بی جے پی نہیں چاہتی کہ غریب بچے انگریزی سیکھیں اور سوال کریں، راہل گاندھی
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
کانگریس رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈران خود اپنے بچوں کو انگلینڈ بھیج کر انگریزی تعلیم دلواتے ہیں، جبکہ عوام کو انگریزی سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ کے اس بیان کہ "ایسا وقت دور نہیں جب بھارت میں انگریزی بولنے والوں کو شرم آئے گی"، کے ایک دن بعد کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے سخت ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے بی جے پی اور آر ایس ایس کو نشانہ بنایا۔ راہل گاندھی نے ایکس پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں وہ کہتے ہیں کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈران خود اپنے بچوں کو انگلینڈ بھیج کر انگریزی تعلیم دلواتے ہیں، جبکہ عوام کو انگریزی سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ویڈیو میں راہل گاندھی کہتے ہیں کہ اگر آپ کو انگریزی آتی ہے تو آپ امریکہ جا سکتے ہیں، جاپان جا سکتے ہیں اور دنیا میں کہیں بھی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، وہ بی جے پی و آر ایس ایس نہیں چاہتے کہ آپ انگریزی سیکھ کر بہتر ملازمت حاصل کریں، یا دنیا سے مقابلہ کر سکیں۔ راہل گاندھی نے اپنی ایکس پوسٹ میں مزید لکھا کہ انگریزی باندھ نہیں، پُل ہے۔ انگریزی شرم نہیں، طاقت ہے۔ انگریزی زنجیر نہیں، زنجیریں توڑنے کا اوزار ہے۔
راہل گاندھی نے کہا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس نہیں چاہتے کہ ہندوستان کا غریب بچہ انگریزی سیکھے، کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ آپ سوال پوچھیں، آگے بڑھیں اور برابری کریں۔ راہل گاندھی کے مطابق آج کی دنیا میں انگریزی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ اپنی مادری زبان، کیونکہ یہ روزگار اور خود اعتمادی کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کی ہر زبان میں روح، ثقافت اور علم ہے اور ہمیں انہیں محفوظ رکھنا ہے، لیکن ساتھ ہی ہر بچے کو انگریزی سکھانی بھی ضروری ہے تاکہ وہ دنیا سے مقابلہ کر سکے۔ اس سے ایک روز قبل امت شاہ نے ایک سرکاری تقریب میں کہا تھا کہ جلد وہ وقت آئے گا جب انگریزی بولنے والے خود شرمندہ ہوں گے۔ امت شاہ کے مطابق کسی غیر ملکی زبان میں ہم نہ تو اپنا مذہب سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی تاریخ۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ غیر ملکی زبان کے سہارے ہم مکمل ہندوستان کی تعمیر کا تصور نہیں کر سکتے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بی جے پی اور آر ایس ایس راہل گاندھی نے کو انگریزی سکتے ہیں
پڑھیں:
خیال رکھنا…
ہم سب آپسیں گفتگو میں یہ الفاظ بہت دفعہ کہتے ہیں، پہلے پہل یہ خطوط کے اورپھر ای میل کے اختتامی کلمات ہوا کرتے تھے، کسی کو رخصت کرتے وقت یا کہیں سے رخصت ہوتے وقت۔ کسی مریض کی تیمار داری کو جاتے تو اسے ، کسی کے چلے جانے پر اس کے لواحقین کو۔ کال کے خاتمے پر، اپنے بچوں کو گھر سے رخصت کرتے وقت… اپنا خیال رکھنا ۔ سننے میں یہ رسمی سے فقرے لگتے ہیں، ہم اپنے بچوں کو بچپن سے یہ بات سکھاتے ہیں کہ انھیں اپنا خیال رکھنا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ کہنا ہماری عادت ثانیہ بن جاتی ہے۔
ہمیں اپنے بچوں کی ہمیشہ ہی فکر ہوتی ہے اور اپنے باقی رشتوں کی اس کے بعد، گھر سے بچوں کو ہم اس فقرے کی ڈور پکڑا کر بھیجتے ہیں۔ جب تک وہ باہر جا کر واپس لوٹ نہیں آتے، ماؤں کی جان ان میں اٹکی ہوتی ہے۔ کبھی آپ نے ایک ماں ہونے کے ناطے اپنے بچے کو کسی بھی عمر میں یہ کہا، ’’ بیٹا، اپنا اور دوسروں کا بھی خیال رکھنا!‘‘ نہیں کہا نا، ہم میں سے کوئی بھی نہیں کہتا۔
اس میں کوئی خود غرضی بھی نہیں ہے کیونکہ ہم فطرتا ہی خود غرض ہوتے ہیں، ہمیں اپنے اور اپنے بچوں، شوہروں، والدین اور دیگر رشتہ داروں کے بارے میں جتنی پروا اور فکر ہوتی ہے وہ کسی اور کے بارے میں کیونکر ہو سکتی ہے۔ ہمیں اپنے نقصان پر ہمیشہ دوسروں پر شک ہوتا ہے، ان پر ہم الزام دھر دیتے ہیں۔ زندگی کے ہر معاملے میں ہمیں اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ابتدا گھر سے کرنی چاہیے اور بچوں کو یہ چیز ذہن نشین کرانی چاہیے۔
اسے یہ بھی بتائیں کہ اس نے دوسروں کی چیزوں کو خراب نہیں کرنا، کسی اور کی چیز اس کی اجازت کے بغیر نہیں لینی، کسی کے کمرے میں بلا اجازت نہیں جانا، کسی کا کھلونا نہیں توڑنا، پوچھے بغیر کسی کی چیز کو ہاتھ بھی نہیں لگانا، کسی کا پرس یا دراز نہیں کھولنا ۔ یہ اس عمر کی باتیں ہیں جب وہ نیا نیا سمجھ رہا ہوتا ہے، اگر اسے اس عمر میں یہ باتیں نہیں سمجھائیں اور سکھائیں گے اور توقع کریں کہ ذرا بڑا ہو گا تو سمجھ جائے گا تو یقین کریں کہ وہ نہیں سمجھے گا ۔
بچہ اسکول جانا شروع کرے تو اسے بتائیں کہ اس نے اپنا خیال تو رکھنا ہے مگر اسے دوسروں کا خیال بھی رکھنا ہے، قطار نہ توڑے، کھیل کے میدان میں کسی کے ساتھ بے ایمانی نہ کرے، امتحان میں نقل نہ کرے، کسی کی نشست پر بے پوچھے قبضہ نہ کرے، کوئی اس کے ساتھ دوستی نہیں کرنا چاہتا یا کھیلنا نہیں چاہتا تو زبردستی نہ کرے۔
دوسروں سے اتنا ہی مذاق کرے جتنا کہ وہ ان کی طرف سے برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جب کوئی اس کی کسی بھی قسم کی پیش قدمی کو ناپسند کرے، اسے اس سے آگے بڑھنے سے منع کرے اور نہیں کہہ دے… تو وہ اس کی حد ہے، اس حد کو کوئی کراس نہ کرے۔ ممکن ہے کہ جس قسم کی شرارت کو آپ کا بچہ شرارت سمجھتا ہے وہ دوسرے کو کوفت میں مبتلا کرتی ہو، ہو سکتا ہے کہ آپ کے بچے کا شرارت کا لمس کسی کو پسند نہ ہو۔ اپنے بچوں کو بتائیں کہ وہ اپنا خیال تو رکھیں مگر دوسروں کا بھی خیال رکھیں اور کوئی بھی ایسی حرکت یا بات نہ کریں جو انھیں خود اپنے لیے پسند نہ ہو۔
انھیں بتائیں کہ اساتذہ، دوستوں، بزرگوں اور راہ چلتے لوگوں کی عزت کرنا بھی ان پر اسی طرح واجب ہے جس طرح اپنے گھر والوں کی۔ امارت، زیورات، گاڑیاں ، بنگلے، زیورات، مہنگے فون، دولت کے انبار… عزت ماپنے کا پیمانہ نہیں ہیں، دولت مند بھی اپنی سوچ اور کردار میں گھٹیا ہو سکتا ہے اور ایک ریڑھی بان بھی اچھے اوصاف کا مالک ہوسکتا ہے ۔ کسی کی توہین کرنے کا کسی کو کوئی حق حاصل نہیں ہے، آپ کے ساتھ کسی کی نوک جھونک بھی ہوجائے یا آپ کوکوئی تکلیف پہنچائے تو فورا بد زبانی پر نہ اتر آئیں، آپ کے جو اوصاف ہیں وہ آپ کی گفتگو سے ظاہر ہونا چاہئیں۔
لڑائی بھی ہو رہی ہو تو اپنی زبان سے کسی کوایسا زخم نہ لگائیں جو کبھی مندمل نہ ہو سکے۔ آپ اگر گاڑی میں ہیں تو پیدل چلنے والوں کا خیال رکھیں، بزرگوں کا خیال رکھیں اور اگر آپ کو لگے کہ کسی بزرگ کو آپ کی مدد کی ضرورت ہے تو آگے بڑھ کر مدد کریں خواہ وہ کوئی اسپتال میں دوا دارو کے حصول کا کام ہو، بس میں نشست دینا ہو، سڑک پار کروانا ہو، بینک کی قطار میں بل جمع کروانے کو کوئی کھڑا ہو، اپنے حالات کا ستایا ہوا کوئی ریڑھی بان ہو یاکوئی مزدور۔
خواتین کا احترام کرنا سکھائیں، بچوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کا برتاؤ کرنا سکھائیں اور قرابت داروں کے حقوق کا خیال رکھنا۔ انھیں بتائیں کہ دوسروں کا خیال رکھنا اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ آپ کا اپنا۔ کسی کا حق نہ ماریں، جان بوجھ کو کر کسی کا نقصان نہ کریں، جھوٹ نہ بولیں اور نہ ہی بد دیانتی کریں۔ کسی کو وقت دیا ہے تو اس کی پابندی کریں تا کہ کوئی آپ کی وجہ سے کوفت میں مبتلا نہ ہو۔
دو فریقین میں اختلاف یا جھگڑا ہو تو اسے ہوا نہ دیں بلکہ کوشش کرکے ان میں صلح کروا دیا کریں۔ چھوٹے سے کھیل سے لے کر زندگی کے بڑے بڑے معاملات میں cheating نہ کریں۔ لوگوں کا جان بوجھ کوتکلیف نہ دیں، دھکم پیل نہ کریں، ماتحتوں کو حقیر نہ جانیں ، بے جا دوسروں پر تنقید نہ کریں، جو کچھ آپ کو اپنے لیے برا لگتا ہے… اسے دوسروں کے لیے بھی برا سمجھیں۔
اگر ہم اپنے بچوں کی تربیت کی اس زنجیر کو تھام لیں تو اس میں اور بھی ہزاروں موتی پروئے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے آج سے ہی اپنے سب پیاروں کو یہ کہنا شروع کریں ، ’’ اپنا خیال رکھنا اور دوسروں کا بھی!!