اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جون 2025ء) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ مئی کے تنازعہ کے دوران انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان فائر بندی کے لیے ذاتی طور پر ثالثی کی تھی، اب نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان نئے سفارتی تنازعے کا سبب بن گیا ہے۔

بھارتی خارجہ سکریٹری وکرم مصری نے حال ہی میں کہا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹرمپ کو ایک ٹیلی فون کال میں بتایا کہ فائر بندی بھارت اور پاکستان کی فوجوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے حاصل کی گئی تھی نہ کہ امریکی ثالثی کے ذریعے۔

مصری نے کہا، "وزیر اعظم مودی نے صدر ٹرمپ سے واضح طور پر کہا کہ اس دوران بھارت امریکہ تجارتی معاہدے یا بھارت اور پاکستان کے درمیان امریکی ثالثی جیسے موضوعات پر کسی بھی مرحلے پر کوئی بات نہیں ہوئی۔

(جاری ہے)

"

مصری نے مزید کہا، "وزیر اعظم مودی نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت نے ماضی میں ثالثی کو قبول نہیں کیا ہے اور نہ کبھی کرے گا۔

"

وائٹ ہاؤس نے اس فون کال کے بارے میں الگ سے کوئی بیان جاری نہیں کیا تھا، تاہم صدر ٹرمپ نے اس کے بعد بھی اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان کی کوشش کے سبب ہی فائر بندی عمل میں آئی۔

مودی اور ٹرمپ کے درمیان کینیڈا میں گروپ آف سیون (جی سیون) کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات ہونی تھی، لیکن مشرق وسطیٰ کی صورتحال کی وجہ سے امریکی صدر وہاں سے روانہ ہو گئے اور دونوں رہنماؤں کی ملاقات نہیں ہو پائی۔

اگرچہ مودی اور ٹرمپ کے درمیان ذاتی تعلقات ہیں، لیکن ایک خیال یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملات میں ٹرمپ کی غیر متوقع اور لین دین کی روش تعلقات کو کشیدہ کر سکتی ہے۔

صدر ٹرمپ اور پاکستانی فیلڈ مارشل عاصم منیر میں کیا باتیں ہوئیں؟

بھارت فی الحال امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے، لیکن بات چیت میں رکاوٹوں کا سامنا ہے کیونکہ اضافی محصولات کے لیے امریکی تجارتی شراکت داروں کو جو نوے دن کی مہلت دی گئی تھی، وہ نو جولائی کو خاتمے کے قریب آ رہی ہے۔

پاکستان میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر اجے بساریہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارت نے اب تک ٹرمپ کو اسٹریٹجک کمپوزیشن کے ساتھ ہینڈل کیا ہے۔

بساریہ نے کہا، "لیکن، جب امریکی صدر بار بار اور عوامی طور پر پاکستان اور بھارت کے حالیہ تنازعہ میں ثالثی کے لیے ایک بڑے کردار کا دعویٰ کرتے ہیں، تو بھارت سے عوامی دباؤ کی توقع رکھیں۔

"

بساریہ نے مزید کہا، "بھارت میں رائے عامہ اب امریکہ کو ایک ناقابل اعتماد پارٹنر کے طور پر دیکھتی ہے۔"

نئے معمول کا چلن

اگرچہ دہلی سمجھتا ہے کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات وائٹ ہاؤس کے اعلانات سے زیادہ گہرے ہیں، بساریہ نے کہا، بھارتی حکام عوامی سفارت کاری کے چیلنجوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔

بساریہ نے کہا، "جب بھی واشنگٹن پاکستان کی فوج کو شامل کرتا ہے، جیسا کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ حالیہ لنچ کیا، تو یہ غلط اشارہ دیتا ہے۔

"

