سلطان ابراہیم، 13 اکتوبر، 1617میں قسطنطنیہ کے شاہی محل میں پیدا ہوا۔ وہ سلطان احمد کا آخری چشم وچراغ تھا۔ والدہ، قاسم سلطانہ، یونان کی شہری تھی۔ شاہی حرم میں بطور ملازمہ لائی گئی تھی۔ سلطانہ حددرجہ ذہین بلکہ عیار خاتون تھی۔ اس نے سلطنت عثمانیہ کے بگاڑ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ابراہیم ایک ماہ کا تھا کہ والد فوت ہو گیا۔
اس کے بعد اس کا چچا مصطفی بادشاہ بنا۔ اور پھر تخت، مراد چہارم کو موروثیت میں منتقل ہو گیا۔ ذہن میں رہنا چاہیے کہ سلطنت عثمانیہ میں انتقالِ اقتدار کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ بیٹوں کے درمیان، سازش، خون ریزی اور جنگ وجدل کا بازار گرم ہوتا اور جو کسی بھی وجہ سے محفوظ رہتا، سلطان بن جاتا۔ ویسے یہ المیہ آج تک مسلمان حکومتوں میں سر چڑھ کر بربادی برپا کر رہا ہے۔ 2025 میں بھی مسلم ریاستیں انتقالِ اقتدار کے کسی بھی شفاف مرحلے سے دور نظر آتی ہیں۔ جو معاملہ چار پانچ سو برس پہلے تھا، آج بھی تقریباً اسی طرح ہے۔ اپنے ملک کو دیکھ لیجیے۔ تخت پر قبضے کی جنگ ہر سطح پر جاری وساری ہے۔
جمہوری چلن جس میں بردباری سنگ میل ہوتی ہے، اس کا شائبہ تک ہمارے ہاں پایا نہیں جاتا۔ بہرحال بات ترکوں کی ہو رہی تھی۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ ابراہیم کے تین بھائیوں کو محلاتی سازشوں کے تحت سگے بھائی نے قتل کروا دیا۔ ابراہیم صرف اس لیے مرنے سے بچ گیا کہ وہ صلاحیت کے اعتبار سے کسی بھی عہدے کے لیے غیرموزوں تھا۔ بدنما نالائقی اس کے زندہ رہنے کا موجب بن گئی۔ ایک بات ذہن نشین رہے، ترک شاہی خاندان میں شہزادوں کو قتل کرنے کے لیے جلاد، ریشم کی ڈوری استعمال کرتے تھے۔ عام رسی سے ان کا گلہ نہیں گھونٹا جاتا تھا۔
سلطنت عثمانیہ کی بدقسمتی دیکھیے کہ 1640میں ابراہیم تخت نشین ہو گیا۔ ابراہیم بادشاہ بننے سے قبل پچیس برس تک مسلسل قید میں رہا تھا۔ وہاں کھانا پینا تو حددرجہ شاہانہ تھا۔ شاہی قیدی کو کسی قسم کی تعلیم نہیں دی جاتی تھی۔ حالاتِ حاضرہ اور انتظامی امور کی پیچیدگیوں سے انھیں بہت دور رکھا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں ان شہزادوں کو مسلسل موت کے خوف میں بھی مبتلا رکھا جاتا تھا۔ کسی قیدی کو علم نہیں ہوتا تھا کہ کب جلاد آ کر انھیں موت کی نیند سلا دے۔ اس ادنیٰ ماحول میں شہزادے، ذہنی طور پر حددرجہ قلاش بنا دیے جاتے تھے۔ ابراہیم کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ حکومت کرنے کے اصولوں سے ناآشنا، یہ شخص جب قصر صدارت پر براجمان ہوا تو ترکوں کے زوال کو مہمیز لگ گئی۔
بادشاہ بنتے ہی سلطان ابراہیم نے فارغ العقل احکامات دینے شروع کر دیے۔ پہلا حکم تھا کہ لومڑیوںکی مہنگی ترین کھالوں سے محل کی دیواروں کو سجایا جائے۔ حکومتی اہلکار پوری دنیا کے ہر کونے سے لومڑیوں کے تاجروں سے رابطہ کرتے تھے۔ منہ مانگی قیمت پر کھالیں خرید کر محل میں ہر دیوار پر لگواتے تھے۔ جب شاہی خزانچی نے بتایا کہ ملکی خزانہ تیزی سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔ اور کھالوں کے سوداگر، بادشاہ کی کمزوری سے بھرپور مالی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
