Jasarat News:
2025-06-27@02:07:38 GMT

مُراد ِرسول ﷺسیدنا عمر فاروقؓ

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سیدنا عمر فاروقؓ تاریخ ِ انسانی میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ آپؓ کو صحابہ کرام کے درمیان مرادِ رسولؐ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ یعنی آپ کے لیے نبی پاکؐ نے خصوصی دعائیں کیں اور آپ کا نام لے کر کہا: یا اللہ! عمر کے ذریعے اسلام کو تقویت پہنچا۔ اس وقت تک عمر بن خطاب اسلام کے بدترین دشمنوں میں شمار ہوتے تھے مگر اللہ کے نبیؐ کی دعا کیسے رد ہوسکتی ہے؟ آپؐ کے ہر ہر لفظ کو تائیدِ ربانی حاصل تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’وہ اپنی خواہشِ نفس سے کچھ نہیں بولتے۔ یہ تو ایک وحی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے‘‘ (النجم: 3-4)۔
یہ وہ دور تھا جس میں کفار کی طرف سے صحابہ کرامؓ بلکہ بعض اوقات خود نبی محترمؐ کو جسمانی اذیتیں پہنچانا معمول بن چکا تھا۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات، غلام اور کنیزیں اسلام کی طرف راغب تھے مگر قبولِ اسلام کے بعد ان پر جو قیامت ڈھائی جاتی، اس کا حال پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ سیدنا بلال، خبّاب، عمار، یاسر، سمیّہ، زنیرہ رضی اللہ عنہم اور اسی طرح بے شمار صحابہ وصحابیات بدترین مظالم کا نشانہ بنائے گئے۔ سیدہ سمیہؓ تو مکہ میں ظلم وستم سے شہید کردی گئیں۔ سیدنا یاسرؓ بھی مظالم برداشت کرتے کرتے دنیا سے کوچ کرگئے۔ باقی مستضعفین صحابہ کرامؓ کو بھی مار ڈالنے کی کوششیں ہوئیں، مگر اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی۔

قریش کی مخالفت حد سے گزری تو ان بدبختوں نے نبی اکرمؐ کو شہید کرنے کے منصوبے بنائے۔ دارالندوہ میں مشورہ ہوا کہ کوئی شیردل نوجوان جائے اور جاکر رسول اللہ کا کام تمام کردے۔ کون یہ کام کرسکتا ہے؟ یہ سوال بڑا اہم تھا۔ کئی نوجوانوں نے خود کو اس خدمت کے لیے پیش کیا مگر سردارانِ قریش نے ہر ایک سے کہا کہ یہ کام اس کے بس میں نہیں ہے۔ آخر بنوعدی کا سجیلا جوان عمربن خطاب کھڑا ہوگیا۔ اس نے کہا: سردارانِ قریش! میں ابھی یہ کام کرکے تم لوگوں کو خوش خبری سناتا ہوں۔ ابوجہل نے کہا: ’’ہاں یہ نوجوان یقینا اس قابل ہے کہ اس کٹھن کام کو سرانجام دے سکے‘‘۔ فیصلہ ہوجانے کے بعد عمربن خطاب دارالندوہ سے نکلے۔ ان کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی، چہرے پر عجیب غصے کی کیفیت کے ساتھ خود کلامی کے انداز میں کچھ کہتے ہوئے وہ چلے جارہے تھے۔

