Express News:
2025-11-05@09:31:21 GMT

کیا یہودی امریکا کے وفادار ہو سکتے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

ایران بلاشبہ اسرائیلی جارحیت کا مردانہ وار مقابلہ کررہا ہے اور وہ نہ صرف یہ باور کرا رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ کوئی دوسرا بھی اس جیسی طاقت کا حامل ہے۔ ایران کو اگر قصور وار مانا جا رہا ہے تو اس کا صرف اتنا ہی تو قصور ہے کہ وہ اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے جوہری توانائی کے حصول کے لیے جدوجہد کررہا ہے مگر مغربی ممالک ایران کی اس جدوجہد کو اپنے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ ایران نے اگر ایٹم بم بنا لیا تو اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

حالانکہ اسرائیل عربوں کی سرزمین پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایران کو بھی اپنی تحویل میں لینا چاہتا ہے۔ نیتن یاہو حال ہی میں گریٹر اسرائیل کے نقشے کی تشہیرکرچکا ہے۔ اسرائیل پہلے ہی 1967 کی جنگ میں اردن، شام اور مصر کے کئی علاقوں پر قبضہ کر چکا تھا، البتہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے تحت اس نے مصر کے سینائی کے علاقے کو خالی کر دیا تھا جب کہ اردن اور شام کے علاقے اب بھی اس کے قبضے میں ہیں۔

اس وقت اسرائیل غزہ پر مستقل قبضہ کرنے کے لیے وہاں کی آبادی کی تقریباً دو سال سے مسلسل نسل کشی کر رہا ہے۔ تمام عرب ممالک اس اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں ناکام ہیں۔ امریکا بھی ان کی نہیں سن رہا، البتہ صدر ٹرمپ نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے رضامندی ظاہر کردی ہے مگر نیتن یاہو اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کبھی شام پر حملے شروع کردیتا ہے اور کبھی فلسطین کے مغربی کنارے پر بمباری کرنے لگتا ہے، اب اس نے ایران پر باقاعدہ حملہ کر کے جنگ چھیڑ دی ہے۔

یہ جنگ کتنی طویل ہوگی، اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے کیونکہ ایران اسرائیل سے کم طاقت میں نہیں ہے۔ اسرائیلی حملوں میں ایران کے کئی اہم فوجی اور نیوکلیئر سائنسدان شہید ہوگئے ہیں، اسرائیل کی بمباری سے ایران میں کافی جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے۔ ایران کے اہم فوجی و ایٹمی سائنسدانوں کو شہید کیے جانے کے بارے میں اب انکشافات ہو رہے ہیں کہ انھیں ایران میں موجود موساد کے دہشت گردوں نے ان کے گھروں پر حملے کرکے شہید کیا تھا۔

دراصل موساد نے اسرائیل کے ایران پر حملہ کرنے سے بہت پہلے وہاں اپنا اڈہ قائم کر لیا تھا اور وہاں سے ایران کے اندر اپنی خونخوار کارروائیاں کر رہا تھا۔ لگتا ہے حماس کے سربراہ کو قتل اور صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو بھی ان ہی نے گرا کر انھیں اور ان کے ساتھ سفر کر رہے، کئی اہم ایرانی شخصیات کو شہید کر دیا تھا۔ ایران میں اب ان اسرائیلی جاسوسوں کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

کئی کو گرفتار کر کے سخت سزائیں دی گئی ہیں۔ ایران کے بھارت سے دوستانہ تعلقات ضرور ہیں مگر بھارت کے اسرائیل سے ایران سے کہیں زیادہ بڑھ کر تعلقات ہیں، بھارت نے اسرائیل سے کئی خفیہ معاہدے کر رکھے ہیں جن کے تحت وہ اسرائیل کی ہر طرح مدد کرنے کا پابند ہے۔ ہو سکتا ہے اس میں ایران کی خفیہ معلومات اسرائیل کو پہچانا بھی بھارت کی ذمے داری ہو۔

مودی کی ہندوتوا حکومت صرف پاکستان کے خلاف ہی نہیں بلکہ وہ ہر مسلم ملک کے خلاف ہے ۔ ایک مسلم ملک میں موجود بھارتی آئی ٹی انجینئر جو وہاں اہم سب میرین پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے، اس پروجیکٹ کی اہم معلومات اور دستاویزات اسرائیل کو شیئر کر رہے تھے۔

مسلم ملک کی خفیہ ایجنسی نے انھیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا۔ انھیں کئی ماہ تک جیل میں رکھا گیا، مقدمہ عدالت میں چلا، جہاں تمام بھارتی انجینئرز کوسخت سزا سنائی گئی مگر مودی نے اپنے اسرائیل نواز مغربی آقاؤں کی مدد سے تمام بھارتیوں کو آزاد کرا لیا تھا۔ اگر اسی طرح بھارتی ایران میں کچھ اہم پروجیکٹس پر کام کر رہے ہیں تو وہ اصل میں مودی کی ہدایت کے مطابق اسرائیل کے لیے کام کر رہے ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی کا جال بھارت نے بچھا رکھا ہے، اس کا ثبوتکلبھوشن ہے۔ جو پاکستان میں دہشت گردی کی نگرانی کر رہا تھا مگر پاکستان نے اسے گرفتار کر لیا تھا۔ اب بھی پاکستان میں مغربی سرحد سے جو دہشت گردی ہو رہی ہے، اس میں مسلم ہمسایہ ممالک کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے۔ اس وقت ایران اور اسرائیل کے درمیان خوفناک جنگ جاری ہے جس میں اسرائیل کا کافی نقصان ہوا ہے۔

ایسے ماحول میں نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کی توجہ مبذول کرانے کے لیے ایک خاص بیان دیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ جب ایران تل ابیب پر حملہ کر سکتا ہے تو وہ واشنگٹن پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اس نے اپنے اس منافقانہ بیان سے امریکا کو ایران کے خلاف کارروائی کرنے پر اکسانے کی کوشش کی ہے جب کہ صدر ٹرمپ ایران پر حملہ کرنے سے دور رہنا چاہتے ہیں بلکہ وہ تو ایران اور اسرائیل کی جنگ کو ختم کرانا چاہتے ہیں۔ تاہم عالمی تجزیہ کار نیتن یاہو کے بیان کو امریکا کو ایران پر حملہ کرنے یا اس جنگ میں ملوث ہونے کی دعوت دینے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔

 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اسرائیل امریکا کو کیوں اپنی جنگ میں پھنسانا چاہتا ہے؟ اس سلسلے میں کہا جا رہا ہے کہ یہودیوں کو برطانیہ، فرانس اور امریکا کی بدولت ہی مشرق وسطیٰ میں اپنی ریاست بنانے میں کامیابی ملی تھی۔ انھی ممالک نے یہودیوں کو ہٹلر کے ظلم و ستم سے بچایا تھا ۔

یہودی اپنے مفاد کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، انھیں امریکا سے اپنے مفاد کی حد تک ہی دلچسپی ہے، وہ امریکا کو ایران کے ساتھ جنگ میں جھونک کر اپنی تباہی کو روکنا چاہتے ہیں، انھیں امریکا کے تباہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، وہ تو یہ بھی چاہتے ہیں کہ دنیا سے امریکا اور مغربی یورپ کا غلبہ ختم ہو جائے اور یہودی دنیا پر غالب آجائیں۔ اس سلسلے میں ایک سی آئی اے کے سابق افسر فلپ جیرالڈی آج سے گیارہ سال قبل ہی خبردار کرچکے تھے کہ امریکا کا ایران کے خلاف جنگ میں ملوث ہونا اسرائیلی سازش کا نتیجہ ہوگا۔

 یہ پیش گوئی آج سچ ثابت ہو رہی ہے۔ نیتن یاہو کے امریکا کو اپنی جنگ میں ملوث کرنے کے بیان سے صدر ٹرمپ اب کافی متاثر لگتے ہیں اور لگتا ہے اگر جنگ آگے بڑھی تو وہ بھی جنگ کا حصہ بن جائیں گے اور پھر آگے کیا ہوگا؟ اس کا فیصلہ حالات ہی کریں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسرائیل کے پر حملہ کر ایران میں نیتن یاہو امریکا کو چاہتے ہیں ایران کے ایران پر سکتا ہے کے خلاف لیا تھا رہے ہیں کرنے کے کر رہے رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

کس پہ اعتبار کیا؟

اسلام ٹائمز: ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

اسلامی انقلاب سے قبل ایران اور اسرائیل کے مابین  تعلقات استوار تھے۔ ایران میں اسرائیل کا سفارت خانہ قائم تھا۔ امام خمینی کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی کے افق میں مشرق مغرب کا فرق آگیا۔ اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ایران اور اسرائیل کے مابین تعلقات کی بساط  بھی لپٹ گئی۔ جو ایران کبھی اسرائیل سے یگانگت رکھتا تھا اب اس کی اسرائیل سے مخاصمت اس کی پہچان اور اسرائیل سے دشمنی اس کے ایمان کا تقاضا ٹھہری۔

ایران اب آزادیء فلسطین کے لیے لڑی جانے والی لڑائی کو کسی مقبوضہ علاقے کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کی بجائے الہی فریضہ کے طور پر دیکھنے لگا۔ امام خمینی فلسطینیوں کی کامیابی کو محض ان کے اسلامی تشخص اور ان کی دین سے وابستگی میں دیکھتے تھے۔ جب کہ اس وقت فلسطینیوں کی سب سے بڑی تنظیم ”پی ایل او“ بنیادی طور پر سیکولر تشخص کی حامل تحریک تھی جس کا مقصد محض فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانا تھا۔

ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔

ایران کی مدد کو مسترد کرنے کی وجہ ایک ہی تھی اور وہ یہ کہ یاسر عرفات کو خطرہ تھا کہ کہیں فلسطینی ایران کے انقلابی نظریات سے متاثر نہ ہو جائیں۔ ایران کی اسلامی حکومت شروع دن سے ہی مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب صیہونی حکومت کی مخالفت میں حالت جنگ میں ہے اور قربانیاں دے رہی ہے لیکن اس کے باوجود فلسطینیوں کی نمائندہ جماعتیں کبھی بھی اسے اس کا اصل مقام دینے کے لیے آمادہ نہیں رہیں۔ فلسطین کی جماعتوں نے اب تک اسرائیل سے جو معاہدے کیے ہیں وہ ایران کو بائی پاس کرکے کیے ہیں۔ مثلاً فلسطینیوں کی سب سے بڑی جماعت ”پی ایل او“ اور اسرائیل  کے مابین جو ”اوسلو امن معاہدہ“ ہوا، ایران کو اس سے الگ رکھا گیا۔

ایران نے اس وقت ہی یہ کہ دیا تھا کہ ایران کو الگ تھلگ کر کے جو بھی معاہدہ کیا جائے گا اس کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کی آزادی کے حوالے سے مخلصانہ کردار ادا کرنے والے ایران کے مقابلے میں وقتاً وقتاً نام نہاد کرداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ جعلی کردار ایران کے حقیقی کردار کے مقابلے میں آخرکار  فلاپ ہوگئے۔ ایران کے مقابلے میں جو بھی کردار منظر عام پر آیا، چاہے وہ اسامہ بن لادن کی شکل میں ہو، صدام حسین کے روپ میں ہو یا اردگان کی صورت میں، اس نے فلسطینیوں کو ورغلانے کی کوشش کی ہے۔

حتیٰ کہ ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب حماس بھی داعش جیسے گروہ کے دام میں آگئی اور شام میں اس کے اراکین بشار الاسد کے خلاف لڑے۔ ایران اور حزب اللہ نے اس پر حماس سے اپنے راستے جدا کر لیے تھے لیکن بعد میں حماس کو احساس ہوا کہ اس سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور پھر دوبارہ ایران سے اس کے تعلقات بحال ہوگئے۔ اب لمحہء موجود میں ایک بار پھر فلسطینی اپنے بعض نام نہاد ہمدردوں کے ٹریپ میں آگئے۔

ایسے میں جبکہ کچھ عرصہ قبل ہی امریکہ ایران کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کر چکا تھا، فلسطینی تنظیموں نے ایران کو ایک طرف رکھتے ہوئے، ٹرمپ کے دھوکے میں آ کر اور قطر، ترکی اور مصر جیسی دوہرے معیار رکھنے والی حکومتوں کو درمیان میں لاکر ایک امن معاہدہ کیا اور اسرائیل کے وہ تمام قیدی چھوڑ دیے جو حماس کے پاس ” ٹرمپ کارڈ “ کے طور پر تھے۔ لیکن اسرائیل نے آخر وہی کچھ کیا جو وہ ہمیشہ سے کرتا آیا ہے اور اپنے وعدے اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر ایک بار پھر آتش و آہن کی بارش شروع کردی ہے اور غزہ کے لوگوں نے جو جشن منایا تھا وہ ایک بار پھر ان کے سوگ میں بدل گیا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ اگر آج آزادیء فلسطین کے لیے لڑنے والی کوئی بھی فلسطینی تحریک یا قیادت، مظلومین جہان کی سب سے بڑی حامی قوت، اسلامی جمہوری ایران سے مکمل ہم آھنگی نہیں رکھتی اور اس کی قیادت، جو تمام عالم اسلام کی حقیقی قیادت ہے، اس کے فرمائے ہوئے کو اپنے لیے حکم کا درجہ نہیں دیتی، عالمی فریب کاروں کے دام فریب میں آتی رہے گی۔

خود آپ اپنی ہی گردن پہ گویا وار کیا
جو معتبر ہی نہ تھا اس پہ اعتبار کیا

متعلقہ مضامین

  • ظہران ممدانی کی حمایت کرنے والے یہودی بے وقوف ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
  • اقوام متحدہ غزہ میں عالمی فوج تعینات کرنے کی منظوری دے، امریکا
  • ہمارے ایٹمی ہتھیار پوری دنیا کو 150 مرتبہ تباہ کر سکتے ہیں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
  • اسرائیل کی حمایت بند کرنے تک امریکا سے مذاکرات نہیںہونگے، ایران
  • امریکا ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرتا تب تک مذاکرات نہیں کریں گے: ایران
  • امریکا سے تعاون تب تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اسرائیل کی حمایت ترک نہ کرے، آیت اللہ خامنہ ای
  • امریکا جب تک اسرائیل کی حمایت جاری رکھےگا تو اس کے ساتھ تعاون ممکن نہیں؛سپریم لیڈر ایران
  • امریکا کو مشرق وسطیٰ میں اپنی مداخلت کو بند کرنا ہوگا، آیت اللہ خامنہ ای
  • امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
  • کس پہ اعتبار کیا؟