شطرنج کے پیادے، تلواروں کے سوداگر اور جلتا ہوا مشرق
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سنا تھا جنگوں میں صرف فوجیں مرتی ہیں، لیکن اب سچ سمجھ میں آیا کہ جنگوں میں قومیں دفن ہوتی ہیں۔ کبھی جھنڈوں کے نیچے، کبھی نعروں کے سائے میں اور کبھی میزوں پر سجے امن کے پیالوں میں زہر گھول کر۔ یہ جنگ کسی گلی کے جھگڑے سے نہیں اٹھی، نہ ہی یہ بس اچانک بھڑکنے والا غصہ تھا۔ یہ جنگ تھی — سوچی سمجھی، تراشی گئی، اور بڑی شطرنج کے تختے پر رکھی گئی جہاں بادشاہ اسرائیل، گوٹیاں امریکا اور مات کھاتے مسلمان۔ جب اسرائیل نے ایران پر پہلا وار کیا، تو عالمی میڈیا نے پہلے پانچ سیکنڈ سناٹا کیا۔ پھر کیمرے سیدھے ہوئے اور مائیکروفون روشن۔ لیکن خبروں میں جو آیا، وہ صرف وہی تھا جو آنا چاہیے تھا، نہ کہ وہ جو ہو رہا تھا۔ یہ سب یکایک نہیں ہوا۔ مہینوں سے انٹیلی جنس رپورٹیں گواہی دے رہی تھیں: امریکی بیسز کا غیر معمولی نقل و حرکت، اسرائیلی افسران کا قطر، بحرین، اور سعودی عرب کے سفارتی دورے، اسرائیل کے اندر نیتن یاہو کے خلاف اندرونی مظاہرے، عرب میڈیا کا فلسطینی کاز سے نظر ہٹانا اور ایران کے خلاف اچانک اْبھرنے والا عرب اتحاد۔ سوال یہ نہیں تھا کہ جنگ ہو گی یا نہیں، سوال یہ تھا کہ پہلے گولی کون چلائے گا اور کیمرہ کس طرف ہو گا۔
جب تل ابیب نے تہران کے قریب ایک مبینہ نیوکلیئر سائٹ پر حملہ کیا تو امریکا نے آنکھ جھپکنے کی بھی زحمت نہ کی۔ اقوامِ متحدہ نے ’گہری تشویش‘ کا اظہار کیا وہی تشویش جو ہمیشہ گہرے گڑھوں میں دفن ہو جاتی ہے۔ ایران نے بدلہ لیا۔ نہ ڈھول، نہ اعلان صرف ایک میزائل، ایک بیس، اور ایک لاش۔ پھر امریکا بولا: ’’ہم امن چاہتے ہیں، لیکن اگر ہمیں مجبور کیا گیا تو ہم خاموش نہیں رہیں گے‘‘۔ خاموشی؟ نہیں جناب، آپ تو وہی شور ہیں جو ہر جنگ کی ابتدا میں کان پھاڑ دیتا ہے اور اختتام پر ضمیر!