تو سلطان کا جواب تھا کہ اس نے زندگی میں اتنی تکلیف دیکھی ہے کہ اب یہ ریاست پر فرض ہے کہ اس کے مہنگے ترین شوق کی ہرقیمت پر پاسداری کرے۔ ہوتا یہ تھا کہ سلطان ابراہیم گھنٹوں خواب گاہ میں کھالوں سے باتیں کرتا رہتا تھا، ہنستا تھا، روتا تھا، درباریوں کو بتاتا تھا کہ لومڑیوں کی کھالیں اس کی ساری باتیں سنتی ہیں اور بھرپور طریقے سے جواب دیتی ہیں۔ وہ اتنا ظالم تھا کہ لوگ اپنی گردن بچانے کے لیے خاموش ہو جاتے تھے۔ چند خوشامدی ایسے بھی تھے جو سلطان کی ہر بات پر لبیک کہتے تھے اور اس میں اس کی والدہ سلطانہ قاسم بھی شامل تھی۔ دراصل اصل حکمران تو والدہ تھی اور وہ اپنے بیٹے کی حماقتوں سے خوب فائدہ اٹھاتی تھی۔
معاملہ یہاں پر ختم نہیں ہوتا، سلطان نے ایک بہت ہی غیرمعقول فرمان جاری کر دیا۔ وہ یہ کہ پوری سلطنت میں بلیوں کا رنگ صرف اور صرف سنہرا ہو گا۔ اگر کسی شخص نے اپنی پالتو بلی کا قدرتی رنگ بحال رکھا تواسے قتل کر دیا جائے گا۔ حکم کی تعمیل میں تمام سلطنت میں لوگوں نے اپنی بلیوں کا رنگ سنہرا کر دیا۔
ہوتا یہ تھا کہ لوگ سنہرے رنگ کو پانی میں ملاتے تھے۔ کان پکڑ کر بلیوں کو پانی میں ڈبکیاں دلواتے تھے۔ نتیجہ یہ کہ کسی بھی رنگ کی بلی بھرپور طریقے سے سنہری ہو جاتی تھی۔ بلکہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ سونے کی بنی ہوئی ہے۔ سلطان ابراہیم جب قسطنطنیہ اور مضافات کا دورہ کرتا تھا تو سنہری بلیوں کو دیکھ کرقہقہے لگاتا تھا، خوش ہوتا تھا اور اس کے چمچے، اس کی فراست کے قصیدے پڑھتے تھے۔ مگر آہستہ آہستہ درباریوں کے ذہن میں یہ بات آرہی تھی کہ ان کا حکمران ایک دیوانہ انسان ہے۔
اب ذرا سلطان کے پاگل پن کی انتہا دیکھیے۔ اسے فربہ اندام کنیزیں پسند تھیں۔ جس خاتون کا وزن، جتنا زیادہ ہوتا، وہ حرم میںاتنی ہی معتبر گردانی جاتی۔ جس طرح حکومتی عمال لومڑیوں کی کھالیں تلاش کرتے تھے، بالکل اسی طرح وزنی خواتین کو بھی حرم میں شامل کرتے رہتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ آرمینیا سے ایک ایسی عورت کو لایا گیا جو تین سو تیس پاؤنڈ کی تھی۔ اس کا چہرہ اور ٹھوڑی، چربی کی بدولت تہہ دار ہو چکا تھا۔ پیٹ کا یہ عالم تھا کہ کوئی کپڑا پورا نہیں آتا تھا۔
جسم کے بھاری ہونے کی بدولت اس کے لیے چلنا بھی کافی مشکل تھا۔ جیسے ہی ابراہیم کے سامنے لائی گئی، تو وہ اس پر عاشق ہو گیا۔ اسے ’’شپر پارہ‘‘ (چینی کی ڈلی) کا خطاب دیا اور حرم میں بلند مقام عطا کر دیا۔ اس خاتون کے لیے، سونے کی ایک کرسی بنائی گئی جس کے نیچے پہئے لگے ہوئے تھے۔ سارے محل میں اسے سواری پر سیر کروائی جاتی تھی۔ سلطان کا حکم تھا کہ جہاں شپر خاتون گزرے، اس پر سونے کے سکوں کی بارش کی جائے۔ وہ عورت، اس قدر لالچی تھی کہ نچھاور کیے گئے تمام سونے کے سکوں کو جمع کرتی تھی۔ اس طرح حددرجہ امیر ہو چکی تھی۔ ایک دن اس نے سلطان سے شکایت کی کہ اسے پتہ ہے کہ حرم کی ایک خاتون کا باہر کے کسی مرد سے تعلق ہے۔