اچانک راستے میں نعیم بن عبداللہ سے آمنا سامنا ہوگیا۔ نعیمؓ کا تعلق بھی بنوعدی سے تھا۔ وہ اسلام لاچکے تھے، مگر ابھی تک اپنے اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا۔ ابن حجرعسقلانیؒ کے مطابق‘ قبولِ اسلام میں ان کا دسواں نمبر ہے۔ نعیمؓ نے پوچھا: ’’عمر! کیا بات ہے؟ بڑے غصے میں نظر آرہے ہو؟‘‘۔ عمر نے کہا: ’’ہاں میں آج اس شخص کو قتل کرنے جارہا ہوں جس نے ہمارے باپ دادا کا دین بگاڑ دیا ہے‘‘۔ نعیمؓ بن عبداللہ نے بڑی حکمت کے ساتھ کہا: ’’اچھا اگر یہ بات ہے تو پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمہاری بہن فاطمہؓ بنت خطاب اور تمہارا بہنوئی سعیدؓ بن زید بھی آبائی دین کو چھوڑ کر ’’صابی‘‘ بن چکے ہیں‘‘۔ (الاصابہ)
اس خبر نے عمر کے غصے کو سہ آتشہ کردیا۔ اب دارِ ارقم جانے کے بجائے بہن کے گھر کی راہ لی۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ گھر کا دروازہ بند ہے اور اندر سے کسی چیز کے پڑھنے کی آواز آرہی ہے۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو بہن نے دروازہ کھولا۔ نبی اکرمؐ پر انہی دنوں سورۂ طٰہٰ نازل ہوئی تھی۔ اسی کی تلاوت اور حفظ کی مشق کی جارہی تھی۔ سیدنا خبابؓ بن ارت جو آنحضورؐ سے قرآنِ مجید سن کر یاد کرلیا کرتے تھے، بھی گھر میں موجود تھے۔ عمر ابن خطاب کی آہٹ اور آواز سنتے ہی انہیں گھر میں چھپا دیا گیا۔ عمر نے بہن اور بہنوئی سے پوچھا: تم کیا پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے کہا: کچھ بھی نہیں۔ اس پر ان کا غصہ بھڑک اٹھا۔ بہنوئی کو زدوکوب کرنا شروع کیا، بہن بچانے کے لیے آئیں تو انہیں بھی خوب مارا پیٹا یہاں تک کہ وہ لہولہان ہوگئیں۔ اس موقع پر فاطمہؓ بنت خطاب نے اپنے بلند جذبۂ ایمانی سے بڑی جرأت اور استقامت سے کہا: ’’عمر! سن لو ہم مسلمان ہوچکے ہیں، ہم نے شرک اور بت پرستی سے برأت کا اظہار کردیا ہے۔ تم جو کچھ کرنا چاہو کرلو، ہماری ہڈیاں توڑ سکتے ہو، مگر اسلام سے برگشتہ ہرگز نہیں کرسکتے‘‘ (ایضاً)۔

صاحبِ استقامت بہن کی زبان سے یہ سننا تھا کہ عمر کے دل پر چوٹ لگی اور وہ زمین پر بیٹھ گئے۔ پھر کہا: مجھے وہ صحیفہ سناؤ جو تم پڑھتے ہو۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم اس صحیفے کی توہین برداشت نہیں کرسکتے، نہ ہی کسی مشرک کو دے سکتے ہیں کیونکہ اسے صرف پاکیزہ لوگ ہی ہاتھ لگا سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا: اچھا مجھے خود سناؤ، تو میں اس کی کوئی توہین نہیں کروں گا۔ اس وعدے کے بعد سیدنا خبابؓ کو اندر سے باہر بلایا گیا اور انہوں نے سورۂ طٰہٰ کی آیات کی تلاوت کی۔ چھوٹی چھوٹی آیات میں اتنا مؤثر پیغام سمودیا گیا ہے کہ اعجازِ قرآنی پر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اہلِ ایمان کے ایمان میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔ قرآنِ حکیم پورے سوز کے ساتھ پڑھا جارہا تھا اور عمر کے دل کی دنیا میں عظیم الشان انقلاب برپا ہو رہا تھا۔
قرآنِ مجید تو ہے ہی کتابِ انقلاب، فرد سے لے کر معاشرے تک اس کے پیدا کردہ انقلاب کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ سیدنا عمرؓ نے آیات ِقرآنی سنیں اور پھر خاموشی سے گھر کا دروازہ کھول کر نکل گئے۔ اب بھی منزل دارِ ارقم ہی تھی، مگر ارادہ بدل چکا تھا۔ یہ وہ عمر نہیں تھا جو دارالندوۃ سے نکلا تھا، یہ وہ عمرؓ تھا جس کے حق میں نبی مہربانؐ کی دعائیں دربارِ ربانی میں قبول ہوچکی تھیں۔ قرآنِ مجید کی اثرآفرینی کے ساتھ بہن کی استقامت نے بھی کفر کو مات دی تھی۔

