data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
1945 میں دنیا نے فیصلہ کیا کہ ہٹلر کے جرمن جنرلز کو جنگی جرائم، نسل کشی اور جرائم ِ انسانیت کے لیے جوابدہ ٹھیرایا جائے گا۔ نیرمبرگ مقدمات نہ صرف مجرموں کی سزا کے لیے تھے بلکہ انسانی حقوق اور عالمی امن کے قیام کی بنیاد بھی تھے، اور اس کے ساتھ ’’Never Again‘‘ کا وعدہ بھی دیا گیا۔ آج، تقریباً ایک صدی بعد، یہی وعدہ دوبارہ چیلنج ہو رہا ہے، نیتن یاہو کے اسرائیل کی جارحیت اور بدلتے ہوئے عالمی سیاسی منظرنامے کے ذریعے۔ ابتدائی ردعمل میں حیرت اور تشویش ہوئی، مگر جلد ہی واضح ہو گیا کہ مسئلہ صرف کسی ایک ملک یا گروہ تک محدود نہیں بلکہ یہ عالمی سیاست اور دوہرے معیار کا عکس ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور OIC نے دوحا میں اسرائیل کے حملے کو خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا اور شدید مذمت کی لیکن میڈیا کی کوریج نے ایک واضح فرق ظاہر کر دیا۔ Reuters اور BBC نے اسے محض ایک معمولی کشیدگی کے طور پر پیش کیا، جبکہ Guardian نے کہا کہ یہ خلیج کے لیے ایک صدمہ ہے اور اسرائیل کو ایران سے بڑا خطرہ دکھاتا ہے۔ Al Jazeera اور The New Arab نے اسے ثالثی کی تخریب، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور مغربی میڈیا کی طرف سے اسرائیلی جارحیت کے معمول بنانے کا ثبوت قرار دیا۔
دوحا میں اسرائیل کے حملے پر غور کرتے ہوئے، ایک واضح تضاد نظر آتا ہے: جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو مغربی میڈیا نے اسے دنیا کے لیے ایک ’’سرخ لکیر‘‘ قرار دیا۔ لیکن جب دوحا پر حملہ ہوا، جو ایک امریکی اتحادی بھی ہے، اسے نظر انداز کر دیا گیا۔ یہی ظاہر کرتا ہے کہ بعض اتحادی دوسرے سے زیادہ ’’پاک‘‘ سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وہ سبق ہے جو خلیجی تعاون کونسل کے ممالک کو سیکھنا چاہیے اور سمجھنا چاہیے: صرف ریاستی تعلقات یا سیاسی سفارت کاری کافی نہیں، عوامی شعور اور حقیقی خطرات کو نظر انداز کرنے کی قیمت خطے کے امن پر پڑ سکتی ہے۔ بھارت، اسرائیل بمقابلہ پاکستان کے زاویے سے دیکھا جائے تو صورتحال مزید واضح ہوتی ہے: اسرائیل بھارت کو بغیر پائلٹ ہوائی جہاز، نگرانی کی ٹیکنالوجی، اور انسجنسی کے خلاف حربے فراہم کرتا ہے، جبکہ بھارت خود کو اقتصادی اور جوہری طاقت کی بنیاد پر عظیم سمجھتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی ہتھیاروں اور رافیل طیاروں کے باوجود بھارت نے نہ چین کے سامنے مؤثر ردعمل دکھایا، نہ پاکستان کے۔ پاکستان کی فوج تجربہ کار ہے، روایتی اور مخلوط جنگوں میں حقیقی تجربہ رکھتی ہے، اور اس کا جوہری ڈھال خطے کے توازن کو برقرار رکھنے والا اہم مساوی عنصر ہے۔ بھارت کی داخلی میڈیا اور سیاسی مشینری پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا چلاتی ہے، جس سے وہ اپنے غیرملکی اور اسلام دشمن ووٹر بیس کو مطمئن رکھتا ہے، مگر حقیقتاً پاکستان کے خلاف کوئی بین الاقوامی شواہد موجود نہیں۔
دوحا میں اسرائیل کے حملے نے نہ صرف قطر کے دارالحکومت کو ہدف بنایا بلکہ عالمی امن اور ثالثی کے عمل کو بھی چیلنج کیا۔ قطر اور سعودی عوام نے حماس کے حق میں سڑکوں پر احتجاج کیا، جو یہ دکھاتا ہے کہ بادشاہتیں جو عام طور پر عوامی رائے کو محدود کرتی ہیں، اب عوامی دباؤ کو نظر انداز نہیں کر سکتیں۔ خلیجی تعاون کونسل کو یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف ریاستی سفارت کاری کافی نہیں، عوامی توقعات اور احساسات بھی خطے کے مستقبل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان اس تمام منظرنامے میں ایک پوشیدہ مگر کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ وزیراعظم کا فوری قطر دورہ اور سعودی عرب کے ساتھ طویل المدتی غیر تحریری سیکورٹی معاہدے اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان مشرقِ وسطیٰ میں ایک اسٹرٹیجک ضامن کے طور پر کام کر رہا ہے۔ ماضی میں مدینہ پر حملے کو خاموشی سے سنبھالا گیا، مگر آج پاکستان کا گرم استقبال ظاہر کرتا ہے کہ ریاض اور دوحا کے لیے اسلام آباد ایک ناگزیر حفاظتی ڈھال ہے۔ پاکستان کا یہ کردار عالمی سطح پر مسلم دنیا کے استحکام اور امن کے لیے ایک مرکزی محور بناتا ہے۔
اقوامِ متحدہ، جو نیرمبرگ کے وعدے پر بنی تھی کہ کبھی دوبارہ ایسی درندگی نہ دہرائی جائے، آج مفلوج ہے۔ ہر جنگ بندی کی قرارداد کو امریکا مسترد کر دیتا ہے، اسرائیل اقوامِ متحدہ کی تمام قراردادیں نظر انداز کرتا ہے، بین الاقوامی فوجداری عدالت نیتن یاہو اور گیلانٹ کے لیے وارنٹ جاری کرتی ہے مگر اثر کچھ نہیں ہوتا۔ سلامتی کونسل منقسم ہے اور جنرل اسمبلی بے اثر ہے۔ وہ ادارہ جو کبھی ظلم کے خلاف کھڑا ہوا تھا، آج بے اثر ہے، اور ’’Never Again‘‘ کا وعدہ ’’بار بار‘‘ میں بدل گیا ہے۔
اسرائیل کا قطر پر حملہ اور اس کے بعد کے ردعمل ظاہر کرتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ ایک نئے موڑ پر ہے۔ خلیجی عوامی احتجاج کو دبایا نہیں جا سکتا، سعودی عرب کی پرانی پالیسیاں بدل رہی ہیں اور پاکستان محض تماشائی نہیں بلکہ ایک مرکزی کھلاڑی ہے، جو عرب دنیا اور عالمی توازن دونوں میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ مسلم دنیا کے لیے یہ لمحہ ایک ہنگامی سبق ہے: اگر ہم نے ’’Never Again‘‘ کو عملی شکل نہ دی تو ظلم اور درندگی بار بار دہراتی رہے گی۔ پاکستان اس منظرنامے میں ایک پوشیدہ اسٹرٹیجک کارڈ کے طور پر موجود ہے، جو خطے میں توازن اور اسلامی مقدسات کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔ اور جیسا کہ یہ ’’Never Again‘‘ کا وعدہ بار بار دہرایا جا رہا ہے، واضح ہوتا ہے کہ آج کی دنیا میں کوئی بھی طاقت، کوئی بھی ملک محفوظ نہیں۔ نہ کوئی تنظیم، نہ کوئی وعدہ، اور نہ کوئی حکمت عملی اس بات کی ضمانت دے سکتی ہے کہ کسی پر ظلم یا جارحیت دوبارہ نہیں ہوگی۔ ہر کوئی ایک دوسرے کی حدود کو چیلنج کرنے کی کوشش کرتا نظر آ رہا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو ہمیں سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان کے ظاہر کر کرتا ہے کے خلاف اور اس کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
’کیا پاکستان کا کوئی ادارہ اس پروگرام کے خلاف ایکشن لینے کو تیار نہیں؟‘، لازوال عشق کے ٹریلر پر تہلکہ مچ گیا
معروف اداکارہ اور ٹی وی میزبان عائشہ عمر کے ریئلٹی شو’لازوال عشق‘ پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے، جہاں صارفین نے شو کے مواد کو غیر موزوں قرار دیتے ہوئے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سے اس کی نشریات پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔
سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی تنقید کے پیشِ نظر پیمرا نے ایک وضاحتی بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا کہ ’لازوال عشق‘ کسی لائسنس یافتہ ٹی وی چینل پر نشر نہیں ہو رہا بلکہ صرف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دکھایا جا رہا ہے، لہٰذا یہ پروگرام براہِ راست پیمرا کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔
یہ بھی پڑھیں: ’شروع ہونے سے پہلے ہی بائیکاٹ کیا جائے‘، عائشہ عمر کے ڈیٹنگ ریئلٹی شو ‘لازوال عشق’ پر صارفین پھٹ پڑے
پیمرا کی وضاحت کے باوجود سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی دوران شو کا ٹیزر بھی جاری کیا گیا، جس نے عوامی ردعمل کو مزید بڑھا دیا۔ ٹیزر میں دکھایا گیا ہے کہ میزبان عائشہ عمر ایک خاتون شرکاء سے سوال کرتی ہیں کہ دو مرد شرکاء میں سے وہ کس کو زیادہ پسند کرتی ہیں، جس پر خاتون جواب دیتی ہیں ’دونوں اچھے ہیں‘۔
سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ اس طرز کا مواد مقامی ثقافت اور روایات سے ہم آہنگ نہیں اور اس سے نوجوان نسل پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ متعدد صارفین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مطالبہ کیا ہے کہ ایسے شوز کے خلاف مؤثر ضابطۂ اخلاق وضع کیا جائے، خواہ وہ کسی بھی میڈیا پر نشر ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈیٹنگ شو ’لازوال عشق‘ پر شدید تنقید کے بعد میزبان عائشہ عمر بھی بول پڑیں
صارفین نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے حکومِ پاکستان پر بھی تنقید کی اور کہا کہ پاکستان کا کوئی ادارہ اس پروگرام کے خلاف ایکشن لینے پر تیار نہی۔ سنا ہے 29 نومبر سے رلیز ہو رہا ہے یہ نیکسٹ لیول پر بے شرمی کو لے جائے گا۔
پاکستان کا کوئی ادارہ اس پروگرام کے خلاف ایکشن لینے پر تیار نہی سنا ہے 29 نومبر سے رلیز ہو رہا ہے یہ نیکسٹ لیول پر بے شرمی کو لے جائے گا pic.twitter.com/1OKXY9y6oK
— RAShahzaddk (@RShahzaddk) September 23, 2025
اطہر سلیم نے لکھا کہ پاکستان میں اس کے لیے اگر کوئی قانون نہیں تو لوگوں کو خود اس کا بائیکاٹ کرنا چاہئیے۔
یقیناً یہ بڑی بے غیرتی ہے اسے تو روکنا ضروری ہے!
پاکستان میں اس کے لئے اگر کوئی قانون نہیں تو لوگوں کو خود اس کا بائیکاٹ کرنا چاہئیے! @reportpemra stop it before it is too late pic.twitter.com/Lbv3UFU1bL
— Ather Salem® (@Atharsaleem01) September 24, 2025
ایک صارف نے کہا کہ اگر صحافیوں کے یوٹیوب چینل بند ہو سکتے ہیں تو یہ پروگرام کیوں بند نہیں ہو سکتا۔
صحافیوں کے یوٹیوب چینل بند ہو سکتے ہیں تو یہ پروگرام کیوں بند نہی ہو سکتا ????
— S K Lodhi (@SKLodhi96763826) September 24, 2025
جہاں کئی صارفین اس پر تنقید کرتے نظر آئے وہیں چند صارفین کا کہنا تھا کہ یہ پروگرام یو ٹیوب پر نشر ہو گا جس کو مسئلہ ہے وہ اس شو کو نہ دیکھے۔
بھائی یو ٹیوب پے آرہا ہے جس کو مسئلہ ہے نہ دیکھے اس میں پریشانی کیسی
— Mian Aamir Mehmood (@mianaamir4000) September 23, 2025
واضح رہے کہ شو کے فارمیٹ کے مطابق تمام شرکاء جن میں 4 مرد اور 4 خواتین شامل ہیں بنگلے میں ایک ساتھ رہیں گے، اور ان کی ہر سرگرمی کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کی جائے گی۔ ممکنہ طور پر 100 اقساط پر مشتمل اس ریئلٹی شو میں شرکاء کو مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا اور اختتام پر ایک فاتح جوڑا منتخب کیا جائے گا۔
عائشہ عمر کا اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پروگرام میں کوئی پہلے سے جوڑے نہیں بنائے گئے بلکہ شرکاء ایک دوسرے کو جان کر قدرتی طور پر رشتے قائم کریں گے اور اس کا مقصد شادی ہے یہی پروگرام کی بنیاد ہے۔ کھیل بھی بات چیت پر ہی مبنی ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام پاکستانی نوجوانوں کے لیے ایک قیمتی تجربہ ثابت ہو سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پیمرا عائشہ عمر لازوال عشق