Jasarat News:
2025-11-12@04:57:55 GMT

شطرنج کے پیادے، تلواروں کے سوداگر اور جلتا ہوا مشرق

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سنا تھا جنگوں میں صرف فوجیں مرتی ہیں، لیکن اب سچ سمجھ میں آیا کہ جنگوں میں قومیں دفن ہوتی ہیں۔ کبھی جھنڈوں کے نیچے، کبھی نعروں کے سائے میں اور کبھی میزوں پر سجے امن کے پیالوں میں زہر گھول کر۔ یہ جنگ کسی گلی کے جھگڑے سے نہیں اٹھی، نہ ہی یہ بس اچانک بھڑکنے والا غصہ تھا۔ یہ جنگ تھی — سوچی سمجھی، تراشی گئی، اور بڑی شطرنج کے تختے پر رکھی گئی جہاں بادشاہ اسرائیل، گوٹیاں امریکا اور مات کھاتے مسلمان۔ جب اسرائیل نے ایران پر پہلا وار کیا، تو عالمی میڈیا نے پہلے پانچ سیکنڈ سناٹا کیا۔ پھر کیمرے سیدھے ہوئے اور مائیکروفون روشن۔ لیکن خبروں میں جو آیا، وہ صرف وہی تھا جو آنا چاہیے تھا، نہ کہ وہ جو ہو رہا تھا۔ یہ سب یکایک نہیں ہوا۔ مہینوں سے انٹیلی جنس رپورٹیں گواہی دے رہی تھیں: امریکی بیسز کا غیر معمولی نقل و حرکت، اسرائیلی افسران کا قطر، بحرین، اور سعودی عرب کے سفارتی دورے، اسرائیل کے اندر نیتن یاہو کے خلاف اندرونی مظاہرے، عرب میڈیا کا فلسطینی کاز سے نظر ہٹانا اور ایران کے خلاف اچانک اْبھرنے والا عرب اتحاد۔ سوال یہ نہیں تھا کہ جنگ ہو گی یا نہیں، سوال یہ تھا کہ پہلے گولی کون چلائے گا اور کیمرہ کس طرف ہو گا۔
جب تل ابیب نے تہران کے قریب ایک مبینہ نیوکلیئر سائٹ پر حملہ کیا تو امریکا نے آنکھ جھپکنے کی بھی زحمت نہ کی۔ اقوامِ متحدہ نے ’گہری تشویش‘ کا اظہار کیا وہی تشویش جو ہمیشہ گہرے گڑھوں میں دفن ہو جاتی ہے۔ ایران نے بدلہ لیا۔ نہ ڈھول، نہ اعلان صرف ایک میزائل، ایک بیس، اور ایک لاش۔ پھر امریکا بولا: ’’ہم امن چاہتے ہیں، لیکن اگر ہمیں مجبور کیا گیا تو ہم خاموش نہیں رہیں گے‘‘۔ خاموشی؟ نہیں جناب، آپ تو وہی شور ہیں جو ہر جنگ کی ابتدا میں کان پھاڑ دیتا ہے اور اختتام پر ضمیر!
یہ دو ملک، ایک جیسی سوچ، ایک جیسا لالچ اور وہی پرانا ایجنڈا: مشرقِ وسطیٰ کو کاٹ دو، بانٹ دو، اور اپنے ہتھیار بیچو۔ امریکا نے جب اپنی بحریہ خلیج میں بھیجی، تو دنیا کو بتایا ’’یہ احتیاط ہے‘‘۔ لیکن احتیاط نہیں تھی، یہ اکسانا تھا۔ جیسے کسی جلتے گھر کے باہر مٹی کا تیل رکھ دینا اور کہنا: ’’ہم تو بس حفاظت کو آئے ہیں‘‘۔ ادھر اسرائیل کے اندر بھی نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے شدت پکڑ گئے۔ عوام تھک چکی ہے، نسلیں خائف ہیں اور خود اسرائیلی یہ پوچھنے لگے ہیں کہ ’’کیا یہ جنگ واقعی ہمارے تحفظ کے لیے ہے؟ یا کسی مخصوص سیاسی بقا کے لیے؟‘‘ قطر کو بھی وہی سزا دی گئی جو وفادار کتے کو دی جاتی ہے جب وہ اچانک حق پر بھونکنے لگے۔ الجزیرہ نے حق کی بات کی، تو اس کی فضائیں بند کی گئیں۔
سعودی عرب کا کردار… خاموش۔ وہی خاموشی جو گونج سے زیادہ بولتی ہے۔ نہ فلسطین کے لیے کوئی دوٹوک بیان نہ ایران پر حملے کی مذمت۔ صرف وہی رسمی جملے جو فیکس مشینوں سے نکلتے ہیں: ’’ہم خطے میں امن کے خواہاں ہیں، اور تمام فریقین سے تحمل کی اپیل کرتے ہیں‘‘۔ کیا فلسطین کے بچوں کی قبریں ابھی بھی ’’تحمل‘‘ مانگتی ہیں؟ او آئی سی بھی وہی پرانا مذاق… جیسے کسی شدید زخمی پر پٹی باندھنے کے بجائے اس کا بلڈ پریشر ناپنے لگے۔ متحدہ عرب امارات، بحرین، اردن۔ سب وہی پرانا اسکرپٹ پڑھ رہے تھے: ’’ہم ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں‘‘۔ یعنی جو بھی اسرائیل کو چیلنج کرے، وہ دہشت گرد؟ اور ٹرمپ؟ اب وہ سیاسی میدان سے باہر ہیں، مگر جنگ کے میدان میں ان کے بوئے ہوئے بیج خون رنگ دکھا رہے ہیں۔ وہ اب اپنے ریسٹورنٹس میں بیٹھ کر شاید یہی ہنسی ہنسی کہہ رہے ہوں: “I made peace deals — just didn’t mention who paid the price.