جب عمرؓبن خطاب دارِ ارقم پہنچے اور دروازے پر دستک دی تو ایک صحابی نے دروازے کے سوراخ میں سے ان کے ہاتھ میں ننگی تلوار دیکھ کر دروازہ کھولنے کے بجائے واپس آنحضورؐ کے پاس آکر سرگوشی کے انداز میں کہا: ’’یارسول اللہ! عمربن خطاب دروازے پر کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں تلوار ہے‘‘۔ سیدنا حمزہؓ‘ جو صرف تین دن پہلے مسلمان ہوئے تھے‘ نے بھی یہ بات سن لی اور فرمایا: اللہ کے بندے دروازہ کھول دو۔ اگر وہ نیک ارادے سے آیا ہے تو سر آنکھوں پر اور اگر اس کا کوئی اور ارادہ ہے تو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں، میں اس کا سر اُسی کی تلوار سے قلم کردوں گا۔ دروازہ کھلا، عمر اندر آئے، سیدھے آنحضورؐ کے پاس پہنچے۔ آپؐ نے ان کی چادر پکڑ کر کھینچا اور کہا عمر! کیسے آئے ہو؟ عرض کیا اسلام قبول کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ پھر کلمۂ شہادت پڑھا اور اسلام میں داخل ہوگئے۔ آنحضورؐ کی زبانِ مبارک سے تکبیر کا نعرہ بلند ہوا۔ سبھی صحابہؓ نے بھی آپ کی تقلید میں اللہ کی کبریائی کا اعلان کیا اور دارِارقم تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھا۔ (سیرۃ ابن ہشام، جلد دوم)
کئی مہینوں سے نبی اکرمؐ مسلسل دعا کرتے رہے تھے: اَللّٰہُمَّ انْصُرِالْاِسْلَام بِاحَدِ عُمَرَیْنِ۔ یعنی اے اللہ (مکہ کے) دو عمروں میں سے کسی ایک عمر کو اسلام کا مددگار بنادے۔ یعنی عمربن خطاب کو اسلام کی آغوش میں لے آ، یا عمرو بن ہشام (ابوجہل) کو ایمان کی توفیق بخش دے۔ آپؐ کی دعا کے یہ الفاظ بھی نقل کیے گئے ہیں۔ اَللّٰہُمَّ اعِزَّ الْاِسْلَامَ بِاَحَبِّ ہٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ اِلَیْکَ بِاَبِیْ جَہْلٍ اَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابٍ۔ (صحیح بخاری، جامع ترمذی) ’’اے اللہ! ان دو مردانِ کار، ابوجہل اور عمربن خطاب میں سے جو بھی تجھے زیادہ محبوب ہے، اس کے ذریعے اسلام کو عزت وقوت عطا فرما‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے عمرؓبن خطاب کے بارے میں دعائے نبوی کو شرفِ قبولیت بخشا۔ آپؐ کی اس دعا میں یقینا بڑی حکمت ہے۔

آپؐ کا ارشاد ہے: خِیَارُکُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ خِیَارُکُمْ فِی الْاِسْلَامِ اِذَا فَقِہُوا۔ یعنی تم میں سے جو لوگ جاہلیت میں اگلی صفوں میں کام کرتے ہیں، قبولیتِ اسلام کی توفیق مل جائے تو خدمتِ اسلام میں بھی وہ اگلی صفوں ہی میں ہوں گے اگر دین کا صحیح فہم حاصل کر لیں۔ (متفق علیہ، روایت: عبدالرحمن بن صخر)۔ ابوجہل اور عمرؓبن الخطاب آپس میں ماموں بھانجا تھے۔ یہ دونوں شخصیات اپنی بہادری اور جرأت نیز فہم وفراست اور اوصافِ قیادت میں نمایاں تھیں۔ ابوجہل بدبخت وبدنصیب ہے، مگر اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے کفر پر اتنا مضبوط تھا کہ دنیا کا کوئی فرعون ونمرود مشکل ہی سے اس کی مثال پیش کرسکتا ہے۔
قبولِ اسلام کے بعد سیدنا عمرؓ نے آنحضورؐ سے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: یقینا ہم حق پر ہیں۔ اس پر عرض کیا: پھر ہمیں دارِ ارقم کے بجائے بیت اللہ شریف میں جا کر نماز پڑھنی چاہیے؛ چنانچہ اس روز مسلمان دارِ ارقم سے دو صفیں بنا کر نکلے۔ ایک صف کے آگے آگے حمزہؓ بن عبدالمطلب اور دوسری صف کے آگے عمرؓبن خطاب تھے۔ مسلمان اس شان کے ساتھ حرم شریف میں آئے اور وہاں نماز پڑھی اور سیدنا عمرؓ نے سردارانِ قریش کو متنبہ کردیا کہ وہ اسلام میں داخل ہوگئے ہیں۔ اس خبر سے قریش کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ یوں اہلِ علم کے نزدیک سیدنا عمربن خطابؓ مرادِ رسولؐ ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسلام میں کے ہاتھ کے ساتھ اور اس نے کہا عمر کے کے لیے کے بعد

