Jasarat News:
2025-06-28@00:11:49 GMT

شطرنج کے پیادے، تلواروں کے سوداگر اور جلتا ہوا مشرق

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سنا تھا جنگوں میں صرف فوجیں مرتی ہیں، لیکن اب سچ سمجھ میں آیا کہ جنگوں میں قومیں دفن ہوتی ہیں۔ کبھی جھنڈوں کے نیچے، کبھی نعروں کے سائے میں اور کبھی میزوں پر سجے امن کے پیالوں میں زہر گھول کر۔ یہ جنگ کسی گلی کے جھگڑے سے نہیں اٹھی، نہ ہی یہ بس اچانک بھڑکنے والا غصہ تھا۔ یہ جنگ تھی — سوچی سمجھی، تراشی گئی، اور بڑی شطرنج کے تختے پر رکھی گئی جہاں بادشاہ اسرائیل، گوٹیاں امریکا اور مات کھاتے مسلمان۔ جب اسرائیل نے ایران پر پہلا وار کیا، تو عالمی میڈیا نے پہلے پانچ سیکنڈ سناٹا کیا۔ پھر کیمرے سیدھے ہوئے اور مائیکروفون روشن۔ لیکن خبروں میں جو آیا، وہ صرف وہی تھا جو آنا چاہیے تھا، نہ کہ وہ جو ہو رہا تھا۔ یہ سب یکایک نہیں ہوا۔ مہینوں سے انٹیلی جنس رپورٹیں گواہی دے رہی تھیں: امریکی بیسز کا غیر معمولی نقل و حرکت، اسرائیلی افسران کا قطر، بحرین، اور سعودی عرب کے سفارتی دورے، اسرائیل کے اندر نیتن یاہو کے خلاف اندرونی مظاہرے، عرب میڈیا کا فلسطینی کاز سے نظر ہٹانا اور ایران کے خلاف اچانک اْبھرنے والا عرب اتحاد۔ سوال یہ نہیں تھا کہ جنگ ہو گی یا نہیں، سوال یہ تھا کہ پہلے گولی کون چلائے گا اور کیمرہ کس طرف ہو گا۔
جب تل ابیب نے تہران کے قریب ایک مبینہ نیوکلیئر سائٹ پر حملہ کیا تو امریکا نے آنکھ جھپکنے کی بھی زحمت نہ کی۔ اقوامِ متحدہ نے ’گہری تشویش‘ کا اظہار کیا وہی تشویش جو ہمیشہ گہرے گڑھوں میں دفن ہو جاتی ہے۔ ایران نے بدلہ لیا۔ نہ ڈھول، نہ اعلان صرف ایک میزائل، ایک بیس، اور ایک لاش۔ پھر امریکا بولا: ’’ہم امن چاہتے ہیں، لیکن اگر ہمیں مجبور کیا گیا تو ہم خاموش نہیں رہیں گے‘‘۔ خاموشی؟ نہیں جناب، آپ تو وہی شور ہیں جو ہر جنگ کی ابتدا میں کان پھاڑ دیتا ہے اور اختتام پر ضمیر!
یہ دو ملک، ایک جیسی سوچ، ایک جیسا لالچ اور وہی پرانا ایجنڈا: مشرقِ وسطیٰ کو کاٹ دو، بانٹ دو، اور اپنے ہتھیار بیچو۔ امریکا نے جب اپنی بحریہ خلیج میں بھیجی، تو دنیا کو بتایا ’’یہ احتیاط ہے‘‘۔ لیکن احتیاط نہیں تھی، یہ اکسانا تھا۔ جیسے کسی جلتے گھر کے باہر مٹی کا تیل رکھ دینا اور کہنا: ’’ہم تو بس حفاظت کو آئے ہیں‘‘۔ ادھر اسرائیل کے اندر بھی نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے شدت پکڑ گئے۔ عوام تھک چکی ہے، نسلیں خائف ہیں اور خود اسرائیلی یہ پوچھنے لگے ہیں کہ ’’کیا یہ جنگ واقعی ہمارے تحفظ کے لیے ہے؟ یا کسی مخصوص سیاسی بقا کے لیے؟‘‘ قطر کو بھی وہی سزا دی گئی جو وفادار کتے کو دی جاتی ہے جب وہ اچانک حق پر بھونکنے لگے۔ الجزیرہ نے حق کی بات کی، تو اس کی فضائیں بند کی گئیں۔
سعودی عرب کا کردار… خاموش۔ وہی خاموشی جو گونج سے زیادہ بولتی ہے۔ نہ فلسطین کے لیے کوئی دوٹوک بیان نہ ایران پر حملے کی مذمت۔ صرف وہی رسمی جملے جو فیکس مشینوں سے نکلتے ہیں: ’’ہم خطے میں امن کے خواہاں ہیں، اور تمام فریقین سے تحمل کی اپیل کرتے ہیں‘‘۔ کیا فلسطین کے بچوں کی قبریں ابھی بھی ’’تحمل‘‘ مانگتی ہیں؟ او آئی سی بھی وہی پرانا مذاق… جیسے کسی شدید زخمی پر پٹی باندھنے کے بجائے اس کا بلڈ پریشر ناپنے لگے۔ متحدہ عرب امارات، بحرین، اردن۔ سب وہی پرانا اسکرپٹ پڑھ رہے تھے: ’’ہم ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں‘‘۔ یعنی جو بھی اسرائیل کو چیلنج کرے، وہ دہشت گرد؟ اور ٹرمپ؟ اب وہ سیاسی میدان سے باہر ہیں، مگر جنگ کے میدان میں ان کے بوئے ہوئے بیج خون رنگ دکھا رہے ہیں۔ وہ اب اپنے ریسٹورنٹس میں بیٹھ کر شاید یہی ہنسی ہنسی کہہ رہے ہوں: “I made peace deals — just didn’t mention who paid the price.