جب اسرائیل کے شہروں پر پہلی بار ایرانی میزائلوں نے ہلکی سی لرزش پیدا کی، تو وہی اسرائیل جو حملے کے وقت گرج رہا تھا، اب امن کا خواہاں بن گیا۔ ’’ہم نہیں چاہتے کہ معاملہ بڑھے‘‘۔ بالکل جیسے چور کہے: ’’ہم صرف کھڑکی سے اندر آئے تھے، چوری کا ارادہ نہیں تھا‘‘۔ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق اگلا ہدف لبنان یا شام ہو سکتا ہے۔ ایران کے اندرونی فسادات کو ابھارنے کی منصوبہ بندی جاری ہے۔ پاکستان کے نیوٹرل مؤقف کو بدلنے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔ چین تائیوان اور مشرق وسطیٰ میں الگ بساط بچھا رہا ہے اور روس خاموش مگر حرکت میں ہے۔ جس جنگ کو آج صرف ’’تنازع‘‘ کہا جا رہا ہے، وہ کل ایک نئی عالمی صف بندی بنائے گی۔ ناٹو ایک طرف، چین و روس دوسری طرف، اور مسلمان؟ شاید پھر وہی تقسیم، مشتعل، اور لاشوں کی گنتی میں مصروف۔
یہ صرف جنگ نہیں، ایک پیشگی خاکہ ہے آنے والے عالمی جھٹکوں، سفارتی زلزلوں اور قوموں کی سمت کا۔ اس بار امت نے اگر صرف ’’بیانات‘‘ سے کام چلایا، تو اگلی بار نقشے بھی شاید صرف ’’بیانات‘‘ میں ملیں۔ کیونکہ جب ’’جغرافیہ‘‘ محض تجارت بن جائے، تو ’’امت‘‘ صرف ایک ہجوم رہ جاتی ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انہی زخموں کے بیچ، اچانک ایک سابق صدر، جس نے مسلمانوں کو ’’بلیک لسٹ‘‘ کر کے ویزے بند کیے، جس نے فلسطینیوں کے حق میں ایک لفظ تک نہ کہا، جس نے اسرائیل کو سفارتی آسمانوں پر بٹھایا، اب ’’امن کا سفیر‘‘ بن کر دنیا میں پھر رہا ہے۔ ٹرمپ کی جاہلانہ حرکات دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ دنیا صرف چل نہیں رہی، بلکہ ایک دھند میں بھٹک رہی ہے۔ ایسا شخص، جو ٹویٹ کے زور پر جنگ چھیڑتا تھا، آج ہمیں امن سکھا رہا ہے؟ شاید آنے والا وقت کچھ ایسا دکھائے گا، جہاں بلی گلہری کو نماز پڑھائے، اور خون کے تاجر ’’انسانیت‘‘ کے ایوارڈ وصول کریں۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

مشرق وسطیٰ میں نئی تبدیلیاں

ہماری کائنات کی عمر 1380 کروڑ سال ہے۔ گوگل نے ایک پاور فل چپ بنائی ہے ۔ جس کا نام Willow چپ ہے جو ثابت کرتی ہے کہ ہماری کائنات سنگل نہیں ملٹی پل یونیورس ہے ۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات ایک سے زیادہ ہیں ۔ جب کہ موجودہ کائنات میں ہی کروڑوں کہکشائیں ہیں اور ان میں ہر ایک میں اربوں ستارے ہیں ۔جن کا فاصلہ زمین سے کروڑوں نوری سال کے فاصلے پر ہے ۔

