Jasarat News:
2025-09-27@12:51:31 GMT

شطرنج کے پیادے، تلواروں کے سوداگر اور جلتا ہوا مشرق

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سنا تھا جنگوں میں صرف فوجیں مرتی ہیں، لیکن اب سچ سمجھ میں آیا کہ جنگوں میں قومیں دفن ہوتی ہیں۔ کبھی جھنڈوں کے نیچے، کبھی نعروں کے سائے میں اور کبھی میزوں پر سجے امن کے پیالوں میں زہر گھول کر۔ یہ جنگ کسی گلی کے جھگڑے سے نہیں اٹھی، نہ ہی یہ بس اچانک بھڑکنے والا غصہ تھا۔ یہ جنگ تھی — سوچی سمجھی، تراشی گئی، اور بڑی شطرنج کے تختے پر رکھی گئی جہاں بادشاہ اسرائیل، گوٹیاں امریکا اور مات کھاتے مسلمان۔ جب اسرائیل نے ایران پر پہلا وار کیا، تو عالمی میڈیا نے پہلے پانچ سیکنڈ سناٹا کیا۔ پھر کیمرے سیدھے ہوئے اور مائیکروفون روشن۔ لیکن خبروں میں جو آیا، وہ صرف وہی تھا جو آنا چاہیے تھا، نہ کہ وہ جو ہو رہا تھا۔ یہ سب یکایک نہیں ہوا۔ مہینوں سے انٹیلی جنس رپورٹیں گواہی دے رہی تھیں: امریکی بیسز کا غیر معمولی نقل و حرکت، اسرائیلی افسران کا قطر، بحرین، اور سعودی عرب کے سفارتی دورے، اسرائیل کے اندر نیتن یاہو کے خلاف اندرونی مظاہرے، عرب میڈیا کا فلسطینی کاز سے نظر ہٹانا اور ایران کے خلاف اچانک اْبھرنے والا عرب اتحاد۔ سوال یہ نہیں تھا کہ جنگ ہو گی یا نہیں، سوال یہ تھا کہ پہلے گولی کون چلائے گا اور کیمرہ کس طرف ہو گا۔
جب تل ابیب نے تہران کے قریب ایک مبینہ نیوکلیئر سائٹ پر حملہ کیا تو امریکا نے آنکھ جھپکنے کی بھی زحمت نہ کی۔ اقوامِ متحدہ نے ’گہری تشویش‘ کا اظہار کیا وہی تشویش جو ہمیشہ گہرے گڑھوں میں دفن ہو جاتی ہے۔ ایران نے بدلہ لیا۔ نہ ڈھول، نہ اعلان صرف ایک میزائل، ایک بیس، اور ایک لاش۔ پھر امریکا بولا: ’’ہم امن چاہتے ہیں، لیکن اگر ہمیں مجبور کیا گیا تو ہم خاموش نہیں رہیں گے‘‘۔ خاموشی؟ نہیں جناب، آپ تو وہی شور ہیں جو ہر جنگ کی ابتدا میں کان پھاڑ دیتا ہے اور اختتام پر ضمیر!
یہ دو ملک، ایک جیسی سوچ، ایک جیسا لالچ اور وہی پرانا ایجنڈا: مشرقِ وسطیٰ کو کاٹ دو، بانٹ دو، اور اپنے ہتھیار بیچو۔ امریکا نے جب اپنی بحریہ خلیج میں بھیجی، تو دنیا کو بتایا ’’یہ احتیاط ہے‘‘۔ لیکن احتیاط نہیں تھی، یہ اکسانا تھا۔ جیسے کسی جلتے گھر کے باہر مٹی کا تیل رکھ دینا اور کہنا: ’’ہم تو بس حفاظت کو آئے ہیں‘‘۔ ادھر اسرائیل کے اندر بھی نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے شدت پکڑ گئے۔ عوام تھک چکی ہے، نسلیں خائف ہیں اور خود اسرائیلی یہ پوچھنے لگے ہیں کہ ’’کیا یہ جنگ واقعی ہمارے تحفظ کے لیے ہے؟ یا کسی مخصوص سیاسی بقا کے لیے؟‘‘ قطر کو بھی وہی سزا دی گئی جو وفادار کتے کو دی جاتی ہے جب وہ اچانک حق پر بھونکنے لگے۔ الجزیرہ نے حق کی بات کی، تو اس کی فضائیں بند کی گئیں۔
سعودی عرب کا کردار… خاموش۔ وہی خاموشی جو گونج سے زیادہ بولتی ہے۔ نہ فلسطین کے لیے کوئی دوٹوک بیان نہ ایران پر حملے کی مذمت۔ صرف وہی رسمی جملے جو فیکس مشینوں سے نکلتے ہیں: ’’ہم خطے میں امن کے خواہاں ہیں، اور تمام فریقین سے تحمل کی اپیل کرتے ہیں‘‘۔ کیا فلسطین کے بچوں کی قبریں ابھی بھی ’’تحمل‘‘ مانگتی ہیں؟ او آئی سی بھی وہی پرانا مذاق… جیسے کسی شدید زخمی پر پٹی باندھنے کے بجائے اس کا بلڈ پریشر ناپنے لگے۔ متحدہ عرب امارات، بحرین، اردن۔ سب وہی پرانا اسکرپٹ پڑھ رہے تھے: ’’ہم ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں‘‘۔ یعنی جو بھی اسرائیل کو چیلنج کرے، وہ دہشت گرد؟ اور ٹرمپ؟ اب وہ سیاسی میدان سے باہر ہیں، مگر جنگ کے میدان میں ان کے بوئے ہوئے بیج خون رنگ دکھا رہے ہیں۔ وہ اب اپنے ریسٹورنٹس میں بیٹھ کر شاید یہی ہنسی ہنسی کہہ رہے ہوں: “I made peace deals — just didn’t mention who paid the price.


