Jasarat News:
2025-09-18@23:29:36 GMT

24 قیراط سونے میں لپٹا دنیا کا مہنگا ترین کی بورڈ

اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT

24 قیراط سونے میں لپٹا دنیا کا مہنگا ترین کی بورڈ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ٹیکنالوجی اور گیمنگ کے دیوانوں کی دنیا میں روزانہ نئی جدتیں سامنے آتی ہیں، مگر جب کسی عام چیز کو لگژری کا رنگ دے دیا جائے، تو وہ دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔

ایسا ہی کچھ ہوا جب معروف ہارڈویئر کمپنی Adata نے اپنی گیمنگ مصنوعات کی لائن XPG کے تحت ایک ایسا کی بورڈ متعارف کروایا جس کی قیمت عام گیمنگ کی بورڈز سے ہزاروں گنا زیادہ ہے۔ یہ کی بورڈ نہ صرف مہنگا ہے بلکہ نایاب بھی، کیونکہ اسے صرف چند افراد کے لیے تیار کیا گیا ہے اور وہ بھی صرف وی آئی پی طبقے کے لیے۔

اس خاص کی بورڈ کا نام ہے Adata Golden Summoner، جو دراصل XPG Summoner گیمنگ کی بورڈ کا خصوصی ایڈیشن ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس ماڈل کو عام دھاتوں یا پلاسٹک سے نہیں، بلکہ 24 کیرٹ خالص سونے سے بنایا گیا ہے۔ سونے کی یہ تہہ کی بورڈ کی پوری سطح پر چڑھائی گئی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف اس کا وزن عام کی بورڈز کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہو گیا ہے بلکہ قیمت بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے۔

اس شاندار اور منفرد کی بورڈ کی مارکیٹ ویلیو تقریباً 10,000 امریکی ڈالرز رکھی گئی ہے، جو پاکستانی روپے میں کروڑوں بنتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسے بنانے میں کمپنی کا اصل خرچ 2,500 ڈالر کے قریب آیا، مگر اسے ایک لگژری آئٹم کے طور پر مارکیٹ کیا گیا ہے، جہاں قیمت کا تعین کارکردگی کے بجائے انفرادیت اور برانڈنگ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

Adata نے واضح کیا ہے کہ Golden Summoner کی صرف 6 یونٹس تیار کی گئی ہیں، جو کہ عام صارفین کو فروخت کے لیے دستیاب نہیں ہیں بلکہ یہ خاص شخصیات، برانڈ ایمبیسیڈرز یا سرمایہ کاروں کو بطور تحفہ پیش کیے گئے ہیں۔ یہ یونٹس نہ صرف نایاب ہیں بلکہ ہر یونٹ کی اپنی ایک منفرد شناخت بھی ہے، جو اسے مزید قیمتی بناتی ہے۔

اگر بات کی جائے اس کی ٹیکنیکل خصوصیات کی تو وہ XPG Summoner سے خاص طور پر مختلف نہیں۔ اس میں 104 کیز شامل ہیں، جن میں مکمل RGB بیک لائٹنگ، میڈیا کنٹرولز اور ایک اسکرول ایبل والیوم رولر بھی شامل ہے۔ گیمنگ کے شوقین افراد کے لیے یہ تمام خصوصیات ایک معیاری تجربہ فراہم کرتی ہیں، مگر چونکہ یہ کی بورڈ خاص سونے سے تیار کیا گیا ہے، اس لیے یہ عملی استعمال سے زیادہ نمائش کی چیز معلوم ہوتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو یہ کی بورڈ استعمال کرنے کا موقع ملا، ان کی جانب سے کچھ حیرت انگیز ردِعمل سامنے آئے۔ کئی افراد نے شکایت کی کہ سونے کی سطح ٹھنڈی ہونے کی وجہ سے ہاتھوں کو سن کر دیتی ہے، خاص طور پر ایسے ماحول میں جہاں درجہ حرارت کم ہو۔ یہ صورتحال صارف کے لیے بسا اوقات غیر آرام دہ بھی بن سکتی ہے۔

ایک اور مسئلہ جس کا ذکر کیا گیا وہ کیز پر موجود علامات اور حروف کی ناقص وضاحت تھی۔ سونے کی چمکتی سطح پر جو لیبلز یا نمبر لکھے گئے ہیں وہ زیادہ واضح نہیں، جس سے ٹائپنگ یا گیمنگ کے دوران دشواری پیش آتی ہے۔ اس کی بورڈ کا ظاہری حسن تو بلاشبہ لاجواب ہے، مگر عملی استعمال میں یہ کچھ تکنیکی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔

یہاں ایک سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ اگر کوئی کی بورڈ 10 ہزار ڈالر میں فروخت ہو رہا ہے اور اس میں ایسے بنیادی مسائل موجود ہوں، تو آخر کون لوگ ہیں جو اسے خریدنے یا وصول کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ اس کا جواب شاید سادگی سے یہی ہو سکتا ہے کہ یہ کی بورڈ گیمنگ یا ورک کے لیے نہیں بلکہ حیثیت اور اسٹیٹس کی علامت ہے۔ جس طرح دنیا کے امیر افراد سونے کی گھڑیاں یا لگژری گاڑیاں رکھتے ہیں، بالکل ویسے ہی یہ کی بورڈ بھی ایک اسٹائل اسٹیٹمنٹ ہے۔

