ہم موجودہ حکومت گراتے ہیں تو کیا بے یقینی پیدا نہیں ہو گی؟ قمر زمان کائرہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
قمر زمان کائرہ—فائل فوٹو
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ ہم موجودہ حکومت کو گراتے ہیں تو کیا ہو گا؟ کیا نئے مسائل اور بے یقینی پیدا نہیں ہو گی؟
لاہور ہائی کورٹ بار میں پیپلز لائرز فورم کے سیمینار سے قمر زمان کائرہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان ایٹمی طاقت ہے تو بھٹو صاحب کی بدولت ہے، ہم سے بھی غلطیاں ہوئیں کیونکہ ہم فرشتے نہیں انسان ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بھٹو نے بکھری ہوئی قوم کو اکٹھا کیا اور متفقہ آئین دیا، سیاسی جماعتوں کو آپس میں لڑوایا جاتا ہے اور ہم لڑتے بھی ہیں، جب نواز شریف پر برا وقت آیا تو بے نظیر نے خود ان کے پاس جا کر میثاقِ جمہوریت کیا۔
یہ بھی پڑھیے ٹرمپ اور مودی کی صورت فاشزم آج بھی موجود ہے: قمر زمان کائرہقمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں لیڈر ایسے بھی ہیں جو چاہتے تھے کہ ملک ڈیفالٹ کر جائے، اب بھی وہ چاہتے ہیں کہ ایک صوبے کا بجٹ پاس نہ ہو تاکہ وفاقی حکومت مشکل میں آئے، کیا ایک لیڈر کو اپنی انا اور ذات کو آگے رکھنا چاہیے؟
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے لوگوں کو جیلوں میں ڈالا گیا، اس وقت بھی بلاول نے بانیٔ پی ٹی آئی کو ملکی مسائل کے حل کے لیے مفاہمت کی آفر کی۔
پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ بھارت سے ہماری جنگ بندی ہوئی دوستی نہیں، اگر ملک میں سیاسی افراتفری ہو تو بھارت دوبارہ بھی حملہ کر سکتا ہے، بلاول بھٹو نے پاکستان کا مقدمہ ایسا لڑا کہ مودی اپنے عوام کے کٹہرے میں کھڑا ہو گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ن لیگ نے ہمارے ساتھ وعدے پورے نہیں کیے، آسان ہے کہ ہم احتجاج کی سیاست کریں، صرف جذبات نہیں چلتے، سیاست میں عوام اور قوم کا سوچنا ہوتا ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ اس ملک میں کون سا الیکشن شفاف ہوا؟ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی بساط ہی لپیٹ دی جائے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ
پڑھیں:
موجودہ عالمی نظام طاقتور ممالک کی اجارہ داری پر قائم، سری لنکن صدر
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 ستمبر 2025ء) سری لنکا کے صدر انورا کمارا ڈسانائیکے نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے طاقت کے غیر منصفانہ عالمگیر ڈھانچے پر تنقید کی، اقتصادی انصاف کا مطالبہ کیا اور سری لنکا کی خودمختاری و جمہوری اصلاحات کے عزم کو اجاگر کیا۔
صدر ڈسانائیکے نے اپنی تقریر کا آغاز اس سوال سے کیا کہ کیا دنیا واقعی انصاف کے اصولوں پر چل رہی ہے یا طاقتور ممالک کے مفادات پر عمل پیرا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ عالمی نظام چھوٹے اور ترقی پذیر ممالک کے حقوق کو نظر انداز کرتا ہے اور طاقتور اقوام کی اجارہ داری قائم رکھتا ہے۔انہوں نے بین الاقوامی قوانین کے دوہرے معیار اور عالمی اداروں کی ناکامی پر تنقید کی جو کمزور ممالک کو جنگ، استحصال اور اقتصادی دباؤ سے بچانے میں ناکام رہے ہیں۔
(جاری ہے)
اقتصادی اصلاحات کی اپیلسری لنکا کے صدر نے عالمی اقتصادی بحران اور اس کے ترقی پذیر ممالک پر اثرات کو اپنی تقریر کا مرکزی موضوع بنایا۔
انہوں نے کہا کہ سری لنکا جیسے ممالک کو عالمی مالیاتی نظام نے قرضوں کے جال میں پھنسا دیا ہے جس سے ترقی کی راہیں مسدود ہو گئی ہیں۔انہوں نے خودمختار قرضوں کی تنظیم نو کے لیے ایک شفاف اور منصفانہ نظام کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں کو منافع کے بجائے انسانی ترقی کو ترجیح دینی چاہیے۔
غیرجانبدارانہ خارجہ پالیسیصدر ڈسانائیکے نے سری لنکا کی غیر جانبدار خارجہ پالیسی کا اعادہ کیا اور کہا کہ ان کا ملک کسی بھی عالمی طاقت کے کھیل کا مہرہ نہیں بنے گا۔
انہوں نے بیرونی مداخلت کو مسترد کرتے ہوئے قومی خودمختاری کے تحفظ پر زور دیا۔انہوں نے فلسطین سمیت ان اقوام سے یکجہتی کا اظہار کیا جو قبضے اور جارحیت کا شکار ہیں اور عالمی قوانین کی بنیاد پر ان تنازعات کے منصفانہ حل کی اپیل کی۔
سماجی انصاف کا عزمصدر نے سری لنکا میں جمہوریت کی بحالی، بدعنوانی کے خاتمے اور سماجی مساوات کے لیے اپنی حکومت کے اقدامات کا ذکر کیا۔
انہوں نے عوامی مینڈیٹ کو تبدیلی کی علامت قرار دیا اور شفافیت، احتساب اور جامع ترقی کے وعدے کو دہرایا۔انہوں نے اقتصادی بحران کے دوران عوام کو درپیش مشکلات کا اعتراف بھی کیا اور تعلیم، صحت اور ماحولیاتی تحفظ کو ترجیح دینے والے ترقیاتی منصوبوں کا خاکہ پیش کیا۔
ڈسانائیکے نے عالمی رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ صرف بیانات تک محدود نہ رہیں بلکہ عملی اقدامات کریں تاکہ ایک منصفانہ، پُرامن اور مساوی دنیا کی تعمیر ممکن ہو۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کی آواز سنی جائے اور انصاف، برابری اور باہمی احترام کے اصولوں کو اپنایا جائے۔