ابراہیم کا ردعمل اتنا ظالمانہ تھا کہ آج تک اس پر تھوتھو کی جاتی ہے۔ حکم دیا کہ حرم کی تمام خواتین کو باسفورس میں غرق کر دیا جائے۔ شاہی فرمان کی تعمیل ہوئی۔ 280 خواتین، بوریوں میں بند کر کے، بڑے سفاکانہ طریقے سے سمندر برد کر دی گئیں۔ یہ رات کا آخری پہر تھا۔ ان محکوم خواتین کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ صرف ایک سویڈش کنیز بچ گئی جس کی بوری پھٹ گئی تھی۔ اس اندوہناک واقعہ سے دارالحکومت میں کہرام مچ گیا۔
وزیراعظم اور شیخ الاسلام کویقین ہوگیا کہ بادشاہ مکمل طور پر پاگل ہو چکا ہے۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ سلطنت عثمانیہ میں سلطان کو ہٹانے کا کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ مگر ایک اور ایسا واقعہ ہوا جس نے اس کی بربادی پر مہر لگا دی۔ سلطان نے اپنے چار سالہ بچے کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ اس المناک واقعہ کے بعد شیخ الاسلام نے فتویٰ دے ڈالا کہ سلطان ابراہیم واجب القتل ہے۔ 8 اگست 1648 کو، دو جلاد، بادشاہ کی خوابگاہ میں داخل ہوئے۔ حسب دستور ریشم کی ڈوری ان کے ہاتھ میں تھی۔ انھوں نے ابراہیم کا ڈوری سے گلا گھونٹا اور اس طرح ایک ناعاقبت اندیش بادشاہ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ مگر اس کے آٹھ سالہ احمقانہ دور نے، سلطنت عثمانیہ کی مکمل بربادی کی بنیاد استوار کر دی۔
آج جب میں دنیا میں مسلمان ملکوں کی فہرست دیکھتا ہوں، تو یہ 57 کے لگ بھگ ہیں۔ ان میں تقریباً 1.
ان میں پرامن اور شفاف انتقالِ اقتدار کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جو شخص بھی ملک کا حکمران ہے، اس نے جمہوریت اور آزادیٔ اظہار کو گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے۔ کسی ریاست کا نام نہیں لینا چاہتا مگر خوفناک سانحہ یہ ہے کہ جو ایک بار کسی جائز یا ناجائز طریقے سے تخت پر قابض ہو گیا وہ، اس کے بعد ہٹنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا۔ تمام مسلمان ریاستوں کے حکمران، ایک خوف کی زندگی گزار رہے ہیں۔
جہاں انھیں دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کوئی انھیں قتل نہ کر دے۔ کوئی، ان کے تخت پر قبضہ نہ کر لے۔ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے یہ لوگ ہر حد تک چلے جاتے ہیں۔ انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ رعایا کتنی پریشان ہے۔ آسانیاں تقسیم کرنے کے بجائے، یہ صرف اپنے تخت کو محفوظ رکھتے ہیں۔ ہر ادنیٰ حربہ استعمال کرتے ہیں۔ ان کے دل میں ناانصافی کا سانپ پھن لہرائے کھڑا ہوتا ہے۔ اور یہ ڈرتے رہتے ہیں کہ کوئی ان کے ناجائز دور کو ختم نہ کر دے۔ مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ابراہیم اول کی طرح، ہر حکمران کے لیے، قدرت ایک ریشم کی ڈوری محفوظ رکھتی ہے جس سے کوئی بھی جلاد، انھیں گلا گھونٹ کر جہانِ فانی سے آگے روانہ کر سکتا ہے!