جب اسرائیل کے شہروں پر پہلی بار ایرانی میزائلوں نے ہلکی سی لرزش پیدا کی، تو وہی اسرائیل جو حملے کے وقت گرج رہا تھا، اب امن کا خواہاں بن گیا۔ ’’ہم نہیں چاہتے کہ معاملہ بڑھے‘‘۔ بالکل جیسے چور کہے: ’’ہم صرف کھڑکی سے اندر آئے تھے، چوری کا ارادہ نہیں تھا‘‘۔ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق اگلا ہدف لبنان یا شام ہو سکتا ہے۔ ایران کے اندرونی فسادات کو ابھارنے کی منصوبہ بندی جاری ہے۔ پاکستان کے نیوٹرل مؤقف کو بدلنے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔ چین تائیوان اور مشرق وسطیٰ میں الگ بساط بچھا رہا ہے اور روس خاموش مگر حرکت میں ہے۔ جس جنگ کو آج صرف ’’تنازع‘‘ کہا جا رہا ہے، وہ کل ایک نئی عالمی صف بندی بنائے گی۔ ناٹو ایک طرف، چین و روس دوسری طرف، اور مسلمان؟ شاید پھر وہی تقسیم، مشتعل، اور لاشوں کی گنتی میں مصروف۔
یہ صرف جنگ نہیں، ایک پیشگی خاکہ ہے آنے والے عالمی جھٹکوں، سفارتی زلزلوں اور قوموں کی سمت کا۔ اس بار امت نے اگر صرف ’’بیانات‘‘ سے کام چلایا، تو اگلی بار نقشے بھی شاید صرف ’’بیانات‘‘ میں ملیں۔ کیونکہ جب ’’جغرافیہ‘‘ محض تجارت بن جائے، تو ’’امت‘‘ صرف ایک ہجوم رہ جاتی ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انہی زخموں کے بیچ، اچانک ایک سابق صدر، جس نے مسلمانوں کو ’’بلیک لسٹ‘‘ کر کے ویزے بند کیے، جس نے فلسطینیوں کے حق میں ایک لفظ تک نہ کہا، جس نے اسرائیل کو سفارتی آسمانوں پر بٹھایا، اب ’’امن کا سفیر‘‘ بن کر دنیا میں پھر رہا ہے۔ ٹرمپ کی جاہلانہ حرکات دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ دنیا صرف چل نہیں رہی، بلکہ ایک دھند میں بھٹک رہی ہے۔ ایسا شخص، جو ٹویٹ کے زور پر جنگ چھیڑتا تھا، آج ہمیں امن سکھا رہا ہے؟ شاید آنے والا وقت کچھ ایسا دکھائے گا، جہاں بلی گلہری کو نماز پڑھائے، اور خون کے تاجر ’’انسانیت‘‘ کے ایوارڈ وصول کریں۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

مارکو روبیو نے شہباز سے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بات کی، امریکا

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 جون2025ء)ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس نے کہا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وزیراعظم شہباز شریف سے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بات کی ہے۔

(جاری ہے)

واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے زور دیا کہ ایران کبھی بھی نیوکلیئر ہتھیار نہ تو بنا سکتا ہے اور نہ انہیں حاصل کرسکتا ہے۔

ٹیمی بروس کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اسرائیل اور ایران کے درمیان دائمی امن اور علاقائی استحکام کے لیے مل کر کام کرنے کی اہمیت تسلیم کی۔کچھ دیر قبل امریکی وزیر خارجہ مارکو رُوبیو نے وزیراعظم شہباز شریف کو فون کیا تھا۔وزیراعظم ہاؤس کے اعلامیے کے مطابق وزیراعظم نے ایران اسرائیل جنگ بندی کروانے میں صدر ٹرمپ کے کردار کو سراہا۔

متعلقہ مضامین

  • مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کی تیاری!
  • ابراہیمی اتحاد، نئے مشرقِ وسطیٰ کا وقت آ گیا، جولانی سمیت عرب سربراہوں کی تصاویر تل ابیب میں نصب
  • مارکو روبیو نے شہباز سے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بات کی، امریکا
  • مشرق وسطیٰ میں بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ بے نقاب، خطے کی سائبر سیکیورٹی کو شدید خطرات لاحق
  • جلد ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کرینگے جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا: مشیر امریکی صدر اسٹیووٹکوف
  • اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی خوش آئند ہے، بیرسٹر سلطان
  • مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کا خواب
  • جنگ بندی کے باوجود ایرانی فضائی حدود کی بندش میں توسیع کا فیصلہ
  • چین مشرق وسطیٰ میں پائیدار اور موثر جنگ بندی کی امید رکھتا ہے، چینی وزارت خارجہ