Daily Ausaf:
2025-11-07@06:35:07 GMT

قرآن پاک کے حقوق ادا کیجئے!

اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT

حضرت زید بن ثابتؓ روایت کرتے ہیں کہ ’’نبیﷺ اس دار فانی سے رحلت فرماگئے اور اس وقت تک قرآن مجید کسی چیز میں جمع نہیں کیا گیا تھا‘‘۔الخاطبی کا قول ہے کہ جب سرور عالمﷺ کی وفات کے باعث نزول قرآن کا سلسلہ ختم ہو گیا تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے اس سچے وعدہ کو پورا کرنے کیلئے جواس کی حفاظت کے متعلق فرمایا تھا، خلفائے راشدین کے دل یں قرآن کوجمع کرنے کی خواہش پیدا فرمائی۔ پھر اس عظیم الشان کام کا آغاز حضرت عمرؓ کے مشورہ کے مطابق حضرت ابو بکرؓ کے ہاتھوں سے ہوا۔ کتابت قرآن کا سلسلہ نبیﷺ کے عہد مبارک میں شروع ہو چکا تھاچنانچہ رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد کہ’’میری باتوں میں سے قرآن کے سوا اور کسی چیز کو نہ لکھو‘‘۔ اس پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن رسول اﷲﷺ کے زمانہ میں لکھ لیا گیا تھا، اگرچہ وہ سب ایک جگہ جمع نہ تھا۔
قرآن مجید کو جمع اور مرتب کرنے کا اہم کام حضرت ابو بکرؓ کے زمانہ میںاور ان کے روبرو ہوا۔ اس واقعہ کی تفصیل یوں ہے کہ ابو بکرؓ کو جنگ یمامہ میں بہت سے صحابہ کرامؓ کے شہید ہونے کی خبر ملی تو اس وقت حضرت عمرؓ آپؓ کے پاس پاس آئے۔ حضرت ابو بکرؓ کہتے ہیں:’’حضرت عمرؓ نے میرے پاس آکر کہا کہ معرکہ یمامۂ میں قرآن پاک کے بہت سے حفاظ و قاری شہید ہوئے اور مجھے ڈر ہے کہ آئندہ معرکوں میں بھی وہ شہید ہوتے جائیں گے اور اس طرح مبادا بہت سا قرآن ہاتھوں سے جاتا رہے گا۔ لہٰذا میری رائے کہ تم قرآن کے جمع کا حکم دو۔ میں نے عمرؓ کو جواب دیا کہ جس کام کو رسول اﷲﷺ نے نہیں کیا میں اسے کس طرح کروں؟ حضرت عمرؓ نے کہا خدا کی قسم یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں بہتر ہے۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں: حضرت عمرؓ بار بار مجھ سے کہتے رہے، یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے میرا سینہ کھول دیا اور میں نے اس بارے میں وہی رائے قائم کر لی جو حضرت عمرؓ نے قائم کی تھی۔‘‘
زید بن ثابتؓ کہتے ہیں:’’ حضرت ابو بکرؓ نے مجھ سے کہا کہ تم ایک سمجھ دار نوجوان ہو اور ہم تم پر بداعتمادی نہیں کر سکتے اور تم رسول اﷲﷺ کے کاتب وحی بھی تھے۔ اس لئے اب قرآن کی تفتیش اور تحقیق کر کے اسے جمع کرو۔‘‘
زید بن ثابتؓ کہتے ہیں: ’’واﷲ مجھے ایک پہاڑ اس جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھ دینے کا حکم دیتے تو یہ بات مجھ پر اتنی گراں نہ ہوتی جس قدرقرآن جمع کرنے کا حکم مجھ پر شاق گزرا اور میں نے حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ سے کہا: آپ دونوں وہ کام کس طرح کرتے ہیں جسے رسول اﷲﷺ نے نہیں کیا؟۔ ابو بکرؓ نے جواب دیا: واﷲ یہ بات بہتر ہے اور پھر وہ برابر مجھ سے اس بارے میں بار بار کہتے رہے حتیٰ کہ اﷲ تعالیٰ نے میرا دل بھی اسی بات کے لئے کھول دیا جس بات کے واسطے ابو بکرؓ و عمرؓ کا دل کھولا تھا، پھر میں نے قرآن کی تلاش اور جستجو شروع کی اور اسے کھجور کی شاخوں، سفید پتھروں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنا شروع کر دیا۔‘‘
زید بن ثابتؓ قرآن کو محض لکھا ہوا پانے ہی پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ اس کی شہادت ان لوگوں سے بھی بہم پہنچا لیتے جنہوں نے اس سب کر یاد کیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ خودبھی حافظ قرآن تھے۔ غرضیکہ قرآن مکتوب کے وجودپانے اور خود حافظ قرآن ہونے کے باوجود حفظ وکتابت کی شہادتوں کو بھی بہم پہنچا کر اسے جمع فرماتے تھے تاکہ قرآن اسی اصل سے لکھا جائے جورسول اﷲﷺ کے روبرو لکھا گیا اور آنحضرتﷺ پر پیش ہو چکا تھا۔ چنانچہ وہ نقل شدہ صحیفے ابو بکرؓ کے پاس رہے۔ ان کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ نے ان کی محافظت کی اور حضرت عمرؓ کا انتقال ہوجانے کے بعد وہ صحائف ام المؤمنین حضرت حفصہؓ بنت عمرؓ کے پاس محفوظ رہے۔