روشنی 3لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے سفر کرتی ہے ۔اس کو آپ دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سال میں ضرب دیتے جائیں تو اسے ایک نوری سال کہتے ہیں ۔ کوانٹم کمپیوٹر کی وجہ سے اتنی تیزی آئے گی کہ جو کام 30، 50 ،70سال میں ہو گا وہی کام صرف 6ماہ میں ہوجائے گا۔ لاعلاج امراض کینسر شوگر وغیرہ کی ادویات بہت کم وقت میں دریافت ہوجائیں گی ۔ کوانٹم کمپیوٹرکی بدولت مستقبل میں انسان کی عمر بڑھ کر ڈیڑھ سو سے دوسو برس تک ہوجائے گی ۔ تازہ ترین امریکی سروے کے مطابق 71فیصد امریکی نوجوان جن کی عمریں 19سال سے کم ہیں دماغی بیماریوں کا شکار ہیں یا ہونے جارہے ہیں ۔

عدد71فیصد پر غور فرمائیں یعنی ذہنی طور پر صحتمند امریکی نوجوان صرف 29فیصد ہی رہ جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ موبائل اور لیپ ٹاپ اسکرین اور اس کی نیلی روشنی ہے اسکولوں، کالجوں ، یونیورسٹیوں میں طالبعلموں پر پڑھائی کا بے پناہ بوجھ ہے ۔ ان کے پاس اتنا وقت بھی نہیں بچتا کہ وہ کھیل کود اور دیگر سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں ۔ گھر کے لیے بھی انھیں اتنا ہوم ورک دے دیا جاتا ہے کہ انھیں سر کھجانے کا موقع نہیں ملتا یہاں تک کہ وہ صحیح سو بھی نہیں پاتے اس طرح سے ہماری نوجوان نسل بڑی تیزی سے نوجوانی میں ہی ان دماغی بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہے جس کا امکان بڑھاپے میں ہوتا ہے ۔ اس کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنے نظام تعلیم کا از سر نو جائزہ لے کر اسے نوجوان نسل کے لیے سہل بنائیں ۔ ہمارا نظام تعلیم اس لیے بھی مشکل ترین بن گیا ہے کہ ذریعہ تعلیم انگریزی ہے۔ جس کے لیے ہمیں انگریزی سیکھنا پڑتی ہے ۔

خاص طور پر سائنسی مضامین انگریزی میں ہیں دوسرے ملکوں کے برعکس جب کہ دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ملکوں کا ذریعہ تعلیم ان کی اپنی مادری زبان میں ہے ۔ خاص طور پر چین ، فرانس ، جرمنی ،جاپان، سنگا پور ، ملیشیاء اور ترکی وغیرہ ہیں ۔ ان ملکوں میں بھی انگریزی زبان سیکھی اورپڑھی جاتی ہے ۔ لیکن اسے اوڑھنا بچھوڑنا نہیں بنایا جاتا۔ مندرجہ بالا یہ تمام ممالک اپنی مادری زبان میں ہی سائنسی مضامین پڑھ کر سائنس اور ٹیکنالوجی میں اعلیٰ ترین مقام پر ہیں ۔

ہمارے ہاں ذریعہ تعلیم انگریزی ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ طالبعلموں کو انگریزی میں مہارت حاصل کرنے کے لیے انگریزی سیکھنا پڑتی ہے ۔ دوسرا سائنسی مشکل مضامین کو انگریزی میں پڑھنا اور سمجھنا ہوتا ہے یہ تو دوہری محنت ومشقت ہے ۔ مادری زبانوں میں سائنسی مضامین پڑھنا سمجھنا اور مہارت حاصل کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ان مندرجہ بالا ملکوں نے ترقی کی دوڑ میں تمام دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ انگریزوں نے پاکستان چھوڑتے وقت جس اشرافیہ کو اقتدار منتقل کیا وہ انگریزی زبان میں مہارت رکھتی تھی۔ ان کی بھی پالیسی یہی تھی کہ عوام پر اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے مادری زبان کے بجائے انگریزی کو پاکستانی عوام پر مسلط کیا جائے ۔ انھوں نے اپنے لیے اعلیٰ تعلیمی ادارے بنائے باقی پاکستانی عوام کو فرسودہ اور پسماندہ نظام تعلیم کے حوالے کردیا۔