پڑھیں:

امام العادلین امیرالمومنین سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ

آپؓ کا اسم گرامی عمر، لقب فاروق اور کنیت ابوحفص ہے۔ آپؓ ستائیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ چوں کہ نبی کریمؐ سیّدنا عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کے لیے بہت دعا فرمایا کرتے تھے اس لیے سیّدنا عمر فاروقؓ کے اسلام لانے پر نبی کریمؐ بہت خوش ہوئے اور اپنی جگہ سے چند قدم آگے چل کر آپؓ کو گلے لگایا اور آپؓ کے سینۂ مبارک پر دست نبوتؐ پھیر کر دعا دی: ’’یااﷲ! ان کے سینے سے کینہ و عداوت کو نکال کر ایمان سے بھر دے۔‘‘ حضرت جبرئیلؑ بھی سیدنا فاروق اعظمؓ کے قبول اسلام پر مبارک باد دینے نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

سیدنا فاروق اعظمؓ کے اسلام لانے سے اسلام کی شوکت و سطوت میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا اور مسلمانوں نے بیت اﷲ شریف میں اعلانیہ نماز ادا کرنا شروع کر دی۔ آپؓ وہ واحد صحابی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اعلانیہ اسلام قبول کیا اور اعلانیہ ہجرت فرمائی۔ ہجرت کے موقع پر طواف کعبہ کیا اور کفار مکہ کو للکار کر کہا: ’’میں ہجرت کرنے لگا ہوں یہ مت سوچنا کہ عمر چھپ کر بھاگ گیا ہے، جسے اپنے بچے یتیم اور بیوی بیوہ کرانی ہو وہ آکر مجھے روک لے۔‘‘ مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی کے آپؓ کے مقابل آتا۔

ہجرت کے بعد سیدنا عمر فاروق اعظمؓ تمام غزوات میں رسول اﷲ ﷺ کی معیت میں رہے۔ غزوۂ بدر میں اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام کو قتل کیا۔ غزوۂ احد میں انتشار کے باوجود اپنا مورچہ نہیں چھوڑا۔ غزوۂ خندق میں ایک طرف کی حفاظت آپؓ کے سپرد تھی بعد ازاں بہ طور یادگار یہاں آپؓ کے نام پر ایک مسجد تعمیر کی گئی۔

غزوۂ بنی مصطلق میں سیدنا عمر فاروقؓ نے ایک کافر جاسوس کو گرفتار کرکے دشمن کے تمام حالات دریافت کر کے اسے قتل کردیا، جس کے باعث کفار پر دہشت طاری ہوگئی۔ غزوۂ حدیبیہ میں آپؓ، مغلوبانہ صلح پر راضی نہ ہوتے تھے مگر نبی اکرم ﷺ کی وجہ سے سرِ تسلیم خَم کیا اور جب سورۂ فتح نازل ہوئی تو رسول اﷲ ﷺ نے آپؓ کو یہ سورۃ سنائی۔ کیوں کہ اس میں بڑی خوش خبری اور فضیلت انھی کے لیے ہے۔