جب اسرائیل کے شہروں پر پہلی بار ایرانی میزائلوں نے ہلکی سی لرزش پیدا کی، تو وہی اسرائیل جو حملے کے وقت گرج رہا تھا، اب امن کا خواہاں بن گیا۔ ’’ہم نہیں چاہتے کہ معاملہ بڑھے‘‘۔ بالکل جیسے چور کہے: ’’ہم صرف کھڑکی سے اندر آئے تھے، چوری کا ارادہ نہیں تھا‘‘۔ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق اگلا ہدف لبنان یا شام ہو سکتا ہے۔ ایران کے اندرونی فسادات کو ابھارنے کی منصوبہ بندی جاری ہے۔ پاکستان کے نیوٹرل مؤقف کو بدلنے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔ چین تائیوان اور مشرق وسطیٰ میں الگ بساط بچھا رہا ہے اور روس خاموش مگر حرکت میں ہے۔ جس جنگ کو آج صرف ’’تنازع‘‘ کہا جا رہا ہے، وہ کل ایک نئی عالمی صف بندی بنائے گی۔ ناٹو ایک طرف، چین و روس دوسری طرف، اور مسلمان؟ شاید پھر وہی تقسیم، مشتعل، اور لاشوں کی گنتی میں مصروف۔
یہ صرف جنگ نہیں، ایک پیشگی خاکہ ہے آنے والے عالمی جھٹکوں، سفارتی زلزلوں اور قوموں کی سمت کا۔ اس بار امت نے اگر صرف ’’بیانات‘‘ سے کام چلایا، تو اگلی بار نقشے بھی شاید صرف ’’بیانات‘‘ میں ملیں۔ کیونکہ جب ’’جغرافیہ‘‘ محض تجارت بن جائے، تو ’’امت‘‘ صرف ایک ہجوم رہ جاتی ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انہی زخموں کے بیچ، اچانک ایک سابق صدر، جس نے مسلمانوں کو ’’بلیک لسٹ‘‘ کر کے ویزے بند کیے، جس نے فلسطینیوں کے حق میں ایک لفظ تک نہ کہا، جس نے اسرائیل کو سفارتی آسمانوں پر بٹھایا، اب ’’امن کا سفیر‘‘ بن کر دنیا میں پھر رہا ہے۔ ٹرمپ کی جاہلانہ حرکات دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ دنیا صرف چل نہیں رہی، بلکہ ایک دھند میں بھٹک رہی ہے۔ ایسا شخص، جو ٹویٹ کے زور پر جنگ چھیڑتا تھا، آج ہمیں امن سکھا رہا ہے؟ شاید آنے والا وقت کچھ ایسا دکھائے گا، جہاں بلی گلہری کو نماز پڑھائے، اور خون کے تاجر ’’انسانیت‘‘ کے ایوارڈ وصول کریں۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