Adata کی یہ حکمت عملی دراصل برانڈنگ کی دنیا میں ایک زبردست مثال سمجھی جا سکتی ہے، جہاں کمپنی نے ایک عام الیکٹرانک پروڈکٹ کو لگژری پراڈکٹ میں تبدیل کرکے مارکیٹنگ اور توجہ حاصل کرنے کا ایک نیا طریقہ اپنایا ہے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو Golden Summoner کی بورڈ ایک ایسا شاہ کار ہے جو تکنیکی معیار اور فیشن کا امتزاج پیش کرتا ہے۔ یہ روزمرہ استعمال کے لیے نہیں بلکہ منفرد اور نمایاں رہنے کے خواہشمند افراد کے لیے ہے۔ یہ وہ کی بورڈ ہے جو نہ صرف ہاتھوں سے بلکہ نظر سے بھی بات کرتا ہے اور شاید یہی اس کی سب سے بڑی طاقت ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: یہ کی بورڈ ہیں بلکہ کیا گیا سونے کی کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

کرکٹ کی تاریخ میں ایک نہایت منفرد اور افسوسناک لمحہ اس وقت سامنے آیا جب ایشیا کپ کے ایک میچ کے بعد بھارتی کھلاڑیوں نے روایت سے ہٹ کر پاکستانی کھلاڑیوں سے مصافحہ کرنے سے گریز کیا۔ یہ واقعہ اس کھیل کی اصل روح پر ایک کاری ضرب ہے ، کیونکہ کرکٹ کو ہمیشہ "جنٹل مینز گیم” کہا جاتا رہا ہے ، جہاں نہ صرف کھیل کے اصول بلکہ باہمی احترام اور تعلقات کی نزاکت بھی اہم سمجھی جاتی ہے ۔ لیکن بھارت کے کھلاڑیوں کا یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتہا پسندی کی لہر نے وہاں کھیل کے میدانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ یہ محض ایک لمحاتی رویہ نہیں تھا بلکہ ایک سوچ اور بیانیہ کی عکاسی تھی جسے بھارتی میڈیا اور سیاستدان بڑی شدت کے ساتھ پروان چڑھا رہے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ ہمیشہ سے محض کھیل نہیں بلکہ ایک بڑے اعصابی معرکے کے طور پر دیکھی جاتی ہے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کا جوش و خروش اپنی جگہ، لیکن کھیل کے بعد کھلاڑیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ اور خوشگوار ملاقات ہمیشہ ہی ایک مثبت پیغام دیتی رہی ہے ۔ چاہے ماضی میں کتنے ہی کشیدہ حالات کیوں نہ رہے ہوں، کرکٹ نے دونوں ملکوں کے عوام کو قریب لانے کا ایک ذریعہ فراہم کیا ہے ۔ لیکن حالیہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں کھیل کی روایات بھی نفرت کی سیاست کے سامنے دم توڑ رہی ہیں۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے پہلے ہی بھارتی میڈیا نے ایک عجیب ہنگامہ برپا کیا۔ "گودی میڈیا”کہلانے والے بھارتی چینلز نے یہ بحث چھیڑ دی کہ بھارت کو پاکستان سے کھیلنا ہی کیوں چاہیے ؟ گویا کھیل کی دنیا میں بھی تعلقات کو دشمنی اور سیاست کی عینک سے دیکھنے کی عادت بن گئی ہے ۔ بھارتی میڈیا کا یہ کردار نہ صرف کھیل کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ بھارتی عوام کے ذہنوں میں بھی نفرت اور دوریاں بڑھا رہا ہے ۔ کرکٹ جیسے کھیل کو جنگ کا متبادل بنانے کی کوشش دراصل ایک خطرناک رجحان ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ کھیل ایک ایسا ذریعہ ہے جو دشمنی کے بادل چھانٹ کر امن کا پیغام دیتا ہے ، جب کہ جنگ تباہی اور بربادی لاتی ہے ۔ کھیل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کو قریب سے جان سکیں، تعلقات میں نرمی پیدا ہو اور اعتماد کی فضا قائم ہو۔ لیکن بھارت کی موجودہ انتہا پسندانہ روش نے اس فرق کو مٹا کر کھیل کو بھی نفرت کا اکھاڑا بنانے کی کوشش کی ہے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کی تاریخ شاندار لمحوں سے بھری ہوئی ہے ۔ 1987ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان آئی تو جنرل ضیاء الحق نے "کرکٹ ڈپلومیسی” کے تحت راجیو گاندھی سے ملاقات کی، جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں وقتی بہتری پیدا کی۔ اسی طرح 2004ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو لاہور، کراچی اور راولپنڈی کے عوام نے بھارتی کھلاڑیوں کو بے مثال محبت دی۔ حتیٰ کہ شائقین نے بھارتی کھلاڑیوں کے لیے تالیاں بجائیں، ان کی کارکردگی کو سراہا اور دنیا کو دکھایا کہ کھیل کس طرح دشمنیوں کو مٹا سکتا ہے ۔ لیکن آج کا بھارت اپنی اسی تاریخ کو بھلا بیٹھا ہے اور کھیل کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا رہا ہے ۔