غزوۂ خیبر میں رات پہرے کے دوران ایک یہودی کو گرفتار کیا اور نبی اکرمؐ ﷺ کی خدمت میں لے آئے۔ اس سے حاصل شدہ معلومات ہی فتح خیبر کا بہترین ذریعہ ثابت ہوئیں۔ غزوۂ حنین میں مہاجرین صحابہؓ کی سرداری امیرالمؤمنین عمرؓ کو مرحمت کی گئی۔ فتح مکہ کے بعد سیدنا عمرؓ نے حضور ﷺ سے کعبہ میں عمرہ یا اعتکاف کی اجازت طلب کی تو نبی کریمؐ نے اجازت کے ساتھ فرمایا: ’’اے میرے بھائی! اپنی دعا میں ہمیں بھی شریک رکھنا اور ہمیں بھول نہ جانا۔‘‘ سیدنا عمرؓ فرمایا کرتے تھے: نبی کریم ﷺ کے اس مبارک جملے کے عوض اگر مجھے ساری دنیا بھی مل جائے تو میں خوش نہ ہوں گا۔

سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کفر و نفاق کے مقابلے میں بہت جلال والے اور کفار و منافقین سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی و منافق کے مابین حضور انور ﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا مگر منافق نہ مانا اور آپؓ سے فیصلہ کے لیے کہا۔ آپؓ کو جب علم ہوا کہ نبی ﷺ کے فیصلے کے بعد یہ آپؓ سے فیصلہ کرانے آیا ہے تو سیدنا عمر فاروقؓ نے اس کو قتل کر کے فرمایا: ’’جو میرے نبی ﷺ کا فیصلہ نہیں مانتا میرے لیے اس کا یہی فیصلہ ہے۔‘‘

کئی مواقع پر حضور نبی کریم ﷺ کے مشورہ مانگنے پر جو مشورہ سیدنا فاروق اعظمؓ نے دیا، قرآن کریم کی آیات مبارکہ اسی کی تائید میں نازل ہوئیں۔ ازواج مطہراتؓ کے پردے، قیدیان بدر، مقام ابراہیم پر نماز، حرمت ِشراب، کسی کے گھر میں داخلے سے پہلے اجازت، تطہیر سیدہ عائشہؓ جیسے اہم معاملات میں سیدنا عمرؓ کی رائے، مشورے اور سوچ کے موافق قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں۔ علماء و فقہاء کے مطابق تقریباً 27 آیات قرآنی ایسی ہیں جو بہ راہ راست فاروق اعظمؓ کی تائید میں نازل ہوئیں۔

جب آپؓ تخت خلافت اسلامیہ پر متمکن ہوئے تو اعلان فرما دیا: ’’میری جو بات قابل اعتراض ہو مجھے اس پر بر سرعام ٹوک دیا جائے۔‘‘ امیرالمؤمنین کا خطاب سب سے پہلے آپؓ ہی کے لیے استعمال ہوا، کیوں کہ آپؓ سے پہلے، خلیفہ اوّل سیدنا صدیق اکبرؓ کو ’’خلیفۃالرسولؐ‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ آپ ؓاپنی خلافت میں رات کو رعایا کے حالات سے آگاہی کے لیے گشت کیا کرتے تھے۔ آپؓ نے اپنے حکام کو باریک کپڑا پہننے، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھانے اور دروازے پر دربان رکھنے سے سختی سے منع فرما رکھا تھا۔ مختلف اوقات  اپنے مقرر کردہ حکام کی جانچ پڑتال بھی کیا کرتے تھے۔

اپنے دور خلافت میں مصر، ایران، روم اور شام جیسے بڑے ملک فتح کیے۔ 1ہزار 36 شہر مع ان کے مضافات فتح کیے۔ مفتوحہ جگہ پر فوراً مسجد تعمیر کی جاتی۔ آپؓ کے زمانے میں 4 ہزار مساجد عام نمازوں اور 9 سو مساجد نماز جمعہ کے لیے بنیں۔ قبلۂ اول بیت المقدس بھی دور فاروقی میں بغیر لڑائی کے فتح ہوا۔ حضرت عمرو بن عاصؓ، آپؓ حکم سے جب بیت المقدس پہنچے تو وہاں کے یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا کہ ہماری کتابوں کے مطابق فاتح بیت المقدس کا حلیہ آپ جیسا نہیں لہٰذا آپ اسے فتح نہیں کر سکتے۔