غزہ امن منصوبہ یا پولیٹیکل انجینئرنگ

اسلام ٹائمز: یہ امن منصوبہ نہیں بلکہ ایک پولیٹیکل انجینئرنگ ہے۔ پولیٹیکل انجینئرنگ (Political Engineering) ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں کسی ملک یا ادارے کی سیاسی صورتِحال کو جان بوجھ کر مخصوص طریقوں سے اس طرح بدلا جاتا ہے کہ اسکا فائدہ کسی خاص فرد، جماعت، ادارے یا طبقے کو ہو۔ یہ ایک ایسا امن منصوبہ ہے کہ جہاں حماس کا وجود جرم ہے اور اسرائیل کی قابض فورسز کا وجود جرم نہیں۔؟ یہ وہ نام نہاد امن منصوبہ ہے کہ جو عدل و انصاف کے بغیر قائم کیا جا رہا ہے۔ لہذا مذکورہ بالا امن منصوبہ فلسطین کو ایک ایسی نیم زندہ ریاست بنانا چاہتا ہے کہ جو بولے تو امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی اجازت سے، چلے تو اسرائیل کی نگرانی میں اور باقی رہے تو مشروط معاہدوں کے ساتھ۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

مشرقِ وسطیٰ کا بحران اب ایک بار پھر بین الاقوامی سفارت کاری کی میز پر ہے۔ سچ ہے کہ جو قومیں اپنی زمین کے نقشے دوسروں کی میز پر رکھنے لگیں، وہ جلد اپنے خواب بھی دوسروں کی آنکھوں سے دیکھنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ کیا تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔؟ فلسطین کا نقشہ بدلنے کی کوشش بھی پرانی ہے اور خون کی روانی، آنکھوں کی نمی اور دنیا کی بے حسی بھی ویسی ہی ہے، جیسی نصف صدی پہلے تھی۔ 24 ستمبر 2025ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر امریکی خصوصی ایلچی برائے امن مشنز، اسٹیو وٹکوف کی زیرِ قیادت منعقد ہونے والا غزہ امن اجلاس بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گیا، جسے امریکی نمائندوں نے ایک “نتیجہ خیز سفارتی پیش رفت” قرار دیا۔ اجلاس میں عرب ممالک کے رہنماؤں کو صدر ٹرمپ کا خصوصی پیغام اور ایک 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا گیا۔

شنید ہے کہ اس منصوبے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے غزہ میں غیر عسکری عبوری حکومت کے قیام، اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کے حوالے سے عربوں کیلئے انتہائی سخت فیصلے کئے ہیں۔ عرب قیادت ان فیصلوں کے جواب میں فقط مراعات ہی طلب کرتی رہ گئی۔ جن میں مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کی اپیل، یروشلم کے اسٹیٹس کو کا تحفظ، انسانی امداد میں اضافہ اور غیر قانونی بستیوں کے خاتمے جیسے امور پر رونا دھونا شامل ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے پیش کردہ نکات میں کسی قسم کی سفارتی لچک یا سیاسی توازن کا نام و نشان نہیں۔ یہ نکات اتنے یکطرفہ ہیں کہ  یورپی سفارتکاروں کی جانب سے اس منصوبے کو “سنجیدہ کوشش” قرار دیا گیا ہے  اور اسے ابراہام معاہدوں کے دائرۂ کار کو وسعت دینے کا ذریعہ سمجھا گیا۔

