مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے بعد صورتحال، اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی درخواستوں پر فیصلے کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں صورتحال بدل گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپریم کورٹ کے گزشتہ برس 12 جولائی کے فیصلے جس میں سنی اتحاد کونسل (پی ٹی آئی) کو اس کے کوٹے کی مخصوص نشستوں کا اہل قرار دیا گیا تھا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہ دینے کے فیصلے کو بحال کر دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 77 ممبران کی رکنیت بحال ہوگئی ہے۔ قومی اسمبلی کی تین غیر مسلم نشستوں اور کے پی سے 8 خواتین ارکان قومی اسمبلی کی رکنیت بھی بحال ہو گئی ہے۔
پنجاب سے قومی اسمبلی کی 11 خواتین ارکان کی مخصوص نشستوں پر رکنیت بحال ہو گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی کی 24 خواتین ارکان اور 3 غیر مسلم ارکان کی رکنیت بھی بحال ہو گئی ہے۔
سندھ اسمبلی سے 2 خواتین اور ایک غیر مسلم رکن جب کہ کے پی اسمبلی کی 21 خواتین اور 4 غیر مسلم ارکان کی رکنیت بھی حال ہوئی ہے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ فائدہ وفاق میں حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کو ہوا ہے جس کی قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلیوں میں 44 نشستیں بحال ہوئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی مجموعی طور پر 15، جے یو آئی کی 13 جب کہ ایم کیو ایم، آئی پی پی، ق لیگ، اے این پی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹرین کی ایک ایک نشست بحال ہوئی ہے۔
قومی اسمبلی سے مسلم لیگ ن کی 14، پیپلز پارٹی کی 5 اور جے یو آئی کی 3 نشستیں بحال ہوئیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی سے جے یو آئی کی 10، ن لیگ کی 7، پیپلز پارٹی کی 2، ق لیگ اور آئی پی پی کی ایک، ایک نشست بحال ہوئی۔
سندھ اسمبلی سے ایم کیو ایم کی ایک اور پی پی کی دو مخصوص نشستیں بحال ہوئی۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ کے ا مخصوص نشستوں قومی اسمبلی اسمبلی کی اسمبلی سے بحال ہوئی کی رکنیت گئی ہے
پڑھیں:
سپریم کورٹ فیصلے پرنمبر گیم تبدیل ، خیبرپختونخوا حکومت خطرے میں؟
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے فیصلے کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی کی نمبر گیم میں بڑی تبدیلی آ گئی، جس سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی حکومت کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
عدالتی فیصلے کے تحت صوبائی اسمبلی کی 25 مخصوص نشستیں خالی قرار دی گئی ہیں، جن پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ارکان براجمان تھے۔ اس کے نتیجے میں ایوان میں حکومت کی برتری کم اور اپوزیشن کی طاقت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعد ایوان میں موجود پانچ جماعتوں کے 27 ارکان سمیت اپوزیشن کی مجموعی تعداد 53 تک پہنچ گئی ہے، جبکہ 35 آزاد ارکان کے پاس اب بھی کلیدی حیثیت ہے۔
علی امین گنڈا پورکی حکومت کو 93 ارکان کی حمایت حاصل ہے، جن میں سے 58 ارکان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے، مگر ان کی حیثیت آزاد قرار دی جا چکی ہے۔ یہی حیثیت انہیں فلور کراسنگ کے قانون (آرٹیکل 63 اے) سے بھی بچاتی ہے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے 73 ارکان درکار ہوتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں اگر اپوزیشن آزاد ارکان کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو وہ 88 ارکان کا نمبر پورا کر سکتی ہے، جو حکومت کو بڑا سیاسی جھٹکا دے گا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے، جس کے بعد پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی اور یہ نشتیں حکومتی اتحاد کو منتقل ہوجائیں گی۔