پاکستانی آرمی چیف سے متعلق کانگریس کے بیان پر بی جے پی برہم

نئی دہلی نے 22 اپریل کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں شہریوں پر حملے کے بعد پاکستان پر سرحد پار سے "دہشت گردی کی حمایت" کا الزام لگایا، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اس حملے کی ذمہ داری کشمیر ریزسٹنس کہنے والے ایک گروپ نے قبول کی تھی، جسے بھارت کا کہنا ہے کہ مزاحمتی محاذ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور اس کا تعلق اقوام متحدہ کی طرف سے نامزد دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) سے ہے۔

نئی دہلی نے اسلام آباد پر حملے کی پشت پناہی کا الزام لگایا، جبکہ پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے۔

مسئلہ کشمیر دو ملکوں کا نہیں بلکہ عالمی تنازع ہے، بلاول بھٹو

امریکی ثالثی پر متضاد خیالات

ٹرمپ اور منیر کے درمیان لنچ پر ملاقات، جو گزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس میں ہوئی، ایک انوکھا واقعہ تھا کیونکہ یہ پہلا موقع تھا جب کسی موجودہ امریکی صدر نے باضابطہ طور پر پاکستانی آرمی چیف کی میزبانی کی ہو، جو کہ سربراہ مملکت کے طور پر بھی خدمات انجام نہیں دے رہے تھے۔

بہت سے لوگوں نے حالیہ کشیدگی کو دیکھتے ہوئے اسے اشتعال انگیز قرار دیا۔ بساریہ نے کہا، "امریکہ کے لیے بھارت کا سفارتی پیغام واضح رہے گا: ان پر پابندی لگائیں، پاکستان کے جرنیلوں کو گلے نہ لگائیں۔"

البتہ میرا شنکر جو امریکہ میں سابق بھارتی سفیر رہ چکی ہیں، کا موقف مختلف ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹرمپ کے حالیہ پاک بھارت تنازعے کو ختم کرانے کے دعووں کی تردید کرنا شاید کسی حد تک بے ڈھنگی بات ہے، کیونکہ بھارت مکمل طور پر تنازعہ چاہتا ہی نہیں تھا۔

"

انہوں نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کو پیچھے ہٹنے پر آمادہ کرنے میں مدد کی ہو۔

کینیڈا میں جی سیون سمٹ میں بھارت چھ برسوں میں پہلی بار مدعو نہیں

میرا شنکر کا کہنا تھا، "بھارتی حکومت کو غیر ملکی مداخلت کی اجازت دینے پر گھریلو سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اور مجھے لگتا ہے کہ یہ تردید اسی کا جواب دینے کے لیے ہو رہی ہے۔

"

انہوں نے کہا، "امریکہ میں عاصم منیر کی دعوت کو ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی فوجی حملوں کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ امکان ہے کہ امریکہ اس تناظر میں پاکستان سے کچھ سہولیات مانگ رہا تھا۔"

بھارت امریکہ تعلقات کا سفارتی امتحان

میرا شنکر نے کہا کہ اس بات پر تشویش پائی جاتی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی غلطیوں کی وجہ سے بھارت امریکہ اسٹریٹجک پارٹنرشپ دباؤ میں آ سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا، "ایک دوسرے کے خدشات کے بارے میں حساسیت ظاہر کرنے اور مواصلات کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔"

امریکہ ہند بحرالکاہل کے علاقے میں چین کے عروج کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کو تنہا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بھارت رواں برس ستمبر میں ہی کواڈ سمٹ کی میزبانی کرنے والا ہے، جس میں ٹرمپ کی شرکت بھی متوقع ہے۔

پاک، بھارت کشیدگی: پاکستانی اعلیٰ اختیاراتی وفد غیرملکی دورے پر

کواڈ گروپ امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت پر مشتمل ہے اور دعویٰ ہے کہ یہ ہند-بحرالکاہل کے خطے میں استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے، خاص طور پر چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کے جواب میں۔

آخری بار بھارتی اور امریکی رہنماؤں کی ملاقات فروری میں ٹرمپ کے دوسری صدارتی مدت کے لیے حلف لینے کے بعد ہوئی تھی، جس میں دونوں افراد نے اپنے تعلقات کو اہمیت دی تھی۔

نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ڈین امیتابھ مٹو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حالیہ پیش رفت نے تعلقات میں تناؤ اور بداعتمادی کو متعارف کرایا ہے۔

مٹو نے کہا، "امریکہ نے قلیل مدتی اور معاہدوں پر مبنی ڈپلومیسی کی پیروی کی ہے، اور اس لین دین کے طریقہ کار نے باہمی اعتماد کو مجروح کیا ہے اور غیر متوقع کے احساس کو فروغ دیا ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "اس سے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بھارت کے تعلقات کے بارے میں تشویش پیدا ہوتی ہے ۔۔۔۔ لیکن شراکت داری چیلنجوں پر قابو پا سکتی ہے اور ایک بہتر، پائیدار مستقبل کی تشکیل کر سکتی ہے - اور تجدید کا ایک موقع بھی پیش کر سکتی ہے۔"

ص ز/ ج ا (مرلی کرشنن)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بساریہ نے کہا بھارت امریکہ اور پاکستان امریکی صدر پاکستان کے کے درمیان امریکہ کے بھارت اور بھارت کے بتایا کہ نئی دہلی انہوں نے کہ بھارت کے ساتھ سکتی ہے ٹرمپ کے ہے اور کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

آرمی چیف کا ٹرمپ سے ملنا مس ٹائمنگ ہے، علامہ سبطین سبزواری

ایس یو سی پاکستان کے نائب صدر کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے ہی پاوں پر کلہاڑی مار لی ہے، اس حملے میں ایران کا کوئی نقصان نہیں ہوا،لیکن امریکہ ایران کو اشتعال دلانے میں کامیاب رہا ، اب ایران کا ردعمل قابل دید ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے اسرائیل کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے، اب امید کی جا سکتی ہے کہ ناجائزریاست کا مشرق وسطیٰ سے مکمل صفایا ہوجائے گا۔ اسلام ٹائمز۔شیعہ علما ء کونسل پاکستان کے نائب صدر علامہ سبطین حیدر سبزواری نے کہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اور حکومت کی جانب سے امریکی صدر ٹرمپ کیلئے نوبل انعام کی سفارش کرنا  بہت بڑا بلنڈر اور 26 کروڑ عوام کے جذبات مجروح کرنے کے مترادف ہے، فارم 47 کی پیداوار حکومت واضح کر رہی ہے کہ عوام کی منتخب کردہ حکومت نہیں۔علامہ سبطین سبزواری  کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کا ٹرمپ سے ملنا مس ٹائمنگ ہے، ماضی کی عالمی سفارتی غلطیاں نوشتہ دیوار ہیں۔انہوں نے ایران کی خالی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے اپنے ہی پاوں پر کلہاڑی مار لی ہے، اس حملے میں ایران کا کوئی نقصان نہیں ہوا،لیکن امریکہ ایران کو اشتعال دلانے میں کامیاب رہا ، اب ایران کا ردعمل قابل دید ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے اسرائیل کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے، اب امید کی جا سکتی ہے کہ ناجائزریاست کا مشرق وسطیٰ سے مکمل صفایا ہوجائے گا۔
 

متعلقہ مضامین

  • ایران کی شاندار فتح اور مستقبل کی پلاننگ
  • ایران نے قطرپرحملے کی پیشگی اطلاع دی تھی، ٹرمپ کا دعویٰ
  • امریکی درخواست پر قطر کی ثالثی: ایران اور اسرائیل میں جنگ بندی کا آغاز
  • اسرائیل کیساتھ کھڑے ہونے والے ٹرمپ بھارت کیساتھ کیوں کھڑے نہیں ہوئے، سنجے راؤت
  • تاریخی موقعہ!
  • ٹرمپ اور عاصم منیرکی ملاقات
  • ایران پر امریکی حملہ، مختلف ذرائع کی روشنی میں تحقیق و تجزیہ
  • فیلڈ مارشل کا دورہ امریکہ : بھارت میں صف ماتم
  • آرمی چیف کا ٹرمپ سے ملنا مس ٹائمنگ ہے، علامہ سبطین سبزواری