عام امتحانوں کو تو ایک طرف چھوڑیں اعلیٰ تعلیمی امتحانات میں پرچہ لیک اور نقل ہونا عام سی بات بن گئی ہے ۔ بقول عظیم افریقی لیڈر نیلسن منڈیلا کے کسی بھی قوم کو مستقل پسماندہ زیر نگیں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پرچے لیک اور نقل کو معمول بنا دیا جائے ۔ نالائق اور کم اہلیت کے اساتذہ بھرتی کیے جائیں ۔ انگریزی زبان کو ہتھیار بنا کر اس اشرافیہ نے پاکستانی عوام کو صدیوں سے اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔ان کی بودی دلیل یہ ہے کہ اگر نظام تعلیم انگریزی میں نہ ہوا تو پاکستان ترقی کیسے کرے گا۔ جواب یہ ہے کہ یورپی ممالک روس ، چین ، امریکا ، جاپان ، جرمنی ، فرانس آخر اپنی مادری زبان ہی کے ذریعے ترقی کے بام عروج پر پہنچے ہیں، سوال یہ ہے کہ ان کی دھوکا بازی کا کوئی جواب ہے ۔ جو یہ قیام پاکستان کے بعد سے مسلسل کر رہے ہیں ۔ انگریزی نظام تعلیم اپنا کر پاکستان میں نظام تعلیم کا ایسا بیڑہ غرق ہوا ہے کہ مقابلے کے امتحانات میں صرف چند سو ہی پاس ہو پاتے ہیں ۔

27ویں ترمیم کے ڈانڈے مشرق وسطی سے ملتے ہیں ، سابق بلیک امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کے خواب کی تعبیر ری برتھ آف مڈل ایسٹ مکمل ہونے جارہی ہے ۔ کیونکہ پاکستان بھی مشرق وسطی کا حصہ ہے اسی لیے پاکستان کو بھی اس کے قیام کے بعد برصغیر سے کاٹ کر مشرق وسطی کا حصہ بنا دیا گیا تھا ۔ اسی لیے مشرق وسطی کے پچھواڑے کی چوکیداری کئی دہائیوں پہلے پاکستان کے حصے میں آگئی تھی ۔اب ان ذمے داریوں میں مزید اضافہ ہونے والا ہے ۔

سعودی ولی عہد کا اٹھارہ نومبر سے دورہ امریکا جو سات سال کے بعد ہونے جا رہا ہے غیر معمولی طور پر اہمیت رکھتا ہے ۔ امریکی صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے اس سال دسمبر تک مزید عرب ممالک ابراہام اکارڈ کا حصہ ہوں گے ۔ تقسیم کے وقت ستاروں کی ایک ایسی پوزیشن اسٹرلوجی کے مطابق بن گئی تھی جس کے نتیجے میں برصغیر تقسیم ہو گیا ۔ اب ستاروں کی ایسی پوزیشن بن گئی ہے جو اسے دوبارہ سے ری یونائیٹ کردے گی۔ سرحدیں سوفٹ ہو جائیں گی۔ تجارت ومعیشت کا آزادانہ سلسلہ شروع ہو گا ۔ مشرق وسطی کی ری برتھ امریکی مفادات کے لیے بھی ضروری ہے ۔ اس کے بغیر اس خواب کی تعبیر مکمل نہیں ہو سکتی۔

2026اور2027 اس حوالے سے فیصلہ کن اہمیت رکھتے ہیں۔  

متعلقہ مضامین

  • ہندوتوا کی آگ میں جلتا بھارت سیکولر ازم کا جنازہ
  • ایران کے جوہری پروگرام پر خطرناک تعطل، اسرائیل کو خدشات
  • غزہ کی زمین پر کسی ترک فوجی کا پاؤں نہیں پڑے گا‘ اسرائیل کا ترکی کو دوٹوک پیغام
  • نفرت اور محبت
  • “غزہ کی زمین پر کسی ترک فوجی کا پاؤں نہیں پڑے گا”، اسرائیل کا ترکی کو دوٹوک پیغام
  • مشرق وسطیٰ میں نئی تبدیلیاں
  • غزہ کی زمین پر کسی ترک فوجی کا پاؤں نہیں لگے گا، ترجمان اسرائیلی وزیراعظم
  • غزہ، انسانیت کا امتحان
  • غزہ کی زمین پر کسی ترک فوجی کا پاؤں نہیں لگےگا، ترجمان اسرائیلی وزیراعظم
  • غزہ کی زمین پرترکیہ کے کسی فوجی کا پاؤں نہیں لگےگا؛اسرائیل