اسی سفارتی ماحول میں جولائی 2025ء میں سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں نیویارک میں منعقد ہونے والی کانفرنس نے دو ریاستی حل کو ازسرنو متحرک کیا ہے۔ یہ دو ریاستی حل بھی زبردستی عربوں پر تھونپا گیا ہے۔ ایسے میں عربوں کو خود سوچنا چاہیئے کہ کیا عرب قیادت موجودہ عالمی نظام کے اندر فلسطین کے لیے کوئی بامعنی مقام حاصل کرسکتی ہے، یا وہ محض طاقتور بین الاقوامی کھلاڑیوں کے پیش کردہ منصوبوں کی منظوری دے کر تاریخ کا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہے۔؟ عرب قیادت کی طرف سے امریکی تجاویز کی حمایت، یا اس پر فوری اعتراض نہ کرنا، محض جیوپولیٹیکل کمزوری کی علامت نہیں، بلکہ ایک فکری، تاریخی و سیاسی بحران کی نشاندہی ہے۔

عرب ممالک کی اسرائیل کے مقابلے میں پسپائی صرف جغرافیائی پسپائی نہیں، بلکہ ایک ایسے تاریخی شعور کی عدم موجودگی ہے، جس کے بغیر قومیں محض سرحدوں پر بکھرے انسانوں کا ہجوم بن جاتی ہیں۔ جب قیادت شکم رانی و شہوت پرستی کو حکمت سمجھنے لگے، تو قومی تاریخ بزدلانہ فصیلوں کے بوجھ کے نیچے  دفن ہونے لگتی ہے۔ اس وقت عرب قیادت کی اپنی بادشاہتوں کے تحفظ کی پالیسی طویل مدت میں اپنی ہی معاشرتی، مذہبی اور تاریخی شناخت کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ حقیقی مسئلہ سوچ اور غوروفکر کے اس سقم کا ہے، جو وقتی مفادات کو مستقل تاریخی ترجیحات پر ترجیح دیتا ہے۔ جب ریاستی فیصلے محض حکومتی تسکین کے لیے کئے جائیں تو وہ سارے ملک کو ایک ایسی راہ پر لے جاتے ہیں، جہاں قومی اعتماد کمزور ہو جاتا ہے۔ یعنی جب ریاستی و سیاسی ادارے عارضی مفادات کے تابع ہو جاتے ہیں اور علاقائی اثر و رسوخ کے خلاؤں میں بیرونی طاقتیں داخل ہونے کا راستہ پا لیتی ہیں تو قومی شناخت و اہمیت خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔

فلسطین کا دو ریاستی حل کے اندرونی ابعاد فقط عربوں کی تاریخی شناخت اور قومی غیرت و حمیت کو ختم کرنے کیلئے ہیں۔ اس وقت فلسطینی سیاسی دھارے داخلی طور پر منقسم ہیں، جہاں حماس اور فتح کے بیچ خلیج مسلسل وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں کوئی بھی نوزائیدہ فلسطینی ریاست داخلی کمزوری، انتشار اور علاقائی استعمار کیلئے لقمہ بنتی رہے گی۔ اس کے علاوہ ترکی جیسا ملک فوری طور پر اسرائیل کے ساتھ اپنے وسیع تر اقتصادی مفادات کو وسعت دینے کیلئے کمزور فلسطینی ریاست کو اپنے تجارتی اڈّے کے طور پر استعمال کرے گا۔ اسرائیل جیسے غاصب ملک کو بطورِ ریاست تسلیم کرنا، دنیا کے دیگر تنازعات کے لیے بھی ایک خطرناک مثال بنے گی۔ اگر اسرائیل کو دھونس اور طاقت کے زور پر سیاسی شناخت دی جائے گی تو اس روایت سے جدید عالمی نظام میں قانون، اصول اور سفارت کاری کے بجائے، عسکری دباؤ اور پراکسی مفادات کو تقویت ملے گی۔