قارئین محترم! مفسرین اور علمائے کرام نے قرآن مجید کے چھ حقوق بیان کئے ہیں، ذیل میں ان کا مختصر ذکر کیا جارہا ہے۔ تاکہ ہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لے سکیں کہ ہم کون ساحق ادا کررہے ہیں اور کون سے حق کی ادائیگی میں ہم سے کوتاہی ہو رہی ہے۔
اس کا سب سے پہلا حق انسانوں پر یہ ہے کہ وہ اس پر دل سے ایمان لائیں، زبان سے اس کے سرچشمہ ہدایت ہونے اور کتاب الہٰی ہونے کا اقرار کریں اور اس زبانی اقرار کی دل سے تصدیق کریں۔
اﷲ تعالیٰ نے اپنی اس کتاب کے اس حق کو ان الفاظ میںبیان فرمایا ہے:’’ میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پرایمان لے آؤ‘‘ اس ایمان کا اہم تقاضا یہ ہے کہ قرآن مجید کے اﷲتعالیٰ کی طرف سے نازل کئے جانے اور ذریعہ ہدایت ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ کیا جائے۔ سورۃ البقرہ میں ارشادہے:
’’یہ (اﷲ تعالیٰ کی) کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔‘‘
ایمان کا ایک تقاضہ یہ ہے کہ اﷲ کی پوری کتاب پر ایمان لانے اور بلاتفریق اس کے تمام احکام پر عمل کرے۔ ایسا نہ ہو کہ ان تعلیمات کو تو مان لیا جائے جو دل پسند اور مرضی کے مطابق ہوں اور ان تعلیمات کوچھوڑ دیا جائے جو اپنی مرضی کے خلاف اور ناپسند ہوں یا خاندانی روایات یا قومی دستور سے ٹکراتی ہوں۔ جو لوگ کتاب الہٰی کی تعلیمات اور احکامات میں اس طرح کی تفریق روا رکھتے ہیں ان لوگوں کودنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں شدید ترین عذاب ہو گا۔
قرآن مجیدکا دوسرا حق انسانوں پر یہ ہے کہ اس کی تلاوت کریں، سورۃ البقرہ میں فرمایا:
جن لوگوںکوہم نے کتاب دی ہے ، وہ اس کی تلاوت اس طرح کرتے ہیں جیسا کہ تلاوت کرنے کا حق ہے۔‘‘
حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ سے کسی نے پوچھا: کہ حضور اکرمﷺ کلام شریف کس طرح پڑھتے تھے؟انہوں نے کہا:’’سب حرکتوں(یعنی زبر زیر وغیرہ) کو پورا نکالتے تھے اور ایک ایک حرف الگ الگ ظاہر ہوتا تھا۔‘‘ اسی کوترتیل کہتے ہیں۔ ترتیل سے تلاوت مستحب ہے اگرچہ معنی نہ سمجھتا ہو۔
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص قرآن پاک کا ایک حرف پڑھے اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔‘‘ پھر حضورﷺنے سمجھانے کے لئے مثال ارشاد فرمائی: میرا یہ مقصد نہیں کہ الم ایک حرف ہے بلکہ اس میں الف ایک الگ حرف، لام علیحدہ حرف اور میم علیحدہ حرف ہے۔‘‘ یعنی لفظ کو حرف نہ سمجھا جائے۔تو جس نے لفظ الم کہا اس کے لئے تیس نیکیاں لکھی گئیں۔
قرآن مجید کا انسانوں پر تیسرا حق یہ ہے کہ وہ اس کو سمجھیں اور اس کی آیات میں غور وفکر کریں۔ اس لئے کہ یہ کتاب ہدایت ہے اور وہی لوگ اس سے ہدایت حاصل کرسکتے ہیں جو اس کو سمجھ کر پڑھیں اور اس کے معنی میں غور فکر کریں۔ پھر یہی نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ نے فہم القرآن کے ساتھ ساتھ’’تدبر قرآن‘‘ کی بھی تاکید فرمائی ہے۔ چنانچہ سورہ ص میں ارشاد ہے:
’’یہ (قرآن) ایک مبارک کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں غوروفکر کریں اور سمجھدار لوگ نصیحت حاصل کریں۔‘‘
حضور اکرمﷺ نے بھی فہم قرآن اور تدبر قرآن کی تاکید فرمائی ہے۔ آپﷺ نے ارشادفرمایا:
’’قرآن مجید کو دلچسپی سے اور مزے لے لے کر پڑھو اور اس میں تدبر کرو۔‘‘
آپﷺ نے اس بات کو ناپسند فرمایا ہے کہ کوئی شخص تین دن سے کم مدت میں پورا قرآن مجید پڑھے اوراس کی وجہ یہ بتائی کہ (عام آدمی) اتنی تھوڑی مدت میں قرآن پاک کوسمجھ کر نہیں پڑھ سکتا۔
قرآن مجید کا چوتھا حق بندوں پر یہ ہے کہ اس کی تعلمیات پر عمل کیا جائے۔ قرآن مجید صرف کتاب تلاوت علم ہی نہیں ہے کتاب عمل بھی ہے۔ سورۃ الانعام میں ارشاد باری ہے:
’’ ا س کتاب کو ہم نے نازل کیا ہے جو بڑی برکت والی ہے، اس کی تعلیمات پر چلو اورتقویٰ اپناؤ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: رسول اﷲﷺ اﷲ تعالی قرا ن پاک کہتے ہیں کہ قرا ن یہ ہے کہ رسول اﷲ ہے کہ ا اور اس کے لئے

پڑھیں:

افغان خواتین پر تعلیمی، طبی اور سماجی پابندیاں برقرار، اقوام متحدہ مشن یوناما کی رپورٹ میں انکشاف

کابل: اقوام متحدہ کے امدادی مشن برائے افغانستان (یوناما) نے اپنی تازہ سہ ماہی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان میں خواتین کے بنیادی حقوق بدستور سلب ہیں اور ان پر تعلیم، روزگار اور نقل و حرکت سمیت متعدد پابندیاں برقرار ہیں۔

رپورٹ کے مطابق جولائی تا ستمبر 2025 کے عرصے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں دیکھی گئیں، خاص طور پر خواتین اور نوجوان لڑکیوں پر سخت پابندیاں بدستور نافذ ہیں۔

یوناما کے مطابق، طالبان حکام نے 2023 میں خواتین کے اقوام متحدہ کے دفاتر میں داخلے پر عائد پابندی کو برقرار رکھا ہے، جب کہ 2022 سے تعلیمی اداروں میں خواتین اور لڑکیوں کے داخلے پر مکمل پابندی برقرار ہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ بدخشاں، پکتیکا اور کابل کے متعدد مدارس کو اس بنیاد پر بند کر دیا گیا کہ وہاں جدید یا عصری مضامین پڑھائے جا رہے تھے۔

یوناما نے یہ بھی بتایا کہ طالبان حکومت نے 2024 میں میڈیکل اور ڈینٹسٹری تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے، جس کے باعث خواتین طلبہ کا تعلیمی مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کئی صوبوں میں خواتین کو علاج کے لیے مرد طبی عملے سے رجوع کرنے کے لیے محرم کے ساتھ جانے کی شرط لازمی قرار دی گئی ہے۔

یوناما کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سہ ماہی میں 456 بلاجواز گرفتاریاں اور 44 ناروا سلوک کے واقعات رپورٹ ہوئے، جنہیں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی قرار دیا گیا۔

اقوام متحدہ نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغان خواتین کی بگڑتی ہوئی حالت زار پر فوری توجہ دے اور ان کے بنیادی حقوق کی بحالی کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔

متعلقہ مضامین

  • افغان خواتین پر تعلیمی، طبی اور سماجی پابندیاں برقرار، اقوام متحدہ مشن یوناما کی رپورٹ میں انکشاف
  • جوہرِ انساں
  • محنت کی عظمت
  • شادی عورت کی شخصیت یابنیادی حقوق ختم نہیں کرتی،عدالت عظمیٰ
  • اسرائیلی جنگی جرائم: یو ٹیوب نے سیکڑوں ویڈیوز ڈیلیٹ  کردیں
  • پنجاب کا ہر شہری مساوی حقوق اور سہولتوں کا حقدار ہے، مریم نواز
  • NPT کیمطابق چینی وزیر خارجہ کا ایران کے حقوق کے تحفظ پر زور
  • کتاب ہدایت 
  • اقلیتوں کے حقوق ‘ حفاظت کا عزم غیر متزلزل : شہباز شریف 
  • حکومت آئینی ترامیم کے ذریعے اقتدار کو طول دینا چاہتی ہے، بیرسٹر سیف