چناں چہ حضرت عمرو بن عاصؓ نے سیدنا عمر فاروقؓ کو خط میں صورت حال لکھ بھیجی اور پھر جناب عمر فاروقؓ کی بیت المقدس آمد پر چابیاں آپؓ کے حوالے کی گئیں کیوں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے آپؓ کا حلیہ مبارک اپنی کتابوں کے مطابق پا لیا تھا۔ سیدنا عمرو بن عاصؓ نے فتح مصر کے بعد ایک مرتبہ سیدنا فاروق اعظمؓ کو بہ ذریعہ خط اطلاع دی کہ دریائے نیل ہر سال خشک ہو جاتا ہے اور لوگ ہر سال ایک خوب رُو دوشیزہ کی بھینٹ چڑھاتے ہیں تو دریا میں پانی اتر آتا ہے۔ تو سیدنا عمر فاروقؓ نے جواباً ایک خط تحریر فرما کر روانہ کیا کہ یہ خط دریا کی ریت میں دبا دیا جائے۔ جیسے ہی خط دبایا گیا تو دریائے نیل میں پانی چڑھ آیا بل کہ پہلے سے چھے گنا زیادہ پانی ہوگیا۔ آپؓ کے خط کا مضمون یہ تھا: ’’اے دریا! اگر تُو اپنی مرضی سے بہتا ہے تو ہمیں تیری کوئی حاجت نہیں اور اگر تُو اﷲ کی مرضی سے بہتا ہے تو بہتا رہ۔‘‘

کئی قرآنی وعدے اور خوش خبریاں آپؓ ہی کے دور خلافت میں پوری ہوئیں۔ فاروقی دور خلافت 22 لاکھ مربع میل کے وسیع رقبہ پر محیط تھی۔ پولیس کا محکمہ بھی آپؓ ہی نے قائم فرمایا۔ کئی علاقوں میں قرآن اور دینی مسائل کی تعلیمات کے لیے سیدنا معاذ بن جبل، سیدنا عبادہ بن صامت، سیدنا ابی ابن کعب، سیدنا ابوالدرداء، سیدنا سعد اور سیدنا ابوموسیٰ اشعری جیسے اجلّہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو مقرر فرمایا۔

نبی کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق سیدنا عمر فاروقؓ اس امت کے محدث تھے۔ علاوہ ازیں امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ انتہائی معاملہ فہم، دانش مند، زیرک، ذہین اور دور اندیش خلیفہ تھے۔ آپؓ نے مختلف مواقع پر کئی ایسے ارشادات فرمائے جو کہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں۔ امیرالمؤمین سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے عظیم الشان و بے مثال عہد خلافت کا ایک نمایاں اور زریں طریقہ کار یہ تھا کہ آپؓ راتوں کو بیدار رہ کر گلی محلوں میں گشت فرمایا کرتے تھے تاکہ اپنی رعایا کے حالات و واقعات اور ضروریات و حاجات و مشکلات وغیرہ سے باخبر رہ سکیں۔

امیرالمؤمنین عمرؓ کے گشت کے دوران کئی ایسے واقعات پیش آئے جن سے آپؓ کی اعلیٰ ظرفی، حکمت و بصیرت اور دانائی و دور اندیشی سمیت آپؓ کے طرز حکم رانی و خلافت کی بے ساختہ داد دینی پڑتی ہے۔ سیدنا عمرفاروق  ؓکی ایک مرتبہ رات کے وقت دوران گشت ایک اعرابی سے ملاقات ہوئی جو کہ اپنے خیمہ کے باہر بیٹھا ہو ا تھا۔ آپؓ نے اس سے علیک سلیک کے بعد گفت گو شروع فرمائی کہ دفعتاً خیمہ کے اندر سے کسی کے رونے کی آواز آئی تو آپؓ کے دریافت کرنے پر اس اعرابی نے بتایا کہ میری بیوی کے دردِزہ ہے۔

یہ سنتے ہی سیدنا فاروق اعظمؓ اپنے گھر پہنچے اور اپنی اہلیہ کو لے کر اس اعرابی کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے اجازت لے کر اہلیہ کو خیمہ میں بھیج دیا۔ اور خود اعرابی سے بات چیت کرتے رہے یہاں تک کہ اچانک خیمہ سے نے پکار کر کہا کہ امیرالمؤمنین! اپنے دوست کو لڑکے کی ولادت کی خوش خبری دیں۔ اس اعرابی نے جو ’’امیرالمؤمنین‘‘ سنا تو کانپ گیا اور جلدی سے باادب ہوگیا اور معذرت کرنے لگا تو آپؓ نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں، صبح کو میرے پاس آنا اور پھر آپؓ نے اس کے بچے کا وظیفہ مقرر فرما کر اسے کچھ مرحمت فرمایا۔ اسی طرح رات کو ایک گھر کے پاس سے گزرے تو اندر سے چند بچوں کے رونے کی آوازیں سنیں تو وہاں موجود خاتون سے استفسار پر معلوم ہوا کہ بچے بھوکے ہیں اور گھر میں کھانے کو کچھ نہیں، جب کہ خاتون نے خالی دیگچی میں پانی ڈال کر چولہے پر چڑھا رکھی ہے کہ بچے اسی طرح کھانا پکنے کا انتظار کرتے کرتے سوجائیں۔

امیرالمؤمنین سیدنا عمر ؓ یہ سن کر بہت رنجیدہ ہوکر رونے لگے اور الٹے پیروں بیت المال میں آکر وہاں سے کچھ آٹا، چربی، چھوہارے، کپڑے اور کچھ نقدی لی اور اپنے غلام اسلم سے فرمایا کہ یہ سب میری پیٹھ پر لاد دے۔ اسلم کہنے لگے کہ امیرالمؤمنین میں لے چلوں گا مگر نہ مانے کہ روز قیامت تو پوچھ مجھ سے ہی ہونی ہے۔ سیدنا عمرؓ نے سب سامان اپنی پیٹھ پر لادا اور اس خاتون کے گھر جا پہنچے اور خود ہی دیگچی میں اشیاء خورد ڈال کر پکایا کہ آگ کا دھواں آپؓ کی ریش مبارک میں بھر گیا۔ کھانا تیار کر کے بچوں کو اپنے سامنے کھلا کر کچھ دیر مزید وہیں رکے رہے کہ بچوں کو بھوک سے روتے دیکھا تو اب بھرے پیٹ کے ساتھ کھیلتے بھی دیکھ لیں۔

آپؓ کا دور خلافت بہت مبارک اور اشاعت و اظہار اسلام کا باعث تھا۔ خلافت راشدہ میں سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت کو ایک نمایاں و ممتاز مقام حاصل ہے۔ 27 ذی الحجہ بہ روز بدھ مجوسی غلام ابُولؤلؤ فیروز نے نماز فجر کی ادائی کے دوران سیدنا عمرؓ کو خنجر مار کر شدید زخمی کردیا۔ اور یکم محرم الحرام کو اسلام کا یہ بطل جلیل، نبی ﷺ کی دعا، اسلامی خلافت کا تاج دار، 63 برس کی عمر میں شہادت جیسے عظیم مرتبے پر فائز ہوا۔ آپؓ کی نماز جنازہ سیدنا صہیب رومیؓ نے پڑھائی۔ روضہ نبویؐ میں مدفون ہوئے۔

اﷲ پاک اِس عظیم المرتبت شخصیت کی قبر مبارک پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضامین

  • امام العادلین امیرالمومنین سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ
  • آیت اللہ خامنہ ای کی جنگ میں فتح پر ایرانی قوم کو مبارکباد‘آج قوم سے خطاب کریں گے
  • تمہیں یارو مبارک ہو عمرؓ ابن خطاب آیا
  • حضرت عمر فاروقؓ: عادل خلیفہ اور قیادت کا لازوال نمونہ
  • محرم کی حساسیت اور اسرائیل کی ممکنہ شرارت
  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ
  • اسلام آباد میں حجاج بیت اللہ کی خدمت پر بین الاقوامی کانفرنس، سعودی عرب کو خراجِ تحسین
  •  یہود ہو یا ہنود وہ شیعہ اور سنی کی تمیز سے ہٹ کر اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتا ہے، فاروق خان سعیدی 
  • ایران کے بعد امریکہ اور اسرائیل کا اگلا ہدف عرب ممالک ہیں، فاروق عبداللہ