یہ دو ملک، ایک جیسی سوچ، ایک جیسا لالچ اور وہی پرانا ایجنڈا: مشرقِ وسطیٰ کو کاٹ دو، بانٹ دو، اور اپنے ہتھیار بیچو۔ امریکا نے جب اپنی بحریہ خلیج میں بھیجی، تو دنیا کو بتایا ’’یہ احتیاط ہے‘‘۔ لیکن احتیاط نہیں تھی، یہ اکسانا تھا۔ جیسے کسی جلتے گھر کے باہر مٹی کا تیل رکھ دینا اور کہنا: ’’ہم تو بس حفاظت کو آئے ہیں‘‘۔ ادھر اسرائیل کے اندر بھی نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے شدت پکڑ گئے۔ عوام تھک چکی ہے، نسلیں خائف ہیں اور خود اسرائیلی یہ پوچھنے لگے ہیں کہ ’’کیا یہ جنگ واقعی ہمارے تحفظ کے لیے ہے؟ یا کسی مخصوص سیاسی بقا کے لیے؟‘‘ قطر کو بھی وہی سزا دی گئی جو وفادار کتے کو دی جاتی ہے جب وہ اچانک حق پر بھونکنے لگے۔ الجزیرہ نے حق کی بات کی، تو اس کی فضائیں بند کی گئیں۔
سعودی عرب کا کردار… خاموش۔ وہی خاموشی جو گونج سے زیادہ بولتی ہے۔ نہ فلسطین کے لیے کوئی دوٹوک بیان نہ ایران پر حملے کی مذمت۔ صرف وہی رسمی جملے جو فیکس مشینوں سے نکلتے ہیں: ’’ہم خطے میں امن کے خواہاں ہیں، اور تمام فریقین سے تحمل کی اپیل کرتے ہیں‘‘۔ کیا فلسطین کے بچوں کی قبریں ابھی بھی ’’تحمل‘‘ مانگتی ہیں؟ او آئی سی بھی وہی پرانا مذاق… جیسے کسی شدید زخمی پر پٹی باندھنے کے بجائے اس کا بلڈ پریشر ناپنے لگے۔ متحدہ عرب امارات، بحرین، اردن۔ سب وہی پرانا اسکرپٹ پڑھ رہے تھے: ’’ہم ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں‘‘۔ یعنی جو بھی اسرائیل کو چیلنج کرے، وہ دہشت گرد؟ اور ٹرمپ؟ اب وہ سیاسی میدان سے باہر ہیں، مگر جنگ کے میدان میں ان کے بوئے ہوئے بیج خون رنگ دکھا رہے ہیں۔ وہ اب اپنے ریسٹورنٹس میں بیٹھ کر شاید یہی ہنسی ہنسی کہہ رہے ہوں: “I made peace deals — just didn’t mention who paid the price.
جب اسرائیل کے شہروں پر پہلی بار ایرانی میزائلوں نے ہلکی سی لرزش پیدا کی، تو وہی اسرائیل جو حملے کے وقت گرج رہا تھا، اب امن کا خواہاں بن گیا۔ ’’ہم نہیں چاہتے کہ معاملہ بڑھے‘‘۔ بالکل جیسے چور کہے: ’’ہم صرف کھڑکی سے اندر آئے تھے، چوری کا ارادہ نہیں تھا‘‘۔ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق اگلا ہدف لبنان یا شام ہو سکتا ہے۔ ایران کے اندرونی فسادات کو ابھارنے کی منصوبہ بندی جاری ہے۔ پاکستان کے نیوٹرل مؤقف کو بدلنے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔ چین تائیوان اور مشرق وسطیٰ میں الگ بساط بچھا رہا ہے اور روس خاموش مگر حرکت میں ہے۔ جس جنگ کو آج صرف ’’تنازع‘‘ کہا جا رہا ہے، وہ کل ایک نئی عالمی صف بندی بنائے گی۔ ناٹو ایک طرف، چین و روس دوسری طرف، اور مسلمان؟ شاید پھر وہی تقسیم، مشتعل، اور لاشوں کی گنتی میں مصروف۔
یہ صرف جنگ نہیں، ایک پیشگی خاکہ ہے آنے والے عالمی جھٹکوں، سفارتی زلزلوں اور قوموں کی سمت کا۔ اس بار امت نے اگر صرف ’’بیانات‘‘ سے کام چلایا، تو اگلی بار نقشے بھی شاید صرف ’’بیانات‘‘ میں ملیں۔ کیونکہ جب ’’جغرافیہ‘‘ محض تجارت بن جائے، تو ’’امت‘‘ صرف ایک ہجوم رہ جاتی ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انہی زخموں کے بیچ، اچانک ایک سابق صدر، جس نے مسلمانوں کو ’’بلیک لسٹ‘‘ کر کے ویزے بند کیے، جس نے فلسطینیوں کے حق میں ایک لفظ تک نہ کہا، جس نے اسرائیل کو سفارتی آسمانوں پر بٹھایا، اب ’’امن کا سفیر‘‘ بن کر دنیا میں پھر رہا ہے۔ ٹرمپ کی جاہلانہ حرکات دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ دنیا صرف چل نہیں رہی، بلکہ ایک دھند میں بھٹک رہی ہے۔ ایسا شخص، جو ٹویٹ کے زور پر جنگ چھیڑتا تھا، آج ہمیں امن سکھا رہا ہے؟ شاید آنے والا وقت کچھ ایسا دکھائے گا، جہاں بلی گلہری کو نماز پڑھائے، اور خون کے تاجر ’’انسانیت‘‘ کے ایوارڈ وصول کریں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