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سلطان ابراہیم سلطنت عثمانیہ ریشم کی ڈوری کسی بھی قتل کر تھا کہ کر دیا کے لیے ہو گیا
پڑھیں:
تدفین میں تا خیر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کسی شخص کا انتقال ہونے کے بعد اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں جلدی کرنا بہتر ہے۔ کسی قانونی مجبوری یا شرعی عذر کے بغیر تاخیر ناپسندیدہ ہے۔ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جلد از جلد تدفین کی کوشش کرنی چاہیے۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا:
’’جنازے کو قبرستان لے جانے میں جلدی کرو۔ اگر مرنے والا نیک ہوگا تو بہتر ہے کہ اسے جلد پہنچا دو اور اگر ایسا نہ تو ایسے بُرے شخص کو جلد اپنے کندھے سے اتار دو‘‘۔ (بخاری، مسلم)
جنازے کو جلدی لے جانے میں دونوں باتیں شامل ہیں: اسے تیار کرنے کے بعد قبرستان لے جانے میں جلدی کرنا اور انتقال ہوجانے کے بعد اس کی تجہیز و تکفین میں جلدی کرنا۔
ایک روایت میں ہے کہ طلحہ بن براءؓ بیمار ہوئے تو اللہ کے رسولؐ نے ان کی عیادت کی، پھر واپس ہوئے تو فرمایا: ’’میرا خیال ہے کہ ان کی موت کا وقت قریب آگیا ہے۔ جب ان کا انتقال ہوجائے تو مجھے خبر کرنا، تاکہ میں ان کی نماز جنازہ پڑھاؤں‘‘۔ اس موقع پر آپؐ نے مزید فرمایا:
’’اس کی تجہیز و تدفین میں جلدی کرو۔ اس لیے کہ کسی مسلمان کی نعش کے لیے مناسب نہیں کہ اس کو اس کے گھر والوں کے درمیان روک کر رکھا جائے‘‘۔ (ابوداؤد)
محدثین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے شواہد موجود ہیں۔ اس بنا پر یہ حسن کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔
کسی شخص کے انتقال کے بعد بسا اوقات کوئی قانونی پیچیدگی آجاتی ہے، یا کسی نعش کی شناخت نہیں ہو پاتی۔ اس وجہ سے تدفین میں تاخیر ہوتی ہے۔ ایسے موقع پر نعش کو کچھ مدت کے لیے سرد خانے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ شرعی طور پر اس کی گنجائش ہے۔
اسی طرح اس کی بھی گنجائش ہے کہ میت کا ولی مثلاً بیٹا یا شوہر یا کوئی دوسرا قریبی عزیز کہیں دور ہو اور وفات کی خبر پاکر اسے پہنچنے میں کچھ وقت لگ جائے تو اس کا انتظار کر لیا جائے، اگر اس کے آنے تک نعش کو خراب ہونے سے بچانے کا کوئی معقول نظم ہو۔ محدثین و فقہا نے اس کی اجازت دی ہے۔ علامہ مناویؒ نے لکھا ہے:
’’جنازہ قبرستان پہنچ جائے تو نمازیوں کی تعداد میں اضافے کے مقصد سے نمازِ جنازہ میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، اس لیے کہ جنازے کو تدفین کے لیے جلدی لے جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہاں، ولی کا انتظار کر لینا مناسب ہے، اگر نعش میں تغیر پیدا ہوجانے کا اندیشہ نہ ہو‘‘۔ (فیض القدیرشرح الجامع الصغیر)
شافعی فقیہ علامہ رملیؒ نے لکھا ہے:
’’ولی کا انتظار کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اگر امید ہو کہ وہ جلد آجائے گا اور نعش تغیر سے محفوظ رہے‘‘۔ (نھایۃ المنہاج)
اور حنبلی فقیہ شیخ نجم الدین الحرانیؒ نے لکھا ہے:
’’تدفین میں اتنی دیر تاخیر کرنی جائز ہے کہ میت کے اعزّا و اقربا، دوست احباب اور دیگر لوگ جمع ہوجائیں، اگر انھیں زحمت نہ ہو اور نعش میں فساد پیدا ہوجانے کا اندیشہ نہ ہو‘‘۔ (الرعایۃ الکبریٰ)
میت کا کتنے گھنٹے تک انتظار کیا جا سکتا ہے؟ اس سلسلے میں کوئی متعین بات کہنی ممکن نہیں ہے۔ بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ تدفین میں بلا کسی خاص ضرورت کے تاخیر کرنا دینی اعتبار سے پسندیدہ نہیں ہے۔ اس لیے جتنی جلد ممکن ہو، تدفین کی کوشش کرنی چاہیے۔