پناہ گزینوں کی واپسی، جسے فلسطینی ایک مقدس حق سمجھتے ہیں، یہ حل دراصل اسرائیل کے لیے خاتمے کا پیغام ہے۔ لہذا دو ریاستی حل صرف کاغذ پر امن کا عکس بن سکتا ہے، حقیقت میں نہیں۔ چونکہ امن کی دستاویز میں اگر مظلوم کا خراج شامل نہ ہو تو اُسے معاہدہ نہیں دھونس کہتے ہیں۔ علاقائی حقیقت پسندی، ثقافتی حساسیت اور سیاسی توازن کے بغیر امریکا اور اس کے اتحادیوں کا سفارتی دباو  صرف گریٹر اسرائیل کی خاطر ایک دستاویزی کوششیں ہے۔ فلسطین آج جس موڑ پر کھڑا ہے، وہاں سوال یہ نہیں کہ دو ریاستی حل ممکن ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا عرب قیادت فلسطین کو بچانے کیلئے اس دو ریاستی حل کا  انکار کرنے کی جرائت رکھتی ہے۔؟ اس وقت عربوں کیلئے امریکہ کا امن منصوبہ اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ امن، اگر برابری کی سطح پر قائم نہ ہو تو وہ جارحیّت کی ایک نرم شکل ہوتا ہے۔ یہ 21 نکاتی امن منصوبہ جو صدر ٹرمپ کے خصوصی پیغام کی صورت میں عرب قیادت کے روبرو پیش کیا گیا، یہ فلسطینیوں کے ساتھ مفاہمت کیلئے نہیں بلکہ اسرائیل کے کاملاً تسلط کیلئے ہے۔

مسئلہ فلسطین میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کیلئے آخر میں ہم یہ عرض کرتے چلیں کہ غزہ امن منصوبے کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ حماس کو حکومتی اختیارات سے الگ کیا جائے، یعنی غزہ کی انتظامیہ میں اس تنظیم کا کردار ختم کیا جائے اور وہاں ایک عبوری حکومت ہو، جو امریکہ و اس کے اتحادیوں اور مقامی استعمار کی اجازت سے چلے۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔۔۔ یہ امن منصوبہ نہیں بلکہ ایک پولیٹیکل انجینئرنگ ہے۔ پولیٹیکل انجینئرنگ (Political Engineering) ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں کسی ملک یا ادارے کی سیاسی صورتِ حال کو جان بوجھ کر مخصوص طریقوں سے اس طرح بدلا جاتا ہے کہ اس کا فائدہ کسی خاص فرد، جماعت، ادارے یا طبقے کو ہو۔ یہ ایک ایسا امن منصوبہ ہے کہ جہاں حماس کا وجود جرم ہے اور اسرائیل کی قابض فورسز کا وجود جرم نہیں۔؟ یہ وہ نام نہاد امن منصوبہ ہے کہ جو عدل و انصاف کے بغیر قائم کیا جا رہا ہے۔ لہذا مذکورہ بالا امن منصوبہ فلسطین کو ایک ایسی نیم زندہ ریاست بنانا چاہتا ہے کہ جو بولے تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی اجازت سے، چلے تو اسرائیل کی نگرانی میں اور باقی رہے تو مشروط معاہدوں کے ساتھ۔

متعلقہ مضامین

  • ماضی قصہ پارینہ، اب پاکستان کی مشرق سے مغرب تک عزت ہے : عطا تارڑ
  • ماضی میں تعلقات بگاڑے گئے، آج پاکستان کی مشرق سے مغرب تک عزت ہے: عطا تارڑ
  • ماضی میں تعلقات خراب کیے گئے، اب پاکستان کی مشرق سے مغرب تک عزت ہے : عطا تارڑ
  • غزہ امن منصوبہ یا پولیٹیکل انجینئرنگ
  • ملک کے شمال مشرق میں زلزلے کے جھٹکے، لوگ گھروں سے باہر نکل آئے
  • امریکی صدر کا مسلم رہنماؤں کے سامنے مشرق وسطیٰ اور غزہ کے لیے 21 نکاتی امن منصوبہ پیش
  • مشرق وسطیٰ کے بحران پر امریکا کا نیا مؤقف، مسلم قیادت کو 21 نکاتی پلان پیش کر دیا
  • مشرق وسطیٰ کے بحران پر امریکا کا نیا مؤقف، مسلم قیادت کو 21 نکاتی پلان پیش کر دیا
  • امریکی صدر نے مسلم رہنماؤں کو مشرق وسطیٰ اور غزہ کیلئے 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کر دیا
  • Never Again