Daily Ausaf:
2025-09-22@17:48:06 GMT

قرآن پاک کے حقوق ادا کیجئے!

اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT

حضرت زید بن ثابتؓ روایت کرتے ہیں کہ ’’نبیﷺ اس دار فانی سے رحلت فرماگئے اور اس وقت تک قرآن مجید کسی چیز میں جمع نہیں کیا گیا تھا‘‘۔الخاطبی کا قول ہے کہ جب سرور عالمﷺ کی وفات کے باعث نزول قرآن کا سلسلہ ختم ہو گیا تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے اس سچے وعدہ کو پورا کرنے کیلئے جواس کی حفاظت کے متعلق فرمایا تھا، خلفائے راشدین کے دل یں قرآن کوجمع کرنے کی خواہش پیدا فرمائی۔ پھر اس عظیم الشان کام کا آغاز حضرت عمرؓ کے مشورہ کے مطابق حضرت ابو بکرؓ کے ہاتھوں سے ہوا۔ کتابت قرآن کا سلسلہ نبیﷺ کے عہد مبارک میں شروع ہو چکا تھاچنانچہ رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد کہ’’میری باتوں میں سے قرآن کے سوا اور کسی چیز کو نہ لکھو‘‘۔ اس پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن رسول اﷲﷺ کے زمانہ میں لکھ لیا گیا تھا، اگرچہ وہ سب ایک جگہ جمع نہ تھا۔
قرآن مجید کو جمع اور مرتب کرنے کا اہم کام حضرت ابو بکرؓ کے زمانہ میںاور ان کے روبرو ہوا۔ اس واقعہ کی تفصیل یوں ہے کہ ابو بکرؓ کو جنگ یمامہ میں بہت سے صحابہ کرامؓ کے شہید ہونے کی خبر ملی تو اس وقت حضرت عمرؓ آپؓ کے پاس پاس آئے۔ حضرت ابو بکرؓ کہتے ہیں:’’حضرت عمرؓ نے میرے پاس آکر کہا کہ معرکہ یمامۂ میں قرآن پاک کے بہت سے حفاظ و قاری شہید ہوئے اور مجھے ڈر ہے کہ آئندہ معرکوں میں بھی وہ شہید ہوتے جائیں گے اور اس طرح مبادا بہت سا قرآن ہاتھوں سے جاتا رہے گا۔ لہٰذا میری رائے کہ تم قرآن کے جمع کا حکم دو۔ میں نے عمرؓ کو جواب دیا کہ جس کام کو رسول اﷲﷺ نے نہیں کیا میں اسے کس طرح کروں؟ حضرت عمرؓ نے کہا خدا کی قسم یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں بہتر ہے۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں: حضرت عمرؓ بار بار مجھ سے کہتے رہے، یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے میرا سینہ کھول دیا اور میں نے اس بارے میں وہی رائے قائم کر لی جو حضرت عمرؓ نے قائم کی تھی۔‘‘
زید بن ثابتؓ کہتے ہیں:’’ حضرت ابو بکرؓ نے مجھ سے کہا کہ تم ایک سمجھ دار نوجوان ہو اور ہم تم پر بداعتمادی نہیں کر سکتے اور تم رسول اﷲﷺ کے کاتب وحی بھی تھے۔ اس لئے اب قرآن کی تفتیش اور تحقیق کر کے اسے جمع کرو۔‘‘
زید بن ثابتؓ کہتے ہیں: ’’واﷲ مجھے ایک پہاڑ اس جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھ دینے کا حکم دیتے تو یہ بات مجھ پر اتنی گراں نہ ہوتی جس قدرقرآن جمع کرنے کا حکم مجھ پر شاق گزرا اور میں نے حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ سے کہا: آپ دونوں وہ کام کس طرح کرتے ہیں جسے رسول اﷲﷺ نے نہیں کیا؟۔ ابو بکرؓ نے جواب دیا: واﷲ یہ بات بہتر ہے اور پھر وہ برابر مجھ سے اس بارے میں بار بار کہتے رہے حتیٰ کہ اﷲ تعالیٰ نے میرا دل بھی اسی بات کے لئے کھول دیا جس بات کے واسطے ابو بکرؓ و عمرؓ کا دل کھولا تھا، پھر میں نے قرآن کی تلاش اور جستجو شروع کی اور اسے کھجور کی شاخوں، سفید پتھروں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنا شروع کر دیا۔‘‘
زید بن ثابتؓ قرآن کو محض لکھا ہوا پانے ہی پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ اس کی شہادت ان لوگوں سے بھی بہم پہنچا لیتے جنہوں نے اس سب کر یاد کیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ خودبھی حافظ قرآن تھے۔ غرضیکہ قرآن مکتوب کے وجودپانے اور خود حافظ قرآن ہونے کے باوجود حفظ وکتابت کی شہادتوں کو بھی بہم پہنچا کر اسے جمع فرماتے تھے تاکہ قرآن اسی اصل سے لکھا جائے جورسول اﷲﷺ کے روبرو لکھا گیا اور آنحضرتﷺ پر پیش ہو چکا تھا۔ چنانچہ وہ نقل شدہ صحیفے ابو بکرؓ کے پاس رہے۔ ان کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ نے ان کی محافظت کی اور حضرت عمرؓ کا انتقال ہوجانے کے بعد وہ صحائف ام المؤمنین حضرت حفصہؓ بنت عمرؓ کے پاس محفوظ رہے۔
قارئین محترم! مفسرین اور علمائے کرام نے قرآن مجید کے چھ حقوق بیان کئے ہیں، ذیل میں ان کا مختصر ذکر کیا جارہا ہے۔ تاکہ ہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لے سکیں کہ ہم کون ساحق ادا کررہے ہیں اور کون سے حق کی ادائیگی میں ہم سے کوتاہی ہو رہی ہے۔
اس کا سب سے پہلا حق انسانوں پر یہ ہے کہ وہ اس پر دل سے ایمان لائیں، زبان سے اس کے سرچشمہ ہدایت ہونے اور کتاب الہٰی ہونے کا اقرار کریں اور اس زبانی اقرار کی دل سے تصدیق کریں۔
اﷲ تعالیٰ نے اپنی اس کتاب کے اس حق کو ان الفاظ میںبیان فرمایا ہے:’’ میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پرایمان لے آؤ‘‘ اس ایمان کا اہم تقاضا یہ ہے کہ قرآن مجید کے اﷲتعالیٰ کی طرف سے نازل کئے جانے اور ذریعہ ہدایت ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ کیا جائے۔ سورۃ البقرہ میں ارشادہے:
’’یہ (اﷲ تعالیٰ کی) کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔‘‘
ایمان کا ایک تقاضہ یہ ہے کہ اﷲ کی پوری کتاب پر ایمان لانے اور بلاتفریق اس کے تمام احکام پر عمل کرے۔ ایسا نہ ہو کہ ان تعلیمات کو تو مان لیا جائے جو دل پسند اور مرضی کے مطابق ہوں اور ان تعلیمات کوچھوڑ دیا جائے جو اپنی مرضی کے خلاف اور ناپسند ہوں یا خاندانی روایات یا قومی دستور سے ٹکراتی ہوں۔ جو لوگ کتاب الہٰی کی تعلیمات اور احکامات میں اس طرح کی تفریق روا رکھتے ہیں ان لوگوں کودنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں شدید ترین عذاب ہو گا۔
قرآن مجیدکا دوسرا حق انسانوں پر یہ ہے کہ اس کی تلاوت کریں، سورۃ البقرہ میں فرمایا:
جن لوگوںکوہم نے کتاب دی ہے ، وہ اس کی تلاوت اس طرح کرتے ہیں جیسا کہ تلاوت کرنے کا حق ہے۔‘‘
حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ سے کسی نے پوچھا: کہ حضور اکرمﷺ کلام شریف کس طرح پڑھتے تھے؟انہوں نے کہا:’’سب حرکتوں(یعنی زبر زیر وغیرہ) کو پورا نکالتے تھے اور ایک ایک حرف الگ الگ ظاہر ہوتا تھا۔‘‘ اسی کوترتیل کہتے ہیں۔ ترتیل سے تلاوت مستحب ہے اگرچہ معنی نہ سمجھتا ہو۔
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص قرآن پاک کا ایک حرف پڑھے اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔‘‘ پھر حضورﷺنے سمجھانے کے لئے مثال ارشاد فرمائی: میرا یہ مقصد نہیں کہ الم ایک حرف ہے بلکہ اس میں الف ایک الگ حرف، لام علیحدہ حرف اور میم علیحدہ حرف ہے۔‘‘ یعنی لفظ کو حرف نہ سمجھا جائے۔تو جس نے لفظ الم کہا اس کے لئے تیس نیکیاں لکھی گئیں۔
قرآن مجید کا انسانوں پر تیسرا حق یہ ہے کہ وہ اس کو سمجھیں اور اس کی آیات میں غور وفکر کریں۔ اس لئے کہ یہ کتاب ہدایت ہے اور وہی لوگ اس سے ہدایت حاصل کرسکتے ہیں جو اس کو سمجھ کر پڑھیں اور اس کے معنی میں غور فکر کریں۔ پھر یہی نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ نے فہم القرآن کے ساتھ ساتھ’’تدبر قرآن‘‘ کی بھی تاکید فرمائی ہے۔ چنانچہ سورہ ص میں ارشاد ہے:
’’یہ (قرآن) ایک مبارک کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں غوروفکر کریں اور سمجھدار لوگ نصیحت حاصل کریں۔‘‘
حضور اکرمﷺ نے بھی فہم قرآن اور تدبر قرآن کی تاکید فرمائی ہے۔ آپﷺ نے ارشادفرمایا:
’’قرآن مجید کو دلچسپی سے اور مزے لے لے کر پڑھو اور اس میں تدبر کرو۔‘‘
آپﷺ نے اس بات کو ناپسند فرمایا ہے کہ کوئی شخص تین دن سے کم مدت میں پورا قرآن مجید پڑھے اوراس کی وجہ یہ بتائی کہ (عام آدمی) اتنی تھوڑی مدت میں قرآن پاک کوسمجھ کر نہیں پڑھ سکتا۔
قرآن مجید کا چوتھا حق بندوں پر یہ ہے کہ اس کی تعلمیات پر عمل کیا جائے۔ قرآن مجید صرف کتاب تلاوت علم ہی نہیں ہے کتاب عمل بھی ہے۔ سورۃ الانعام میں ارشاد باری ہے:
’’ ا س کتاب کو ہم نے نازل کیا ہے جو بڑی برکت والی ہے، اس کی تعلیمات پر چلو اورتقویٰ اپناؤ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: رسول اﷲﷺ اﷲ تعالی قرا ن پاک کہتے ہیں کہ قرا ن یہ ہے کہ رسول اﷲ ہے کہ ا اور اس کے لئے

پڑھیں:

چوکیدار  

ایسا نہیں ہوا کہ پاکستان کو اس سے پہلے ترقی کے مواقع نہیں ملے۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ اس سے پہلے کبھی ہمیں روشنی کی کرن نظر نہ آئی ہو۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ ہمیں امت مسلمہ میں ممتاز مقام ملنے کا پہلے موقع نہیں ملا۔ یہ سب بارہا ہوا۔ لیکن ہم نے یہ مواقع گنوا دیے۔ ملک کے مفاد سے زیادہ ذاتی مفاد کو ترجیح دی اور تاریخ میں مقام حاصل کرنے کے بجائے ذات کو ترجیح دی اور وہ تمام مواقع گنوا دیے۔ اس دفعہ صورت حال کتنی مختلف ہے۔ پہلے کیا ہوا تھا اور اب کیا کرنا ہے؟ ماضی سے صرف اتنا پردہ اٹھانا ہے۔

 وقت بہت بیت گیا مگر ماضی کی راکھ کبھی کبھی کریدنی چاہیے تاکہ دھواں تو اٹھے، تاکہ چنگاری تو بھڑکے، اپنی غلطیوں پر ماتم تو ہو۔ اپنے اعمال کا احوال تو بیان ہو۔

یاد رکھیں وقت گزرنے سے تاریخ دفن نہیں ہوتی بلکہ اس کے لگائے زخم گہرے ہو جاتے ہیں۔ اس کا سبق زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔ ماضی کی غلطیاں زیادہ فاش نظر آنے لگتی ہیں۔ تاریخ آپ کو ذات اور وقت کے حصار سے نکال کر منظر کو دور سے رپیٹ ٹیلی کاسٹ میں دیکھنے کا موقع دیتی ہے۔

بھٹو صاحب کے دور میں اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی تھی۔ وہ ملک جو ابھی دو لخت ہوا تھا اس کا تشخص بحال ہوا۔ سعودی رہنما شاہ فیصل شہید نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ میزبانی کو قبول فرمایا۔ مسلم ممالک کا ایک فعال بلاک بننے کی بات ہوئی۔ غربت کے اندھیرے چاک کرنے کا اعلامیہ آیا۔ ایک دوسرے کے بازو بننے کا حوصلہ ملا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا وہ کارنامہ تھا جس سے امریکا  اور یورپ خوفزدہ ہو گئے تھے۔ پھر قسمت کا پھیر الٹا چلا۔ شاہ فیصل کو شہید کر دیا گیا۔ بھٹو پھانسی پر جھول گئے۔ ہماری جھولی میں اندھیرے تھے وہ اندھیرے ہی رہ گئے۔

اس کے بعد ایک موقع آیا، افغان جہاد کا۔ جہاں دو سپر طاقتوں کی جنگ تھی۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ کسی ایک فریق کو شکست ہونا تھی۔  روس گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا تھا۔ درمیان میں افغانستان اور پاکستان حائل تھے۔ ضیاالحق کا دورتھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کو ہماری ضرورت تھی ۔ جب امریکا اور یورپ دست بستہ ہم سے ملتمس تھے۔  امریکا کی سلامتی کی ذمہ داری ہم کو سونپ دی گئی تھی۔

آج جو لوگ یہ  منظر دیکھتے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف سے ایک، ایک ارب ڈالر کے لیے درخواست کر رہے ہوتے ہیں انہیں شاید یاد نہ ہو کہ ہم نےا س وقت امریکی امداد کو مونگ پھلی کہہ کر ٹھکرا دیا تھا۔  ہم اپنی مرضی کے فیصلے کر رہے تھے۔ اس وقت ہم نے روس کو شکست دینا تھی لیکن صرف روس کو شکست دینا ہمارا منصب اور مقام نہیں تھا۔ ہم نے اپنے ملک کو بھی ترقی دینا تھی۔ یہاں ڈیم بننے تھے۔ یہاں یونیورسٹیاں اور اسکول کھلنے تھے، سڑکیں تعمیر ہونا تھیں۔ ترقی ہونی تھی۔ ہم روس سے جنگ میں اس قدر غرق ہوئے کہ  ہم اپنی حالت سنوارنا بھول گئے۔ ہم نے روس کو برباد کر دیا لیکن برباد ہم خود بھی ہو گئے۔ اس جنگ سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ہمارے حصے میں صرف ایسا نقصان آیا جو اب بھی ہم بھر رہے ہیں۔

انیس سو اٹھانوے میں ہم  نےا یٹمی تجربات کیے ۔ بھارت کو ناکوں چنے چبو ادیے۔ اس سے پہلے بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کیے۔ دنیا بھر میں ہنگامہ مچ گیا۔ لوگ کہنے لگے کہ اس خطے کا چوہدری ایک ہی ہے۔ بھارت منی سپر پاور ہے۔ لیکن اس منی سپر پاور کا چند دنوں مِں ہی بھرکس نکل گیا جب پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کیے۔ اس واقعے کی دھاک لمحوں میں پوری دنیا میں پھیل گئی۔ بھارت کی برتری دنوں میں خاک میں مل گئی۔ دنیا اس واقعے پر بھی ہماری طرف بہت چاہ سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے بعد ترقی کا سفر شروع ہونا تھا مگر ہم نےا س موقع کو بھی ضائع کر دیا۔ ایٹمی دھماکے کرنے والے کو قید کیا اوراندرونی خلفشار کا شکار رہے۔ دنیا جو ہم پر فخر کر رہی تھی ہم پر ہنسنے لگی ۔ ہم جو تماشا کر رہے تھے خود تماشا بن گئے۔

نائن الیون بھی ایک موقع تھا، جب دنیا کو ہماری عسکری قوت کی ضرورت پڑی تھی۔ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو دہشتگردی کے خوف سے پاکستان نجات دے سکتا تھا۔ ہم اس وقت امریکا سے ملکی ترقی کے لیے بہت کچھ لے سکتے تھے مگر ہم نے بارگینگ درست نہیں کی، ہم نے ان کے تو سارے کام کیے مگر اپنی باتیں ان سے منوانا بھول گئے۔ ایک کال پر ہم ایسے ڈھیر ہوئے کہ اس کے بعد دیر تک نہیں اٹھ سکے۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں رہا کہ تاریخ ایسے مواقع بار بار نہیں دیتی۔

پاک سعودی دفاعی معاہدہ ایک تاریخی دستاویز ہے۔ اس کے معنی اور مفاہیم بہت وسیع ہیں۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے۔ یہ ایک عہد ساز معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کے پس منظر میں ہماری وہ کامیابی ہے جو ہم نے معرکہ حق میں حاصل کی ہے۔ اس دن سے بھارت کے ستارے گردش میں ہیں اور پاکستان کا ستارہ عروج پر ہے۔ اس جنگ کے بعد اسرائیل کی قطر میں جارحیت نے اس معاہدے کے امکانات کو مہمیز بخشی ہے۔  اب ایک بار پھر دنیا کی نظریں ہم پر مرکوز ہیں۔ اب ایک بار پھر مسلم امہ کی قیادت ہماری منتظر ہے۔ اب ایک بار پھر ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنی بات منوا سکیں۔ اس موقع کو پہلے مواقع کی طرح ضائع کیا تو کف افسوس ملنے کے سوا ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ ہمیں مسلم امہ کی خدمت بھی کرنی ہے، دنیا میں بھی باوقار نام بنانا ہے۔ لیکن اس کےساتھ اس ارض پاک کو بھی ترقی دینی ہے۔ یہاں سے افلاس ، بے روزگاری اور جہالت کو ختم کرنا ہے۔ اب ترقی کےسوا ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔

تاریخ کی یہ ساعت مبارک ہے۔ یہ لمحہ عظیم ہے۔ ہم سے مسلم امہ امیدیں وابستہ کر رہی ہے۔ ہم سے دنیا ملتمس ہو رہی ہے۔ یہ وقت ماضی کے مواقع سے اس لیے مختلف ہے کہ اس وقت ہم سے نہ صرف ایٹمی قوت کے طور پر کچھ توقعات لگائی جا رہی ہیں بلکہ اس کے بدلے ہم سے حرم پاک کی حفاظت کی سعادت بھی عطا کی جا رہی ہے۔ وہ حرم پاک جہاں کا ذکر کرتے پلکیں وضو کرتی ہیں۔ ہمیں اس زمیں کی حفاظت کا ذمہ بھی مل رہا ہے اور مسلم امہ کی پاسبانی بھی تفویض کی جا رہی ہے۔

شہباز شریف خوش قسمت ہیں کہ یہ اعزاز انہیں نصیب ہوا کہ طیاروں کی سلامی ان کو دی گئی۔ شہزادہ محمد بن سلمان ان کے استقبال کے لیے آئے۔ معاہدہ  فیلڈ مارشل کی معاونت میں ایک مقدس سرزمیں پرہوا۔ ایک لمحے کو سوچیں یہی حرمین شریفین تھے، یہی مقامات مقدسہ تھے۔ اور یہاں پی ٹی آئی کے لوگ تھے جنہوں نے عورتوں کو گالیاں دیں، بال کھینچے۔ جہاں ادب سے نگاہ نہیں اٹھتی وہاں سیاسی نعرے لگائے۔ سیاسی نفرت کی دکان سجائی۔

آخری بات  فوج کو لوگ نفرت میں چوکیدار کہہ کر پکارتے تھے۔ جسے چوکیدارکا الزام دیتے تھے، اسے پاسبانی کا فرض سونپ دیا گیا۔ اب یہ الزام نہیں اعزاز ہے۔ تضحیک نہیں، توقیر ہے۔ ہتک نہیں، سعادت ہے۔ اس مقام کی جہاں کی خاک کے ایک ذرے پر ساری مسلم امہ دل و جان سے قربان ہے۔ اس سے بڑھ کر سعادت دنیا میں کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ اس سے  بڑھ کر عظیم حفاظت کوئی اور نہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • چوکیدار  
  • جماعت اسلامی ٹنڈوالٰہیار کے زیر اہتمام جلسہ سیرت النبی کاانعقاد
  • بُک شیلف
  • نوجوانوں کو کتاب سے دوستی کرنا ہوگی، یہی کامیابی کی کنجی ہے؛ میر سرفراز بگٹی
  • بھارت متنازعہ جموں و کشمیر میں عالمی قوانین، اصول و ضوابط کی دھجیاں اڑا رہا ہے، مقررین
  • بھارتی حکومت کا سکھ یاتریوں کو روکنے کا اقدام انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار
  • ہم شرپسند نہیں، حق مانگنے والے ہیں، آغا سید علی رضوی
  • صرف ریاست کی رٹ قائم کرنا نہیں بلکہ عوامی حقوق کا تحفظ بھی حکومتوں کی ذمہ داری ہے
  • ڈاکٹر فاروق عادل کی شخصی خاکوں پر مشتمل کتاب’دیکھا جنھیں پلٹ کے‘ شائع ہوگئی
  • اسلام آباد: پاک چائنا فرینڈشپ سینٹر میں بین الاقوامی کتاب میلے کے دوران ایک اسٹال پربچے کتابیں منتخب اور خرید رہے ہیں