے۔
Adata کی یہ حکمت عملی دراصل برانڈنگ کی دنیا میں ایک زبردست مثال سمجھی جا سکتی ہے، جہاں کمپنی نے ایک عام الیکٹرانک پروڈکٹ کو لگژری پراڈکٹ میں تبدیل کرکے مارکیٹنگ اور توجہ حاصل کرنے کا ایک نیا طریقہ اپنایا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو Golden Summoner کی بورڈ ایک ایسا شاہ کار ہے جو تکنیکی معیار اور فیشن کا امتزاج پیش کرتا ہے۔ یہ روزمرہ استعمال کے لیے نہیں بلکہ منفرد اور نمایاں رہنے کے خواہشمند افراد کے لیے ہے۔ یہ وہ کی بورڈ ہے جو نہ صرف ہاتھوں سے بلکہ نظر سے بھی بات کرتا ہے اور شاید یہی اس کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: یہ کی بورڈ ہیں بلکہ کیا گیا سونے کی کے لیے گیا ہے
پڑھیں:
بارشیں اورسیلاب: قدرتی آفات میں تیزی
گزشتہ دہائی میں دنیا بھر میں شدید بارشوں اور تباہ کن سیلابوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، وہ مظاہرجو کبھی صدیوں میں ایک بار ہوتے تھے، اب ہر چند سال بعد دہرائے جا رہے ہیں۔
کیا یہ قدرت کا معمول ہے یا موسمیاتی تبدیلی کی ہولناک حقیقت؟ پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت، یورپ، کینیڈا اور افریقہ،کہیں زمین دھنس رہی ہے تو کہیں پانی سب کچھ بہا لے جا رہا ہے۔ کیا ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ’’ قدرتی آفت‘‘ محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک مسلسل خطرہ بن چکی ہے؟عالمی سطح پر بارشوں اور سیلابوں میں ہونے والے اضافے کے بارے میںاقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ’’ اسٹیٹ آف دی کلائمیٹ 2024 کے مطابق 2023 میں دنیا بھر میں بارش کے ریکارڈ ٹوٹے۔
ورلڈ بینک کے مطابق 2020 سے 2024 کے درمیان جنوبی ایشیا میں اوسطاً ہر سال پانچ بڑے سیلاب آ چکے ہیں، جن کی شدت اور تباہی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔بین ا لحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی چھٹی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج نے عالمی درجہ حرارت کو 1.2°C بڑھا دیا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ ہوا کے نظام، بارش کے پیٹرن اور سمندری بخارات کو متاثر کر رہا ہے، جس سے شدید بارشوں کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق گرم فضا میں نمی جذب کرنے کی صلاحیت بڑھتی ہے، جس کے نتیجے میں تھوڑی دیر میں انتہائی شدت کی بارش ہو سکتی ہے جسے ’’ کلائوڈ برسٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
یہ مظاہر نہ صرف ہنگامی صورتحال پیدا کرتے ہیں بلکہ زراعت، صحت اور پانی کی فراہمی جیسے شعبے بھی اس سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ قدرتی آفات کا سامنا دنیا بھرکو ہے، مگر ان کا بوجھ سب پر برابر نہیں پڑتا۔ افریقی ممالک، لاطینی امریکا، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک ان آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، حالانکہ ان کا کاربن اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
رواں سال بھی دنیا کے لیے موسمیاتی آفات کا ایک اور درد ناک باب ثابت ہو رہا ہے۔ شدید بارشیں، تباہ کن سیلاب،گلیشیئر پھٹنے کے واقعات اور زمین کھسکنے جیسے مظاہر اب محض علاقائی خبریں نہیں رہیں، بلکہ ایک عالمی چیلنج بن چکے ہیں۔ ایشیا ئی ممالک سے لے کر افریقا، امریکا سے چین تک، قدرتی آفات نے ہزاروں جانیں لے لی ہیں، لاکھوں افراد کو بے گھر کردیا ہے، اور اربوں ڈالرکے معاشی نقصانات کا سبب بنی ہیں۔
ان واقعات نے ایک بار پھر موسمیاتی تبدیلی کے عالمی خطرے کی حقیقت کو اجاگرکردیا ہے۔2025 کا مون سون پاکستان، بھارت اور نیپال کے لیے بھی مہلک ثابت ہوا۔ پاکستان میں کلاؤڈ برسٹ، گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ اور تیز بارشوں نے 293 جانیں لے لیں اور 600 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا ، بلوچستان اور پنجاب کے علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
کئی علاقوں میں ایمرجنسی نافذ کی گئی، جب کہ فصلیں، پل اور سڑکیں مکمل تباہ ہو گئیں۔ قدرتی آفات کی شدت اپنی جگہ، مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں شہری منصوبہ بندی اور واٹر مینجمنٹ کی کمزوری اس تباہی کو دوچند کر دیتی ہے۔کراچی میں نالوں پر تجاوزات، لاہور میں سیوریج نظام کی تباہی، اور شمالی علاقوں میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی وہ عوامل ہیں جو بارش کو سیلاب میں بدل دیتے ہیں۔
ڈھاکا، جکارتہ اور منیلا جیسے شہروں میں بھی یہی صورتحال ہے جہاں آبادی کا دباؤ، ناقص ڈرینج سسٹم اور غیر رسمی آبادیاں سیلابی پانی کو تباہی میں بدل دیتی ہیں۔ لاس اینڈ ڈیمج فنڈ جیسے عالمی مالی وعدے تاحال عمل میں نہیں آ سکے، جس کی وجہ سے متاثرہ ممالک کو ریلیف اور بحالی کے لیے قرضوں پر انحصارکرنا پڑتا ہے۔
ماحولیاتی انصاف کی غیر موجودگی اس عالمی مسئلے کو ایک اخلاقی بحران میں بدل رہی ہے۔ شدید بارشیں اور مہلک سیلاب اب محض ’’ قدرتی آفت‘‘ نہیں رہے، بلکہ یہ موسمیاتی بحران کی واضح علامت ہیں۔ یہ صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ اقتصادی، سماجی اور انسانی بحران ہے۔
پاکستان جیسے ملک کے لیے، جہاں پہلے ہی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، موسمیاتی تبدیلی کسی خاموش طوفان سے کم نہیں۔ سوال صرف یہ نہیں کہ اگلا سیلاب کب آئے گا، بلکہ یہ ہے کہ ہم اس کے لیے کتنا تیار ہیں؟ اور کیا دنیا خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی انصاف کے لیے اپنی اخلاقی ذمے داری ادا کریں گے؟
2025 کی ان آفات نے ہمیں خبردار کر دیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب مستقبل کی بات نہیں بلکہ حال کا المیہ ہے، اگر عالمی برادری، ترقی یافتہ ممالک، اور مقامی حکومتیں فوری اور مشترکہ اقدامات نہیں کرتیں تو آنے والے برس مزید خونی اور تباہ کن ثابت ہوں۔