اصل مسئلہ بھارت کی اندرونی سیاست میں پنہاں ہے ۔ بھارتی حکمران جماعت نے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان دشمنی کو ایک بیانیہ بنا لیا ہے ۔ انتخابی مہمات ہوں یا روزمرہ کی سیاست، پاکستان کے خلاف زہر اگلنا بھارتی رہنماؤں کے لیے ایک آسان ہتھیار ہے ۔ اس بیانیے کو بھارتی میڈیا نے مزید ہوا دی ہے ۔ ہر میچ کو ایک جنگ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ہر پاکستانی کھلاڑی کو ایک دشمن کے طور پر دکھایا جاتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام کے ذہنوں میں یہ نفرت اس حد تک رچ بس گئی ہے کہ کھیل کے بعد ایک مصافحہ بھی انہیں گوارا نہیں ہوتا۔یہ رویہ صرف پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ہی نقصان نہیں پہنچا رہا بلکہ بھارت کے اپنے کھیل کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں کھیل کو امن اور دوستی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ، لیکن بھارتی کھلاڑیوں کا یہ طرزِ عمل دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ بھارت کھیل کو بھی اپنی انتہا پسندی کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر اس سے بھارت کی شبیہ متاثر ہو رہی ہے ، کیونکہ کرکٹ کے شائقین دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، وہ کھیل کے اندر دوستی اور عزت کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔
پاکستانی کھلاڑیوں نے ہمیشہ اپنی طرف سے کھیل کی اقدار کا احترام کیا ہے ۔ چاہے جیت ہو یا ہار، انہوں نے بھارتی کھلاڑیوں کے ساتھ مثبت رویہ اپنایا۔ لیکن بھارت کی جانب سے یہ سرد مہری اور غیر روایتی رویہ اس بات کا اظہار ہے کہ کھیل کو نفرت سے آلودہ کر دیا گیا ہے ۔ اس کا نقصان صرف پاکستان کو نہیں بلکہ خود بھارت کو بھی ہوگا، کیونکہ جب کھیل سے رواداری ختم ہو جاتی ہے تو اس کے بعد کھیل کا اصل حسن باقی نہیں رہتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے ؟ سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ کھیل کے میدانوں کو سیاست اور نفرت سے پاک رکھا جائے ۔ کرکٹ بورڈز کو چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کو کھیل کی اصل روح یعنی باہمی احترام اور رواداری کی تربیت دیں۔ بین الاقوامی ادارے مثلاً آئی سی سی اور اے سی سی اپنی ذمہ داری ادا کریں اور کھیل میں غیر اخلاقی رویوں کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ میڈیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کھیل کو سیاست کا میدان نہ بنایا جائے بلکہ اسے امن اور بھائی چارے کا ذریعہ بننے دیا جائے ۔ پاکستان اپنی کرکٹ ڈپلومیسی کو مزید فعال کرے اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ کھیل کو سیاست سے بالاتر سمجھنا چاہیے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کو یہ شعور دینا ہوگا کہ کھیل دشمنی نہیں بلکہ تعلقات بہتر بنانے کا ذریعہ ہے ۔آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ کھیل دلوں کو جوڑتا ہے ، جب کہ جنگ دلوں کو توڑتی ہے ۔ اگر بھارت واقعی ایک بڑی قوم بننا چاہتا ہے تو اسے کھیل کے میدانوں میں بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کے ساتھ کھیلنا کوئی کمزوری نہیں بلکہ ایک موقع ہے کہ دونوں قومیں قریب آئیں اور نفرت کی دیواریں توڑیں۔ کرکٹ کو نفرت کا نہیں بلکہ محبت اور امن کا ذریعہ بنانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹرکوسرکاری گاڑی میں سواریاں بٹھانا مہنگا پڑ گیا
  • ملک بھر میں سونے کی فی تولہ قیمت میں 2400 روپے کمی
  • اسرائیل امریکا کا نہیں بلکہ امریکا اسرائیل کا پراڈکٹ ہے: خواجہ آصف
  • امریکی ٹینس اسٹار کو چینی پکوانوں پر تبصرہ مہنگا پڑ گیا
  • انقلاب – مشن نور
  • پنجاب حکومت نے ہڑپہ میوزیم میں چار نئی گیلریوں کا افتتاح کر دیا
  • ملک میں سونا ہزاروں روپے مہنگا ہوگیا
  • پٹرول کی قیمت برقرار، ڈیزل 2 روپے 78 پیسے فی لٹر مہنگا
  • بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی
  •  اوزون کی تہہ کے تحفظ کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے