کیا یہودی امریکا کے وفادار ہو سکتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
ایران بلاشبہ اسرائیلی جارحیت کا مردانہ وار مقابلہ کررہا ہے اور وہ نہ صرف یہ باور کرا رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ کوئی دوسرا بھی اس جیسی طاقت کا حامل ہے۔ ایران کو اگر قصور وار مانا جا رہا ہے تو اس کا صرف اتنا ہی تو قصور ہے کہ وہ اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے جوہری توانائی کے حصول کے لیے جدوجہد کررہا ہے مگر مغربی ممالک ایران کی اس جدوجہد کو اپنے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ ایران نے اگر ایٹم بم بنا لیا تو اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
حالانکہ اسرائیل عربوں کی سرزمین پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایران کو بھی اپنی تحویل میں لینا چاہتا ہے۔ نیتن یاہو حال ہی میں گریٹر اسرائیل کے نقشے کی تشہیرکرچکا ہے۔ اسرائیل پہلے ہی 1967 کی جنگ میں اردن، شام اور مصر کے کئی علاقوں پر قبضہ کر چکا تھا، البتہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے تحت اس نے مصر کے سینائی کے علاقے کو خالی کر دیا تھا جب کہ اردن اور شام کے علاقے اب بھی اس کے قبضے میں ہیں۔
اس وقت اسرائیل غزہ پر مستقل قبضہ کرنے کے لیے وہاں کی آبادی کی تقریباً دو سال سے مسلسل نسل کشی کر رہا ہے۔ تمام عرب ممالک اس اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں ناکام ہیں۔ امریکا بھی ان کی نہیں سن رہا، البتہ صدر ٹرمپ نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے رضامندی ظاہر کردی ہے مگر نیتن یاہو اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کبھی شام پر حملے شروع کردیتا ہے اور کبھی فلسطین کے مغربی کنارے پر بمباری کرنے لگتا ہے، اب اس نے ایران پر باقاعدہ حملہ کر کے جنگ چھیڑ دی ہے۔
یہ جنگ کتنی طویل ہوگی، اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے کیونکہ ایران اسرائیل سے کم طاقت میں نہیں ہے۔ اسرائیلی حملوں میں ایران کے کئی اہم فوجی اور نیوکلیئر سائنسدان شہید ہوگئے ہیں، اسرائیل کی بمباری سے ایران میں کافی جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے۔ ایران کے اہم فوجی و ایٹمی سائنسدانوں کو شہید کیے جانے کے بارے میں اب انکشافات ہو رہے ہیں کہ انھیں ایران میں موجود موساد کے دہشت گردوں نے ان کے گھروں پر حملے کرکے شہید کیا تھا۔
دراصل موساد نے اسرائیل کے ایران پر حملہ کرنے سے بہت پہلے وہاں اپنا اڈہ قائم کر لیا تھا اور وہاں سے ایران کے اندر اپنی خونخوار کارروائیاں کر رہا تھا۔ لگتا ہے حماس کے سربراہ کو قتل اور صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو بھی ان ہی نے گرا کر انھیں اور ان کے ساتھ سفر کر رہے، کئی اہم ایرانی شخصیات کو شہید کر دیا تھا۔ ایران میں اب ان اسرائیلی جاسوسوں کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
کئی کو گرفتار کر کے سخت سزائیں دی گئی ہیں۔ ایران کے بھارت سے دوستانہ تعلقات ضرور ہیں مگر بھارت کے اسرائیل سے ایران سے کہیں زیادہ بڑھ کر تعلقات ہیں، بھارت نے اسرائیل سے کئی خفیہ معاہدے کر رکھے ہیں جن کے تحت وہ اسرائیل کی ہر طرح مدد کرنے کا پابند ہے۔ ہو سکتا ہے اس میں ایران کی خفیہ معلومات اسرائیل کو پہچانا بھی بھارت کی ذمے داری ہو۔
مودی کی ہندوتوا حکومت صرف پاکستان کے خلاف ہی نہیں بلکہ وہ ہر مسلم ملک کے خلاف ہے ۔ ایک مسلم ملک میں موجود بھارتی آئی ٹی انجینئر جو وہاں اہم سب میرین پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے، اس پروجیکٹ کی اہم معلومات اور دستاویزات اسرائیل کو شیئر کر رہے تھے۔
مسلم ملک کی خفیہ ایجنسی نے انھیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا۔ انھیں کئی ماہ تک جیل میں رکھا گیا، مقدمہ عدالت میں چلا، جہاں تمام بھارتی انجینئرز کوسخت سزا سنائی گئی مگر مودی نے اپنے اسرائیل نواز مغربی آقاؤں کی مدد سے تمام بھارتیوں کو آزاد کرا لیا تھا۔ اگر اسی طرح بھارتی ایران میں کچھ اہم پروجیکٹس پر کام کر رہے ہیں تو وہ اصل میں مودی کی ہدایت کے مطابق اسرائیل کے لیے کام کر رہے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کا جال بھارت نے بچھا رکھا ہے، اس کا ثبوتکلبھوشن ہے۔ جو پاکستان میں دہشت گردی کی نگرانی کر رہا تھا مگر پاکستان نے اسے گرفتار کر لیا تھا۔ اب بھی پاکستان میں مغربی سرحد سے جو دہشت گردی ہو رہی ہے، اس میں مسلم ہمسایہ ممالک کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے۔ اس وقت ایران اور اسرائیل کے درمیان خوفناک جنگ جاری ہے جس میں اسرائیل کا کافی نقصان ہوا ہے۔
ایسے ماحول میں نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کی توجہ مبذول کرانے کے لیے ایک خاص بیان دیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ جب ایران تل ابیب پر حملہ کر سکتا ہے تو وہ واشنگٹن پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اس نے اپنے اس منافقانہ بیان سے امریکا کو ایران کے خلاف کارروائی کرنے پر اکسانے کی کوشش کی ہے جب کہ صدر ٹرمپ ایران پر حملہ کرنے سے دور رہنا چاہتے ہیں بلکہ وہ تو ایران اور اسرائیل کی جنگ کو ختم کرانا چاہتے ہیں۔ تاہم عالمی تجزیہ کار نیتن یاہو کے بیان کو امریکا کو ایران پر حملہ کرنے یا اس جنگ میں ملوث ہونے کی دعوت دینے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اسرائیل امریکا کو کیوں اپنی جنگ میں پھنسانا چاہتا ہے؟ اس سلسلے میں کہا جا رہا ہے کہ یہودیوں کو برطانیہ، فرانس اور امریکا کی بدولت ہی مشرق وسطیٰ میں اپنی ریاست بنانے میں کامیابی ملی تھی۔ انھی ممالک نے یہودیوں کو ہٹلر کے ظلم و ستم سے بچایا تھا ۔
یہودی اپنے مفاد کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، انھیں امریکا سے اپنے مفاد کی حد تک ہی دلچسپی ہے، وہ امریکا کو ایران کے ساتھ جنگ میں جھونک کر اپنی تباہی کو روکنا چاہتے ہیں، انھیں امریکا کے تباہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، وہ تو یہ بھی چاہتے ہیں کہ دنیا سے امریکا اور مغربی یورپ کا غلبہ ختم ہو جائے اور یہودی دنیا پر غالب آجائیں۔ اس سلسلے میں ایک سی آئی اے کے سابق افسر فلپ جیرالڈی آج سے گیارہ سال قبل ہی خبردار کرچکے تھے کہ امریکا کا ایران کے خلاف جنگ میں ملوث ہونا اسرائیلی سازش کا نتیجہ ہوگا۔
یہ پیش گوئی آج سچ ثابت ہو رہی ہے۔ نیتن یاہو کے امریکا کو اپنی جنگ میں ملوث کرنے کے بیان سے صدر ٹرمپ اب کافی متاثر لگتے ہیں اور لگتا ہے اگر جنگ آگے بڑھی تو وہ بھی جنگ کا حصہ بن جائیں گے اور پھر آگے کیا ہوگا؟ اس کا فیصلہ حالات ہی کریں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیل کے پر حملہ کر ایران میں نیتن یاہو امریکا کو چاہتے ہیں ایران کے ایران پر سکتا ہے کے خلاف لیا تھا رہے ہیں کرنے کے کر رہے رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
فرانس کا ایران پر دوبارہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کا اعلان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پیرس: فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے اعلان کیا ہے کہ ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کی جائیں گی۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق میکرون نے کہا کہ یورپی طاقتوں کی مذاکراتی کوششوں کو ایران نے سنجیدگی سے نہیں لیا، اسی لیے رواں ماہ کے آخر تک پابندیاں بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق میکرون نے واضح کیا کہ ایران کی حالیہ تجاویز قابلِ عمل نہیں ہیں،ایران پر دوبارہ سے پابندیاں بحال ہو جائیں گی کیونکہ ایران نے ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔
خیال رہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی (ای 3) نے اگست کے آخر میں 30 روزہ مذاکراتی عمل شروع کیا تھا۔ یورپی ممالک کی جانب سے ایران کو پیشکش کی گئی تھی کہ اگر وہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو دوبارہ رسائی فراہم کرے، افزودہ یورینیم کی تفصیلات سامنے لائے اور امریکا کے ساتھ براہِ راست مذاکرات پر آمادہ ہو جائے تو پابندیوں کے عمل کو مؤخر کیا جا سکتا ہے۔
واضح رہےکہ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نےکہا تھا کہ تہران نے یورپی یونین اور ای 3 کو ایک “عملی منصوبہ” فراہم کیا ہے تاکہ بحران سے بچا جا سکے، یورپی سفارت کاروں کے مطابق اس منصوبے پر کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آئی تھی۔
علاوہ ازیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد بھی پیش ہوئی تھی جس کے تحت ایران پر عائد پابندیاں مستقل طور پر ختم کی جا سکتی تھیں لیکن امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ امریکا، برطانیہ اور فرانس اس قرارداد کو ویٹو کر دیں گے۔
یاد رہے کہ رواں سال جون میں امریکا اور اسرائیل نے ایران کے یورینیم افزودگی پلانٹس پر حملے کیے تھے اور الزام لگایا تھا کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کے قریب ہے، حالانکہ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی نے واضح کیا تھا کہ اس دعوے کے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔
بعد ازاں صورتحال میں تبدیلی آئی اور امریکا نے ایران پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ واشنگٹن کے اس فیصلے کو بعض حلقوں نے خطے میں تناؤ کم کرنے کی کوشش قرار دیا، جبکہ ناقدین کے مطابق یہ اقدام مغربی پالیسیوں میں تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔
امریکی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے ایران نے پابندیوں کے خاتمے کو “درست اور مثبت قدم قرار دیا، امریکا نے بالآخر حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ دباؤ اور پابندیوں کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔
ایرانی حکام نے کہا کہ وہ اب بھی مذاکرات اور تعاون کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ مغربی ممالک سنجیدگی دکھائیں۔