اپوزیشن اتحاد کاحکومت پر دباؤ ڈالنے اور غیرملکی سفیروں کو خطوط بھیجنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: اپوزیشن اتحاد نے حکومت کو شدید خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آئینی حقوق اور مینڈیٹ واپس نہ کیے گئے تو ان کا جینا حرام کر دیا جائے گا اور وہ تمام غیرملکی سفیروں کو خطوط لکھیں گے کہ موجودہ حکومت سے کیے گئے معاہدے ختم کر دیے جائیں۔
اپوزیشن رہنما محمود خان اچکزئی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جمعے کو احتجاجی تحریک کا آغاز کریں گے لیکن یہ پرامن ہوگا اور ایک پتھر بھی نہیں مارا جائے گا، دنیا کے خطرناک ممالک ہمیں لڑانا چاہتے ہیں، اس لیے ہمیں جنگ کے راستے کو روکنا ہوگا۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کا آئین بالادست ہو گا، پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہو گی اور تمام صوبوں کے معدنی وسائل پر پہلا حق متعلقہ صوبے کا ہوگا، اپوزیشن مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن مینڈیٹ واپس نہ ملنے کی صورت میں سخت اقدامات کیے جائیں گے اور عدلیہ سے درخواست ہے کہ وہ اس معاملے کو فوری حل کریں۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے اختیارات محدود کیے گئے ہیں اور چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ ختم کر دیا گیا، جسے اپوزیشن بحال کروانے کی پوزیشن پر ہے، موجودہ ترمیمیں آئین کی روح کے منافی ہیں، عدلیہ کے اختیارات کم کیے گئے اور چیف جسٹس کے کردار کو محدود کیا گیا ہے۔
اپوزیشن اتحاد نے واضح کیا کہ عدلیہ کی اصلاح ضروری ہے لیکن ججوں کے ساتھ موجودہ رویہ ناقابل قبول ہے اور آئینی حقوق کی حفاظت کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں گے۔
خیال رہےکہ ستائیسویں ترمیم اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود منظور ہوگیا ہے، 27ویں آئینی ترمیم میں صدر مملکت اور چیف آف آرمی اسٹاف کو خاص آئینی استثنیٰ بھی شامل کیا گیا ہے ، اس کے تحت انہیں بعض صورتوں میں تاحیات قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے خلاف عمومی نوعیت کے مقدمات یا قانونی کاروائیاں عموماً نافذ نہیں کی جائیں گی اور ان کے خلاف کارروائی کے لیے مخصوص آئینی یا پارلیمانی طریقہ کار کی ضرورت ہوگی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اور چیف کیے گئے گیا ہے
پڑھیں:
حکومت کو آئینی ترمیم کیلئے سینیٹ میں 64 اور قومی اسمبلی میں 224 ووٹ درکار
( ویب ڈیسک ) حکومت کو آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری کے لیے سینیٹ میں 64 جبکہ قومی اسمبلی میں 224 ووٹ درکار ہیں۔
سینیٹ کے 96 رکنی ایوان میں حکمران اتحاد میں پیپلزپارٹی 26 ووٹوں کے ساتھ سرفہرست، مسلم لیگ ن 21 ووٹوں کے ساتھ دوسری بڑی حکومتی جماعت ہے، ایم کیو ایم اور اے این پی کے 3،3 ارکان موجود ہیں۔
نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ق اور 6 آزاد ارکان بھی حکومت کے ساتھ ہیں، حکمران اتحاد کو مجموعی طور پر 65 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی منظوری کے بعد مجوزہ آئینی ترمیم کا مسودہ آج سینیٹ میں پیش ہوگا
دوسری طرف تحریک انصاف کے 22، جے یو آئی کے 7، ایم ڈبلیو ایم اور سنی اتحاد کونسل کا ایک ایک سینیٹر اپوزیشن کا حصہ ہے، سینیٹ میں اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 31 بنتی ہے۔
قومی اسمبلی کا ایوان 336اراکین پر مشتمل ہے، 10 نشستیں خالی ہونے کے سبب ایوان میں اراکین کی تعداد 326 ہے، آئینی ترمیم کے لئے 224 اراکین کی حمایت درکار ہے۔
حکومتی اتحاد کو پیپلز پارٹی سمیت اس وقت 237 اراکین کی حمایت حاصل ہے، مسلم لیگ ن 125اراکین کے ساتھ حکومتی اتحاد میں شامل سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، پیپلز پارٹی کے 74 اراکین ہیں، ایم کیو ایم کے 22 ق لیگ کے 5،آئی پی پی کے 4اراکین ہیں۔
بلوچستان میں موٹر سائیکل کی ڈبل سواری اور منہ ڈھانپنے پر پابندی لگ گئی
مسلم لیگ ضیاء، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ایک ایک رکن کے علاوہ 4آزاد اراکین کی حمایت بھی حاصل ہے، قومی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کی تعداد 89 ہے، اپوزیشن بنچوں پر 75 آزاد اراکین ہیں۔
جے یو آئی ف کے 10 اراکین ہیں، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین، بی این پی مینگل اورپختونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن بھی اپوزیشن بنچوں پر موجود ہے۔