انصاف صرف دلوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اسے عمل میں لانے کی ضرورت ہے، رپورٹ
انصاف صرف دلوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اسے عمل میں لانے کی ضرورت ہے، رپورٹ WhatsAppFacebookTwitter 0 11 August, 2025 سب نیوز
غزہ :حالیہ عرصے میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تناؤ مسلسل بڑھ رہا ہے، جس نے پوری دنیا کے عوام کو پریشان کر دیا ہے۔ پیر کے روز عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے فلسطین-اسرائیل مسئلے پر ہنگامی اجلاس بلایا، جس میں چین کے اقوام متحدہ میں مستقل نمائندے فو چھونگ نے اپنے بیان میں “چار ضروری اقدامات” پیش کیے۔ انہوں نے چین کے موقف کو واضح طور پر بیان کیا، فلسطین-اسرائیل مسئلے کے مناسب حل کے لیے اہم تجاویز پیش کیں، اور بین الاقوامی انصاف اور عدل کے تحفظ کے لیے چین کی دانشمندی کا اظہار کیا۔چین کے پیش کردہ “چار ضروری اقدامات” کی بہت زیادہ اہمیت ہے، ہر نقطہ موجودہ تنازعے کے اہم پہلوؤں کو نشانہ بناتا ہے۔ پہلا ضروری اقدام یہ ہے کہ اسرائیل کے غزہ پر قبضے کی کوششوں کی سختی سے مخالفت کی جانی چاہیے، جو علاقائی خودمختاری کے اصولوں کا مضبوط تحفظ ہے۔
غزہ فلسطین کے علاقے کا ایک اٹوٹ حصہ ہے، اور اس کی آبادی اور علاقائی ساخت کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوئی بھی کوشش بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اگر ایسے قبضے کو خاموشی سے برداشت کیا جاتا ہے، تو بین الاقوامی نظم و ضبط میں خلل پڑے گا اور تمام ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔دوسرا، طاقت کے زور پر چلنے کے تصور کو ترک کرنا ضروری اور لازم ہے ۔ فوجی اقدامات کبھی بھی مسائل کے حل کا بنیادی ذریعہ نہیں رہے، یہ صرف مزید جانی نقصان اور تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ اسرائیل کی غزہ پر جاری فوجی کارروائیوں نے بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکتوں اور بے گھری کو جنم دیا ہے، جو انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ فوری جنگ بندی ہی زندگیوں کو بچا سکتی ہے اور قیدیوں کی رہائی کے لیے راہ ہموار کر سکتی ہے۔
اسرائیلی حکومت کو بین الاقوامی برادری اور اپنے عوام کی آواز سننی چاہیے اور تناؤ بڑھانے والے اقدامات کو روکنا چاہیے۔ ساتھ ہی، متاثرہ فریقوں پر اثر رکھنے والے ممالک کو غیر جانبدار اور ذمہ دارانہ رویہ اپنا کر جنگ بندی کو فروغ دینا چاہیے، نہ کہ آگ میں مزید ایندھن ڈالنا چاہیے۔تیسرا، غزہ میں انسانی بحران کو کم کرنا ہوگا، جو بنیادی انسانی تقاضا ہے۔ فی الحال غزہ کے عوام شدید بقائی بحران کا شکار ہیں، انسانی امدادی سامان کی شدید قلت ہے، اور غزہ کے عوام کو اجتماعی سزا دینے اور امدادی سامان تلاش کرنے والے عام شہریوں اور امدادی کارکنوں پر حملے ناقابل برداشت ہیں۔ اسرائیل کو، بطور قبضہ کرنے والے، یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر، تیزی سے اور محفوظ طریقے سے غزہ میں انسانی امدادی سامان کی ترسیل کو یقینی بنائے اور اقوام متحدہ کی امدادی کوششوں کی حمایت کرے۔چوتھا، “دو ریاستی حل” کے امکانات کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا، جو فلسطینی مسئلے کے حل اور فلسطین-اسرائیل کے پرامن بقائے باہمی کا واحد قابل عمل راستہ ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے، “دو ریاستی حل” کی بنیاد مسلسل کمزور ہو رہی ہے،
