ایران، عراق سے زائرین کی واپسی کیلئے دفتر خارجہ دیگر اداروں سے رابطہ رہا، اسحاق ڈار
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
اسلام آباد میں ایک اجلاس میں وزیر خارجہ نے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا اور ہدایت دی کہ دفتر خارجہ، دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر پاکستانی شہریوں کی وطن واپسی کے عمل کو تیز کرے اور جو لوگ اب بھی ایران اور عراق میں موجود ہیں، ان کو ہر ممکن معاونت فراہم کرے۔ اسلام ٹائمز۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ، اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایران اور عراق سے زائرین کی واپسی کو تیز کرنے کے لیے دفتر خارجہ دیگر اداروں سے رابطے میں رہے۔ پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے آج ایران اور عراق میں پھنسے پاکستانی شہریوں کی ملک واپسی کے عمل کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس کی صدارت کی، اجلاس میں خارجہ سیکرٹری اور دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ اجلاس میں زائرین کی وطن واپسی سے متعلق اب تک کی پیش رفت اور آنے والے دنوں کے منصوبے کے بارے میں گفتگو ہوئی۔
اس موقع پر وزیر خارجہ نے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا اور ہدایت دی کہ دفتر خارجہ، دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر پاکستانی شہریوں کی وطن واپسی کے عمل کو تیز کرے اور جو لوگ اب بھی ایران اور عراق میں موجود ہیں، ان کو ہر ممکن معاونت فراہم کرے۔ انہوں نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کو ہدایت دی کہ وہ وزارت خارجہ کے ساتھ قریبی رابطے میں رہ کر پاکستانیوں کے انخلا کے عمل کو ہموار اور مؤثر بنائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایران اور عراق دفتر خارجہ کے عمل
پڑھیں:
قطر پر حملہ؛ مسلم ملکوں کو بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے،اسحاق ڈار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے قطر پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم ملکوں کو بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
وزیراعظم، وزرا اور عسکری قیادت کی دوحا آمد کے پس منظر میں نائبِ وزیراعظم و وزیرِ خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے واضح اور مؤقف سے بھرپور پیغام دیا ہے کہ مسلم اُمّت کے سامنے اب محض اظہارِ غم و غصّہ کافی نہیں رہا۔ انہوں نے زور دیا کہ قطر پر یہ حملہ محض ایک ملک کی حدود کی خلاف ورزی نہیں، بلکہ ایک بین الاقوامی اصول، خودمختاری اور امن ثالثی کے عمل پر کھلا وار ہے۔
اسحاق ڈار نے اپنے انٹرویو میں واضح کیا کہ جب بڑے ممالک ثالثی اور امن مذاکرات میں حصہ لے رہے ہوتے ہیں تو ایسے حملے اس عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہیں اور مسلم امت کی حیثیت و وقار کے لیے خطرہ ہیں۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے صومالیہ اور الجزائر کے ساتھ مل کر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں فوری نوعیت کا اجلاس طلب کروایا اور جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کو بھی اس سلسلے میں متحرک کیا گیا، تاکہ عالمی فورمز پر اسرائیلی جارحیت کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔
انہوں نے کہا کہ محض قراردادیں اور بیانات کافی نہیں، اب ایک واضح، عملی لائحۂ عمل درکار ہے ۔ اقتصادی پابندیاں، قانونی چارہ جوئی، سفارتی محاذ پر یکسوئی اور اگر ضرورت پڑی تو علاقائی سیکورٹی کے مجموعی انتظامات تک کے آپشنز زیرِ غور لائے جائیں گے۔
اسحاق ڈار نے پاکستان کی دفاعی استعداد کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ہماری جوہری صلاحیت دفاعی ہے اور کبھی استعمال کا ارادہ نہیں رہا، مگر اگر کسی بھی طرح ہماری خودمختاری یا علاقائی امن کو خطرہ پہنچایا گیا تو ہم ہر ممکن قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ فوجی راستہ آخری انتخاب ہوگا، مگر اگر جارحیت رکنے کا نام نہ لیا تو عملی، مؤثر اور متحدہ جواب بھی لازم ہوگا۔
پاکستانی وزیرِ خارجہ نے نشاندہی کی کہ مسئلہ فلسطین صرف خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ دو ارب مسلمانوں کے سامنے اخلاقی اور سیاسی امتحان ہے۔ اگر مسلم ریاستیں اس مقام پر صرف تقاریر تک محدود رہیں گی تو عوام کی نظروں میں ان کی ساکھ مجروح ہوگی اور فلسطینیوں کی امیدیں پامال ہوں گی۔