جس کی وجہ سے فلسطین-اسرائیل تنازعہ بار بار جنم لے رہا ہے۔ بین الاقوامی برادری کو اس سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے مزید کوششیں کرنی چاہئیں، اس کی بنیاد کو کمزور کرنے والے کسی بھی یکطرفہ اقدام کی مخالفت کرنی چاہیے، اور فلسطین اور اسرائیل کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے چاہئیں۔انصاف صرف دلوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اسے قائم رکھنے، سپورٹ کرنے اور عمل میں لانے کے لیے لوگوں کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی معاشرے میں یہ کردار تمام رکن ممالک کو ادا کرنا ہوگا۔ اگر انصاف نہیں ہوگا، تو بین الاقوامی معاشرہ ایک جنگل بن جائے گا جہاں طاقتور کمزور کو کھا جاتا ہے، اور انسانی معاشرہ ایک ظالم شکار گاہ میں تبدیل ہو جائے گا۔ یہ صورت حال انسانی اخلاقیات اور جدید تہذیب کے بالکل منافی ہے، اور ہمیں اسے ہرگز قبول نہیں کرنا چاہیے۔چین ہمیشہ سے انصاف اور حق پرستی کا ساتھ دیتا آیا ہے اور فلسطین-اسرائیل مسئلے کے پرامن حل کے لیے سرگرم عمل رہا ہے۔
بین الاقوامی ثالثی میں فعال کردار ادا کرنے سے لے کر غزہ کو انسانی امداد فراہم کرنے تک، اور اب “چار ضروری اقدامات” پیش کرنے تک، چین نے عملی اقدامات کے ذریعے بین الاقوامی انصاف اور عدل کے تحفظ کا عزم ظاہر کیا ہے۔ لیکن صرف چین کی کوششیں کافی نہیں ہیں، بین الاقوامی برادری کے ہر رکن کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی۔اقوام متحدہ، بطور بین الاقوامی نظم و ضبط کے محافظ، کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور تمام فریقوں کو بین الاقوامی قانون پر عمل کرنے اور تنازعے کے پرامن حل کو فروغ دینے کی ترغیب دینی چاہیے۔ بااثر ممالک کو غیر جانبدارانہ موقف اپنانا چاہیے نہ کہ اپنے مفادات کی خاطر کسی ایک فریق کی حمایت کرنی چاہیے۔ تمام ممالک کو متحد ہو کر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کو یقینی بنانا چاہیے، انسانی بحران کو کم کرنا چاہیے، “دو ریاستی حل” کو نافذ کرنا چاہیے، تاکہ بین الاقوامی معاشرے میں انصاف اور حق پرستی کو فروغ ملے، امن کی روشنی فلسطین اور اسرائیل کی سرزمین پر پڑے، اور بین الاقوامی معاشرہ جنگل کے قانون کے تاریک غار میں گرنے سے محفوظ رہ سکے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان کا چین کے علاقے اندرونی منگولیا کے ساتھ تعاون کو گہرا کرنے کے عزم الیکشن کمیشن اور بی جے پی پر سنگین الزامات، دہلی پولیس نے راہول گاندھی کو گرفتار کرلیا ایران نے نئے جوہری سائنس دان روپوش کردیے، اسرائیل کی نئی ہٹ لسٹ تیار ایشیا کے امیر ترین آدمی مکیش امبانی کو اپنی کمپنی سے کتنی تنخواہ ملتی ہے؟ آسٹریلیا کا ستمبر میں جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان ترکیہ سمیت مختلف ممالک میں اسرائیلی مظالم کیخلاف احتجاج، غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ غزہ میں شہید الجزیرہ کے بہادر صحافی انس الشریف کا آخری پیغام، پڑھنے والی ہر آنکھ اشکبارCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم